بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

سنت ہی راہِ نجات ہے!


سنت ہی راہِ نجات ہے!


ترکِ سنت اور سنت کو ہلکا سمجھنے کا انجام کیا نکلتا ہے، اس کے متعلق شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ تحریر فرماتے ہیں: 
ـــ’’ جو شخص آداب میں سستی کرتا ہے، وہ سنت سے محرومی کی مصیبت میں مبتلا کیا جائے گا اور جو سنت میں سستی کرتا ہے اور اُسے ہلکا سمجھتا ہے، وہ فرائض کے چھوٹنے کی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور جو فرائض میں سستی کرتا ہے اور اُسے خفیف سمجھتا ہے، وہ معرفتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے۔ ‘‘ 
’’ من تھاون بالآداب عوقب بحرمان السنۃ، ومن تھاون بالسنۃ عوقب بحرمان الفرائض، ومن تھاون بالفرائض عوقب بحرمان المعرفۃ ۔‘‘ (عزیزی، ج: ۱، ص:۹۸۴)
سنت 
’’وہ کام جس کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ، خلفا ء راشدینؓ اور صحابہ کرام ] نے کیا ہو اور اس کی تاکید کی ہو۔‘‘                                             ( فتاویٰ رحیمیہ، ج:۱، ص: ۱۹۱)
مسئلہ 
سنتِ مؤکدہ کو تر ک کرنا مکروہِ تحریمی ہے اور سنتِ غیر مؤکدہ کو ترک کرنا مکروہِ تنزیہی ہے ۔ 
                                                             (ردالمحتار، ج : ۱، ص:۴۳۹) 
 ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ  رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ   وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ‘‘                                              (سورۃ الاحزاب : ۲۱) 
’’تمہا رے لیے رسول اللہ(  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت) میں عمدہ نمونہ موجود ہے اس شخص کے لیے جو اللہ اور روزِ آخرت کی اُمید رکھتا ہے (اللہ کے ثواب، اس کی ملاقات اور نعمتِ آخرت کا امیدوار ہے) اور اللہ کی بہت یاد کرتا ہے۔‘‘
فائدہ :.....     رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات منبع البرکات بہترین نمونہ ہے، چاہیے کہ ہر معاملہ، ہر ایک حرکت وسکون اور نشست وبرخاست میں ان کے نقشِ قدم پر چلیں اور ہمت واستقلال وغیرہ میں ان کی چال سیکھیں۔                                                                (عثمانی : ۵۵۹) 
’’وَمَآاٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ  وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ  شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘                                                              (الحشر:۷)
’’اور جو دے تم کو رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سو تم لے لو اور جس چیز سے منع کرے سو چھوڑدو اور ڈرتے رہو اللہ سے، بے شک اللہ کا عذا ب سخت ہے ۔ ‘‘
فائدہ :.....     یعنی مال جائداد وغیرہ جس طرح پیغمبر اللہ کے حکم سے تقسیم کرے اُسے بخوشی ورغبت قبول کرلو، جو ملے لے لو، جس سے روکا جائے رُک جائو اور اسی طرح اس کے تمام احکام اور اوامرو نواہی کی پابندی رکھو۔                                                       ( عثمانی : ۷۲۵)
۳:- ’’ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ  وَاللّٰہُ  غَفُوْرٌ  رَّحِیْمٌ‘‘                                                             (آل عمران : ۳۱ )
فائدہ :.....     اطاعت‘ فرمانبرداری اور حکم ما ننے کو کہتے ہیں ۔ اتبا ع اپنے مقتدا کے پیچھے چلنے کو اور اس کی راہ اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ غیر مسلمین کو تو اس آیت میں تنبیہ ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے جو اللہ کے ساتھ محبت کے بھی دعویدار ہیں اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت کا بھی بڑھ چڑھ کر دعویٰ کرتے ہیں، لیکن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع اور اطاعت سے دور ہیں، کا روبار بھی حرام ہے، پھر بھی اللہ و رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت ہے۔ داڑھی منڈی ہوئی ہے، پھر بھی محبت کا دعویٰ ہے۔ لباس نصرانیوں کا ہے، پھر بھی مدعیانِ محبت ہیں۔ ملکوں کو کا فروں کے قوانین کے مطابق چلاتے ہیں، پھر بھی محبت کرنے والے ہیں۔ یہ محبت نہیں، محبت کا دھوکا ہے اور جھوٹا دعویٰ ہے ۔   (انوا رالبیان، ج:۲، ص:۴۳)
۱:- امام بیہقی  ؒ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت حسان بن عطیہؒ (جو ایک شامی ثقہ تابعی ہیں) سے روایت نقل کی ہے کہ :
’’حضرت جبرئیل  علیہ السلام  جس طرح امام انبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم  پر قر آن کریم لے کر نازل ہوتے تھے، اسی طرح سنتوں کے احکام بھی لے کر آتے تھے۔ ‘‘            ( فتح الباری، ج: ۱۳، ص: ۲۹۱)
۲:- حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: ’’میری اُمت جنت میں داخل ہوگی، مگروہ شخص جس نے انکار کیا اور سرکشی کی وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، پھر پو چھا گیا: وہ کون شخص ہے جس نے انکا ر کیا اور سر کشی کی؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: جس شخص نے میری اطاعت اور فرمانبرداری کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس شخص نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا اور سر کشی کی۔‘‘ (مشکوٰ ۃ، ج: ۱، ص: ۲۷۔ بخاری، ج:۲، ص: ۱۰۸۱)
۳:- حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ : 
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک پورا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس دین وشریعت کے تا بع نہیں ہوتیں جس کو میں خدا کی جانب سے لایا ہوں ۔‘‘      (مشکوٰۃ، ج:۱، ص: ۳۰)
۴:- حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ : 
’’ جس شخص نے میری سنت کو محبوب رکھا اس نے مجھ کو محبوب رکھا اور جس نے مجھ کو محبوب رکھا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔‘‘                             (مشکو ۃ، ج :۱، ص: ۳۰)
۵:- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’میری اُمت کے بگڑنے اور فساد کرنے کے وقت جس شخص نے میری سنت کو مضبوطی سے پکڑا اُس کو سو (۱۰۰) شہیدوں کا ثواب ملے گا۔‘‘                      ( مشکوٰۃ : ج ۱ ۳۰ )
فائدہ :.....     حدیث پاک میں شہید سے مراد وہ شہید ہے جو احیاء دین کے لیے کفار سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جائے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر ہوگا، چنانچہ ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں : 
’’ کالشھید المقاتل مع الکفار لإحیاء الدین بل أکثر۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح، ج:۱، ص:۲۵۰) 
فائدہ :.....     اس کو سو (۱۰۰) شہید وں کا ثواب کیوں ملتا ہے؟ اس کے متعلق شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی  رحمہ اللہ  نے بڑی اچھی بات تحریر فرمائی ہے: 
’’کیوں کہ شہیدِ حقیقی کو جو کفار کے مقابلہ میں لڑ کر شہید ہو‘ زخم کی تکلیف ایک بار اُٹھانی ہوتی ہے، اس واسطے وہ ایک شہید کا ثواب پاتا ہے اور یہ شخص جو ایسے زمانے میں کہ کفار اور فساق کا غلبہ ہورہا ہے، سنتِ نبوی پر چلنے میں ہر طرف طعن وتشنیع کے زخم سے ہر دم جراحتِ جسمانی اور روحانی کے الم اور رنج میں گرفتار رہتا ہے، اس لیے اس کو سو (۱۰۰) شہیدوں کا ثواب ملے گا اور ہمیشہ مومنین نے مفسدین اور بے دینوں کے ہاتھ سے اس طرح کی تکلیف پائی ہے، جیسا کہ فرمایا حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے: 
’’ أشدالناس بلاء الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل۔‘‘ (اربعین فی سنۃ المرسلین، ص: ۴۰۳) 
۶:- حضرت جابر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ  دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم یہودکی حدیثیں سنتے ہیں اور وہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتی ہیں، کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کو لکھ لیں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: کیا تم بھی اسی طرح حیران ہو جس طرح یہودو نصاریٰ حیران ہیں؟ جان لو کہ بلا شبہ میں تمہارے پاس صاف وروشن شریعت لایا ہوں، اگر حضرت موسیٰ  علیہ السلام  زندہ ہوتے تو وہ بھی میری پیروی پر مجبور ہوتے:
’’ولو کان موسٰی حیا ما وسعہ إلا اتباعي ۔‘‘              (مشکوٰۃ، ج:۱، ص:۳۰)
فائدہ :.....      ’’ماوسعہ إلا اتباعي‘‘ یعنی اگر موسیٰ  علیہ السلام  زندہ ہوتے تو اقوال وافعال میں وہ بھی میری ہی پیروی کرتے تو پھر میرے ہوتے ہوئے یہود سے تمہارے لیے فائدہ حاصل کرنا کیسے جائز ہوگا؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : 
’’ وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَکُمْ  رَسُوْلٌ  مُّصَدِّقٌ  لِّمَا  مَعَکُمْ  لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ۔‘‘ [آلِ عمران:۸۱]  ( مشکوۃ، ج: ۱، ص: ۳۱)
۷:- حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: میں نے تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑیں، جب تک تم اُن کو پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوسکتے، وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول ہیں: 
’’ ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ۔‘‘ 
                                                           (مشکوٰۃ، ج: ۱، ص: ۳۱ ) 
۸:- حضرت غضیف بن حارث رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: جب کوئی قوم دین میں نئی بات نکا لتی ہے ( یعنی ایسی بدعت جو سنت کے مزاحم ہو ) تو اس کی مثل ایک سنت اُٹھالی جاتی ہے، لہٰذا سنت کو مضبوط پکڑنا نئی بات نکالنے سے بہتر ہے ۔       ( مشکوٰۃ، ج: ۱، ص:۳۱) 
حضرت حسان بن ثابت  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: پھر وہ سنت قیامت تک اس کی طرف واپس نہیں کی جاتی، یعنی وہ اس سنت کی برکت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتی ہے۔    ( دارمی، ج: ۱، ص:۴۵)
فائدہ :.....     سید جمال الدینؒ سے منقول ہے کہ: اس میں حکمت یہ ہے کہ جس نے آدابِ سنت کی رعایت کی، مثلاً اس کا بیت الخلاء جانا بھی آدابِ سنت کے مطابق ہے تو خدا کی جانب سے یہ توفیق دی جاتی ہے کہ وہ اس سے اعلیٰ سنت پر عمل کرے، چنانچہ توفیقِ الٰہی کا وہی نور اعلیٰ مقامات کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا رہتا ہے، آخر کار وہ منزلِ مقصود تک جا پہنچتا ہے اور جو شخص کسی معمولی سنت کو بھی ترک کرتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ خامی پیدا ہوجاتی ہے، وہ دوسری اعلیٰ و افضل چیزوں کو بھی ترک کرتا رہتا ہے اور اس کی سلامتیِ قلب ترکِ سنت کی ظلمت میں پھنس کر تنزل کرتی رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ مقام‘ مقامِ رَین و طبع تک جاگرتا ہے ۔‘‘                             (مظاہرِ حق جدید، ج: ۱، ص: ۲۱۶)
فائدہ :.....     ملا علی قاری رحمہ اللہ  نے اس موقع پر بڑی اچھی بات کہی ہے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کسل و سستی کی وجہ سے سنت کو ترک کرنا ملامت وعقاب کا باعث ہے اور سنت کو ناقابلِ اعتناء سمجھ کر اس پر عمل کرنامعصیت اور عذابِ خداوندی کا سبب ہے اور سنت کا انکار بد عتی ہونے کا اظہار ہے ۔ 
                                                                      ( مرقاۃ المفاتیح، ج: ۱، ص: ۲۵۶)
۹:- نیز حدیث پاک میں ہے کہ جس نے میری سنت کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ چار باتوں سے اس کی تکریم کرے گا :
1:- نیک لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا کرے گا ۔ 
2:- فاجر بدکار لوگو ں کے دلوں میں ہیبت ڈال دے گا ۔
3:- رزق میں کشادگی کرے گا۔
4:-دین میں پختگی نصیب فرمائے گا۔ (شرح شرعۃ الاسلام لسید علی زادہ، ص: ۸)
۱۰:- حضرت عرباض بن ساریہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے، پھر نہایت بلیغ اور مؤثر انداز میں وعظ فرمایا، جس کی وجہ سے حاضرین کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اوردل لرز اُٹھے، ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو گویا رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے، ہمیں اور بھی نصیحت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: میں تم کو تقویٰ اختیار کرنے اور سننے و فرمانبرداری کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تمہارا امیر حبشی غلام ہو، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، ایسے حالات میں تم پر لازم ہے کہ تم اس طریقے پر جمے رہو جو میرا طریقہ ہے اور میرے بعد ان خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم  کا طریقہ ہے جو ہدایت یافتہ ہیں، تم اس کو مضبوطی سے پکڑو اور داڑھوں سے مضبوطی سے پکڑلو، اور ہر بدعت سے پوری طرح پرہیز کرو، اس لیے کہ دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ، ج: ۱، ص: ۲۹)
۱۱:- امام غزالی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
’’ خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو روز پکارتا ہے کہ کوئی سنت کے خلاف کرے گا تو اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت حاصل نہ ہوگی اور جو شخص سنت کے خلاف بدعت کو ایجاد کرتا ہے اس کی نسبت دوسرے گناہ گار سے ایسی ہے جیسے کسی بادشاہ کی سلطنت کا تختہ اُلٹنے والا کہ اگر کوئی شخص بادشاہ کے کسی ایک حکم میں خلاف ورزی کرے تو بادشاہ کبھی تقصیر معاف کر دیتا ہے، مگر سلطنت کے درہم برہم کرنے والے کو معاف نہیں کرتا۔ یہی حال بدعت ایجاد کرنے والے کا ہے کہ وہ باغیِ سنت ہے۔‘‘                     ( احیاء العلوم، ج:۱، ص: ۸۷)
۱۲:- امام نافع  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ: حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  کے سامنے ایک شخص کو چھینک آئی، اس نے کہا: ’’ الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ‘‘ یہ زائد کلمہ ’’ والسلام علٰی رسول اللہ‘‘ اپنے مفہوم کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے، مگر اس موقع پر چو نکہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پڑھنے کی تعلیم نہیں دی، اس لیے اس اضافے کو نا پسند کرتے ہوئے حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ: حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس طرح تعلیم نہیں فرمائی، بلکہ اس موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم یہ ہے کہ اس طرح کہے: ’’ الحمد للہ علی کل حال ۔‘‘                                                     ( مشکوۃ، باب العطاس ، ج: ۲، ص: ۴۵۶)
۱۳:- حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: جس نے میری سنت کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ جنت میں داخل ہوگا: ’’ من تمسک با لسنۃ دخل الجنۃ ۔‘‘ 
                                                              (کنز العمال، ج:۱، ص:۱۵۵)
۱۴:- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: چھ قسم کے لوگ ہیں جن پر میں لعنت بھیجتا ہوں، ان میں سے ایک ’’ التارک لسنتي‘‘یعنی میری سنت کو چھوڑ نے  والا ہے ۔                                                            ( مستدرک حاکم، ج:۱، ص: ۳۲) 
۱۵:- حضرت ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: میری امت کے اختلاف کے زمانے میں سنت کو جس شخص نے مضبوطی سے پکڑا وہ ایسا ہے جیسے کہ اس نے آگ کی چنگاری ہاتھ میں لی:
’’ المتمسک بسنتي عند اختلاف أمتي کأنہ تقابض علی الجمر ۔‘‘(کنز العمال، ج: ۱، ص:۱۵۵)
۱۶:- حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اگر میری موجود گی میں تمہارے پاس حضرت یوسف  علیہ السلام  تشریف لائے اور تم اس کی پیروی کرکے مجھے چھوڑ دو توگمراہ ہوجاؤ۔                                                   ( کنز العمال، ج:۱، ص: ۱۱۳) 
۱۷:- آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ جب غصہ آئے تو اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جائو اور اگر بیٹھے ہو تو لیٹ جائو، غصہ جاتا رہے گا۔ سیدنا ابوذر غفاری  رضی اللہ عنہ  باغ میں پانی دے رہے تھے، ایک شخص نے ایسی حرکت کی کہ نالی کی پال ٹوٹ گئی اور پانی باہر نکل کربہنے لگا۔ حضرت ابوذر غفاری  رضی اللہ عنہ  کو غصہ آیا، مگر فوراً آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد یاد آگیا، آپ ؓ کیچڑ اور پانی میں بیٹھ گئے، سارے کپڑے لت پت ہوگئے، مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادِ گرامی کی تکمیل میں تاخیر برداشت نہیں کی۔  (مسند امام احمد، ج:۱، ص:۱۵۲)
۱۸:- حضرت علی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: قول بلاعمل کے درست نہیں اور قول و عمل صحیح نیت کے بغیر قبول نہیں اور قو ل وعمل اور نیت کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سنت کے موافق ہو۔
                                                              (کنز العمال، ج :۱، ص: ۱۳۵) 
۱۹:- امیر المومنین حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے عید کے دن عید گاہ میں نمازِ عید سے پہلے ایک شخص کو نفل نماز پڑھنے سے روک دیا، اس نے کہا کہ: اے امیر المومنین! مجھے اُمید ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب نہ دے گا۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: مجھے بھی یقین ہے کہ آ نحضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو کام نہیں کیا یا کرنے کی تر غیب نہیں دی ہے وہ کام عبث ہوگا اور بے کار اور بے فائدہ ہے، پس ڈرہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقے سے مخالفت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ عذاب دے۔ (مجا لس الا برار، ص:۱۲۹، فتا ویٰ رحیمیہ، ج: ۲، ص: ۱۳۵)
۲۰:- حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  جب صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ مذاکرات کے لیے تشریف لے گئے تو اپنے چچا زاد بھائی کے پاس رات کو قیام فرمایا اور صبح مذاکرات کے لیے روانہ ہوئے تو چچازاد بھائی ابان بن سعید بن العاص نے کہا کہ آپ شلوار ٹخنوں سے نیچے کریں، کیونکہ اہلِ عرب اس کو ناپسند کرتے ہیں (حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  کی شلوار سنت کے مطابق نصف ساق ( آدھی پنڈلی) تک ہوتی تھی۔ حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ: میں یہ کام نہیں کر سکتا، کیونکہ ہمار ے آقا  صلی اللہ علیہ وسلم کا اِزار اسی طرح ہوتا ہے، اس کو چاہے کوئی اچھا سمجھے یا برا سمجھے، مذاق اُڑائے یا اس پرطعنے کسے، میں اس کو چھوڑ نے والا نہیں ۔           (کنز العمال، ج: ۱۵، ص: ۱۹۲) 
۲۱:- حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  جب مدینہ پاک سے مکہ مکرمہ جاتے تو ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا کرتے تھے، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ ؓ نے فرمایا کہ: میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہاں آرام فرماتے دیکھا تھا، اس لیے میں بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کرتا ہوں ۔ حضرت نافع رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ: حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بے حد اتباع کرتے تھے، ایک درخت کے نیچے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آرام فرمایا تھا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس درخت کی بڑی نگہداشت کرتے اور اُسے پانی دیا کرتے تھے، تاکہ وہ خشک نہ ہو جائے ۔ (کنز العمال) 
۲۲:- حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے حضرت حثامہ بن ساحق کنعانی  رضی اللہ عنہ  کوروم بھیجا، وہ فرماتے ہیں کہ: میں ہر قل روم کے دربار میں پہنچا اور بے خیالی میں سونے کی کر سی پر بیٹھ گیا، اچانک مجھے خیال آیا کہ کرسی پر بیٹھا ہوں، فوراً اُتر گئے، ہرقل روم ہنسنے لگا اور کہا کہ ہم نے تمہارا اکرام کیا تھا اور تم اُتر گئے، میں نے جواب میں کہا کہ: ’’ إني سمعت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ینھٰی عن مثل ھٰذا ‘‘  میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرمایا ہے ۔              (کنز العمال، ج : ۷، ص:۸۵ ) 
۲۳:-آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم ہے کہ کھانے کی کوئی چیز اگر زمین پر گر جائے تو اس کو چھوڑے نہیں کہ یہ کفرانِ نعمت ہے۔ شیطان اس سے خوش ہوتا ہے، تم شیطان کو خوش مت کرو، بلکہ نوالہ گرگیا ہے تو اس کو اُٹھا کر کھا لو اور مٹی لگ گئی ہے تو اسے صاف کرکے باقی کھالو۔ حضرت حذیفہ  رضی اللہ عنہ  نے شاہی دربار میں نوالہ اُٹھایا تو کسی نے اعتراض کیا تو فرمایا کہ: ’’ أ أترک سنۃ حبیبي لھؤلاء الحمقاء۔‘‘                                                            ( سنت ِحبیب  صلی اللہ علیہ وسلم ، ص: ۲۱۷) 
۲۴:- امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: ’’ إن السنۃ مثل سفینۃ نوح من رکبھا نجٰی ومن تخلف غرق۔‘‘                                                          (شمائل، ص:۴۳) 
سنت کی پیروی حضرت نوح  علیہ السلام  کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جو رہ گیا وہ غرق ہوگیا، یعنی ضلالت اور گمراہی کے گڑھے میں گر گیا۔ 
                                                (فتاویٰ رحیمیہ، ج:۲، ص:۱۹۴۔ شمائل، ص:۴۳)
۲۵:- امام اوزاعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے خواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی زیارت کی اور فرمایا کہ: اے عبدالرحمٰن! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو۔ میں نے عرض کیا: یا اللہ! آپ کے فضل و کرم سے کرتا ہوں، پھر میں نے کہا: اے رب! مجھے اسلام پر موت نصیب فرما، تو ارشاد ہوا: ’’ وعلی السنۃ‘‘ اور سنت پر موت آئے، اس کی بھی دعا کرو ۔  (تلبیسِ ابلیس، ص:۹۔ شمائل، ص:۴۴۔ فتاویٰ رحیمیہ، ج: ۲، ص: ۱۹۴) 
۲۶:- امام ابوداود  رحمۃ اللہ علیہ  کا اتباعِ سنت کا عجیب واقعہ ہے، ایک مرتبہ آپ دریا کے کنارے کھڑے تھے، دریا میں آدھے فرلانگ پر بڑے پانی میں جہاز کھڑا تھا، اس جہاز میں ایک شخص کوچھینک آئی اور آواز امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ  کے کان میں پڑی، آپ نے تین درہم میں کشتی کرائے پرلی، اس میں بیٹھ کر جہاز تک پہنچے اور وہاں جاکر اسے ’’یرحمک اللہ‘‘ کہا، حالا نکہ شرعاً وجوبِ جواب کے لیے مجلس کی قید ہے اور یہاں مجلس نہیں تھی، غیب سے آواز آئی، اے ابوداود! آج تین درہم میں تم نے جنت خریدلی۔                                                (زبدۃ المقصود فی حل قال ابوداود، ص: ۳۶) 
۲۷:- امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: مجھ کو عالم خواب میں ارشاد ہوا: ’’ تمن عليَّ ابن ادریس!‘‘ یعنی مجھ سے کچھ تمنا کرو اے ادریس کے بیٹے!۔ میں نے عر ض کیا: ’’ أمتني علی الإسلام‘‘ مجھے اسلام پر موت نصیب فرما۔ ارشاد ہوا : ’’ وقل و علی السنۃ‘‘ اسلا م کے ساتھ سنت پر بھی مرنے کی تمنا کیجئے۔                                              ( فتاویٰ رحیمہ، ج: ۲، ص: ۱۳۰)
۲۸:- حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی  رحمۃ اللہ علیہ  اتباعِ سنت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : 
’’ أساس الخیر متابعۃ النبي  صلی اللہ علیہ وسلم  في قولہٖ وفعلہٖ‘‘ یعنی سب خوبیو ں کی جڑ جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اتباع ہے آپ کے قول میں بھی اور آپ کے فعل میں بھی ۔ ( الفتح الربانی، ص: ۴۳۸۔ مجلس، ص: ۵۹ ) 
۲۹:- پیشوائے طریقت حضرت جنید بغدادی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: واصل الی اللہ ہونے کے بے شمار طریقے ہیں اور راستے ہیں، مگر مخلوق کے لیے تمام راستے بند ہیں، اس کے لیے صرف وہی راستہ کھلا ہوا ہے جو اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شاہراہ ہے۔                    ( فتاویٰ رحیمیہ، ج: ۲، ص: ۲۹۶ ) 
۳۰:- سنت کی اہمیت کے بارے میں مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک عجیب واقعہ ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت میں ایک بزرگ چشتیہ حاضر ہوکر عرض کرنے لگے: مجھ کو کئی سال نسبتِ حق میں قبض تھا، آپ کے خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور قبض کی شکایت کی تو حضرت خواجہ ؒ کی توجہ اور دعاء سے میر ی حالت بسط سے بدل گئی، آپ بھی کچھ توجہ فرمائیں، کیونکہ حضرت خواجہؒ نے اپنے تمام خلفاء اور مریدین کو آپ کے حوالے کردیا ۔ حضرت مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کے جواب میں فرمایا: میرے پاس تو اتباعِ سنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی ان بزرگ پر حال طاری ہوا اور کثرتِ نسبت اور قوتِ باطنی کے اثرات سے سرہند کی زمین جنبش کرنے لگی۔ حضرت امام ربانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک خادم سے فرمایا کہ طاق میں سے مسواک اُٹھالاؤ، آپ نے مسواک کو زمین پر ٹیک دیا، اسی وقت زمین ساکن ہوگئی اور ان بزرگ کی کیفیت جذبی بھی جاتی رہی۔ اس کے بعد آپؒ نے فرمایا اس بزرگ سے کہ: تمہاری کرامت سے زمینِ سرہند جنبش میں آگئی اور اگر فقیر دعا کرے تو ان شاء اللہ سرہند شریف کے مرد ے زندہ ہوجائیں، لیکن میں تمہاری اس کرامت اور اپنی اس کرامت سے اثنا ء وضو میں بطریقِ سنت مسواک کرنا بدرجہا افضل جانتا ہوں۔                (فتاویٰ رحیمیۃ، ج: ۲، ص:۱۹۵) 
۳۱:- قطب الاقطاب حضرت حما د اللہ ہالیجوی رحمۃ اللہ علیہ  فرما تے ہیں کہ: عمل کے مقبول ہونے کی تین شرائط ہیں :
۱:- عقیدہ کا درست ہونا      ۲:-حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی پیروی     ۳:-اخلاص 
جب عقیدے صحیح نہیں ہوں گے تو تمام نیکیاں برباد ہوجائیں گی اور اگر عقیدے صحیح ہوں، لیکن عمل میں اتباعِ سنت نہ ہو، وہ عمل ضائع ہو جائیں گے، کیونکہ ہر عمل میں اتباعِ سنت لازم ہے اور اگر عقیدے بھی درست ہوں، سنت کے مطابق ہوں، لیکن اخلاص نہ ہو تو وہ عمل بھی برباد ہوجائے گا، کیونکہ ریا عمل کو ختم کردیتا ہے۔                                             ( تحفۃ السالکین، ص: ۶۱۷) 
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو پوری زندگی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین