بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

سندھ ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ!

سندھ ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ!

 

الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

گیارہ جون ۲۰۱۴ء بروز بدھ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے دن ایڈووکیٹ جناب منظور احمد مئو صاحب کا فون آیا کہ عدالت میں ایک سابقہ ہندوبچی جس کا اسلامی نام عائشہ رکھا گیا ہے، اس کا کیس لگا ہوا ہے، آپ یہ بتائیے کہ اسلام قبول کرنے کے لیے عمر کی کوئی حد ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ کسی صحابیؓ کا نام بتادیجیے جس نے بچپن میں اسلام قبول کیا ہو۔ میں نے سیدنا علی المرتضیٰ q کا نام نامی اسم گرامی لیا کہ انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور حضور a کے فرمان کے مطابق اپنے ایمان لانے کو اپنے باپ سے مخفی رکھا۔ اور ایک یہودی بچہ جو حضور a کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ بیمار ہوا، آپ a اس کی عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے، اور اس کے سرہانے بیٹھے، وہ بچہ اس دنیوی زندگی میں چند لمحوں کا مہمان تھا، آپ a نے اس پر اسلام پیش کیا، بچے نے سوالیہ نظروں سے باپ کی طرف دیکھا، باپ نے اجازت دے دی، اور کہا :’’أطع أباالقاسم‘‘۔۔۔’’ابوالقاسم (a) کی بات مان لو‘‘۔ اس نے کلمہ پڑھا، آپ a نے فرمایا:’’الحمد للّٰہ الذی أنقذہ من النار‘‘۔۔۔ ’’تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیںجس نے اسے آگ سے نجات اور خلاصی عطا فرمائی‘‘۔(صحیح بخاری،ج:۱،ص:۱۸۱) اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس q نے بھی اپنے باپ سے پہلے بچپن میں اسلام قبول کیا، حضرت ابومحذورہ q جو اسلام قبول کرنے کے بعد مسجد حرام کے مؤذن بنائے گئے، انہوں نے بھی چھوٹی عمر میں اسلام قبول کیا، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص q بھی بچپن میں اسلام لائے، حضرت زبیر q بھی آٹھ برس کی عمر میں اسلام لائے۔ اس کے علاوہ بھی کئی صحابہ کرام s ہیں جو بچپن میں اسلام لائے۔ میں نے یہ چند نام ان کو بتلادیئے، جو اس وقت میرے ذہن میں تھے، الحمد للہ! تین بجے کے قریب فون آیا کہ مبارک ہو، کیس کا فیصلہ نومسلمہ بچی عائشہ کے حق میں ہوا، الحمد للّٰہ علٰی نعمۃ الإسلام۔ جی میں آیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے اس تاریخی فیصلہ کی روداد قارئین بینات تک بھی پہنچائی جائے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قانونی مشیر ایڈووکیٹ جناب منظور احمد مئو صاحب نے جو کچھ اس کیس کے بارے میں لکھ کر دیا، اس کی تلخیص یہ ہے کہ: ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۴ء کو سانگھڑ سے ایک نامعلوم خاتون نے فون کیا کہ میں پوجابائی بات کررہی ہوں، میں پیدائشی ہندو ہوں، انٹر کی طالبہ ہوں، میں نے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے، میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں، آپ میری قانونی مدد کریں۔ منظور صاحب نے اسے کچھ قانونی مشورے دیئے۔اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی دفتر کے ناظم اعلیٰ رانا محمد انور صاحب سے پوری صورت حال گوش گزار کی تو انہوں نے فرمایا کہ : ہماری جماعت قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس بچی کی اخلاقی وقانونی ہمہ قسم کی مدد کرنے کو تیار ہے، جس پر منظور احمد مئو صاحب کو مزید حوصلہ ملا اور انہوں نے اس کیس کو شروع سے آخر تک اپنے ہاتھ میں رکھا، اس بچی نے سانگھڑ سے کراچی کا سفر اکیلے کیااور سترہ جنوری ۲۰۱۴ء کو سٹی کورٹ مجسٹریٹ صاحب کی عدالت میں پیش ہوکر اجازت خودمختاری حاصل کی، جس میں تحریر تھا کہ: ’’میں قرآن پاک کے متعلق بہت عرصہ سے معلومات اور تعلیم حاصل کررہی ہوں اور اس کے متعلق رہنمائی اپنے ساتھی بچوں اوران کے والدین سے جب کبھی ملاقات ہوجاتی تھی، ملتی رہتی تھی۔ میں اسلامی لٹریچر بھی پڑھتی رہتی تھی۔میں اپنے دل سے اور اپنی مرضی سے کلمہ پڑھنا چاہ رہی ہوں، مجھ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے ‘‘۔ ۱۸؍ جنوری ۲۰۱۴ء کو جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء سے قبولیت اسلام کی سند حاصل کی اور اسلامی نام عائشہ رکھا۔ ۲۰؍ جنوری ۲۰۱۴ء کو عائشہ بی بی نے جناب منظور احمد مئو ایڈووکیٹ صاحب کی وساطت سے ہائی کورٹ میں ایک درخواست داخل کی کہ آئین پاکستان ۱۹۷۳ء کی شق نمبر:۲۰ اور ۱۵ کے تحت ہر پاکستانی کو مذہبی آزادی ہے، جیسا کہ لکھا ہے: آرٹیکل :20 مذہبی آزادی اور مذہبی ادارے قائم کرنا:  ’’ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ کوئی بھی مذہب اختیار کرے اور مذہبی آزادی سے اپنے مذہب کی تعلیمات حاصل کرے اور اس کا پرچار کرے‘‘۔ اس آرٹیکل کی تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہبی آزادی ان کو حاصل ہے جو پاکستان کے آئین کی رو سے کسی نہ کسی مذہب میں داخل ہیں (البتہ ایک نام نہاد گروہ قادیانی، اس کی مستقل مذہبی حیثیت آئین پاکستان میں تسلیم نہیں ہے، اس لیے آئین انہیں اپنی مذہبی رسوم کی اجازت تو دیتا ہے، مگر پرچار کا حق نہیں ہے۔) آرٹیکل نمبر:۱۵ میں ہے کہ ہر پاکستانی کو آزادی ہے کہ کہیں بھی جاکر رہے، پاکستان میں سفر کرے، رہائش اختیار کرے، وغیرہ۔ اس آئینی پٹیشن میں کہا گیا کہ درخواست گزار اسلامک ریپبلک آف پاکستان کی شہری ہے اور وہ ۲۶؍ جون ۱۹۹۴ء کو ہندو خاندان میں پیدا ہوئی اور اس کے ثبوت کے طور پر اس نے اپنا پیدائشی سر   ٹیفکیٹ اور تعلیمی سر   ٹیفکیٹ پیش کیا، جس میں اس کی عمر ۲۰ سال کے قریب درج ہے اور اس نے ضلع سانگھڑ سے تعلیم حاصل کی۔ درخواست گزار نے یہ بھی لکھا کہ:  ’’میںاسلامی تعلیمات سے بہت زیادہ متأثر ہوئی ہوں اور میں نے مسلمان بچوں سے جو میرے پڑوسی اور اسکول میں پڑھتے تھے، ان سے قرآن پاک پڑھنا سیکھا اور میں نے اسلامی کتب اور اسلامی پروگرام ۔۔۔۔ دیکھ کر اسلام قبول کیا، جب میرے گھروالوں کو پتہ چلا کہ میں اسلامی تعلیمات میں دلچسپی لے رہی ہوں تو میری فیملی نے مجھے دھمکانا شروع کردیا اور میرے بھائی نے اسلامی تعلیمات سیکھنے سے بالکل منع کردیااور میرے اوپر پابندی لگادی کہ آپ کوئی اسکول وکالج نہیں جاؤگی اور اسلامی تعلیمات و اسلامی باتوں پر عمل کرنے پر بھی پابندی لگادی اور کہا کہ آپ ہندوازم کی تعلیم حاصل کرو۔ تو درخواست گزار عائشہ (پوجا) نے اپنے بھائی کو منع کردیا اور کہا کہ میں اسلام کے علاوہ کوئی بات نہیں کروں گی، تو یہ باتیں اس کے بھائی دلیپ کمار نے ہندوپنچائیت کمیٹی کے چیئرمین کو بتائیں تو ہندو پنچائیت کمیٹی کے چیئرمین نے دھمکیاں دیں کہ اسلامی تعلیمات بند کرو۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ بلاوجہ کی پابندیاں لگائی گئیں ہیں۔ درخواست گزار نے کہا کہ میں جوان ہوں، آئین کے تحت مجھے مذہبی آزادی ہے کہ میں اپنی مرضی سے جو بھی مذہب اختیار کروں، مجھے آئین پاکستان کی شق: ۲۰ اور ۱۵ کے تحت آزادی ہے۔میں اپنی مرضی سے ہندو سے مسلمان ہوئی ہوں اور میں اپنی مرضی، خواہش اور پسند سے ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۴ء کو ضلع سانگھڑ سے گھر چھوڑ کر کراچی آئی ہوں۔ مجھے کسی نے نہ دھمکایا ہے، نہ کسی طریقے سے مجھے کسی نے ورغلایا ہے۔ میں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے اپنی مرضی سے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے کہ اپنی مرضی، پسند اور خواہش سے اسلام قبول کررہی ہوں اور میں نے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں جاکر اسلام قبول کرکے اس کی سند حاصل کی ہے اور اسلام قبول کرنے کی سند بھی اس درخواست کے ساتھ منسلک ہے۔ مجھے کسی نے بھی نہ اغوا کیا ہے، نہ ورغلایا ہے اور نہ ہی اسلام قبول کرنے کے لیے کسی نے دھمکیاں دی ہیں۔ میرے بھائیوں کو اسلام قبول کرنے کا پتہ چل گیا ہے، وہ مجھے ہماری ہندو پنچائیت کمیٹی کے کہنے پر قتل کردیں گے اور میرے بھائی اور ہندو پنچائیت کمیٹی کے لوگ بہت زیادہ بااثر ہیں اور S.H.O سانگھڑ ، D.S.P سانگھڑ ، D.I.G میرپور خاص اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سانگھڑ سب ان ہندو پنچائیت کمیٹی کے دباؤ میں میرے خلاف جھوٹے مقدمے رجسٹر کراکر سانگھڑ لے جاکر قتل کردیں گے، لہٰذا آئین پاکستان ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل: ۲۰اور ۱۵ کے تحت میرا حق ہے جو میں نے استعمال کیا ہے۔ میں نے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا ہے، لہٰذا مجھے آئین پاکستان ۱۹۷۳ء کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے اور مجھے اسلامی تعلیمات حاصل کرنے سے نہ روکا جائے، اور پولیس افسران کو منع کیا جائے کہ مجھے کسی بھی جھوٹے مقدمے میں گرفتار نہ کریں۔‘‘ اس آئینی پٹیشن کے داخل ہونے کے بعد عدالت کی طرف سے تمام متعلقہ اداروں کو جب ۲۴؍ جنوری ۲۰۱۴ء کو نوٹس جاری ہوئے تو ہندؤوں نے ایک ہندو ایم این اے کی وساطت سے پورے سندھ میں جابجا پریس کانفرنس کرنا شروع کردیں اور مقامی مسلمانوں پر الزام لگایا کہ انہوں نے زبردستی اس بچی کو اغوا کیا ہوا ہے۔ ان ہندؤوں کو جب ہائی کورٹ کی طرف سے نوٹس ملے تو انہوں نے نامی گرامی وکلا کی خدمات حاصل کیں اور ضلع سانگھڑ کے ایس ایچ او نے کورٹ میں کہا کہ یہ لڑکی اغوا ہوئی ہے، اس کو برآمد کرنا ہے، اس کے اغوا کی ایف آئی آر ۲۱؍ جنوری ۲۰۱۴ء کو کٹوائی گئی ہے، ا س لڑکی کو برآمد کرکے سانگھڑ لے کر جانا ہے۔  جس پر ایڈووکیٹ جناب منظور احمد مئو صاحب نے کورٹ کو بتلایا کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے ذاتی طور پر ہائی کورٹ میں پیش ہوکر پٹیشن داخل کی اور اس نے کہا کہ: مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا، میں اپنی مرضی سے آئی ہوں اور میں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیاہے، یہ لوگ مجھے جان سے ماردیں گے۔ منظور صاحب نے کہا کہ: اگر بچی کا بیان لینا ہے تو مدرسہ جاکر پولیس اس کا بیان ریکارڈ کرسکتی ہے اور اس بیان کی روشنی میں مقدمہ کی تفتیش کی جائے۔ ہائی کورٹ نے پولیس کو آرڈر کیا کہ پولیس مدرسہ جاکر بچی کا بیان ریکارڈ کرے۔ پولیس نے بیان ریکارڈ کیا، بچی نے پولیس کو وہی بیان دیا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، پولیس نے بچی کے اس بیان کی روشنی میں ہندؤں کی طرف سے دائرکردہ ایف آئی آر اور اس مقدمہ کو جھوٹا قرار دے کر اس کی رپورٹ ہائی کورٹ میں داخل کرادی۔ ہندؤوں کی طرف سے جھمت (jhamat)اور نریش کمار(naresh kumar)،  وکیل پیش ہوئے اور کافی تعداد میں ہندو پنچائیت کمیٹی اور لڑکی کے والدین اور بھائی سب کورٹ میں آئے۔ ان کی طرف سے ہائی کورٹ میں اعتراض داخل کیے گئے کہ :۱:…یہ پٹیشن حیدرآباد میں فائل ہونی چاہیے تھی۔۲:… پٹیشن داخل کرنے والی نابالغ ہے۔ ۳:… اور کہا کہ لڑکی ۱۹۹۷ء میں پیدا ہوئی۔ ۴:… جو سر  ٹیفکیٹ لڑکی نے کورٹ میں پیش کیے جس میں اس کی عمر ۲۰ سال لکھی ہوئی ہے، وہ سب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کینسل کردیئے ہیں، لہٰذا لڑکی کی عمر ۱۷؍ سال ہے، اس لیے اس کا کوئی بھی قانونی حق نہیں ہے۔ ۵:… یونین کونسل سانگھڑ نے بھی پیدائشی سر   ٹیفکیٹ جو جاری کیا تھا، جس میں تاریخ پیدائش ۱۹۹۶ء درج ہے، وہ بھی کینسل کردیا ہے۔ ۶:… لڑکی پیدائشی ہندو ہے اور اسے اسلام کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے اور وہ گیتا ، ایمایان اور مابھارت کی تعلیم حاصل کرتی ہے۔ لڑکی نابالغ ہے، اس کو غیرقانونی مقاصد کے لیے اغوا کیا گیا اور اس کے ساتھ زنا کیا جارہا ہے اور اس کی F.I.R سانگھڑ تھانے میں زیر دفعہ 361,364A,366 تعزیراتِ پاکستان کے تحت درج ہے اور لڑکی نے غیراخلاقی اور خطرناک جرم کیا ہے اور اس مقدمے میں لڑکی سے زبردستی دستخط کروائے گئے ہیں۔ اسی طرح D.I.Gمیرپور خاص اور S.S.P سانگھڑ اور پولیس کی طرف سے جوابات داخل کیے گئے۔ ۷؍مئی ۲۰۱۴ء کو ہائی کورٹ کے جج نے حکم دیا کہ لڑکی کو کورٹ میں پیش کیا جائے، جس پر ایڈووکیٹ جناب منظور احمد مئو راجپوت صاحب نے اعتراض کرتے ہوئے جرح کے دوران جج صاحب کو بتایا کہ لڑکی اکیلی کورٹ میں پٹیشن داخل کرنے آئی،جس وقت وہ کورٹ آئی تھی تو لواحقین کو معلوم نہ تھا کہ لڑکی اس وقت ہائی کورٹ کی عمارت میں موجود ہے، اس لیے اس وقت لڑکی کو کوئی خطرہ نہیں تھا، چونکہ لڑکی کے خاندان کو اور ہندو پنچائیت کمیٹی کے لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ لڑکی اب ہائی کورٹ میں آئے گی تو لڑکی کی جان کو انتہائی شدید خطرہ ہے، لڑکی کے بھائی اور ہندو پنچائیت وخاندان کے لوگ لڑکی پر قاتلانہ حملہ یا قتل یا اغواوغیرہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، اس لیے منظور احمد راجپوت صاحب نے یہ درخواست دی کہ لڑکی کو ۹؍ مئی ۲۰۱۴ء کو مدرسہ سے کمرۂ عدالت تک پولیس کی حفاظت اور اس کی نگرانی میں لایا جائے اور کورٹ اس سے خود معلومات حاصل کرے۔ جس پر ہائی کورٹ کے معزز جج صاحب نے آرڈر پاس کرتے ہوئے ایس ایچ او سائٹ تھانہ کو حکم دیا کہ پٹیشنر یعنی عائشہ کو مکمل تحفظ دیا جائے اور گیارہ مئی ۲۰۱۴ء کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ گیارہ مئی ۲۰۱۴ء کو صبح نو بجے جناب جسٹس شہاب سرکی کی عدالت میں صبح ہی سے کورٹ روم میں عائشہ (پوجا)کے خاندان ، ہندوپنچائیت اور دیگر ہندو تنظیموں کے لوگ اور اس کے دور دراز کے رشتہ دار بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ نوبجنے کے چند منٹ بعد پولیس کے مکمل تحفظ کے ساتھ عائشہ کو کورٹ میں پیش کرنے کے لیے لایا گیا تو منظور احمد مئو راجپوت ایڈووکیٹ صاحب نے عائشہ (پوجا)سے پوچھا کہ کوئی پریشانی تو نہیں؟ آپ آج یہاں سے پوجا بن کر جاؤگی یا عائشہ ہی رہوگی؟ تو عائشہ کا پرسکون جواب تھا کہ:  ’’الحمد للہ عائشہ ہوں اور اگر خدانخواستہ آج میرے خاندان والوں نے مجھے ماردیا تو میرا جنازہ اور میری آخری رسومات مسلمان عقیدے کے مطابق ادا کی جائیں‘‘۔ منظور احمد راجپوت ایڈووکیٹ صاحب لکھتے ہیں کہ میں عائشہ کے ان جملوں کی ادائیگی کے بعد انتہائی مطمئن اور پرمسرت تھا۔ ساڑھے نو بجے کے قریب مقدمے کی سماعت کے لیے جج صاحب نے حکم دیا، سماعت کے چند لمحے بعد معزز عدالت نے حکم دیا کہ یہ جو بچی کٹہرے میں میرے سامنے کھڑی ہے، اس سے کہو کہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں سے ملے، جس پر عائشہ نے اپنے خاندان کے لوگوں، عورتوں، بچوںاور ماں باپ سے کمرۂ عدالت میں ہی ملاقات کی۔ کیس کی سماعت کے دوران لڑکی کے بھائیوں کی طرف سے کچھ کاغذات کورٹ میں پیش کیے گئے، جس میں کہا گیا کہ پوجا کی عمر سترہ سال ہے، بیس سال نہیں ہے، اور وہاں کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آف سانگھڑ کا جاری کردہ ایک عدد لیٹر بھی کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جس کی تحریر تھی کہ عائشہ کا پہلا والا سر  ٹیفکیٹ مسترد کردیا گیا ہے، جس کے مطابق عائشہ کی عمر ۲۰ سال بنتی ہے، جبکہ اس کی اصل عمر ۱۷ سال ہے۔ اسی طرح پیدائشی سر   ٹیفکیٹ بھی سیکرٹری یونین کونسل سانگھڑ نے کینسل کردیا ، لہٰذا بچی کی عمر پیش کردہ کاغذوں کے مطابق ۱۷؍ سال ہے، نابالغ بچہ اسلام قبول نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کا آئینی طور پر حق حاصل مجاز ہے۔  جس پر منظور احمد راجپوت صاحب نے اپنی باری پر دلائل پیش کرتے ہوئے معزز عدالت کو بتایا کہ آئین پاکستان کی ۱۹۷۳ء کی شق نمبر : ۲۰ کے تحت ہر پاکستانی کو آئینی طور پر کسی بھی مذہب کو قبول کرنا ، اس کا پرچار کرنا، ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ حضرت علی q نے آٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور مدینہ منورہ میں ایک یہودی بچہ نے چھوٹی عمر میں اسلام قبول کیا، صحیح بخاری کا حوالہ پیش کیا، اس کے علاوہ کتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جنہوں نے بچپن میں اسلام قبول کیا۔ پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین میں لکھا ہے کہ قرآن وسنت کے متصادم کوئی قانون نہیں بنے گا۔ لہٰذا آئین کے مطابق عائشہ نے باہوش وحواس درست اسلام قبول کیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق عائشہ کا قانونی حق ہے کہ آئین پاکستان کی پاسداری کرتے ہوئے اس کی قانونی آزادی اور مذہبی آزادی کی حفاظت کی جائے۔ دو گھنٹے کی طویل بحث کے دوران عائشہ ( پوجا) اپنے ماں باپ ، بہن، بھائی اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ بیٹھی رہی، عدالت نے حکم دیا کہ ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ سماعت ہوگی۔ معزز جج صاحب کورٹ روم سے چیمبر میں چلے گئے۔ چیمبر میں جانے کے دس منٹ بعد جج صاحب نے عائشہ کو اکیلے اپنے چیمبر میں بلایا اور آدھے گھنٹے تک ملاقات کے بعد عائشہ چیمبر سے کورٹ روم میں واپس آگئی، جہاں اس کے والدین ودیگر رشتہ دار موجودتھے۔ عائشہ نے اپنے وکیل منظور احمد راجپوت ایڈووکیٹ صاحب کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ: مجھے پانی پلادیجئے، تو اس کے لیے فوراً پانی کا بندوبست کیا گیا۔ اس دوران عائشہ کے ایک بھائی اور ماں نے کہا کہ ہم آپ کو جوس اور پانی پیش کررہے ہیں، یہ پی لو ، جس پر عائشہ نے کہا کہ: ’’میں مسلمان ہوں اور مسلمان کے ہاتھ سے ہی پانی پیوں گی‘‘، جس پر عائشہ کی ماں نے کافی واویلا کیا، جس پر کورٹ کے اہلکاروں اور پولیس نے تنبیہ کی کہ یہ کمرۂ عدالت ہے، اس کے تقدس کا خیال کیا جائے۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد معزز جج صاحب واپس کمرۂ عدالت میں آئے اور عدالتی کارروائی شروع ہوئی اور معزز عدالت نے حکم جاری کیا کہ: ’’ عمر کا تعین کرنا آئینی پٹیشن میں یا اس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین کے مطابق شق نمبر : ۲۰ کے تحت مذہبی آزادی ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے اور جو دستاویزات ہندو برادری کی طرف سے پیش کی گئی ہیں، یہ ایک ہندو ایم این اے کی طرف سے اپنے علاقے کے لوگوں پر دباؤ کی بنیاد پر تیار کی گئی ہیں، کیونکہ ان کا دباؤ مختلف اداروں پر ہوتاہے، لہٰذا آرٹیکل: ۱۹۹ کی سب شق نمبر: ۲ کے تحت ان دستاویزات کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ عائشہ کا بنیادی حق ہے، اس بات سے قطع نظر کہ عائشہ کی عمر ۱۷ سال ہے یا بیس سال ہے، یہ اس کا آئینی اور بنیادی حق ہے ۔ اور معزز جج صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ لڑکی کو میں نے چیمبر میں بلایا، اس سے مختلف سوالات کیے کہ کیا آپ واپس اپنے خاندان میں جانا چاہتی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے بغیر کسی دباؤ کے اسلام قبول کیا ہے، اور جج صاحب نے اپنے ریمارکس میں لکھا ہے کہ میں نے عائشہ سے بہت سارے اسلام کے متعلق سوالات کیے تو عائشہ نے تمام اسلامی سوالوں کے جواب اعتماد کے ساتھ اور درست دیئے اور کہا کہ میں اپنی خوشی سے جامعہ بنوریہ مدرسہ میں بڑے سکون سے دین اسلام کی تعلیم حاصل کررہی ہوں، جہاں اور بہت ساری بچیاں بھی دین کی تعلیم حاصل کررہی ہیں اور جج صاحب نے کہا کہ ہم آپ کو اگر کچھ دنوں کے لیے دارالامان بھیج دیں تو جواب میں عائشہ نے کہا: میں اسلامی تعلیم حاصل کررہی ہوں، اور اسلامی طریقے سے رہ رہی ہوں اور اپنی زندگی بلاخوف وخطر گزاررہی ہوں، لہٰذا جج صاحب نے اپنے حکم میں لکھا کہ لڑکی نے اسلام اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے قبول کیا ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں دوبارہ اپنے والدین کے ساتھ ان کے گھر نہیں جانا چاہتی اور مدرسے میں ہی رہوں گی۔  جج صاحب نے اپنے حکم میں مزید تحریر کیا کہ: ’’عائشہ مدرسے میں ہی تعلیم حاصل کرے گی اور پاکستان میں موجود تمام محکمے عائشہ کو تحفظ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، کوئی عائشہ کو اسلام قبول کرنے کے بارے میں ہراساں نہیں کرے گا ۔‘‘ اور عائشہ کی ماں کو کہا گیا کہ آپ جب بھی چاہیں عائشہ سے ملاقات کے لیے مدرسہ میں جاسکتی ہیں۔ مدرسے میں کوئی بھی شخص عائشہ کو مارپیٹ اور بدتمیزی سے پیش نہیں آئے گا۔ عائشہ کے خاندان والوں کی طرف سے اگر کوئی ایسا وقوعہ ہوا تو اس کے خلاف عدالت سخت قانونی کارروائی کرے گی۔ مقدمے کا فیصلہ عائشہ (جن کا سابقہ نام پوجابائی تھا) کے حق میں تحریر کیا گیا، عائشہ کو واپس جامعہ بنوریہ سائٹ‘ پولیس کے تحفظ کے ساتھ روانہ کردیا گیا۔الحمد للہ!

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین