بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سودی قرض پر کاروبار کرنا

 

سودی قرض پر کاروبار کرنا!

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اور علمائے عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:     ایک کمپنی ہے جو اپنا کاروبار چلانے کے لیے سامان خریدتی ہے، اس سامان کا نوے فیصد حصہ بینک کا ہوتا ہے، جبکہ صرف دس(10%) فیصد کمپنی کا ہوتا ہے اور جو رقم بینک سے لی جاتی ہے، وہ چھ ماہ کے اندر بمع سود واپس کرنی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کاروبار کرنا جائز ہے یانہیں؟                                                                      مستفتی:عرفان الحق،کراچی الجواب باسمہٖ تعالٰی     واضح رہے کہ سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول a کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔قرآن کریم میں ہے: ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘۔                               (البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹) ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو ، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول a کی طرف سے‘‘۔                                     (بیان القرآن)     نیز سود کے ایک درہم کو رسول اللہ a نے ۳۶ مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے۔حدیث شریف میں ہے: ’’عن عبد اللّٰہ بن حنظلۃؓ غسیل الملائکۃ إن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لَدرہمُ ربًا أشد عند اللّٰہ تعالٰی من ست وثلثین زنیۃ فی الخطیئۃ‘‘۔       (دار قطنی)      نیز ایک روایت میں ہے کہ سود کے ننانوے دروازے ہیں، اس میں ادنیٰ شناعت کے اعتبار سے ایسا ہے جیساانسان کا اپنی والدہ کے ساتھ بدکاری کرنا۔حدیث مبارکہ میں ہے:     ’’الربا تسعۃ وتسعون باباً أدناہا کإتیان الرجل بأمہ۔‘‘               (ابوداود)     قرآن کریم میں ہے: ۱:…’’اَلَّذِیْنَ یَأکُلُوْنَ الرِّبَوا لاَیَقُوْمُوْنَ إِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ‘‘۔                                                               (البقرۃ:۲۷۵) ترجمہ:…’’جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوںگے قیامت میں قبروں سے مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان خبطی بنادے لپٹ کر (یعنی حیران ومدہوش) ۔‘‘        (بیان القرآن) ۲:…’’یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَوا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ۔‘‘                          (البقرۃ:۲۷۶)     ترجمہ:…’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں‘‘۔     (بیان القرآن)      نیزدنیاوی اعتبار سے بھی سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے۔ سودی معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ دس افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں۔     خلاصہ یہ کہ سودی معاملہ دنیا اور آخرت کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سود بلکہ سود کے شبہ سے بھی اپنے آپ کو اور اپنے خاندان ومتعلقین کو بچائیں۔     لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کمپنی کا اپنے کاروبار کو چلانے کے لیے بینک سے سودی قرضہ لینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ کمپنی کے ذمہ داران فوراً اس معاملہ کو ترک کردیں، مذکورہ بالا آیات اور احادیث طیبہ عبرت پکڑنے والوں کے لیے کافی ہیں، اپنی استعداد کے مطابق کاروبار کو وسعت دیں، البتہ اس رقم سے آگے ہونے والا کاروبار دیگر شرعی تقاضے پورے کرنے کی بنا پر فی نفسہٖ مباح ہوگا۔فقط واللہ اعلم      الجواب صحیح               الجواب صحیح                             کتبہ    ابوبکرسعیدالرحمن          محمد شفیق عارف                          عبد الحمید                                                           دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ                                                             علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین