بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

سپریم کورٹ آف پاکستان کا تاریخی فیصلہ  مبارک ثانی کیس

سپریم کورٹ آف پاکستان کا تاریخی فیصلہ

 مبارک ثانی کیس


موجودہ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، چیف جسٹس     جسٹس امین الدین خان     جسٹس نعیم اختر افغان
مجرمانہ متفرق درخواست نمبر 1113 برائے 2024 
    [فیصلے میں تصحیح کے لیے مؤرخہ 24.07.2024]
کرمنل ریویوپٹیشن نمبر 2 ۔ 2024 میں

    فیڈریشن آف پاکستان اور پراسیکیوٹر جنرل، پنجاب  …   درخواست دہندگان

بمقابلہ

مبارک احمد ثانی و دیگر  …   جواب دہندگان

بابت درخواست دہندگان:
جناب منصور عثمان اعوان، اٹارنی جنرل پاکستان
 ملک جاوید اقبال، ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان
 جناب احمد رضا گیلانی، ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل، پنجاب
بابت جواب دہندگان:
عدالتی نوٹس پر
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب بذاتِ خود (ترکی سے ویڈیو لنک کے ذریعے)
مولانا فضل الرحمٰن، بذات خود
مفتی شیر محمد خان، بذات خود
مولانا طیب قریشی صاحب، بذات خود
سید جواد علی نقوی، بذات خود (لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے)
 صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر، بذات خود
 ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (حافظ نعیم الرحمٰن کی جانب سے)
 مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، بذات خود
 مفتی سید حبیب الحق شاہ (مفتی منیب الرحمٰن کی جانب سے)
حافظ احسان احمد، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ (پروفیسر ساجد میر کی جانب سے)
مفتی عبدالرشید، (مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ کی جانب سے)
سماعت کی تاریخ … ۲۲؍اگست۲۰۲۴ء

فیصلہ

1-وفاق پاکستان اور حکومتِ پنجاب کی جانب سے فوجداری متفرق درخواست نمبر: ۱۱۱۳، بابت ۲۰۲۴ء دائر کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ حکم نامہ مؤرخہ ۲۴ ؍جولائی ۲۰۲۴ء میں غلطیاں ہیں جن کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ یہ درخواست مجموعہ ضابطۂ فوجداری ۱۸۹۸ء کی دفعہ۵۶۱/اے مع سپریم کورٹ رولز ۱۹۸۰ء کے آرڈر XXXIII  کے رول۶  و مجموعہ ضابطۂ دیوانی ۱۹۰۸ء کی دفعات ۱۵۲، ۱۵۳ کے تحت دی گئی ہے۔ ہم ابتدا میں ہی یہ واضح کرتے ہیں کہ اس عدالت کے پاس ’’دوسری نظر ثانی‘‘ کا اختیار نہیں ہے، اس لیے یہ تصور نہ کیا جائے کہ اب جو فیصلہ جاری کیا جارہا ہے، یہ دوسری نظر ثانی ہے۔ یہ وضاحت بھی کی جاتی ہے کہ یہ فیصلہ تصحیح کے لیے دی گئی درخواست پر دیا جا رہا ہے، اور اب غلطیوں کی تصحیح کے بعد اس کو عدالت کا فیصلہ تصور کیا جائے گا، اور اس کے بعد حکم نامہ مؤرخہ ۶ ؍فروری ۲۰۲۴ء اور نظر ثانی فیصلے مؤرخہ ۲۴؍جولائی ۲۰۲۴ء کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہتی اور اُسے واپس لیا جاتا ہے۔
2- درخواست میں درج ذیل علمائے کرام کو سننے کی بھی استدعا کی گئی تھی، تو ان علمائے کرام کو نوٹس دیا گیا:
*   مفتی محمد تقی عثمانی، جامعہ دار العلوم، کراچی
*    مفتی منیب الرحمٰن، دار العلوم نعیمیہ، کراچی
*    مولانا زاہد الراشدی، گوجرانوالہ
*    مفتی شیر محمد خان، بھیرہ
*    مولانا فضل الرحمٰن، صدر جمعیت علمائے اسلام
*    حافظ نعیم الرحمٰن، امیر جماعت اسلامی
*    پروفیسر ساجد میر، امیر جمعیت اہل حدیث، پاکستان
*    مولانا انوار الحق، دار العلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک
*    مولانا طیب قریشی، چیف خطیب خیبر پختو نخوا، امام مسجد مہابت خان، پشاور
*    سید جواد علی نقوی، جامعۃ العروۃ الوثقیٰ، لاہور
*    مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، جماعت اسلامی
*    صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر، ملی یکجہتی کونسل 
*    مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ، امیر مجلس تحفظ ختم نبوت، کراچی
3-مفتی محمد تقی عثمانی نے ترکیہ سے، محترم سید جواد علی نقوی نے لاہور سے وڈیو لنک پر دلائل دیے، درج ذیل علمائے کرام نے عدالت کے سامنے بنفسِ نفیس دلائل پیش کیے :
l     مولانا فضل الرحمٰن، صدر جمعیت علمائے اسلام، پاکستان
l    مفتی شیر محمد خان، رئیس دارالافتاء، دارالعلوم محمد یہ غوثیہ، بھیرہ
l    مولانا محمد طیب قریشی، چیف خطیب خیبر پختونخوا
l    صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر، صدر ملی یکجہتی کونسل
l     مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، جامعہ اسلامیہ تفہیم القرآن، مردان
مفتی منیب الرحمٰن، حافظ نعیم الرحمٰن، پروفیسر ساجد میر اور مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ بوجوہ شریک نہیں ہو سکے، لیکن ان کی نمائندگی بالترتیب مفتی سید حبیب الحق شاہ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جناب حافظ احسان احمد ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، اور مفتی عبد الرشید نے کی۔
4- دورانِ سماعت علماء کرام نے فرمایا کہ دینی پہلوؤں پر بالخصوص پیرا گرافوں ۷، ۴۲ اور ۴۹ (ج) سے وہ مطمئن نہیں ہیں اور انہیں حذف کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض اہلِ علم نے چند دیگر پیراگرافوں پر بھی اعتراض کیے، مگر سب کی رائے یہ تھی کہ صرف ان پیراگرافوں کو حذف کرنے سے شاید مزید ابہام پیدا ہو، انہوں نے اس موضوع پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پیش نظر رکھنے پر بھی زور دیا (جن کو پہلے سنا جا چکا ہے)۔ فاضل حافظ احسان احمد ایڈووکیٹ سپریم کورٹ جو پروفیسر ساجدمیر کی نمائندگی کر رہے تھے، نے یہ رائے پیش کی کہ اس فیصلے کو دوبارہ تحریر کیا جائے اور ان کی اس رائے سے تمام علمائے کرام نے اتفاق کیا۔ ان کی اس متفقہ رائے کو مدِنظر رکھتے ہوئے اب یہ فیصلہ جاری کیا جارہا ہے۔
5-عدالت کے سامنے دینی مسئلہ تفسیر صغیر، جو مرزا بشیر الدین محمود کی تصنیف ہے، کے متعلق ہے۔ فاضل اہلِ علم کو سننے اور ان کے دلائل سمجھنے کے بعد عدالت نے ۲۲؍ اگست ۲۰۲۴ء کو درج ذیل مختصر حکم نامہ جاری کیا:
تفصیلی دلائل سننے کے بعد وفاق کی درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت اپنے حکم نامے مؤرخہ۶ ؍فروری ۲۰۲۴ء اور فیصلے مؤرخہ۲۴ ؍ جولائی۲۰۲۴ء میں تصحیح کرتے ہوئے معترضہ پیراگرافوں کو حذف کرتی ہے اور ان حذف شدہ پیراگرافوں کو نظیر کے طور پر پیش / استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹرائل کورٹ ان پیراگرافوں سے متاثر ہوئے بغیر مذکورہ مقدمے کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے۔ اس مختصر حکم نامے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ مذکورہ تفصیلی وجوہات درج ذیل ہیں:
6- جب یہ مقدمہ پہلے سنا گیا تھا تو ہمیں تفسیر صغیر یا اس کے مصنف کے بارے میں علم نہیں تھا، اس لیے فیصلے میں نمایاں غلطی ہوئی۔ اب ہم نے دونوں کے متعلق کچھ بنیادی معلومات حاصل کی ہیں۔ تفسیر صغیر کے مصنف کے چار پہلو ہیں: پہلا: مصنف ہونے کا، دوسرا: مرزا غلام احمد قادیانی کے فرزند ہونے کا، تیسرا: اپنے والد کے عقائد اور تصورات کے پیروکار ہونے کا، اور چو تھا: اپنے آپ کو خلیفۃ المسیح الثانی، یعنی اپنے مسیح کا دوسرا خلیفہ کہلوانے کا۔ یہاں مرزا بشیر الدین محمود نے ’’مسیح‘‘ اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کو کہا ہے اور احمدی / قادیانی حکیم نور الدین بھیروی کو ’’پہلا خلیفہ‘‘ اور مرزا بشیر الدین محمود کو ’’دوسرا خلیفہ‘‘ کہتے ہیں، اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تصانیف کا بھی جائزہ لیاجائے۔
7- مرزا غلام احمد کی پیدائش ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں ہوئی اور اسی لیے اپنے نام کے ساتھ قادیانی لکھا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے بہت کچھ لکھا ہے اور ان کے ۸۴؍رسالوں کا مجموعہ روحانی خزائن کے عنوان سے نظارت اشاعت ربوہ نے ضیاء الاسلام پر یس ربوہ سے شائع کیاہے جو کہ۲۳؍ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس فیصلے میں دیے گئے حوالے اس مجموعے سے ہیں۔
8- روحانی خزائن کا جائزہ لینے پر ہمیں کافی تعجب ہوا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے انبیائے کرامؑ، بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام (Jesus Christ) اور ان کی والدہ محترمہ بی بی مریم علیہا السلام (Mary) کے متعلق بھی کئی مقامات پر بہت ہی غیر مناسب باتیں لکھی ہیں۔ ہم ان کلمات کو اپنے فیصلے میں نقل کرنا مناسب نہیں سمجھتے، کیونکہ اس طرح ان کی بلاوجہ تشہیر ہو گی، جو کہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ مسیحی برادری کے لیے بھی دل آزاری کی باعث ہو گی۔  (۱)
9- مرزاغلام احمد قادیانی کی تحریرات اور تفسیر صغیر میں کئی مقامات پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری رہنے کا دعویٰ کیا گیا ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی کے لیے نبی، مسیح موعود، مہدی موعود اور اس طرح کے دوسرے القابات اختیار کیے گئے ہیں۔ (۲)
10- اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے کہ مسلمان وہی ہو سکتا ہے جو قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی آخری نازل کی ہوئی کتاب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول اور نبی مانتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد سلسلۂ وحی کے انقطاع پر ایمان رکھتا ہو :
’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ۔‘‘ 
(سورۃ الاحزاب (۳۳)، آیت: ۴۰)
ترجمہ: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم  تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سب سےآخری نبی ہیں۔‘‘ 
’’وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوحِيَ إِلَیَّ وَلَمْ يُوْحَ إِلَيْہِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَوْ تَرَیٓ اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰئِکَۃُ بَاسِطُوْآ أَيْدِيْہِمْ أَخْرِجُوْآ أَنْفُسَکُمْ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللہِ غَيْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ ‘‘                        (سورۃ الانعام(۶)، آیت:۹۳)
ترجمہ: ’’اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو، اور اسی طرح وہ جو یہ کہے کہ میں بھی ویسا ہی کلام نازل کردوں گا، جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ؟ اور اگر تم وہ وقت دیکھو (تو بڑا ہولناک منظر نظر آئے) جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے (کہہ رہے ہوں گے کہ) اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس لیے کہ تم جھوٹی باتیں اللہ کے ذمہ لگاتے تھے، اور اس لیے کہ تم اس کی نشانیوں کے خلاف تکبر کا روّیہ اختیار کرتے تھے۔ 
11- یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی متعد د دفعہ فرمائی ہے:
’’إِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَّ‘‘ (۳)
’’رسالت اور نبوت ختم ہو چکیں، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔‘‘
’’اَنَا الْعَاقِبُ الَّذِيْ لَيْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ‘‘ (۴)
ترجمہ:’’ میں سب کے بعد آنے والا ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
’’اِنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِیْ‘‘ (۵)
ترجمہ: ’’بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
’’ کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُہُمُ الْاَنْبِيَآءُ؛ کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَہٗ نَبِيٌّ؛ وَإِنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَسَيَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَيَکْثُرُوْنَ‘‘ (۶)
ترجمہ: ’’بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے اور ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرے نبی اُن کی جگہ لے لیتے، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ حکمران ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ختم نبوت کی اس حقیقت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے کس خوبصورت اور بلیغ مثال کے ذریعے واضح کیا ہے:
’’إِنَّ مَثَلِيْ وَمَثَلَ الْاَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِيْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنیٰ بَيْتًا فَاَحْسَنَہٗ وَاَجْمَلَہٗ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِيَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِہٖ وَيَعْجَبُوْنَ لَہٗ وَيَقُوْلُوْنَ ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَۃُ؟ قَالَ فَاَنَا اللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ۔‘‘ (۷)
ترجمہ: ’’میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں، لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میںخاتم النّبیین ہوں۔‘‘
12- اُمت کا اس پر اجماعِ کلی قطعی ہے کہ ’’خاتم النّبیین‘‘ کے معنی’’آخر النّبیین‘‘ ہے اور یہ کلمات قرآنی قطعی الثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ قطعی الدلالت بھی ہیں، غیر مؤوّل ہیں، لہٰذا الفظ’’ خاتم‘‘ پر لفظی ابحاث قطعی غیر متعلقہ، بے محل اور نا قابلِ توجہ ہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  نے امتِ مسلمہ کے اس اجماعی عقیدے کی تصریح کرتے ہوئے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر نبوت کے ختم ہونے پر ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو تا، فرمایا:
’’انَّ الْاُمَّۃَ فَہِمَتْ بِالْإِجْمَاعِ مِنْ ہٰذَا اللَّفْظِ، وَمِنْ قَرَائِنِ اَحْوَالِہٖ، اَنَّہٗ اَفْہَمَ عَدَمَ نَبِيّ بَعْدَہٗ اَبَداً، وَعَدَمَ رَسُوْلِ اللہِ اَبَداً، وَاَنَّہٗ لَيْسَ فِيْہِ تَاْوِيْلٌ، وَلَا تَخْصِيْصٌ؛ فَمُنْکِرُ ہٰذَا لَا يَکُوْنُ إِلَّا مُنْکِرَ الْإِجْمَاعِ۔‘‘ (۸)
ترجمہ:’’ اس لفظ (خاتم النّبیین) سے اور اس کے حالات کے قرائن سے اُمت نے اجماعی طور پر یہ سمجھا ہے کہ آپ نے اپنے بعد کسی نبی کے اور کسی رسول کے کبھی نہ آنے کی بات سمجھائی ہے، اور یہ کہ اس کی اور کوئی تاویل نہیں ہے، نہ ہی اس کی تخصیص کی گئی ہے، اس لیے اس کا انکار کرنے والا اُمت کے اجماع کا منکر ہے۔‘‘
13-  اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین نے بھی اس بنیادی اُصول کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مسلمان وہ ہیں جو ختمِ نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان رکھتے ہیں۔ آئین کا آغاز اللہ تعالیٰ کے نام اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کے اقرار سے ہوتا ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کے عوام اختیار کو ایک مقدس امانت کے طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کریں گے۔ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت میں مذکور اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ (۹)
 14-آئین نے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا ہے۔ (۱۰)اور تصریح کی ہے کہ پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہے۔ (۱۱)آئین نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ پاکستان میں رائج تمام قوانین کو قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام سے ہم آہنگ بنایا جائے گا اور یہ کہ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو ان احکام سے متصادم ہو۔ (۱۲)
متعدد قوانین میں یہ تصریح بھی کی گئی ہے کہ ان قوانین کی تعبیر و تشریح قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام کے مطابق ہوگی (۱۳)، اور قانون نفاذِ شریعت ۱۹۹۱ء میں تمام قوانین کے لیے یہ عمومی اُصول طے کیا گیا ہے۔ (۱۴)چنانچہ ماضی قریب میں سپریم کورٹ( عمل اور طریق کار) ایکٹ ۲۰۲۳ء(۱۵) کی آئین کے ساتھ مطابقت کے متعلق فل کورٹ نے فیصلہ کیا (۱۶)، تو اس میں اس اُصول کی تصریح کی گئی کہ جہاں کسی قانون کی دو تعبیرات ممکن ہوں، تو عدالت اس تعبیر کو اختیار کرے گی جو قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام اور آئین میں مذکور پالیسی کےاصولوں سے ہم آہنگ ہو۔
15-آئین اور قانون کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کسی اور مذہب کی توہین کرے یا اس کی مقدس شخصیات کے متعلق غلط بیانی کرے۔ تفسیر صغیر میں اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتابوں میں بھی مسیحیت اور اسلام دونوں ہی کے متعلق اس اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ نیز اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے قادیانیوں کو اس امر کا پابند کر چکے ہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دینی شعائر کو استعمال نہیں کر سکتے۔
16- آئین کی دفعہ ۲۰ میں مذہبی آزادی کے حق کو قانون، اخلاق اور امنِ عامہ کے تابع کیا گیا ہے اور مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵؍ اے نے مذہبی جذبات مجروح کرنے اور مقدسات کی توہین کو قابلِ سزا جرم قرار دیا ہے، چنانچہ آزادیِ رائے کے نام پر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی اور کی تضحیک کرے یا اس کے مذہبی جذبات کو مجروح کرے۔
حقوقِ انسانی کا بین الاقوامی قانون بھی اس کی ممانعت کرتا ہے اور اقوام متحدہ کے سیاسی و شہری حقوق کے بین الاقوامی میثاق ۱۹۶۶ء میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔ (۱۷)اسی طرح کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی ایسے مذہب کا پیروکار ظاہر کرے، جس کے بنیادی عقیدے سے ہی وہ انکاری ہو، لہٰذا قادیانیوں کا اپنے آپ کو’’مسلمان‘‘ یا’’احمدی مسلمان‘‘کہلانا درست نہیں ہے۔
17-آئین نے بھی مسلمان کی تعریف متعین کر دی ہے۔ جب یہ مسئلہ کھڑا ہوا تو پارلیمان میں تفصیلی مباحثہ ہوا اور قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ جو خود کو احمدی کہتے ہیں، کا موقف سننے اور سمجھنے کے لیے قومی اسمبلی کے پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی، کیونکہ ایوان میں صرف ایوان کے ارکان ہی بات کر سکتے تھے، لیکن کمیٹی کسی بھی فرد کو سن سکتی تھی۔ (۱۸)مقننہ کی اس خصوصی کمیٹی کی کارروائی ۵؍ اگست ۱۹۷۴ء کو شروع ہوئی اور ۷ ؍ستمبر۱۹۷۴ ء کو پوری ہوئی۔ (۱۹)کارروائی اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے چلائی۔ خصوصی کمیٹی میںقادیانی گروپ اور لاہوری گروپ کا موقف سامنے آیا اور نتیجتاً اس پر اتفاق ہوا کہ وہ غیر مسلم ہیں۔
18- اس کے بعد خصوصی کمیٹی نے درج ذیل سفارشات متفقہ طور پر منظور کر کے قومی اسمبلی کو بھیج دئیے:
(A)    That the Constitution of Pakistan be amended as follows:
(i)     That in Article 106(3)  a reference be inserted to persons of the Qadiani Group and the Lahori Group  (who call  themsel رحمۃ اللہ علیہ es  Ahmadis):
(ii)    That a non-Muslim may be defined in a new clause in Article 260.
    To give effect to the above recommendations, a draft Bill unanimously agreed upon by the Special Committee is appended(.
B    ) That the following explanation be added to section 295-A of the Pakistan Penal Code:
    "Explanation  A Muslim who professes, practices or propagates against the concept of the  finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) as set out in clause   (3)    of  Article 260 of the Constitution shall be punishable under this section"
(C)     That the consequential legislative and procedural amendments may be made in the relevant laws, such as the National Registration Act, 1973, and the Electoral Rolls Rules, 1974).
(D)    That the life, liberty, honour and fundamental rights of all citizens of Pakistan, irrespective of the Communities to which they belong, shall be fully protected and safeguarded. )۲۰(
    ترجمہ: (۱) کہ پاکستان کے آئین میں درج ذیل طور پر ترمیم کی جائے:
(i)     کہ دفعہ (۳) ۱۰۶ میں قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی کہتے ہیں) کی طرف حوالہ شامل کیا جائے؟ 
(ii)     کہ دفعہ۲۶۰ کی ایک نئی شق میں غیر مسلم کی تعریف دی جائے۔ان سفارشات کو عملی صورت دینے کے لیے خصوصی کمیٹی کا متفقہ طور پر منظور کیا گیا مسودہ ضمیمہ میں شامل کیا گیا ہے۔ 
(ب)    کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ۲۹۵؍اے میں درج ذیل توضیح کا اضافہ کیا جائے:
    ’’توضیح : اگر آئین کی دفعہ ۲۰۰کی شق (۳) میں طے کیے گئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ختم نبوت کے تصور کے خلاف کوئی مسلمان عقیدہ رکھے، اس پر عمل کرے یا اس کی تبلیغ کرے، تو اسے اس دفعہ کے تحت سزادی جاسکے گی۔‘‘
(ج)    کہ نتیجتاً متعلقہ قوانین، جیسے نیشنل رجسٹریشن ایکٹ ۱۹۷۳، اور الیکٹورل رول رولز۱۹۷۴ء میں قانونی اور ضابطے کی ترامیم کی جائیں گی۔
( د)     پاکستان کے تمام شہریوں، خواہ ان کا تعلق کسی برادری سے ہو، کی زندگی، آزادی، عزت اور بنیادی حقوق کی مکمل حفاظت کی جائے گی اور تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ (۲۱)
19-آئین کی دفعہ۲۶۰ میں ذیلی دفعہ (۳) میں قرار دیا گیا ہے:
In the Constitution and all enactments and other legalinstruments, unless there is anything repugnant in the subject orcontext:
(a)    "Muslim" means a person who believes in the unityand oneness of Almighty Allah, in the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) the last of the prophets, and doesnot believe in, or recognize as a prophet or religious reformer, any person who claimed or claims to be a prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after Muhammad (peace be upon him) and.
(b)    "non-Muslim" means a person who is not a Muslim and includes a person belonging to the Christian, Hindu, Sikh, Buddhist or Parsi community, a person of the Quadiani Group or the Lahori Group who call themselves .
'Ahmadis  or by any other name or a Bahai,     and a person belonging to any of the Scheduled Castes. ) 22(
ترجمہ: آئین میں اور تمام قوانین اور قانونی دستاویزات میں، جب تک موضوع یا سیاق میں اس کے برعکس مفہوم نہ ہو:
(الف) ’’مسلمان‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کی وحدانیت اور توحید پر ایمان رکھے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ختمِ نبوت پرمکمل اور غیر مشروط ایمان رکھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد کسی شخص پر، جس نے خود کو نبی کہا تھا یا کہتا ہے، ایمان نہ رکھے، نہ ہی اسے نبی یامذہبی مصلح کے طور پر تسلیم کرے؟
 (ب) ’’غیر مسلم‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو مسلمان نہیں ہے اور اس کے مفہوم میں وہ شخص شامل ہے جو مسیحی، ہندو، سکھ، بدھسٹ یا پارسی برادری سے تعلق رکھتا ہو، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ ( جو خود کو احمدی کہتے ہیں ) کا فرد، یا کوئی بہائی، اور جد ولی ذاتوں سے تعلق رکھنے والا شخص۔
20- علمائے کرام نے دوعدالتی نظائر کا بھی درست حوالہ دیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے مقدمہ بعنوان ’’مجیب الرحمٰن بنام حکومت پاکستان‘‘ (۲۳)میں تفصیلی بحث کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعات ۲۹۸ -بی اور ۲۹۸-سی قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام سے متصادم نہیں ہیں؟ اور سپریم کورٹ نے مقدمہ بعنوان ’’ظہیر الدین بنام ریاست‘‘ (۲۴)کے فیصلے میں قرار دیا کہ مذکورہ دفعات اور شقوں میں کوئی بھی آئین میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ مذکورہ دفعات میں احمدیوں / قادیانیوں کو جن اصطلاحات اور تراکیب کے استعمال سے روکا گیا ہے، ان کا دینِ اسلام میں مخصوص مفہوم ہے اور جو لوگ مسلمان نہیں ہیں وہ اپنے مذہبی اُمور میں ان کے استعمال سے مسلمانوں کو دھو کےمیں ڈال سکتے ہیں جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔  (۲۵)
21- آئین اور قانون نے مختلف حقوق کے درمیان توازن قائم کر رکھا ہے۔ آئین میں جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، ان میں کئی حقوق کے ساتھ مختلف الفاظ میں یہ قید لگائی گئی ہے، مثلاً کئی حقوق کے متعلق قرار دیا گیا ہے کہ عوامی مفاد (۲۶)میں یا امن عامہ کی خاطر (۲۷)، یا پاکستان کی حاکمیت یا سالمیت، امنِ عامہ یا اخلاق کی خاطر (۲۸)، یا اس نوعیت کے دیگر اقدار کی بنیاد پر قانون کے ذریعے معقول قیود عائد کی جاسکتی ہیں۔ ان متعددحقوق کی طرح مذہبی آزادی کا حق بھی قانون، امنِ عامہ اور اخلاق کے تابع ہے۔  (۲۹)
22- خصوصی کمیٹی کے مباحث میں بعض ارکان نے اور دورانِ سماعت بعض علمائے کرام نے بھی اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بہترین اخلاق کی پیروی لازم ہے اور یہ کہ ان کے بہترین اخلاق سے بھی عیاں ہے کہ وہ خاتم النّبیین ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو سارے جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے اور آپ کے بہترین اخلاق کی گواہی دی ہے:
’’وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ‘‘ (۳۰)
ترجمہ: ’’اور یقیناً آپ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں۔‘‘
’’وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِيْنَ‘‘(۳۱)
ترجمہ: ’’اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کا حکم دیا ہے، بلکہ آپ کی اتباع کا بھی حکم دیا ہے اور آپ کے اعلیٰ کردار کو مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے:
’’وَاَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ‘‘ (۳۲)
ترجمہ: ’’اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو، تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
’’قُلْ اِنْ کُنتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ‘‘ (۳۳)
ترجمہ: ’’کہہ دیجیے، اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِيْرًا ‘‘ (۳۴)
ترجمہ: ’’یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔‘‘
23-دالت ہذا وفاق اور حکومت پنجاب کی جانب سے دائر کی گئی تصحیح کی درخواست، جس کی تائید علمائے کرام نے بھی کی، منظور کرتے ہوئے قرار دیتی ہے کہ : 
(الف) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ختمِ نبوت پر ایمان اس امر کے ساتھ مشروط ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو خاتم النّبیین بمعنی’’ آخر االنّبیّین‘‘ مانا جائے۔
(ب) اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ (۳)۲۶۰  میں بھی ختمِ نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان کو مسلمان کی تعریف کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے،اور اس سلسلے میں کوئی اور تاویل یا توجیہ قابلِ قبول نہیں ہے، جس طرح دنیا کے ہر ملک و ریاست کے ہر پابندِ آئین و قانون شہری پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس ملک کے آئین و قانون کو لفظاً و معنیً تسلیم کرے اور آئین ’’اُم القوانین‘‘ ہوتا ہے، اس لیے قادیانیوں پر بھی لازم ہے کہ وہ آئین میں طے شدہ اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کریں، تو اس کے دائرہ کار میںرہتے ہوئے ان کے حقوق کا تعین بھی ہو سکے گا اور تحفظ بھی ہو سکے گا۔
(ج) خود کو احمدی / قادیانی کہنے والوں کے مذہبی حقوق کے مسئلے پر ’’مجیب الرحمٰن بنام حکومت پاکستان‘‘ کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور ’’ظہیر الدین بنام ریاست‘‘ کے مقدمے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو لازمی نظیروں کی حیثیت حاصل ہے اور امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک مسلمہ اور نافذ العمل قانون ہے:
(د) غلطیوں کی تصحیح کے بعد موجودہ فیصلے نے حکم نامہ مؤرخہ ۶؍ فروری۲۰۲۴ء اور حکم نامہ مؤرخہ ۲۴؍ جولائی۲۰۲۴ء کی جگہ لے لی ہے اور اب یہ اس مقدمے کا حتمی اور قطعی فیصلہ ہے، البتہ حکم نامہ مؤرخہ ۶؍ فروری ۲۰۲۴ء صرف ضمانت کی حد تک مؤثر رہے گا اور ملزم کے خلاف جن دفعات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا، ٹرائل کورٹ ہمارے ۶ ؍فروری ۲۰۲۴ء یا ۲۴؍ جولائی۲۰۲۴ء کے فیصلوں سے (جو اَب کا لعدم ہیں) کسی طرح متأثر ہوئے بغیر مقدمے کی کارروائی جاری رکھے اور تمام حالاتِ مقدمہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ ملزم پر ان دفعات کے تحت جرم بنتا ہے یا نہیں؟
24- عدالت ان تمام دینی اداروں اور افراد اور خصوصاً ان علمائے کرام کا شکریہ ادا کرتی ہے، جنہوں نے اس اہم مسئلے پر عدالت کی رہنمائی کے لیے اپنی تحریرات بھیجیں یا عدالت میں دلائل پیش کیے۔
چیف جسٹس        جج            جج
  اسلام آباد (۱۰؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء)
اشاعت کے لیے منظور شدہ
حواشی وحوالہ جات
(1)    روحانی خزائن، ج۱۱ ص۳۸: ج۱۱ص۲۸۹، ۲۹۱: ج۲۳ص۱۸، ۷۱، ص ۴۳۵: ج۲۲ ص۱۵۹: ج۲۲ ص۴۰۶: ج۲۲ ص۵۲۱، ج۲۳ ص۱۶۴، ۱۸۱، ۱۹۱۔
(2)     مرزا غلام احمد قادیانی نے رسالے حقیقۃ الوحی میں پوری صراحت کے ساتھ اپنی نبوت کا دعوی کیا ہے: روحانی خزائن ج۲۲ ص۱۵۴، ۱۸۵، ۱۸۶، ۵۰۳ تفسیر صغیر میں ایسے دعووں کے لیے دیکھیے: (تفسیر صغیر (اسلام آباد: اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹیڈ ۱۹۹۰ء) ص۷۹۱: ص۱۱۹، ۱۲۰: ۶۵۱ اور ص۷۲۶)
(3)  أبو عیسیٰ محمد بن عیسی الترمذي، سنن الترمذي، کتاب الرؤیا، باب: ذھبت النبوۃ، حدیث نمبر:۲۲۷۲
(4)  مسلم بن الحجاج القشیري، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب في أسمائہ، حدیث نمبر:۲۳۵۴
(5)  أبو عبداللہ محمد بن إسماعیل البخاري، صحیح البخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، حدیث نمبر: ۳۴۵۵
(6)  أیضاً، کتاب أحادیث الأنبیاء ، حدیث نمبر ۳۴۵۵
(7)    أیضاً ، کتاب المناقب، باب خاتم النّبّیین، حدیث نمبر:۳۵۳۵
(8)  ابو حامد محمد بن محمد الغزالی، الاقتصاد في الاعتقاد، تحقیق عبداللہ محمد الخلیلی (بیروت: دار الکتب العلمیہ۲۰۰۴ء) ص:۱۳۷۔
(9)  یہ اصول آئین کے دیباچے میں مذکور ہیں جو دراصل اس قرار داد پر مشتمل ہے جو ۱۲؍ مارچ۱۹۴۹ء کو پہلی آئین ساز اسمبلی نے منظور کی تھی اور قرارداد مقاصد کے عنوان سے مشہور ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے پاکستان کے آئین کے بنیادی خدو خال طے کیے گئے۔ ۲۰۱۵ء  فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لیے آئین میں کی گئی ترمیم کو جب سپریم کورٹ کے سامنے چیلنج کیا گیا، تو بعض ججوں ( جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) نے الگ الگ فیصلوں میں قرار دیا کہ آئین میں کی گئی ترمیم کو بھی قرار داد مقاصد میں مذکور اصولوں پر پرکھا جاسکتا
(10) آئین، دفعہ۱
(11)  ايضا، دفعہ ۲
(12) ایضاً، دفعہ ۲۲۷
(13)  مثال کے طور پر دیکھیے: مجموعہ تعزیرات پاکستان، دفعہ ۳۳۸ ؍ایف پنجاب قانون شفعہ ۱۹۹۱ء، دفعہ۳: خیبر پختو نخوا نجی قرضوں پر سود کی ممانعت کا قانون ۲۰۱۶ءدفعہ۱۷
(14)  قانون نفاذ شریعت۱۹۹۱ء، دفعہ۴ 
)15(  Supreme Court (Practice and Procedure) Act, 2023.
(16)را جا عامر خان بنام و فاق پاکستان
PLJ 2024 Supreme Court 114 
When two interpretations are possible, the one that conforms with theInjunctions of Islam shall be adopted
ترجمہ : جب دو تعبیرات ممکن ہوں، تو اس تعبیر کا اختیار کر نالازم ہے جو اسلامی احکام کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ 
)17(   International Covenant on Civil and Political Rights, 1966, Articles 18(3) and 20(2)
(18)  قومی اسمبلی نے یہ خصوصی کمیٹی ۳۰جون ۱۹۷۴ء کو بنائی۔ دیکھئے:
The National Assembly of Pakistan  Debates: Final Report, Third Session of 1974, Sunday, the 30th June 1974, pp. 1302-1309
(19) کارروائی درج ذیل (کل (۲۱) دنوں میں کی گئی : ۵؍ اگست سے ۱۰؍ اگست تک، پھر ۲۰؍ اگست سے ۲۴؍اگست تک، پھر ۲۷؍ اگست سے ۳۱؍ اگست تک، پھر ۲ ستمبر سے ۳ ستمبر تک اور پھر، ۵ ستمبر سے۷ ستمبر تک۔ ۷ ستمبر۱۹۷۴ء کو خصوصی کمیٹی کی سفارشات قومی اسمبلی میں پیش کی گئیں اور پھر اس کی روشنی میں قومی اسمبلی نے دوسری آئینی ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کیا:
 The National Assembly of Pakistan Debates: Final Report, Third Session of 1974, Saturday, the 7th September 1974,  pp. 559-574
(20) دیکھئے:
    Proceedings  of  the  Special  Committee  of  the Whole House  to  Consider the Qadiani Issue, Saturday, the 7th September, 1974,  pp. 3080-3081
(21) ایضاً ص ۳۰۸۱: ان سفارشات پر ایوان کے درج ذیل ارکان نے دستخط کیے تھے: جناب عبد الحفیظ پیرزادہ، مولوی مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی، پروفیسرغفور احمد، جناب غلام فاروق، چوہدری ظہور الٰہی، سردار مولا بخش سومرو۔
)22(   Article 6 of the Constitution (Third Amendment) Order 1985  (President's Order No. 24  of 1985)  19th March 1985, Gazette of Pakistan, Extraordinary, Part I, 19th March 1985.
)23(    PLD 1985 Federal Shariat Court 8.
)24( 1993  SCMR 1718.
(25)ایضاً ص۱۷۵۱۔
(26) آئین، دفعہ۱۵۔
(27) ایضاً، دفعہ ۱۶۔
(28) ایضاً، دفعہ۱۷۔
(29) ایضاً، دفعہ۲۰۔
(30) سورۃ القلم: آیت۴
(31) سورہ الانبیاء: آیت۱۰۷
(32) سورہ آل عمران:آیت۱۳۲ 
(33) سورہ آل عمران: آیت۳۱
(34) سورۃ الاحزاب: آیت۲۱

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین