بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سورۂ فاتحہ میں علمی نکات اور فوائد 

سورۂ فاتحہ میں علمی نکات اور فوائد 


’’اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ۔‘‘
٭    قرآن مجید اور نماز دونوں کی ابتداء حمد سےہوتی ہے،اس کی بظاہر حکمت یہ ہے کہ حمد بعض صورتوں میں شکر کے معنی کو متضمن ہے، گویا قاری‘ تلاوتِ کلامِ پاک اور نمازی‘ نماز شروع کرتے وقت اپنی تلاوت و عبادت کی توفیق پر شکر بجا لارہے ہیں، لہٰذا حال وقال میں موافقت ہورہی ہے۔

سورۂ فاتحہ اور دعا

٭    سورۂ فاتحہ معنی کے اعتبار سے مکمل دعائیہ کلمات پر مشتمل ہے، اسی لیے اس سورت کا ایک نام سورۃ الدعا بھی ہے۔(۱) 
٭    دعا مانگنے سے پہلے دعا مانگنے کے آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے، وہ آداب یہ ہیں کہ: پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرے، پھر روئے زمین کی سب سے مقدّس ہستی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پیش کرے اور پھر اپنی حاجتِ دنیوی و اُخروی کے لیے تضرُّع و عاجزی کے ساتھ دعا کرے۔ یہی طریقہ حدیث میں وارد ہے،(۲) اور نفسِ نماز سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ پہلے حمد وثنا، تسبیح وتہلیل، تکبیر، آخری تشہد میں درود اور پھر دعا۔ نیز دعا کے دیگر آداب مثلاً باوضو ہونا، قبلہ رو ہونا، اور عاجزی سے مانگنا، یہ سب سورۂ فاتحہ سے بایں طور پر مستنبط ہوسکتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ عام طور پر نماز میں ہی پڑھی جاتی ہے، جس کے لیے طہارت اور قبلہ رخ ہونا، نیز حال اور قال سے عاجزی کا اظہار کرنا یقینی امر ہے، اس لیے سورتِ فاتحہ کا ایک نام ’’سورۃ الصلاۃ‘‘ بھی ہے۔
٭    ایسی دعا کا انتخاب کرنا چاہیے جو زندگی کے تمام پہلؤوں کو جامع ہو، مثلاً ’’ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ‘‘ یہ دعا زندگی کے ہر پہلو کو احاطہ کیے ہوئے ہے، اسی طرح ’’ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً۔۔۔ ‘‘ ان جیسی دعاؤں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے۔
٭    ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘: قرآن کریم کی جن آیات کا اختتام اسماء حسنیٰ پر ہوتا ہے، مثلاً : ’’الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ‘‘، ’’اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ‘‘، ’’سَمِیعٌ بَصِیْرٌ‘‘ ، ’’عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘، وغیرہ، حقیقت میں ان صفات کا آیات کے مضمون کے ساتھ گہرا تعلق اور مناسبت ہوتی ہے، مثلاً ’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْاعَلیٰ اَنْفُسِھِمْ‘‘ کا اختتام ’’الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ‘‘پر ہے، اسی طرح ’’لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ز وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ‘‘ کا اختتام ’’وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ‘‘ پرہے اور’’ قَدْ سِمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِیْ‘‘سورۂ مجادلہ کی پہلی آیت کا اختتام ’’سَمِیعٌ م بَصِیْرٌ‘‘ پرہے، مناسبت واضح ہے، اسی طرح آیتِ سرقہ ’’وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا‘‘کا اختتام ’’عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘ پرہے۔ اسی بنیاد پر اگر دیکھا جائے، تو سورۂ فاتحہ میں ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کی مناسبت ربوبیت یا پھر طلبِ ہدایت کی دعا کے عین مطابق ہے، کہتے ہیں کہ اسی بنیاد پر سورۂ توبہ کی ابتدا ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہیں ہوئی، کیونکہ سورت میں مشرکین سے جہاد اور قتل وقتال کا حکم ہے، جو کہ جلال کا مظہر ہے، جبکہ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ صفتِ اکرامیہ جمالیہ سے تعلق رکھتی ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
٭    دعویٰ مع الدلیل: اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور شکر کے دعویٰ پر علت بیان کردی ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ اللہ کی تعریف اور شکر کہ وہ پالنے والی ذات ہے،(۳) اسی طرح دیگر سورتوں میں بھی یہی طرز و اسلوب اختیار کیا گیا ہے، ’’ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِي خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ۔۔۔‘‘ میں خلقِ سماء و ارض پر شکر ہے، ’’الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَابَ۔۔۔‘‘ میں انزالِ کتاب پر شکر ہے۔

تسبیح وتحمید والی سورتیں

٭    جن سورتوں کی ابتداء کلمۂ حمد سے ہوئی وہ پانچ ہیں،(۴) جن میں سے اکثر طویل ہیں، جیسے: سورۃ الأنعام، الکہف، السبا، فاطر، بجز سورۂ فاتحہ کے کہ وہ مختصر ترین مگر جامع ہے۔ جہاں تک تسبیح سے شروع ہونے والی سورتوں کا تعلق ہے، وہاں معاملہ اس کے بر عکس ہے، سات سورتوں میں سے اکثر سورتیں مختصر ہیں، جیسے: سورۃ الحدید،الحشر، الصف، الجمعۃ، التغابن، الأعلیٰ، بجز سورۂ بنی اسرائیل کے، وہ طویل تر ہے۔ شاید اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے -واللہ اعلم بالصواب- کہ حمد وثناء میں تفصیل مستحسن ہے، جبکہ تنزیہ میں اجمال مطلوب ہے، باقی قرآن میں حمد کا لفظ بنسبت تسبیح کے کثرت سے استعمال ہوا ہے۔
٭     کچھ سورتوں کا اختتام حمد پر ہے، جیسے سورۂ زمر میں ہے :’’وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْحَقِّ وَقِیْلَ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘اور بعض سورتوں کا اختتام تسبیح پر ہے، جیسے سورۂ واقعہ ’’فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ‘‘ اور بعض سورتیں ایسی ہیں کہ جن کا اختتام دونوں پر ہے، جیسے سورۂ صافات: ’’سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ 
٭    راہِ جنت یعنی ہدایت کی ابتدا حمد سے فرمائی ’’ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔۔۔۔الٰی قولہ۔۔۔۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ اسی طرح ہدایت کی انتہا یعنی وصولِ جنت بھی حمد پر ہے : ’’الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِي ہَدَانَا لِہَذَا‘‘ ، ’’وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘
٭    دعا میں مناسب یہ ہے کہ جمع کے صیغہ کا استعمال کیا جائے، تاکہ وہ دعا سب مسلمانوں کو شامل ہو: ’’ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘(۵) اسی طرح آیتِ مذکورہ سے باجماعت نماز کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔(۶)
٭    سورۂ فاتحہ میں وعد و وعید سے منسلک آیات موجود ہیں، وعدہ: ’’اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘یعنی اگر اچھا عمل کروگے تو انعام ملے گا، وعید: ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ‘‘یعنی اگر برا عمل کروگے تو غضب نازل ہوگا۔(۷)
٭    ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔۔۔ إلٰی قولہ ۔۔۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ اس میں غائب سے مخاطب کی طرف التفات ہے،(۸) اسی طرح ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف انتقال ہے۔(۹)
٭    ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ یہ مفہوم سورۂ غافر کی آیت ’’ لِمَنِ الْمُلْکُ الْيَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ‘‘ اور سورۂ انفطار کی آیت ’’ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلہِ‘‘ سے واضح ہے۔(۱۰)
٭    ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ اس میں عام سے خاص کی طرف اور خاص سے اخص کی طرف انتقال ہے،چونکہ عبادت عام ہے،استعانت خاص ہے،(۱۱) اور دعاء ان دونوں سے اخص ہے، حدیث میں ہے: ’’الدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ‘‘، بعض لوگ کہتے ہیں کہ : دونوں ایک دوسرے کو لا زم ہیں، کیونکہ عبادت کا معنی تذلُّل اور عاجزی کا اظہار ہے، جو دعا میں مطلوب بھی ہے۔
٭    ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ عبادت کو اللہ تعالیٰ کی ذات میں محصور فرمایا ہے، چونکہ جس چیز کا حق مؤخر ہو، اس کو مقدم لانا تخصیص کا فائدہ دیتا ہے۔(۱۲)
٭    ’’وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ اسی مضمون کے مماثل دوسری آیت: ’’وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِاللہِ‘‘ ہے۔
٭    استعانت کی فوری شکل یہ ہے: ’’ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ‘‘ اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے، یہ دعویٰ مع الدلیل ہے۔
٭    ’’الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ‘‘ کی تفسیر اعتدال سے کی گئی ہے، اس سے میانہ روی و اعتدال کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو ہر نماز میں اس دعا کا پابند بنایا گیا ہے، کیونکہ اعتدال‘ عقیدہ اور عمل غرض یہ کہ زندگی کے تمام شعبوں میں مطلوب ہے۔
٭    سورت میںموجود فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ افراط وتفریط سے اجتناب کیا جائے: ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ‘‘ ۔
٭    ’’ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ دعا کی ابتداء طلبِ ہدایت سے وابستہ ہے اور اس کی انتہاء نفیِ ضلالت ’’وَلَاالضَّالِّیْنَ‘‘ پر ہے، اور ہدایت ضلالت کی ضد ہے، لہٰذا اس سے طلبِ ہدایت کی تکمیل بھی ہوتی ہے اور قاعدہ ’’وبضدھا تتبیّن الاشیاء‘‘ کے تحت ہدایت کی توضیح بھی ہوتی ہے۔
٭    ’’ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ اس سے توسّل بالعمل کا ثبوت ملتا ہے، غار والی حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہے،یعنی اعمال و عبادات میں پائے جانے والے اخلاص کے وسیلے سے ہم آپ سے مدد و معاونت کا سوال کرتے ہیں۔ اسی آیت سے فرض نماز کے بعد دعا کے استحباب پر استدلال کیا جاتا ہے۔

آیات کا باہمی ربط

٭    اس سورت کی تمام آیات آپس میں مربوط ہیں، ’’ اَلْحَمْدُ لِلہِ‘‘ کی علت بیان کردی کہ وہ ’’رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ ہے،(۱۳) لہٰذا لائقِ حمد ہے۔پھر ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کی علت بیان کی کہ وہ ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کی صفت سے متصف ہے، لہٰذا اس کی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی نعمتیں مخلوق پر وافر ہوں، اسی سے اگلی آیت ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ کا تعلق ’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے بایں طور واضح ہے کہ ’’الرَّحِیْمِ‘‘ صفت خاص ہے،جس کا تعلق آخرت سے ہے، اس لیے کہتے ہیں :’’رحمٰن الدنیا و رحیم الآخرۃ‘‘ ۔ اس بنیاد پر آگے جزاء کے دن کا ذکر ہے’’ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ مزید آگے ملاحظہ کریں! جب وہ اس کائناتِ عالم کا خالق و رب ہے تو عبادت واستعانت کو اسی کے ساتھ مختص کرنا یہ اس کے شایانِ شان ہے، اسی لیے فرمایا: ’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ (پورے قرآن مجید میں جگہ جگہ توحیدِ ربوبیت کے اقرار کو کفار کے خلاف بطور حجت پیش کرکے ان پر توحیدِ الوہیت کے اقرار کو لازم قرار دیا گیا) اب حمد وثناء کے ذریعے دربارِ الٰہی تک رسائی میسّر ہوگئی، لہٰذا موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اللہ تعالیٰ سےصراطِ مستقیم کا سوالی ہے: ’’ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘(۱۴)
٭    ’’ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کی تفسیر ’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ سے فرمائی۔(۱۵) اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قول: ’’ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ‘‘ یہ ’’ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ کی تفسیر اور تاکید ہے۔(۱۶)

سورت میں ترتیب کا لحاظ

٭    ذات کو صفت پر مقدم کیا : ’’ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘
٭    دنیا کو آخرت پر مقدم کیا : ’’ رحْمٰن الدُّنْیا ورحِیْم الْآخِرۃِ‘‘ یا یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کا تعلق دنیا سے اور ’’ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ کا آخرت سے ہے۔
٭    عام کی خاص پر تقدیم : ’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ رحمٰن رحیم سے عام ہے۔’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ عبادت‘ استعانت سے عام ہے۔(۱۷)
٭    زمانہ کی وجہ سے تقدیم وتاخیر: ’’ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ‘‘ یہود کو نصاریٰ پر تقدّمِ زمانی حاصل ہے۔(۱۸)
٭    حمد وثنا کی تقدیم دعا پر: ’’ اَلْحَمْدُ لِلہِ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ دعا کی ترتیب بھی یہی ہے۔ 

سورۂ فاتحہ کا خلاصہ

٭    انسان اپنی زندگی میں چند اہمیت کے حامل اصول اور قوانین کا محتاج ہوتا ہے جو اس سورت میں مذکور ہیں:
٭     نظامِ معاش: ’’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘
٭    نظامِ عدالت: ’’ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘
٭    نظامِ قانون کے سامنے انقیاد : ’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘
٭    قانونِ حیات : ’’ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘
٭    قومی و ملّی مدافعتی و دفاعی نظام: ’’ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ‘‘
٭    پوری سورت توحید، مبدأ و معاد جیسے اہم مضامین پر مشتمل ہے، اس لیے اس کو ’’اُمُّ الْکِتَاب‘‘ بھی کہتے ہیں۔
٭    کہتے ہیں کہ قرآن مجید ساری آسمانی کتابوں کا خلاصہ ہے، اور پورےقرآن کا خلاصہ سورۂ فاتحہ ہے، اور سورۂ فاتحہ کا خلاصہ ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ہے۔
٭    شاید اس بنیاد پر حدیث میں سورۂ فاتحہ کو ’’أعظم سورۃ في القرآن‘‘ کہا گیا ہے، جس طرح آیۃ الکرسی کو ’’أعظم الآیات‘‘ کہا گیا، اب کتابوں میں قرآن کریم’’أعظم الکتب‘‘، اور سورتوں میں فاتحہ ’’أعظم السور‘‘، اور آیتوں میں آیۃ الکرسی ’’أعظم الآیات‘‘ ہے۔

سورۂ فاتحہ میں موجود ثلاثیات
 

۱:- یہ سورت سات آیات پر محیط ہے، اس بنیاد پر اس کو ’’السبع المثاني‘‘ کہتے ہیں، جن میں سے ابتدائی تین آیات اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق ہیں،جیسا کہ حدیثِ قدسی میں وارد ہوا ہے۔(۱۹)
۲:-آخری تین آیات بندے سے متعلق ہیں، اور درمیان کی آیت ’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ اللہ اور بندے دونوں کے مابین مشترک ہے۔ (یہ تفسیر اس قول کے مطابق ہے جس میں ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ‘‘ کو مستقل آیت شمار کیا جاتا ہے)۔ (۲۰)
۳:-’’ اَلْحَمْدُ لِلہِ‘‘ یہ کلمہ قرآن میں تین جگہوں میں استعمال ہوا ہے : ۱:-ابتدائے کلام میں، جیسا کہ سورۂ فاتحہ،کہف،سبا اور فاطر کی ابتداء میں ہے۔ ۲:-انتہائے کلام میں، جیسا کہ سورۃ الصافات اور زمر کے اختتام میں واقع ہے، ۳:-وسطِ سورت میں، یہ قرآن میں بیشتر مقامات میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورۂ یونس میں ہے: ’’وَ اٰخِرُ دَعْوٰہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘
۴:-سورت میں تین صفات بیان کی گئی ہیں : ’’ الرَّحْمٰنِ، الرَّحِیْمِ، مٰلِکِ‘‘(۲۱)
۵:-’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘: قرآن میں تین طرح سے آیا ہے، ۱:-’’الرَّحْمٰنِ‘‘ (جوکہ قرآن میں ۴۸ دفعہ آیا ہے، واضح رہے کہ صرف سورۂ مریم میں ۱۶دفعہ آیا ہے)۔ ۲:- ’’الرَّحِیْمِ‘‘ (جوکہ قرآن میں ۳۴ دفعہ آیا ہے)، ۳:- دونوں کا مجموعہ ’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ (جوکہ ۶ دفعہ آیا ہے)۔
۶:-جبکہ دونوں صفات کا مجموعہ ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ قرآن مجید میں تین طرح سے آیا ہے: ۱:- توحیدِ ربوبیت کے ساتھ ملحق ہوکر: ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘، ۲:- توحیدِ اُلوہیت کے سیاق وسباق میں: جیسے: ’’وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ‘‘ اور ’’ھُوَ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ج عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ج ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ‘‘، ۳:-اس کے علاوہ دیگر معنی میں مثلاً : ’’تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ ‘‘
۷:-ابتداء میں ’’ الْحمْدُ لِلہِ‘‘ فرمایا، ’’ لِلہِ الْحمْدُ‘‘ نہیں فرمایا، جیسا کہ سورۃ الجاثیۃ میں ہے، اس کی تین وجوہات ہیں:۱:-یہ احساس دلانا ہے کہ بارگاہِ الٰہی کے حضور رسائی کا راستہ حمد ہے، لہٰذا حمد کو مقدم فرمایا، ۲:-تاکہ موصوف صفت کے درمیان بغیر فاصل کے مقارنت ہوجائے، لفظ ’’اللہ‘‘ موصوف ہے اور ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ صفت ہے۔ ۳:- چونکہ یہ سورت کی ابتداء میں ہے اور لفظ جلالہ کے بابرکت نام سے ابتداء بسم اللہ میں ہوچکی ہے، لہٰذا حمد کو پہلے لائے، جبکہ سورۃ الجاثیۃ میں یہ آیت انتہائے کلام میں واقع ہے۔
۸:-سورت میں بندے پر اللہ تعالیٰ کے تین حقوق کا بیان ہوا: ۱:- عبودیت، ۲:-استعانت، ۳:- دعا(ہدایت کا سوال)۔(۲۲)
۹:-توحید کی تین قسمیں ہیں:۱:-الوہیت:’’ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ ۲:-رُبوبیت: ’’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ ۳:-اسماء وصفات میں :’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘
۱۰:-’’ الْحمْدُ لِلہِ‘‘ میں موجود ’’ الْ‘‘ کی تین قسمیں ہیں: ۱:-جنسی، ۲:-استغراقی، ۳:-عہدی، اگرچہ یہاں پہلی قسم مراد ہے۔
۱۱:-سورت میں عامل کی تینوں قسمیں ہیں: ۱:-مصدر: ’’ الْحَمْدُ‘‘، ۲:-فعل: ’’ نَعْبُدُ‘‘، ۳:-اسم: (اسم مشتق) ’’ الضَّالِّيْنَ، الْمَغْضُوْبِ‘‘۔
۱۲:-اس سورت میں مجرور کی تینوں قسمیں ہیں: ۱:- مجرور حرفِ جر کے واسطے سے: ’’لِلہِ‘‘، ۲:-تبعاً مجرور ہو: ’’ رَبِّ‘‘، ۳:-مجرور اضافت کی وجہ سے ’’ الْعٰلَمِیْنَ‘‘
۱۳:-فعل کی تین قسمیں ہیں: ۱:-ماضی’’ اَنْعَمْتَ‘‘، ۲:-مضارع’’ نَعْبُدُ‘‘ ۳:- امر ’’اِہْدِنَا‘‘
۱۴:-جملے کی تین قسمیں ہیں : ۱:-جملہ اسمیہ: ’’الْحمْدُ لِلہِ‘‘ ۲:-جملہ فعلیہ: ’’ إِيَّاکَ نَعْبُدُ‘‘،۳:-جملہ انشائیہ: ’’ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ‘‘
۱۵:-سورت میں ضمیر متصل کا استعمال تین طرح سے ہوا:۱:-مرفوع:’’اَنْعَمْتَ‘‘، ۲:-منصوب: ’’ اِہْدِنَا‘‘، ۳:-مجرور: ’’ عَلَيْہِمْ‘‘
۱۶:-اسم فاعل تین جگہ استعمال ہوا: ۱:- ’’مالِکِ‘‘ ۲:- ’’الْمُسْتقِیْمِ‘‘ ۳:- ’’الضَّالِّیْنَ‘‘
۱۷:-عبادت کی تین قسمیں بیان ہوئیں : ۱:-عام: ’’إِيَّاکَ نَعْبُدُ‘‘، ۲:-خاص :’’ اِيَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘، ۳:-اخص الخاص:دعاء جیسے:’’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ‘‘(۲۳)
۱۸:-’’اِھْدِنا‘‘: ہدایت کا استعمال قرآن میں تین احوال میں ہوا ہے: ۱:-’’إِلٰی‘‘ کے ساتھ متعدّی: ’’ يَہْدِي مَنْ يَّشَاءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ‘‘ ۲:- لام کے ساتھ متعدّی : ’’إِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِي لِلَّتِيْ ہِيَ أَقْوَمُ‘‘، ۳:-بغیر حرفِ جر کے متعدی :’’ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ‘‘(۲۴)
۱۹:-عام طور پر تین چیزوں کو اللہ کی حمد وثناء سے شروع کیا جاتا ہے: ۱:- کتاب اللہ، ۲:-نماز، ۳:-خطبہ۔
۲۰:-اس سورت کے تین کلمات کی تفسیر قرآن مجید کی تین آیات سے ہوتی ہے: ۱:- ’’الْمنْعَمْ عَلَیْھِمْ‘‘اس کی تفسیر سورۃ النساء کی آیت سے ہوتی ہے: ’’اُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ‘‘ ۲:-’’الْمغْضُوْبِ علیْھِمْ‘‘ : اس کا مصداق یہود ہیں جس کی وضاحت سورۃ البقرۃ کی آیت سے ہوتی ہے: ’’ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآءُوْا بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ‘‘ اس آیت میں بھی تین چیزوں کا ذکر ہے۔ ۳:-’’وَلَا الضَّالِّیْنَ‘‘: یہ صفت نصاریٰ کی ہے، جیسا کہ دوسری آیت سے تفسیر ہوتی ہے: ’’قُلْ یٰاَہْلَ الْکِتٰبِ لَاتَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْا اَہْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۔ ‘‘ (جامع البیان فی تفسیر القرآن للطبری (۱/۱۹۲)(۲۵)
۲۱:- ’’الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کی مراد میں تین مشہور قول ہیں: ۱:-قرآن، ۲:-دینِ اسلام، ۳:- اعتدال فی العبادۃ۔(۲۶)
۲۲:- ’’الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘: یعنی اعتقاد،علم اورعمل تینوں میں اعتدال ہو، (جیسا کہ سیاق کلام سے یہ بات بالکل عیاں ہے، یہودیوں اور عیسائیوں نے افراط وتفریط سے کام لیا): ۱:-عقائد میں افراط وتفریط: یہودیوں نے حضرت عزیر  علیہ السلام  کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا، اور عیسائیوں نے مسیح  علیہ السلام  کو خدا کا بیٹا تسلیم کیا، مسلمانوں نے کہا: محمد- صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ ۲:-علم میں افراط وتفریط: یہودی علم میں فائق و برتر ہیں، جبکہ نصاری کمتر ہیں۔ ۳:-اعمال میں افراط و تفریط: نصاریٰ عمل میں یہودیوں کی بنسبت آگے ہیں۔(۲۷)
۲۳:-صراطِ مستقیم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کی گئی ہے:’’ وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُستَقِیْمًا‘‘ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے، اور اس کی نسبت مسلمانوں کی طرف بھی کی: ’’ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ‘‘ چونکہ وہ اس راہِ حق کے سالک ہیں، اور اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی کی ہے: ’’ قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدعُوْا اِلَی اللہِ‘‘ چونکہ آپ لوگوں کو اس راہ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
۲۴:-ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ وہ ہدایت پر ہوتے ہوئے کیسے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں؟ اس کے تین جواب ہیں:۱:-یعنی ہمیں ہدایت پر ثابت قدمی نصیب فرما، (۲۸)۲:-ہماری ہدایت میں اضافہ فرما: ’’وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمْ تَقْوٰہُمْ‘‘ (۲۹)۳:-ہدایت کا اجر و ثواب نصیب فرما: ’’وَہُدُوْا اِلٰی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَ ہُدُوْا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ‘‘ أي الجنۃ۔
۲۵:-تین طریقوں سے صراطِ مستقیم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے، تاکہ اس کے من جانب اللہ ہونے میں معمولی سا بھی خفاء باقی نہ رہے: ۱:- ’’ صِرَاطِ اللہِ الَّذِی لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ‘‘، اس میں اللہ تعالیٰ کا راستہ متعین ہوگیا ۔ ۲:- ’’ وَہٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیْمًا‘‘ اس میں اس بات کا اضافہ کیا گیا کہ یہ راستہ سیدھا اور معتدل ہے۔ ۳:-’’وَاَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ‘‘ اس میں اس بات کا اضافہ کیا گیا کہ یہ اتباع کا مقتضی ہے۔
۲۶:-نماز اور سورۂ فاتحہ کے مابین مناسبت تین طرح سے ہے:۱:-دونوں کا آغاز حمد و ثناء کے ساتھ ہوا، ۲:- سورۂ فاتحہ کا ایک نام ’’سورۃ الصلاۃ‘‘ بھی ہے(۳۰)، ۳:- دونوں میں دعا کا ہونا قدرِ مشترک ہے۔
۲۷:-۱:- نماز میں قیام و قعود کے دوران حمد وثنا مطلوب ہے،۲:- رکوع و سجدے میں تسبیح مطلوب ہے: سبحان ربي الأعلي، سبحان ربي العظیم، ۳:- جبکہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونے میں تکبیر مطلوب ہے۔
۲۸:-یہ سورت قرآن مجید کے بنیادی تینوں مضامین کو احاطہ کیے ہوئے ہے: ۱:- توحید: ’’الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ‘‘، ۲:-قیامت:’’ مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ‘‘، ۳:-رسالت: ’’ اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ‘‘ ، چونکہ صراطِ مستقیم انبیاء کا راستہ ہے،(۳۱) جیسا کہ ارشادِ باری ہے: ’’ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘ یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ’’مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ‘‘ کا مصداق ابتداء ً انبیاء -علیہم السلام- کی ذواتِ مقدسہ ہیں۔
۲۹:-سورت کے آخر میں تین قسم کے لوگوں کا ذکر ہوا:۱:- جن پر انعام واکرام ہوا، ۲:-جو غضب وعذاب کے مستحق ٹھہرے(یہود)، ۳:-جو گمراہیت کی وادی میں گر گئے (عیسائی)۔
۳۰:-سورۂ فاتحہ نماز میں ایک دعا ہے، جو تین لوگوں کی مشارکت سے تامّ ہوتی ہے، جس سے اس کی قبولیت کی اُمید مزید بڑھ جاتی ہے:۱:- امام کہتا ہے: ’’وَلَا الضَّالِّیْنَ‘‘، ۲:-مقتدی اور ۳:-ملائکہ اس پر آمین کہتے ہیں، شاید اس بنیاد پر دو آدمیوں کی نماز کو جماعت قرار دیا گیا۔

سورۂ فاتحہ کا سورۂ بقرہ سے ربط

۳۱:-سورۂ فاتحہ میں ہدایت کا سوال کیا: ’’اِہْدِنَا‘‘،اس ہدایت کی طرف سورۃ البقرۃ میں رہنمائی فرمائی گئی، جوکہ قرآن میں ہے،(۳۲): ’’ہُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ ایک شرط کے اضافے کے ساتھ، (۳۳) پھر جب ہم نے قرآن میں غور کیا تو اس نے ہمیں ’’مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ‘‘ کی طرف رہنمائی کی: ’’ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلَاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ يُنْفِقُوْنَ‘‘ اور پھر ان کو ہدایت کا سرٹیفیکٹ عطا کیا: ’’أُولٰئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَّبِّہِمْ وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘ سو یہ تین آیات ہوئیں: ۱:- ’’اِہْدِنَا‘‘، ۲:-’’ ھُدًی لِّلْمُتّقِیْنَ‘‘، ۳:- ’’ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ‘‘

فاتحہ اور خاتمہ (سورۂ فاتحہ اور سورۂ ناس) کے درمیان مناسبت

۱:-فاتحہ میں ذاتِ باری کا تعالیٰ کا ذکر ہوا، ’’ الْحَمْدُ لِلہِ‘‘، اور سورۂ ناس میں صفتِ باری تعالیٰ مذکور ہے: ’’الرَّبّ، الْمَلِکُ، الْاِلٰہ‘‘
۲:-سورۂ فاتحہ بسم اللہ کے ساتھ شروع ہوتی ہے (اس قول کی بنیاد پر کہ بسم اللہ سورۂ فاتحہ میں داخل ہے) جبکہ سورۂ ناس میں استعاذہ ہے:’’ أَعُوْذُ بِاللہِ‘‘
۳:-سورۂ فاتحہ میں دعوی کا ذکر ہے:’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ جبکہ سورۂ ناس میں دلیل موجود ہے: ’’أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘ دعا ہے اور دعا عبادت ہے: ’’الدعاء مخ العبادۃ‘‘
۴:-سورۂ فاتحہ میں استعانت ہے،جبکہ سورۂ ناس میں استعاذہ ہے اور یہ بھی استعانت ہی کی ایک قسم ہے۔(۳۴)
۵:-سورۂ فاتحہ میں ربوبیت کا ذکر ہے:’’الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ‘‘ اسی طرح سورۂ ناس میں ربوبیت کا ذکر فرمایا:’’ قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘(۳۵)
۶:-سورۂ فاتحہ میں توحیدِ الوہیت وعبادت کا بیان ہے :’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ اسی طرح سورۂ ناس بھی اسی مضمون کو شامل ہے: ’’ اِلٰہِ النَّاسِ‘‘(۳۶)
۷:-سورۂ فاتحہ میں اسماء وصفات کی توحید کا بیان ہے :’’ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ یہی مضمون سورۂ ناس میں بھی ہے: ’’ مَلِکِ النَّاسِ‘‘(۳۷)
۸:-سورۂ ناس میں لفظًا و معنیً استعاذہ موجود ہے: ’’قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘ جبکہ سورۂ فاتحہ میں صرف معناً موجود ہے: ’’غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ‘‘ یعنی ہماری ان دونوں گروہوں کے راہ و طریق سے حفاظت فرما، جیسا کہ حدیث میں ضلالت اور غضبِ الٰہی کو مستعاذ منہ چیزوں میں شمار کیا ہے۔ فرمایا: ’’اَللّٰہُمَّ إِنِّـيْ اَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ‘‘، اور فرمایا: ’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ ٲاَضِلَّ اَوْ اُضَلَّ‘‘
۹:-سورۂ فاتحہ میں رب کی نسبت عام مخلوق کی طرف ہے: ’’رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ جبکہ سورۂ ناس میں رب کی نسبت خاص مخلوق کی طرف ہے: ’’قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘
۱۰:-سورۂ فاتحہ میں عقیدہ کا بیان ہے، جبکہ سورۂ ناس میں اس کی حفاظت کا ذکر ہے: ’’مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ‘‘
۱۱:-سورۂ فاتحہ اور سورۂ ناس دونوں رقیہ میں استعمال ہوتی ہیں، اسی لیے سورۂ فاتحہ کا ایک نام سورۃ الشفاء بھی ہے۔
۱۲:-دونوں سورتیں دعا کے معنی پر مشتمل ہیں: ’’ اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ‘‘، ’’ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔‘‘(۳۸)
۱۳:-سورۂ فاتحہ میں تحلّی ہے، جبکہ سورۂ ناس میں تخلّی ہے۔
۱۴:-دونوں سورتیں حمد کے معنی کو متضمن ہیں، سورۂ فاتحہ صراحتاً یعنی لفظاً و معنیً جبکہ سورۂ ناس ضمناً۔ اور دعا میں حمد وثناء بیان کرنا سنت ہے۔
۱۵:-دونوں سورتوں میں شرّ کا بیان ہے،سورۂ فاتحہ میں ضمناً : ’’ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ، الضَّالِّيْنَ‘‘ جبکہ سورۂ ناس میں صراحتاً یعنی لفظاً و معنیً: ’’ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔‘‘
۱۶:-دونوں سورتوں میں حمد وثنا کی وجہ مذکور ہے، سورۂ فاتحہ میں فرمایا: اللہ تعالیٰ ستائش کا مستحق ہے، چونکہ وہ رحمٰن اور رحیم ذات ہے، جزاء کے دن کا مالک ہے۔ سورۂ ناس میں وجہ استعاذہ مذکور ہے: ’’ قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘ یعنی اللہ کی پناہ میں آتا ہوں جو تمام روئے زمین کے انسانوں کا رب ہے،سب کا مالک و معبود ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی مانند ہے: ’’یَا اَرْضُ رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللہُ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ شَرِّک وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِیْکِ۔‘‘ یعنی انسانوں کے شر سے انسانوں کے رب کی پناہ اور زمین کے شر سے زمین کے رب کی پناہ میں آتے ہیں۔
۱۷:-دونوں میں سے ایک قرآن کی ابتدا اور دوسری انتہا ہے۔
۱۸:-سورۂ فاتحہ میں یہود و نصاری کے درمیان ترتیب زمانی کا لحاظ رکھا گیا ہے،جبکہ سورۂ ناس میں جن و انس کا تذکرہ بالترتیب آیا ہے، اور دونوں سورتوں کے اواخر میں ہیں۔
۱۹:-دونوں سورتوں میں ایک مناسبت یہ بھی ہے کہ دونوں بیان پر مشتمل ہیں کہ فاتحہ میں ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ‘‘ ہے جو ’’مُنْعَم عَلَیْہِم‘‘ کے لیے بیان ہے، اور سورۂ ناس میں ’’مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ‘‘ ہے جو کہ ’’مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ‘‘ کے لیے بیان ہے۔
۲۰:-دونوں میں سجع اور قافیہ کا لحاظ رکھا گیا، فاتحہ میں: ’’الْعٰلَمِیْنَ، نَسْتَعِیْنُ، الضَّالِّیْنَ‘‘ اور سورۂ ناس میں: ’’النَّاسِ، الْخَنَّاسِ‘‘
۲۱:-دونوں کی ابتداء جملے کی دو الگ الگ اقسام سے ہے، بایں معنی کہ فاتحہ جملہ خبریہ کی صورت میں شروع ہوتی ہے اور سورۂ ناس کا مبدأ جملہ انشائیہ ہے۔
۲۲:-سورۂ ناس میں خالق مخلوق سے مخاطب ہے:’’قُلْ اَعُوْذُ‘‘..... اور فاتحہ میں مخلوق بارگاہِ خالق میں سوالی ہے :’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘، اور دونوں قسم کے خطابوں میں فرق واضح ہے کہ دوسرا خطاب(مخلوق کا خالق سے) اپنے پہلے حمد و ثناء کا متقاضی ہے، جب کہ پہلا خطاب (خالق کا مخلوق سے) اس سے پاک ہے۔
۲۳:-قرآن کا نزول ایک بہت بڑی نعمت ہے، اور ہر نعمت پر ابتداء ً شکر ہونا چاہیے، لہٰذا فرمایا: ’’الْحَمْدُ لِلہِ‘‘ اور ہر نعمت انتہاء ً بقاء کو چاہتی ہے جو تعوذ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، کیونکہ تعوذ نعمت کی محافظ ہے: ’’قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘
۲۴:-جس طرح کلام پاک کی ابتداء حمد سے ہوئی اور انتہاء استعاذہ سے ہوئی، بعینہ اسی طرح نماز کی ابتداء بھی حمد سے اور انتہاء استعاذہ پر ہوتی ہے،چونکہ حدیث میں وارد ہے کہ جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھ لے تو وہ چار چیزوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے: عذاب جہنم،عذاب قبر،زندوں و مردوں و مسیح دجال کے فتنے سے۔
۲۵:-سورۂ فاتحہ میں جلبِ منفعت ہے، (دعا) جبکہ سورۂ ناس میں دفعِ مضرت (استعاذہ)

آیات کو سوال و جواب کے اُسلوب کی طرف منتقل کرنا

سوال: ہم اپنی تکالیف کی دوری و خاتمے کے لیے اور دیگر حاجات میں کس ذات کو پکاریں؟
 جواب: ’’الْحمْدُ لِلہِ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو ۔
سوال: ہم اس کے دربارِ عالی میں کس طرح اسے مخاطب کریں؟ 
جواب: ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ اس کی حمد وثناء بیان کرتے ہوئے۔
سوال: ہم اس کی حمدو ثناء کیسے بیان کریں؟ 
جواب: اس کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہوئے،اس کے اسماء وصفات پر ایمان لاتے ہوئے: ’’ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘
سوال: ہم اس بلند ذات کے قرب تک کس طرح رسائی حاصل کرسکتے ہیں؟ 
جواب: عبادت و عمل میں اخلاص پیدا کرکے:’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘
سوال: ہم کب اس کی بارگاہ میں دستِ سوال دراز کریں؟
جواب: کسی بھی(نیک) عمل کی سر انجامی کے بعد: ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘
سوال: ہم اس بے نیاز ذات کے سامنے کس چیز کا سوال کریں؟(۳۹) 
جواب: صراطِ مستقیم کا سوال کریں: ’’ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ ‘‘
سوال: صراطِ مستقیم کیا ہے؟ 
جواب: ان برگزیدہ ہستیوں کا راستہ ہے،جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام واکرام کی نوازشات کیں: ’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘
سوال: وہ کون لوگ ہیں جن پر احسان و اکرام ہوا؟ 
جواب: یہود و نصاریٰ کے علاوہ لوگ ’’ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ‘‘

وصلي اللہ وسلم علٰی سیدنا ونبینا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

حوالہ جات

۱:-روح المعانی، ج:۱، ص:۵۱            ۲:-تفسیر کبیر، ج:۱، ص: ۲۶۰
۳:-ایضاً، ج:۱، ص: ۱۸۵                ۴:-ایضاً، ج:۱، ص: ۱۸۶
۵:-تفسیر کبیر، ج:۱، ج: ۱، ص:۲۶۰            ۶:-تفسیر بیضاوی، ج:۱، ص:۲۸ مع الحاشیۃ المفیدۃ
۷:-ایضاً، ج:۱، ص:۴۸                ۸:-تفسیر کبیر، ج:۱، ص:۲۵۵
۹:-تفسیر کبیر، ج:۱، ص:۱۱۵            ۱۰:-ایضاً، ج:۱، ص:۱۱۴
۱۱:-تفسیر سورۃ الفاتحۃ، ص:۱۰۴، لابن احمد بن رجب        ۱۲:-تفسیر کبیر، ج:۱، ص: ۲۵۰
۱۳:-تفسیر کبیر، ج: ۱، ص:۱۸۵            ۱۴:-تفسیر سورۃ الفاتحۃ لابن احمد بن رجب البغدادی، ص:۹۷
۱۵:-تفسیر ابن کثیر، ج: ۱، ص:۱۲۰            ۱۶:-تفسیر ابن کثیر، ج: ۱، ص:۱۸۹
۱۷:-تفسیر سورۃ الفاتحۃ لابن احمد بن رجب البغدادی، ص:۸۶    ۱۸:-تفسیر سورۃ الفاتحۃ لابن احمد بن رجب البغدادی، ص:۱۲۸
۱۹:-رواہ مسلم ومالک فی المؤطا وابوداؤد والترمذی والنسائی عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ
۲۰:-تفسیر کبیر، ج:۱، ص:۲۸۳            ۲۱:-تفسیر سورۃ الفاتحہ، ص:۹۱
۲۲:-تفسیر کبیر، ج:۱، ص: ۲۸۸            ۲۳:-روح المعانی، ج:۱، ص:۱۲۴
۲۴:-تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص:۱۲۰            ۲۵:-تفسیر قرطبی، ج:۱، ص:۲۳۱
۲۶:-تفسیر کبیر، ج:۱، ص: ۲۶۰            ۲۷:-تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص: ۱۲۱
۲۸:-تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص: ۱۱۹            ۲۹:-تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص: ۱۲۰
۳۰:-تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص: ۸۸۔ تفسیر کبیر، ص: ۱۸۲    ۳۱:-روح المعانی، ج:۱، ص: ۴۸
۳۲:- بیان القرآن، ج:۱، ص:۴            ۳۳:-روح المعانی، ج:۱، ص: ۱۳۲
۳۴:-بیان القرآن، (سورۃ الناس)ج:۲، ص:۶۷۴    ۳۵:-بیان القرآن، (سورۃ الناس)ج:۲، ص:۶۷۴
۳۶:-بیان القرآن، (سورۃ الناس)ج:۲، ص:۶۷۴    ۳۷:-بیان القرآن، ج:۲، ص:۶۴۴
۳۸:-بیان القرآن، ج:۲، ص:۶۴۴            ۳۹:-تفسیر کشاف، ج:۱، ص:۲۹

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین