بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

سیرتِ نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں قضاء کے چند پہلو

سیرتِ نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں قضاء کے چند پہلو


اللہ جل شانہٗ نے انسانیت کی ہدایت اوررہنمائی کے لیے حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم  کو آخری نبی بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات چونکہ قیامت کے لیے ہیں، اس لیے یہ ضروری ٹھہرا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات میں وہ تمام صفات وکمالات جمع ہوں، جن کی نسلِ انسانی کو ضرورت ہے۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ دنیائے عالم پر جو نقوش آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذاتِ مبارکہ نے چھوڑے ہیں، تاریخِ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی تمام کمالات کا مجموعہ اور اور تمام صفاتِ عالیہ کامظہر ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  معلم بھی ہیں، مزکّی بھی ہیں، ہادی بھی ہیں، شارع بھی ہیں، منتظم بھی ہیں، سیاست دان بھی ہیں، جرنیل بھی ہیں، سپہ سالار بھی ہیں، معاشرت بھی آپ نے سکھائی، معیشت سے بھی آپ نے روشناس کرایا، جنگ کرنے کے طریقوں سے بھی آپ نے باخبر کیا، تجارت کے اصول بھی آپ نے بتلائے۔ بچوں کے ساتھ معاملات، بڑوں کے آداب، بیویوں کے درمیان برابری، اور بین الاقوامی تعلقات بھی آپ نے بتلائے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلو ہیں، اور وہ تمام پہلو اپنے اندر اس قدر جامعیت رکھتے ہیں کہ نسلِ انسانی کی مکمل ہدایت کا سامان ہوجائے۔ سیرت کے انہی مختلف پہلؤوں میں سے ایک پہلو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا قاضی ہونا بھی ہے۔ ایک کامیاب اور پرامن معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ قوم کا قاضی عادل ہو، جوعدل و انصاف کو یقینی بنائے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بڑھ کر کون عادل ہوسکتا ہے؟
’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَۃِ وَہُوَ يَقْسِمُ التِّبْرَ وَالْغَنَائِمَ، وَہُوَ فِيْ حِجْرِ بِلَالٍؓ، فَقَالَ رَجُلٌ: اعْدِلْ يَا مُحَمَّدُ! فَإِنَّکَ لَمْ تَعْدِلْ، فَقَالَ: ’’وَيْلَکَ وَمَنْ يَعْدِلُ بَعْدِي إِذَا لَمْ اَعْدِلْ؟ ‘‘ فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُوْلَ اللہِ! حَتّٰی اَضْرِبَ عُنُقَ ہٰذَا الْمُـنَافِقِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: ’’إِنَّ ہٰذَا فِيْ اَصْحَابٍ، اَوْ اُصَيْحَابٍ لَہٗ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَہُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِيَّۃِ۔‘‘ (۱)   
’’حضرت جابر بن عبداللہ r کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مقامِ جعرانہ میں تشریف فرما تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت بلال  رضی اللہ عنہ  کی گود میں سے سونا، چاندی اور اموالِ غنیمت (لوگوں میں) تقسیم فرما رہے تھے، تو ایک شخص نے کہا: اے محمد! عدل و انصاف کیجیے، آپ نے عدل سے کام نہیں لیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’تیرا برا ہو، اگر میں عدل و انصاف نہ کروں گا تو میرے بعد کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے، میں اس منافق کی گردن اُڑا دوں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’اس کے اور بھی ساتھی ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہیں، لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترتا ہے، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘
 بلاشبہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہر فیصلہ ہمیشہ عدل وانصاف کے لیے اعلیٰ معیار ہے۔

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فیصلےکی اہمیت

اللہ جل شانہٗ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو مسلمانوں کے ما بین حکم اور فیصلہ کرنے والا بناکر بھیجا، اور لوگوں کے ایمان کو آپ کے فیصلے پر راضی ہونے سے مشروط کردیا، چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ: 
’’فَلَا وَرَبِّکَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَہُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا‘‘ (۲) 
’’ پھر قسم ہے آپ کے رب کی! یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کروائیں، پھر اس آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا پورا تسلیم کرلیں۔‘‘ (۳)
اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: 
’’إِنَّآ أَنْزَلْنَآ إِلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ أَرَاکَ اللہُ۔‘‘ (۴)
’’بے شک ہم نے آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے واقع کے موافق، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلادیا ہے اور آپ ان خائنوں کی طرف داری کی بات نہ کیجیے۔‘‘(۵)

نبوت سے قبل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فیصلے

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعض صفات ایسی ہیں کہ اہلِ عرب‘ نبوت سے پہلے بھی ان کے معترف رہے، اور نبوت کے اعلان کے بعد بھی ان صفات کا چرچا ان کے درمیان رہا، اور کیا دشمن، کیا دوست سب ہی ان صفات کے معترف اور قائل رہے۔ ان صفات میں سے ایک صفت درست اور مبنی بر حق فیصلہ کرنے کی تھی۔ نہ صرف نبوت کے بعد بلکہ نبوت سے پہلے بھی مشرکینِ مکہ اپنے مختلف جھگڑوں اور تنازعات میں آپ کے فیصلوں پر سرِتسلیم خم کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ محض بیس سال کی عمر میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  امن و آشتی کے پرچار اور ظلم کے خلاف مظلوم کی داد رسی کرنے کے لیے حلف الفضول نامی معاہدے میں شریک ہوئے۔ ایسے ہی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نبوت ملنے سے قبل جب خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی، اور حجرِ اسود کو نصب کرنے پر جھگڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو سب نے حَکَم مان کر آپ کے فیصلے پر عمل کیا، ابوطالب نے اس موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں اشعار پڑھے:(۶)

إِنَّ لَنَا اَوَّلَہٗ وَ آخِرَہٗ
فِيْ الْحُکْمِ وَالْعَدْلِ الَّذِيْ لَا نُنْکِرُہٗ

ترجمہ: ’’وہی ہمارے لیے اول ہیں، اور وہی ہمارے لیے آخر ہیں، اور فیصلے میں اور عدالت میں ہم ان کا انکار نہیں کرتے۔‘‘

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فیصلے کرنے کا طریقہ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  فریقین کےساتھ یکساں سلوک فرماتے، اور ان کے درمیان ایسا فیصلہ فرماتے تھے کہ جس سے صاحبِ حق کو اس کا حق مل جائے۔ اکثر اوقات آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  فریقین میں صلح کروا دیا کرتے تھے، اور انہیں دوسرے کا حق دبانے پر خدا تعالیٰ کی طرف سے وعید سناتے تھے۔ ذیل میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فیصلے کرنے کے مختلف طریقے ذکر کیے جاتے ہیں:

صلح کروانا

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اکثر و بیشتر یہی کوشش ہوتی تھی کہ فریقین کے مابین صلح ہوجائے، اور خوش اسلوبی کے ساتھ معاملہ نمٹ جائے، اور اگر مصلحت دیکھتے تو ایک فریق کے حصہ میں سے کچھ کمی بھی کردیتے، تاکہ معاملہ سلجھ جائے، چنانچہ حضرت کعب بن مالک  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ان کا کچھ قرض ابن ابی حدرد  رضی اللہ عنہ  پر تھا، اور انہوں نے مسجدِ نبوی میں ان سے قرض وصول کرنے کا تقاضا کیا، اس دوران کچھ آواز بلند ہوئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے حجرۂ مبارکہ کا پردہ ہٹاکر حضرت کعبؓ کو آواز دی اور کچھ قرض کم کرنے کا کہا، جسے انہوں نے فوراً کم کردیا۔ اب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابن ابی حدرد  رضی اللہ عنہ  کو بقایا قرض ادا کرنے کاحکم دیا، یوں دونوں کے مابین نزاع دور ہوا۔(۷)

شرعی حکم کے مطابق فیصلہ 

اگر فریقین میں صلح نہ ہوسکتی تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  شریعت کے حکم کے عین مطابق ان کے درمیان فیصلہ فرماتے، جیسے: ایک موقع پر ایک انصاری صحابیؓ نے حضرت زبیر بن العوام  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ پانی کے حوالے سے جھگڑا کیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہلے صلح کے طور پر تخفیف فرمائی، لیکن انصاری کے نہ ماننے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا۔‘‘(۸)
یہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابتداء میں کچھ تخفیف والا فیصلہ فرمایا، اور علامہ آلوسی ؒ لکھتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت زبیر  رضی اللہ عنہ  کو اشارہ بھی کیا کہ وہ کچھ تخفیف کریں،(۹) تاکہ فریقین کی رعایت ہوجائے، لیکن دوسری مرتبہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ  کو ان کا مکمل حق دیا، اور انصاری کے حق میں بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔

جھوٹی قسم کھانے سے ڈرانا

اگر مدعی کے پاس اپنے دعویٰ پر گواہ نہ ہوں تو مدعا علیہ سے قسم لی جاتی ہے، یہی اسلامی طریقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعا علیہ کو قسم کھانے کا حکم دیتے، لیکن جھوٹی قسم کھانے پر وعید سے ڈراتے، اور یہ بھی آپ کی رحمت ہی کا ایک مظہر تھا، تاکہ انسان سمجھ جائے اور دنیا کے تھوڑے فائدے کے لیے اپنے اُخروی اور دائمی فائدے سے ہاتھ نہ دھوبیٹھے۔ 
ایک فیصلے کے دوران جب مدعا علیہ قسم کھانے لگا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے فرمایا: 
’’مَنِ اقْتَطَعَ اَرْضًا ظَالِماً لَقِيَ اللہَ وَہُوَ عَلَيْہِ غَضْبَانٌ۔‘‘(۱۰)
’’جس کسی نے دوسرے کی زمین ظلم کرتے ہوئے ہتھیا لی، تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ جل شانہ اس پہ غضبناک ہوں گے۔‘‘

خلافِ شرع حکم کو رد کرنا

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نہ صرف شریعت کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے، بلکہ خلافِ شریعت کیے گئے فیصلوں کو بدل کر درست فیصلہ کیا کرتے تھے، چنانچہ جب ایک موقع پر دو شخص آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں آئے، اور وہ دونوں کسی مسئلے میں آپسی رضامندی سے فیصلہ کر چکے تھے، لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’’لَأقْضِيَنَّ بَيْنَکُمَا بِکِتَابِ اللہِ، اَمَّا الْوَلِيْدَۃُ وَالْغَنَمُ فَرَدٌّ عَلَيْکَ، وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِائَۃٍ، وَتَغْرِيْبُ عَامٍ۔‘‘(۱۱)
  ’’میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، وہ باندی اور تمہاری بکریاں تمہیں لوٹا دی جائیں گی، اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے، اور سال بھر کی جلاوطنی ہوگی۔‘‘
یہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےخلافِ شریعت فیصلے کو منسوخ کر کے عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ فرمایا۔

نزاع ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  فریقین میں صلح کروانے اور نزاع ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اگر کسی معاملہ میں کوئی ذمہ داری قبول کرنے والا نہ ہوتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی طرف سے مظلوم کی داد رسی فرماتے، چنانچہ ایک موقع پر جب عبداللہ بن سہل  رضی اللہ عنہ  کا مقتول جسم خیبر میں پایا گیا اور کسی طرح بھی اس کے قاتل کی تعیین نہ ہوسکی، اور معاملہ کسی طور نہ سلجھ سکا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا فرمائی۔(۱۲)
ایسے ہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  کے والد کا قرض ادا کرنے کے لیے خود تشریف لائے، اور قرض خواہوں کو اپنے دستِ مبارک سے کھجوریں دیں، جبکہ اس سے پہلے قرض خواہ ان کھجوروں کے لینے سے انکار کر چکے تھے۔(۱۳)

ظاہری حالت پر فیصلہ کرنا

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فریقین کی ظاہری حالت پر فیصلہ فرماتے تھے، اور بسا اوقات وحی کے ذریعے اس فیصلے کی تائید یا اس کے بارے میں کوئی آیت نازل ہوجاتی، خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’’إِنَّکُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَإِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ اَنْ يَّکُوْنَ اَلْحَنَ بِحُجَّتِہٖ مِنْ بَعْضٍ، فَإِنْ قَضَيْتُ لِأحَدٍ مِّنْکُمْ بِشَيْءٍ مِّنْ حَقِّ اَخِيْہِ، فَإِنَّمَا اَقْطَعُ لَہٗ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ، فَلاَ يَاْخُذْ مِنْہُ شَيْئًا۔‘‘(۱۴)
’’ تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے، پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق دلا دوں، تو میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں۔‘‘ 

قاضیوں کے لیے ہدایاتِ نبوی

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق امت کو ہدایت دی ہیں، قضاۃ اور حاکم کو بوقتِ قضاء اور فیصلہ کرتےوقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ارشادات سے ان کے حوالے سے مکمل رہنمائی کی ہے،چنانچہ فرمانِ نبوی ہے: 
’’لاَ يَحْکُمُ الحَاکِمُ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَہُوَ غَضْبَانٌ۔‘‘(۱۵)
’’قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا: 
’’فَإِذَا جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْکَ الْخَصْمَانِ، فَلَا تَقْضِيَنَّ حَتّٰی تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ۔‘‘(۱۶)
’’جب دونوں فریق تمہارے سامنے بیٹھ جائیں تو اس وقت تک فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو۔‘‘

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے متفرق فیصلے

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کئی فیصلے کیے۔ یہ تمام فیصلے مبنی بر حق ہونے کے ساتھ ساتھ پوری اُمت کے لیے کئی اسباق لیے ہوئے تھے۔ذیل میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چند فیصلے ذکر کیے جاتے ہیں:
1-نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بنی مخزوم کی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کیا، باوجود یہ کہ اس عورت کے حق میں کئی سفارشیں آئیں۔(۱۷)
2-آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فیصلہ فرمایا کہ جو کوئی قتلِ خطا میں مارا جائے، اس کی دیت سو اونٹ ہوگی۔(۱۸)
3-بچہ کے نسب کے متعلق آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فیصلہ فرمایا کہ بچہ کا نسب اپنی ماں کے شوہر سے ہی ثابت ہوگا۔(۱۹)
4- آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قابلِ تقسیم چیزوں میں شرکاء کے درمیان شفعہ کا فیصلہ فرمایا۔(۲۰)

خلاصہ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیاتِ طیبہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کارخانۂ قدرت میں کام کرنے والے ہر شخص کے لیے اس کے میدان سے متعلق مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ موجودہ زمانے کے جج اور جرگہ وپنچائیت کے فیصلہ کنندگان کے لیے یہ درس ہے کہ وہ اس منصب و ذمہ داری کو امانت سمجھیں، ان کے قلم کی جنبش کسی ظالم کا سر بھی قلم کروا سکتی ہے، اور مظلوم کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہے، اس لیے قاضی کو بہت سنبھل کر رہنے کی ضرورت ہے۔یہ بہت ہی نازک مرحلہ ہے، اسی لیے ایک حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قاضی کے متعلق فرمایا: ’’ جسے قاضی بنا دیا گیا، وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا۔‘‘ (۲۱) بحیثیت مسلمان جج اور فیصل ایسے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔

حوالہ جات

۱-سنن ابن ماجۃ، باب في ذکر الخوارج۔
۲- سورۃ النساء: ۶۵
۳- ترجمہ بیان القرآن از حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ
۴- سورۃ النساء: ۱۰۵۔
۵- ترجمہ بیان القرآن از حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ
۶- أبو عبداللہ، محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ، ذکر ہدم قریش الکعبۃ، ۱/۱۱۷، ط: دار الکتب العلمیۃ۔
۷- البخاري، محمد بن إسماعیل، صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، باب التقاضي والملازمۃ في المسجد، رقم الحدیث: ۴۵۷، ط: دار طوق النجاۃ۔
۸- البخاري، محمد بن إسماعیل، صحیح البخاري، کتاب المساقاۃ، باب سکر الأنہار، رقم الحدیث: ۲۳۵۹، ط: دار طوق النجاۃ۔
۹- الآلوسي، شہاب الدین محمود، تفسیر روح المعاني، سورۃ النساء، الآیۃ: ۶۵، ۵/۹۵، ط: مکتبہ رشیدیہ۔
۱۰- القشیري، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ، رقم الحدیث: ۲۰۰، ط: المکتبۃ الفاروقیۃ۔
۱۱- البخاري، محمد بن إسماعیل، صحیح البخاري، کتاب الصلح، باب إذا صلحوا علی جور، رقم الحدیث: ۲۶۹۵، ط: دار طوق النجاۃ۔
۱۲-البخاري، محمد بن إسماعیل، صحیح البخاري، کتاب الأحکام، باب کتاب الحاکم إلٰی عمالہ، رقم الحدیث: ۷۱۹۲، ط: دار طوق النجاۃ۔
۱۳- النسائي، أحمد بن شعیب، کتاب الوصایا، باب قضاء الدین قبل المیراث، رقم الحدیث: ۳۶۳۹، ط: دار المعرفۃ۔
۱۴- الترمذي، محمد بن عیسیٰ، سنن الترمذي، أبواب الأحکام، باب ما جاء في التشدید علی من یقضی لہ بشيء، رقم الحدیث: ۱۳۳۹، ط: دار الغرب الإسلامي۔
۱۵-الترمذي، محمد بن عیسیٰ، سنن الترمذي، أبواب الأحکام، باب ما جاء القاضي لا یقضي وہو غضبان، رقم الحدیث: ۱۳۳۴، ط: دار الغرب الإسلامي۔
۱۶- السجستاني، سلیمان بن أشعث، سنن أبي داود، کتاب الأقضیۃ، باب کیف القضاء، رقم الحدیث: ۳۵۸۲، ط: دار المعرفۃ۔
۱۷- الترمذي، محمد بن عیسیٰ، سنن الترمذي، أبواب الحدود، باب ما جاء في کراھیۃ أن یشفع في الحدود، رقم الحدیث: ۱۴۳۰، ط: دار الغرب الإسلامي۔
۱۸-السجستاني، سلیمان بن أشعث، سنن أبي داود، کتاب الدیات، باب الدیۃ کم ہي، رقم الحدیث: ۴۵۴۳، ط: دار المعرفۃ۔
۱۹- البخاري، محمد بن إسماعیل، صحیح البخاري، کتاب الفرائض، باب الولد للفراش، رقم الحدیث: ۶۷۴۹، ط: دار طوق النجاۃ۔
۲۰- الترمذي، محمد بن عیسیٰ، سنن الترمذي، أبواب الحدود، باب ما جاء في الشفعۃ، رقم الحدیث:۱۳۶۸، ط: دار الغرب الإسلامي۔
۲۱-السجستاني، سلیمان بن أشعث، سنن أبي داود، کتاب الأقضیۃ، باب في طلب القضاء، رقم الحدیث: ۳۵۷۴، ط: دار المعرفۃ۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین