بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

بینات

 
 

سیرتِ سرورِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسیاتِ مدنیہ کے کچھ پہلو

سیرتِ سرورِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسیاتِ مدنیہ کے کچھ پہلو


مورخہ ۹؍مارچ۲۰۲۳ء بروز جمعرات ڈاکٹر مولانا سید احمد یوسف بنوری صاحب زید مجدہٗ (حفید حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  و نائب رئیس جامعہ ) نے’’ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ’’Political Life‘‘ (سیاسی زندگی) کے موضوع پر ’’Institute Of Business Managment‘‘(انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ) میں طلبہ سے خطاب کیا، جسے تخصصِ علومِ حدیث کے طالب علم مولوی محمد طیب حنیف نے ریکارڈنگ سے زیبِ قرطاس کیا ہے، یہاں اُسے افادۂ عام کے لیے نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔                     (ادارہ)

محترم عزیز طلبہ! اس گئے گزرے دور میں بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکر مبارک اور ان کی سیرت کا بیان ایک ایسا دلنشین موضوع ہے کہ اس حوالہ سے جس زمان و مکان کا انتخاب ہو وہ تمام انسانیت کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص علم وعمل میں مہمیز کا باعث بنتا ہے، شاعر نے اسے ایک حسین پیرایہ میں الفاظ کا روپ دیا ہے:

شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے
تو یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے

(منیر نیازی)

عصرِ حاضر میں سیاسی ومعاشی اعتبار سے امتِ مسلمہ مختلف مسائل و مشکلات کا شکار ہے، اس اعتراف میں باک نہیں کہ عملی طور پر آج ہم اگرچہ حق تعالیٰ شانہ اوراس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بیان کردہ معیار پر پورا اُترتے دکھائی نہیں دیتے، لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عنوان سے معنون یہ محافل ومجالس مسلمانوں کی دین و ایمان اور محبتِ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے وابستگی کا بہترین و لازوال نمونہ ہیں، چنانچہ سوسائٹی کے وہ افراد واقعتاً خوش قسمت ہیں جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت اور آپ کی تعلیمات کا تذکرہ کرتے ہیں، یوں C.B.M کی ایڈمنسٹریشن اور ڈائیلاگ سوسائٹی کے کارکردگان اور موجود تمام ’’Audience‘‘ (سامعین) اللہ تبارک و تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کے موجب ہیں جنہوں نے اس محاضرہ(Lecture) کا اہتمام کیا ہے۔

سیرت کا اعجاز

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکر اور آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا بیان ہمارے حوصلوں کی بلندی کا سبب بنتا ہے، لیکن دوسری جانب سیرتِ طیبہ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے یہ ایک بڑی مشکل درپیش ہوتی ہے کہ اس کا مکمل احاطہ کیسے کیا جائے؟! اور کس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کے مختلف گوشوں کو مخاطبین کے سامنے پیش کیا جائے؟! جب صدیقۂ کائنات سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت و شمائل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؓ نے نہایت مختصر اور جامع الفاظ میں فرمایا: ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ‘‘ (۱) یعنی ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کا سارا بیان قرآن ہے۔‘‘ گویا جو قرآن مجید میں ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کا عملی نمونہ تھے۔ سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اس روایت سے ایک دلچسپ استنباط کیا کرتے تھے کہ: ’’جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت قرآن پاک ہے اور اللہ رب العزت کی قادر مطلق ذات اسے ۲۳ ؍سالہ طویل عرصہ میں بیان کر رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ایک نشست میں اس موضوع کے تمام پہلؤوں کا اِحاطہ کیا جاسکے؟! مگر ذکرِ مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ اعجاز ہے کہ اگر اس کے چند پہلؤوں کا تذکرہ بھی خلوصِ نیت سے کیا جائے تو وہ اس قدر روشنی فراہم کر دیتا ہے کہ ظلمت و تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں۔ اسی بات کے پیش نظر مجھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ’’Political Life‘‘ (سیاسی زندگی) پر چند نکات آپ کے سامنے عرض کرنے ہیں۔

سیرتِ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی جامعیت

یہ بات ہم سب کی عقیدت نہیں، بلکہ ہمارا عقیدہ بھی ہےکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیاتِ مبارکہ ایک جامعیت رکھتی ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ خصوصی امتیاز ہے کہ آپ کی زندگی میں ہمیں زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق بڑی تفصیلی ہدایات ورہنمائی فراہم ہوتی ہے، جہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بااُصول کامیاب تجارت فرمائی، وہیں ایک مثالی شوہر ہونے کا کردار بھی ادا کیا، تعلیم وتعلم میں آپ کے قائم کردہ معیارات باکمال تھے، وہیں ریاست کے انتظامی امور میں آپ کا مثیل نہیں ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدبرانہ سیاست 

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ’’Political Behavior‘‘ (سیاسی طرزِ عمل) اور اس کے موافق تدابیر کا منصفانہ جائزہ لینے والے آج بھی منکرینِ دینِ اسلام تک متحیر نظر آتے ہیں۔ غور کیجیے! آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب دعوتِ دین کا آغاز کرتے ہوئے کوہِ صفا پر لوگوں کومخاطب کیا تو آپ ایک تنہا فرد تھے، ۱۳؍ سال آپ نے مکہ میں معاندینِ اسلام کے درمیان بسر کیے، اس عرصہ میں آپ کسی بھی ’’Political Activism‘‘ (سیاسی سرگرمی) کا حصہ نہ بنے، بلکہ فقط مخلصانہ وداعیانہ طریقہ سے لوگوں کو اسلام کا پیغامِ جانفزا سنایا، اس کے بعد مدینہ میں محض دس سال ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے حکومت فرمائی، لیکن ایک تنہا فرد سے جس دعوت کا آغاز ہوا جب تیئیس سال کے عرصہ کے بعد آپ کی رحلت ہوئی تو آپ کی سیاست کا کمال دیکھیے کہ کہ موجودہ یورپ کے برابر پورا سرزمینِ عرب کا خطہ آپ کی قلمرو میں اطاعت گزیں ہوچکا تھا۔ یہ حقیقت‘ عقیدت پسندی سے قطع نظر ایک تاریخی واقعہ ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ پھر اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   نے کچھ ہی سالوں میں اس زمانے میں قائم شدہ دو بڑی طاقتور سلطنتوں : ’’Roman Empire‘‘ (قیصر) اور ’’Persian Empire‘‘ (کسریٰ) کو صفحۂ ہستی سے ختم کردیا۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قائم کردہ حکومت صرف ۵۰ سے ۶۰ سال کے دورانیہ میں تین ’’Continent‘‘(براعظم) میں پھیل گئی۔ 

اعداء کی گواہی

نائن الیون ہمارے زمانہ کا ایک بڑا واقعہ ہے، اس سے متعلق امریکا کی جانب سے سرکاری سطح پر تفتیشی رپورٹ شائع کی گئی، اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا: ’’ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی کامیابی ایک ’’Miricle‘‘ (معجزہ) معلوم ہوتی ہے۔‘‘ اس رپورٹ کے تمام اجزاء سے اتفاق نہ ہونے کے باوجود اس قدر بات قابلِ غور ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی امریکا جیسی طاقتور حکومتیں سرکاری سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی کامیابیوں کو معجزہ گردانتی ہیں۔
 

اَنمٹ نقوش

ایک اور پہلو کی سیاست جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سیاسی طرز ِ عمل کا بڑا متاثر کن پہلو ہے، وہ یہ کہ تاریخ میں سیاسی کامیابیوں کی بڑی طویل تاریخ ہے، کئی سلطنتیں منصہ شہود پہ آئیں، فاتحینِ عالم کی داستانوں کی بھی کمی نہیں رہی، اسی طرح مختلف سیاسی فلسفوں نے کئی خطوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کیا، لیکن ان میں کوئی پائداری ہمیں نظر نہیں آتی، وقت نے دھیرے دھیرے اس کے سارے نقش مدہم کردیے، ہم میں سے ہر دوسرا شخص ’’سکندرِ اعظم‘‘ کے نام سے واقف ہے، جس کے مختلف مفتوحہ علاقوں میں ہمارے موجودہ پنجاب کا بڑا حصہ بھی شامل رہا، یہاں تک کہ ہمارے شہر کراچی کے پورٹ سے حیدرآباد تک اس کے فاتحانہ سفر کا تذکرہ ملتا ہے۔(۲)
لیکن اس سب کے باوجود اس کی ’’Glory‘‘(شان وشوکت) طویل عرصہ باقی نہ رہی، اس کے مفتوحہ علاقے کی وسعت سمٹتے سمٹتے اب یورپ کے ایک مختصر ملک ’’Greece‘‘ (یونان ) تک محدود رہ گئی۔ 
’’Roman Empire‘‘ (رومن امپائر) کا بڑا تذکرہ سننے کو ملتا ہے، جس میں رائج ’’Law‘‘ (قانونِ مملکت) کی بازگشت آج بھی ’’legal fraternity‘‘ (قانونی حلقوں) میں سنائی دیتی ہے، مغرب کے زیرِ اثر ترویج پانے والے مختلف علوم و فنون میں رومن اِمپائر کے اثرات کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے، مگر وہ ساری سلطنت اب قصۂ پارینہ ہے، آج صحیح معنوں میں اس کے ریاستی تسلسل کا مصداق صرف ایک چھوٹا ملک اٹلی (Italy) رہ گیا ہے۔ بقیہ زیرِ نگین علاقوں میں اس کے اثرات ملنا مشکل ہے، مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاستِ مدنیہ کا کمال دیکھیے کہ سوائے اندلس ’’Spain‘‘ (اسپین) جہاں عیسائیوں کی بدترین ’’Persecution‘‘ (تعذیب) کا مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا، اس کے علاوہ دیگر تمام علاقے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح کیے، وہ آج تک مسلمانوں کی سیاسی اَبتری کے باوجود دینِ اسلام کے حلقہ بگوشوں پر مشتمل ہیں، جن میں عراق ، ایران اور قدیم ’’Roman Empire‘‘ (رومی سلطنت) کے بعض علاقے سرِفہرست ہیں۔ برِصغیر کی حد تک یہ بات درست ہے کہ اس پورے خطے میں علی الاطلاق مسلمانوں کی حکومت باقی نہ رہ سکی، لیکن پاکستان کی صورت ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک یہاں وجود پذیر ہوا، پھر بنگلہ دیش بھی اپنی تمام تر ریاستی درفنطنیوں کے باوجود مسلمانوں کا ملک ہے، اور موجودہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کا اثر ورسوخ موجود ہے، جن کی سیاسی اثر پذیری بھی قابلِ انکار نہیں، یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی زندگی کے معجزات ہیں۔

تاریخ کی سب سے بااثر شخصیت
 

ہمارے عصری جامعات میں عام طور پر ’’Michael.H.Heart‘‘ (مائکل ایچ ہارٹ) کی کتاب ’’THE 100 A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY‘‘ سے اکثر واقف ہوتے ہیں،اس کتاب میں اس امریکی مصنف نے ایسے سو لوگوں کی فہرست تحریر کی ہے جو اس کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ پر اثر ہیں اور ان کی وجہ سے تاریخ کا دھارا تبدیل ہوگیا، اس نے اپنی فہرست کی ابتدا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کی ہے، اس نے خود اپنی کتاب میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’میں آپ کو پیغمبر ہونے کی حیثیت سے اس فہرست میں اول ترین درجہ پر نہیں رکھتا، بلکہ واقعتاً تاریخی لحاظ سے آپ کی ذات کو عظیم تر سمجھتا ہوں۔‘‘ (۳)
نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی زندگی سے اُمت کا علمی اعتناء 
یہ چونکہ میرا P.H.D کا بھی موضوع رہا ہے، اس بنا پر یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ اس صدی میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی طرزِ زندگی کے حوالہ سے مسلمانوں میں جتنی تعداد میں کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں، شاید ہی کسی اور موضوع پر اس انداز سے قلم اُٹھایا گیا ہو۔ ہمارے مسلمانوں میں مختلف ’’School of Thought‘‘ (مکاتبِ فکر ) سے تعلق رکھنے والے ایسے گروہوں نے جنم لیا جنہوں نے اس حقیقت کے بیان کو مقصدِ زندگی بنایا کہ کیسے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کی بہترین ’’Interpretation Reflection ‘‘ (ترجمانی وعکاسی) پیش کی جائے، جس سے اخذ کردہ اصولوں کو بنیاد بناتے ہوئے مسلمانوں کی سیاسی زندگی کو حتی المقدور منظم کیا جا سکے۔ اسی کا بظاہر نتیجہ ہوا کہ ایک ۱۹۲۳ء کا وہ دور تھا جس میں بظاہر کسی بھی علاقہ میں مسلمانوں کی حکمرانی باقی نہ رہ سکی، مگر چند ہی عشروں میں ۶۰ ؍کے قریب اسلامی ممالک معرضِ وجود میں آئے۔ ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ یہ اسلامی ممالک ’’Economic‘‘ (معاشی) ’’Political‘‘ (سیاسی) اور ’’Defencive‘‘ (دفاعی) لحاظ سے طاقتور ممالک کی فہرست میں مکمل طور پر شمار نہیں کیے جاتے، لیکن آج وہ اتنی طاقت کے ضرور حامل ہیں اگر وہ سیاسی جرأت سے کام لیں تو ان کی منشا کے بغیر کوئی فیصلہ قابلِ عمل نہیں ہے۔ یہ سب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاست وحکمرانی کا معجزہ ہے،جو ۱۴  صدیوں بعد بھی جلوہ فگن ہے۔ 
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سیاسی کردار کی ہمہ گیری کا پہلو یہ بھی ہے کہ کور چشم آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت کے جس حصہ پر سب سے زیادہ معترض ہیں، وہ بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسیات ہے، کئی عصری مباحث کا پس منظر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی تعلیمات رہی ہیں: جہاد کی حقیقت، اسلامی ریاست میں ’’ Minority right‘‘ (اقلیتوں کے حقوق) ، ’’Democracy‘‘ (جمہوریت) کا جواز یا عدمِ جواز، وغیرہ وغیرہ، وہ تحقیق طلب موضوعات ہیں جن کا آج اکیڈمک طور پر ہمیں سامنا ہے۔ اس مختصر سی نشست میں ان تمام علمی موضوعات پر تفصیلی گفتگو تو ممکن نہیں ہے، لیکن بہر کیف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی زندگی سے حاصل ہونے والے بعض اسباق کا یہاں ذکر کیا جانا ہمارے لیے ان شاء اللہ قابلِ استفادہ ہوگا۔

سیاست کی حقیقت اور معاشرے کے آلودہ اثرات

سب سے پہلے تو یہ نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ ’’Politics‘‘ (سیاست) کو ہمارے ہاں عوامی سطح پر نہایت متہم کردیا گیا، ایک طرف مخصوص حلقوں کی جانب سے سیاست دانوں کی ایسی بھیانک تصویر کشی کی گئی ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سیاستدان پیش کرنا آپ کی تقدیس کے منافی نظر آتا ہے۔ دوسری جانب سیاست کی منزل اور راستہ دونوں اقتدار اور طاقت سے تکمیل پاتے ہیں، ’’Power Dynamics‘‘ (طاقت کی حرکیات )کے کچھ اپنے تقاضے ہیں جن کو ’’Moral Principles‘‘ (اخلاقی بنیادوں) پر اُستوار کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اس بنا پر سیاست اور اسلام کا ملاپ معرضِ بحث بن جاتا ہے، مگر یاد رکھیے کہ ’’سیاست‘‘ کی اَساس انسانوں کے اجتماعی نظم و نسق کی بہتری اور کمزوروں کی فلاح وبہبود ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہدایات وارشادات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سابق اُمتوں میں پیغمبر یہ کام سرانجام دیتے آئے ہیں، لیکن یہاں امر بھی بالکل واضح رہنا چاہیے کہ پیغمبر اپنی حقیقت کے اعتبارسے سیاسی لیڈر نہیں ہوتا، بلکہ وہ اللہ کے اَزلی و سرمدی کا پیام کا داعی ہوتا ہے، کسی دینی ضرورت کی انجام دہی کے لیے وہ سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے، لیکن اس کی تعلیمات کے اغراض و مقاصد سیاست کے تنگنائے میں محدود نہیں ہوتے، دینی تعلیمات کا محور سیاسی کامیابیاں قرار دینا بجائے خود ایک فکری مغالطہ ہے۔ 
سیاست کا اصل اسلامی مقام یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کو موقع وقدرت سے نوازا جائے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بیان کردہ سیاسی وریاستی احکامات پر عمل کرنے کے وہ پابند ہوں گے۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 ’’اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ‘‘ (۴)
’’یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں حکومت دے دیں تو یہ لوگ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور زکاۃ دیں اور دوسروں کو بھی نیک کاموں کے کرنے کو کہیں اور برے کاموں سے منع کریں۔ ‘‘     (بیان القرآن)
تو ’’اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ‘‘ (اگر حکومت دیں) کی قدرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے کے بعد اگلے احکامات کی بجاآوری کے مسلمان مکلف ہیں۔ اب مختصراً آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذکر کردہ سیاسی تعلیمات سے مستفید چند نکات پیش خدمت ہیں:

اسلام کا سیاسی نظریہ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سیاسی نظریہ وفکر کی نمائندہ تعبیر خلافت ہے، پھر خود خلافت کی تشریح و توضیح میں رقم کیا جانے والا مواد گراںبار کر دینے والا اور اَدق تفصیلات پر مشتمل ہے۔ تفصیلات میں جائے بغیر اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ خلافت کے نظریے کا حاصل و مستفاد یہ ہے کہ مسلمان حکمران اور سیاست میں شامل دیگر کار پردازان خود کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا نائب اور اس کے نتیجے میں خود کو اس کے سامنے جواب دہ سمجھیں، لہٰذا تمام شہری حقوق کی حقیقی علت اسلامی تعلیمات کے پس منظر میں یہ ہے کہ ہم چونکہ خدا کے بندے ہیں، تو ہمارے حکمران خدا کی بندگی کے احساس کے ساتھ خدا کے بندوں کے ساتھ تمام ریاستی معاملات سرانجام دیں، جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات کی طرف متوجہ فرمایا کہ وہ عہدہ و مناصب کی تقسیم کرتے وقت اہلیت و قابلیت کو معیار بنائیں تو وہاں بھی پس منظر اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اُستوار عقد کو بنایا گیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
’’إِنَّ اللہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوْا الْأَمٰنٰتِ إِلٰی أَہْلِہَا۔‘‘ (۵)
’’ بیشک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہلِ حقوق کو ان کے حقوق پہنچادیا کرو ۔‘‘
خلافتِ اسلامیہ کا مستفاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عادل ہے تو ان کا نائب حکمران بھی انصاف پسند ہوگا۔ اللہ رب العزت اپنی مخلوق پر رحم فرمانے والے ہیں، تو ہمارا حکمران بھی رحم و شفقت کا پیکر ہوگا، چونکہ حاکم پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ خدا کی بادشاہت کو زمینی سلطنت میں تبدیل کرے گا۔ اس کا دل‘ مشکاۃِ نبوت سے روشنی حاصل کرنے والا اور براہِ راست عوام کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ اسی کا اثر تھا کہ تاریخِ اسلامی میں رعایا کا ایک ادنیٰ فرد بھی کھڑے ہوکر حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  سے پوچھ سکتا تھا کہ آپ کے لباس میں چادر کا اضافہ کیوں کر ہوا؟(۶)

اسلام اور جمہوریت 

یہاں ایک پر خطر بحث کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لوگ دو انتہاؤں کا شکار ہو کر جمہوریت اور خلافت کی باہم رسہ کشی کے خوگر ہو چکے ہیں، دونوں کی اَساس میں کئی بنیادی فروق کے باوجود دنوں کے درمیان قومی فلاح و بہبود اور عوامی جواب دہی کی صورت میں اشتراک کی کئی صورتیں بھی موجود ہیں، طبقاتی تقسیم کے باعث کمزوروں کی حقوق تلفی سے نجات دونوں کا مطمح نظر ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمانِ مبارک ہے: 
’’تم سے پہلے کے لوگوں کو بھی اسی چیز نے ہلاک کیا ہے کہ جب ان میں سے کوئی معزز آدمی چوری کر لیتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ان میں کا کوئی کمزور و ضعیف آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کردیتے، یاد رکھو، اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنتِ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘(۷)
جس زمانہ میں بادشاہوں کو خدا کا سایہ و اَوتار تصور کیا جاتا تھا، ایسے دور میں حکمرانوں میں یہ احساس پیدا کرنا کہ وہ خدا کے بندے ہیں، اور ان پر لازم ہے کہ وہ جوابدہی کے احساس سے جییں، یہ اقدام آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا برپا کردہ ایک انقلاب تھا، جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سیاسی نظریے سے حاصل ہوا۔ اقبالؒ نے اس کواپنی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ میں کہا ہے:

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین

تدریج کی حکمت عملی

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی حکمت عملی میں سب سے نمایاں چیز یہ رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے احکامات ایک خاص تدریج سے نافذ فرمائے، ہمارے ہاں عام لوگ انقلاب پسند ہوتے ہیں، اور چند دن میں تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےا س طرز و روش کو قطعاً پسند نہیں فرمایا، یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا   فرماتی ہیں کہ: 
’’اگر شراب کی حرمت پہلے آتی اور آپ اس کو نافذ کردیتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   جیسے جانثاروں کے لیے بھی اس پورے عمل کو قبول کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘(۸)
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے شراب کی حرمت سے متعلق قرآن مجید میں وارد حق تعالیٰ شانہ کے حکم کی روشنی میں تدریجی عمل کو اپنایا، لہٰذا سیاسی میدان سے وابستہ اور دلچسپی رکھنے والوں کے واسطے سب سے بنیادی واہم ترین نکتہ کسی عمل کو تدریجاً رفتہ رفتہ پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس بات کو کمال تصور کیا جاتا ہے کہ منصب پر فائز ہوتے ہی یکلخت فیصلے جاری کردیے جائیں، حالانکہ یہ بھیانک روش ہے۔ اس حوالہ سے سیرت کا پیغام یہی ہے کہ تمام صورت حال کو دیکھ کر رفتہ رفتہ تنفیذ کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
 

منزل ہی نہیں انتخاب کردہ راستہ بھی اہم ہے

پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کا واضح فیصلہ ہے کہ کسی ایسے سیاسی نظریہ کا کوئی جواز نہیں جہاں آپ نتائج کے حصول کے لیے ناجائز ذریعوں کو بروئے کار لائیں۔
’’ends justify the means‘‘ (اہداف کا حصول کسی بھی ذرائع کو جائز قرار دے دیتا ہے) کی گنجائش اسلام میں بہرکیف نہیں ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ الفتح میں بڑی وضاحت سے نقشہ گری کی گئی کہ فتح مکہ جیسی کامیابی کا حصول مسلمانوں کے لیے روا نہیں ہے اگر وہ تقوے کی پابندی سے خود کو مبرا سمجھیں، کیونکہ فریقِ مخالف کی زیادتیاں اور ناانصافیاں مسلمانوں کے لیے ناجائز کو جائز نہیں بناتیں، اس حوالہ سے قرآن مجید کہتا ہے:
’’وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا۔‘‘ (۹)
ترجمہ :’’ اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقویٰ کی ملت پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ مستحق ہیں اور وہ اس کے اہل ہیں۔‘‘ 
یہ دورِ جاہلیت کا نعرہ ہے کہ فریقِ مخالف کی ناانصافی کو اپنے واسطے حجت بناکر پیش کیا جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرزِ سیاست کا ایک زریں اصول یہ بھی ہے کہ خواہ مسلمانوں کو جنگ میں شکست سے دوچار ہونا پڑے یا فریقِ مخالف سے صلح جوئی اختیار کرنی پڑجائے تو اس کو قبول کرلیں، مگر محض اس بات کو بنیاد ٹھہراتے ہوئے کسی پر اپنا تسلُّط جمانا کہ ’’Everything is fair in love & war‘‘ (محبت وجنگ میں سب جائز ہے)، یہ اسلامی روایات واقدار کے موافق نہیں ہے۔ 
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان ’’ الحرب خدعۃ‘‘ (جنگ دھوکہ دہی سے تعبیر ہے) کا درست مفہوم یہ ہے کہ جب ایک مرتبہ جنگ اخلاقی اصول وضوابط کے مطابق شروع کردی جائے تو اب گنجائش ہے کہ مخالفین کو زک لیے کوئی چال چلی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب جنگ شروع ہو جائے تو کوئی بھی فریق دوسرے کو اس بات پر مطلع ہونے نہیں دیتا کہ مخالفین پر حملہ کب کرنا ہے؟ دن کے اُجالے میں یا شب خون مارنا ہے؟ مگر جنگ کی بنیاد‘ اخلاقی تقاضوں کی رعایت کے موافق ہونی چاہیے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی فتح وکامرانی میں سب سے بڑا کردار اخلاقی اَقدار کا رہا ہے۔

پروپیگنڈہ ’’اسلام بزورِ شمشیرپھیلا ‘‘ کی حقیقت 

آج تک لوگو ں کےذ ہنوں کو اس مغالطہ کا شکار کیا جاتا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بزورِ شمشیر چار دانگ عالم میں فتح و کامرانی کے پھریرے لہرائے، لیکن پھر ہمیں کوئی بتلائے کہ مدینہ کیسے فتح ہوا؟ جس شہر سے اسلامی ریاست کا آغاز ہوا، وہ کس قوت وطاقت سے سرنگوں ہوا؟ وہ سارا شہر تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہو کر آپ کے استقبال کے لیے اُمڈ آیا، اسی ریاستِ مدینہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پر امن بقائے باہمی کی خاطر تحریری معاہدہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان طے کیا، وہ’’ میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے معروف ہے، اس کو ریاستوں کے دستور میں تاریخی طور پر جو اولیت حاصل ہے اس کا انکار ممکن نہیں۔
 

حکمرانی بطریقۂ مشاورت

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے نبی تھے اور براہِ راست اللہ کی نگرانی میں پیغمبری فرمایا کرتے تھے، اس لحاظ سے آپ کسی کے مشورے کے پابند نہیں تھے، مگر اس کے باوجود آپ کی سیرت شاہد ہے کہ آپ نے قرآن مجید کے احکامات کے مطابق ہمیشہ اپنے صحابہؓ کو مشاورت میں شریک کیا اور مشاورت ہی کو فروغ دیا، چنانچہ بدر کے موقع پر معرکہ آرائی کی جگہ کا انتخاب تک آپ نے مشاورت سے کیا۔ قرآن کریم نے صحابہؓ کی صفات یہ بیان فرمائیں کہ ’’وَأَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَيْنَہُمْ‘‘ لہٰذا جب بھی اسلام کی بنیاد نظمِ اجتماعی قائم ہوگا تو اس کا بنیادی اصول باہمی مشاورت ہوگی۔
 

اقلیتوں کے ساتھ رواداری کا سلوک 

ہمارا اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے؟ اس میں ہمارے لیے اُسوہ وہ طرزِ عمل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفتحِ مکہ کے بعد اختیار کیا، حالانکہ فتحِ مکہ میں اقلیت بن جانے والا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی اَلمناک تاریخ رقم کی تھی، قریش کے وہ تمام افراد جو سورما سمجھے جاتے تھے، اس دن خوف سے کانپ رہے تھے۔ اس موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صرف ایک بات ارشاد فرمائی: 

 

’’يا معشر قريش! ما ترون أني فاعل بكم؟ قالوا: خيرا، أخ كريم وابن أخ كريم، قال: فإني أقول لكم كما قال يوسف لإخوتہٖ: لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ اذھبوا فأنتم الطلقاء۔‘‘ (۱۰)
’’ترجمہ: اے قریش کی جماعت! تمہارا کیا خیال ہے؟ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’اچھے سلوک (کی اُمید ہے۔) آپ شریف بھائی اور شریف برادر زادہ ہیں۔‘‘ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: میں تم سے وہی بات کہوں گا جو حضرت یوسف m  نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: ’’آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں، جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت کا مطالبہ بھی ہم سے یہ ہے کہ ہمارے زیرِ نگیں رہنے والی اقلیتیں ہم سے خوفزدہ نہ ہوں، وہ اس احساس کے ساتھ زندگی بسر کریں کہ اپنے معاشرے سے زیادہ اسلامی معاشرے میں ان کے حقوق کی رعایت کی جائے گی۔ 
یہ وہ کچھ پہلو ہیں جن سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی زندگی سے حاصل ہونے والے اسباق ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت سے استفادہ کرنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، ایسی مجالس ومحافل اور ایسے نوجوان آباد و شاد رہیں جو موجودہ مشکل ترین حالات میں بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت سے وابستگی کا دَم بھرتے ہیں۔ 

اللّٰہمّ صلّ علٰی سیدنا ومولانا محمد النبي الأمي وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ بعدد کل شيء ما تحبہٗ و ترضاہ

حوالہ جات

۱- مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۵۳۰۲، مؤسسۃ الرسالۃ: ۴۲/۱۸۳
2 - Some historians suggest that the commander's Army arrived at a place they named, Morontobara which is the present-day Hub area in the far north of Karachi. 20- Mar-2016.

۳-مائکل ایچ ہارٹ لکھتا ہے:

‘‘My choice of Muhammad to lead the list of the world’s most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man history who was suprerdly successful on both the religious and secular levels. ’’ (THE 100 A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY, Page no 3, Kensington,1978)

۴-سورۃ الحج، آیت نمبر :۴۱
۵-سورۃ النساء، آیت نمبر :۵۸
۶-إعلام الموقعین لابن قیم حنبلي:۳/۴۳۴
۷- ’’عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللہ عَنْہَا اَنَّ قُرَيْشًا اَہَمَّہُمْ شَأنُ الْمَخْزُوْمِيَّۃِ الَّتِيْ سَرَقَتْ، فَقَالُوْا: مَنْ يُّکَلِّمُ فِيْہَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ ؟، فَقَالُوْا: وَمَنْ يَّجْتَرِئُ عَلَيْہِ إِلَّا أسَامَۃُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ فَکَلَّمَہٗ أسَامَۃُ، فَقَالَ: اَتَشْفَعُ فِيْ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللہِ؟ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّمَا اَہْلَکَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ أنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا سَرَقَ فِيْہِمُ الشَّرِيْفُ تَرَکُوْہُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيْہِمُ الضَّعِيْفُ اَقَامُوْا عَلَيْہِ الْحَدَّ، وَاَيْمُ اللہِ: لَوْ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَہَا.‘‘ (صحیح بخاری،حدیث نمبر :۳۴۷۵)
۸- چنانچہ صحابہؓ کا قول منقول ہے: ’’ما حرم علینا أشد من الخمر‘‘ (شراب کے حرام ہونے سے زیادہ اور کوئی حکم ہم پر زیادہ سخت نہ تھا۔)
۹- الفتح: ۲۶
۱۰-السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابي الحلبي:۲/۴۱۲، تحقیق: مصطفی السقا
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین