بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سنتِ طیبہ اور علماء احناف کا استدلالی انداز

سنتِ طیبہ اور علماء احناف کا استدلالی انداز


امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور فقہ حنفی کےبارےمیں آج کل نہیں، بلکہ ایک طویل عرصہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا قرآن وسنت کےساتھ کچھ زیادہ ربط وارتباط نہیں ہے۔ دیگر فقہی مذاہب کی بنسبت اس مذہب میں نصوص کےساتھ اعتناء کم پایا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر تمام مذاہب میں سے یہی وہ مذہب ہے جو کتاب وحدیث کی تعلیمات سے بے بہرہ اور بہت دور ہے۔
اس سوال کے تقریباً تمام تر پہلوؤں پر علمی وتاریخی کام ہوا ہے جو اپنی جگہ قابلِ لحاظ اور لائقِ قدر واحترام ہے، تاہم یہاں اس بات کا ایک اور نقطۂ نظر سے جائزہ لینا مقصود ہے، یہ زاویۂ فکر ایسا ہے جس پر کسی مستقل علمی کام کا تلاش کے باوجود ہمیں کوئی علم نہیں ہوسکا، جبکہ بظاہر یہ پہلو نہایت اہمیت اور توجہ کا متقاضی معلوم ہوتا ہے۔ یہاں جس پہلو سے اس پر گفتگو کرنا مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ اصولی لحاظ سے اس بات کا منصفانہ علمی جائزہ لیا جائے، جس کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ حنفی اصولِ اخذ واستنباط اور ضوابطِ فقہ واستخراج کو لےکر دیگر مذاہب کے اصول وقواعد سے اس کا مقارنہ اور موازنہ کرلیا جائے۔
 تاہم اس موازنہ ومقارنہ کا یہ مقصود ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ دیگر مذاہب یا ان کے عالی مقام اور گراں قدر ائمہ مجتہدین کی مساعی کو غلط، بےوقعت یا بے سود ثابت کیاجائے، یہ تو کھلی ہوئی گمراہی کی چوکھٹ ہے، جہاں سے قدم بڑھاتے ہی گمراہی کےتاریک مکان میں انسان داخل ہوجاتاہے، بلکہ مطلوب صرف یہ دکھاناہے کہ جس طرح دیگر مذاہب سے متعلق یہ الزام عائد کرنا بجا طور پر غلط تصور کیاجاتاہے کہ وہ قرآن وحدیث سے دور ہیں، اسی طرح مذہبِ حنفی کے متعلق یہ فردِ جرم عائد کرنا بے جا اور بالکل بے جا ہے، جس سے احتراز کرنا علمی، اخلاقی اور سیاسی ہر سطح پر ضروری ہے۔
یہاں نمونےکےطور پر دس اصول وضوابط کا جائزہ لیا جاتا ہے جس میں اصولیین احناف اور دیگر اصولیین یا محدثین کے موقف کا جائزہ لیاجائے گا کہ ان میں سے کس ضابطے کےتحت زیادہ سے زیادہ احادیث پر عمل کیا جاتا ہے۔(۱)

پہلا ضابطہ: مراسیل حجت ہیں یانہیں؟

حنفیہ اور محدثین کی مرسل کی تعریف وتحدید میں رائے مختلف ہے، جس کاحاصل یہ ہے کہ محدثین کےنزدیک مرسل اسی کو کہاجاتاہے جس میں کوئی تابعی‘ صحابیؓ کا واسطہ چھوڑ کر براہِ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف حدیث منسوب کرکے بیان کرے، جبکہ حنفیہ کے نزدیک مرسل میں جس طرح یہ صورت داخل ہے، یوں ہی اگر تابعی سے نچلے درجے کا راوی درمیان میں واسطہ چھوڑدے، وہ بھی مرسل کےتحت داخل ہے۔ پھر مرسل حجت ہے یانہیں؟ اس میں حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قرونِ خیر کا مرسل قابلِ احتجاج ہے اور بعد کے ادوار میں ارسال کرنےوالےکو دیکھا جائے، اگر وہ ثقہ ہو اور ثقہ ہی سےروایت کررہا ہو تو اس کی روایت قبول ہوگی، ورنہ نہیں۔ محدثین مجموعی طور پر مرسل کو قابلِ احتجاج نہیں سمجھتے۔ بعض اس کو مختلف شرائط کےساتھ قبول کرتےہیں ۔
احادیث واخبار کےباب میں بلا مبالغہ سیکڑوں روایات ایسی ہیں جو مرسل ہیں، بلکہ علامہ کوثری رحمۃ اللہ علیہ  کے الفاظ میں ایک تہائی روایات مراسیل کے تحت داخل ہیں۔ اب جب حنفیہ کےنزدیک مرسل حجت اور قابلِ عمل ہے، تو لامحالہ ان سب روایات پر عمل ہوجائےگا اور جن محدثین کے نزدیک مرسل حجت نہ ہو، وہ ان روایات پر عمل کرنےسے قاصر اور معذور ہی ہوں گے۔

دوسرا ضابطہ:زیادتِ ثقہ کاحکم

اگر کوئی راوی سند یا متنِ حدیث میں کوئی ایسی اضافی بات نقل کرے جو دیگر روایت کرنےوالے راوی نقل نہ کرتے ہوں، تو آیا یہ زیادت قبول ہوگی یانہیں؟ اس میں اصولیین اور بعض محدثین کا اختلاف ہے، حنفیہ کا اس سلسلہ میں موقف یہ ہے کہ:
الف: سند میں زیادت مضر نہیں ہے ۔
ب: متن میں اگر کہیں کسی ثقہ راوی کی جانب سے کوئی زیادت نقل ہوجائے تو اگر یہ زیادت اصل روایت کےساتھ بالکل منافات رکھتی ہو اور دونوں کو یکجا جمع کرنے کی کوئی صورت میسر نہ ہو تو اس صورت میں ترجیح کے ضوابط کی طرف جایا جائے گا اوران ہی کی روشنی میں کسی ایک جانب کو ترجیح دے دی جائےگی۔
ج:اگر ایسا تعارض نہ ہو تو پھر اگر معلوم ہوجائے کہ دونوں جانب کی روایات میں ایک ہی مجلس کی بات نقل کی جارہی ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں بھی ترجیح دینے کی ضرورت ہے کہ ایک مجلس میں دونوں قسم کی باتوں کا احتمال مغلوب ہے۔
د:اگر مجلس کے ایک ہونےکا علم نہ ہو تواس کو بھی قبول کردیاجائے گا۔
محدثین کے ہاں اس بارےمیں متعدد آراء پائی جاتی ہیں کہ ثقہ راوی کی زیادت قبول ہوگی یا نہیں؟ جس کی تفصیل ’’مصطلح الحدیث‘‘ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ اب جن حضرات کے نزدیک زیادتِ ثقہ مطلقاً قبول نہیں ہے یا مشروط طور پر قبول ہو اور وہ شرائط درج بالا تفصیل کی بنسبت کم پائے جاتے ہیں، ان کے مقابلے میں احناف کے اصولِ حدیث کے مطابق زیادہ روایات پر عمل کی نوبت آجاتی ہے۔

تیسرا ضابطہ: مجہول راوی کی روایت کا حکم

محدثین کرام کے نزدیک حدیث کے قبول نہ کرنےکےمتعدد اسباب میں سے ایک سبب راوی کی جہالت بھی ہے۔ راوی کی جہالت کا معیار ومدار کیا ہے؟ اس میں حنفیہ اور محدثین کی رائے مختلف ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک جہالت میں راوی کی روایات کا اعتبار ہے، جس راوی سے ایک آدھ روایت ہی منقول ہو، وہ مجہول کہلاتا ہے، چاہے اس سے اخذ ونقل کرنےوالے افراد زیادہ ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ محدثین کے نزدیک اس کا معیار یہ ہے کہ اس سے روایت کرنےوالے راوی کم ہوں، اگر ایک ہی راوی اس سے روایت کرتا ہے تو وہ مجہول العین ہوگا اور اگر اس سے زیادہ راوی نقل کرتے ہوں، لیکن اس کی عدالت وثقاہت معلوم نہ ہو تو وہ مستور کہلائے گا۔
 پھر مجہول راوی کی روایت کا کیاحکم ہوگا؟ تو محدثین کرام کے نزدیک راوی کا مجہول ہونا اس کی روایت کے نا مقبول ہونے کا باعث ہے، جبکہ حنفیہ کےنزدیک اس میں تفصیل ہے، جس کاحاصل یہ ہے کہ قرونِ ثلاثہ میں اگر کوئی راوی مجہول ہو، لیکن سلف نے اس پر طعن نہ کیا ہو تواس کی روایت قابلِ احتجاج ہے، اور اگر علماءِسلف نے اس کی روایات میں کوئی جرح یا اختلاف کیا ہو، یا اس کی روایت اس زمانے میں بالکل ہی مشہور نہ ہو تو ان دونوں صورتوں میں بھی اس کی روایت بالکل رد نہ ہوگی، بلکہ قیاس کے موافق ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا۔ اور قرونِ ثلاثہ کے بعد چونکہ فسق وکذب عام ہونے لگا تھا، اس لیے اس کے بعد اگر مجہول راوی کی روایت قابلِ استدلال واحتجاج نہیں ہے۔
اس ضابطہ کے مطابق وہ تمام روایات، جن میں مجاہیل راوی موجود ہوں اور ان کا تعلق قرونِ ثلاثہ سے ہو (جیساکہ عام طور پر ایسا ہی ہوتاہے)، داخل ہوجاتےہیں اور حنفیہ کے ضابطے کے مطابق وہ قابلِ احتجاج ثابت ہوجاتے ہیں، جبکہ دیگر محدثین کرام کے ہاں ایسی تمام روایات ناقابلِ قبول بن جاتی ہیں۔

چوتھا ضابطہ: قراءاتِ غیر متواترہ

شوافع وغیرہ بہت سے محدثین کا موقف یہ ہے کہ جو قراءت متواتر نہ ہو، وہ شرعاً حجت نہیں ہے، جبکہ حنفیہ کے نزدیک ایسی تمام قراءات بھی حجت ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے اور ان سے شرعی احکام ثابت ہوتے ہیں، شرط یہ ہے کہ وہ اسنادی طور پر ثابت ہو، گو خبرواحد کے طریق ہی پر کیوں نہ ہو۔
اس ضابطہ کی وجہ سے حنفیہ متعدد قراءات پر عمل کرلیتےہیں، گو تواتر کے ساتھ ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو قرآن نہیں سمجھتے، جبکہ دیگر محدثین اس پر عمل نہیں کرتے۔

پانچواں ضابطہ:حدیث کی وجہ سے آیت کو منسوخ سمجھنا

اگر کوئی حدیث متواترکا قرآن کریم کی کسی آیت سے تعارض پیدا ہوجائے اور نسخ کے بغیر اس تعارض کے حل کرنےکا کوئی طریق موجود نہ ہو، تو اس صورت میں جس طرح آیتِ کریمہ کی وجہ سے حدیث کو منسوخ قرار دیا جاسکتا ہے، یوں ہی حدیث کی وجہ سے آیتِ کریمہ کو بھی منسوخ قرار دیاجاسکتا ہے، ناسخ ومنسوخ کی علامات کو دیکھاجائےگا اور جہاں ناسخ ہونے کا کوئی قابلِ اعتماد قرینہ موجود ہو، اسی کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ سمجھا جائے گا۔ حاصل یہ ہے کہ آیتِ کریمہ سے محض تعارض قائم ہونے کی وجہ سے حدیث کو منسوخ سمجھنا درست نہیں ہے۔ یہ حنفیہ کا موقف ہے، جبکہ شوافع اور بہت سے محدثین کا مسلک یہ ہے کہ: حدیث کی وجہ سے آیت کو منسوخ سمجھنا درست نہیں ہے، اور جہاں کہیں ایسا تعارض دکھائی دے، وہاں بہرحال حدیث ہی کو رد کردیا جائے گا۔
اس ضابطہ کی بنا پر بھی حنفیہ ایسے متعدد روایات پر عمل کرسکتے ہیں، جن کو دیگر ائمہ محدثین قابلِ اعتناء نہیں سمجھتے۔

چھٹا ضابطہ: قولِ صحابیؓ کی حجیت کا مسئلہ

اگر کسی صحابیؓ سے کوئی ایسا قول منقول ہو جس میں رائے واجتہاد کا دخل نہ ہو توحنفیہ کےنزدیک ایسا قول بھی حجت ہے، جس سے شرعی احکام بھی ثابت ہوسکتے ہیں، اورا س کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جب عقل وقیاس کا دخل نہیں ہے تو ضرور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سنا ہوگا، اسی بنیاد پر فقہائے احناف اس کو ملحق بالسنۃ کہتے اور سمجھتےہیں، جبکہ شوافع وغیرہ بہت سے محدثین کے نزدیک یہ حجت نہیں ہے۔
یہ ضابطہ بھی ایسا ہے جس کی بنا پر حنفیہ کو بیسیوں ایسی روایات پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہوجاتی ہےجن کو دیگر بہت سے محدثین ناقابلِ احتجاج گردانتےہیں۔ (۲)

ساتواں ضابطہ: قواعدِ عامہ کی پابندی کرنا

اگر کوئی خبر واحد دین وشریعت کے عام قواعد اور ضوابط کے خلاف ہو تو حنفیہ کے نزدیک ایسی روایت قابلِ عمل نہیں ہوتی اور محض اس ایک خبر کی وجہ سے ان قواعد کو چھوڑنا درست نہیں ہوتا جو دسیوں نصوص سے مستنبط ومستفاد ہوتے ہیں۔ یہی وہ ضابطہ ہے جس کی وجہ سے فقہائے حنفیہ سمیت فقہاء ومجتہدین پر طعن وتنقید کے نیزے چھوڑے جاتے ہیں۔ علامہ البانی وغیرہ حضرات نے حنفیہ کو جن مسائل پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ حدیث کےخلاف ہیں، ان میں سے تقریباً چوتھائی یا تہائی ان روایات کی ہے جن کو حنفیہ نے اسی ضابطہ کے تحت قابلِ احتجاج نہیں گردانا۔ 
انصاف وعقل مندی سےکام لےکر غور کیاجائے تو اس ضابطہ کی وجہ سے فقہائے کرام کا احادیث وروایات پر عمل کرنا کم نہیں ہوتا، بلکہ زیادہ ثابت ہوتا ہے، اس ضابطہ کی پابندی کی وجہ سے ان پر یہ فردِ جرم عائد نہیں ہوتا کہ وہ محض رائے کی وجہ سے صحیح روایات واخبار کو رد کردیتے ہیں، بلکہ زیادہ روایات پر عمل کرنے کی وجہ سے ان کو داد دینی چاہیے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جن چیزوں کو قواعدِعامہ کی فہرست میں شامل کرتےہیں، وہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جو ایک دو، یا تین چار روایات سے مستفاد نہیں ہوتی، بلکہ بیسیوں نصوص اس پر دلالت کررہی ہوتی ہےاور انہی نصوص کی روشنی میں اس کا استخراج واستنباط کیا جاتا ہے، اب جب کوئی خبر واحد ایسے قاعدے کےخلاف آجائے اور گو وہ اسنادی لحاظ سے صحیح یا حسن بھی ثابت ہوجائے تو بھی اس پر عمل کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اس ایک روایت کی وجہ سے بیسیوں نصوص کے مقتضا پر عمل کرنا چھوڑدیاجارہاہے۔
 اس کے بالمقابل اگر ان قواعدِ عامہ کو مضبوطی سے تھامے رکھا جائے اورخبر واحد کو اس کےعلاوہ کسی ممکنہ محمل پر حمل کرلیا جائے تو دونوں قسم کے نصوص پر عمل کرنے کی نوبت آجاتی ہے اور حنفیہ عام طور پر ایسا ہی کرتے ہیں، اور اگر کہیں ایسے معارض خبر واحد کو بالکل بھی قابلِ احتجاج نہ قرار دیا جائے تو بھی یہ حدیث پر عمل چھوڑنا نہیں ہوگا، بلکہ حدیث کے ثابت ہونے سے انکار کرنا ہے۔

آٹھواں ضابطہ: قیاس سےاستنباط واستفادہ

علامہ ابنِ قیم  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ متعدد اہلِ علم نے حنفیہ کے متعلق یہ صراحت کی ہے کہ وہ قیاس کے مقابلہ میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنے کے قائل اوراس پر عامل ہیں اور اس کی متعدد مثالیں بھی ذکر فرمائی ہیں، لیکن بظاہر یہ بات اصول کے خلاف معلوم ہوتی ہے اور جن احادیث سے استدلال کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے، ان کا یا تو واحد مستدل ہونا یقینی نہیں ہے اور یا ان کا ضعیف ہونا اتفاقی نہیں ہے، چنانچہ یہ بھی ضابطہ ہے کہ مجتہد کا کسی حدیث سے استدلال کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حدیث اس کے نزدیک صحیح یا کم از کم حسن لغیرہٖ ہے، کیونکہ اس سے نچلے درجے کی روایت شرعی احکام ومسائل کے ثابت کرنےمیں حجت نہیں ہے، جبکہ شرعی قیاس کا حجت ہونا تقریباً تمام اہلِ حق کے نزدیک ایک اتفاقی مسئلہ ہے، لہٰذا ایک اتفاقی حجت کو غیر حجت (ضعیف حدیث) کی خاطر چھوڑنا کہاں درست ہوسکتا ہے؟!
بہرحال حنفیہ کا ضابطہ یہی ہے کہ حدیث ضعیف اور ناقابل احتجاج ہو تو قیاس کی طرف جاتےہیں اور وہیں سے شرعی احکام کا استنباط واستخراج کرتےہیں، جبکہ بعض محدثین اور منکرینِ قیاس اس بات کی تحقیق میں پڑے بغیر روایت پر عمل کرتے ہیں۔ اس ضابطے کے مطابق بھی حنفیہ کا زیادہ روایات ونصوص پر عمل کرنا ثابت ہوجاتا ہے، کیونکہ خود قیاس کی حجیت بیسیوں نصوص سے ثابت ہے تو ایسے موقع پر قیاس کی طرف جانا اور اصول کی روشنی میں اس کے ذریعے شرعی احکام کا استنباط کرنا ان تمام نصوص پر عمل کرنےکے مترادف ہے جو قیاس کی حجیت پر دلالت کرتے ہیں، جبکہ اس کے بالمقابل اگر روایت کو لیاجائے تو ان روایات پر عمل کرنےکی نوبت نہیں آتی۔
اس اجمالی اور مختصر جائزے سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کے اصولِ فقہ کی رو سے زیادہ سے زیادہ احادیث وروایات پر عمل کرنے کی نوبت آجاتی ہے اور ان پر یہ الزام لگانا کسی طرح درست نہیں ہے کہ وہ قرآن وحدیث کے سمجھنے یا اس پر عمل کرنےکے سلسلے میں قصداً کوتاہی وغفلت کرتے ہیں یا محض اپنی رائے وخیال کی بنیاد پر صحیح احادیث کو بھی رد کردیتےہیں۔

امام سرخسی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تحقیق
 

امام سرخسی  رحمۃ اللہ علیہ  کیا خوب فرماتےہیں:
’’وأصحابنا ہم المتمسکون بالسنۃ والرأي في الـحقيقۃ فقد ظہر منہم من تعظيم السّنۃ ما لم يظہر من غيرہم ممّن يدعي أنہ صاحب الحديث، لأنہم جوزوا نسخ الکتاب بالسنۃ لقوّۃ درجتہا وجوزوا العمل بالمراسيل وقدموا خبر المجہول علی القياس وقدموا قول الصّحابيّ علی القياس، لأن فيہ شبہۃ السماع من الوجہ الّذي قررنا، ثمّ بعد ذٰلک کلہ عملوا بالقياس الصّحيح وہو المعنی الّذي ظہر أثرہ بقوتہ۔ فأما الشّافعي رحمہ اللہ حين لم يجوز العمل بالمراسيل فقد ترک کثيرا من السّنن وحين لم يقبل روايۃ المجہول فقد عطل بعض السّنۃ أيضا وحين لم ير تقليد الواحد من الصّحابۃ فقد جوز الإعراض عمّا فيہ شبہۃ السماع .. وتبين أن أصحابنا ہم القدوۃ في أحکام الشّرع أصولہا وفروعہا وأن بفتواہم اتّضح الطّريق للنّاس إلّا أنہ بحر عميق لا يسلکہ کل سابح ولا يستجمع شرائطہ کل طالب، واللہ الموفق ۔‘‘ (۳)
ترجمہ: ’’ہمارے ائمہ حنفیہ ہی سنت اورقیاس پرعمل کرنے والےہیں، کیونکہ جولوگ احادیث پر عمل کا دعویٰ کرتے ہیں، ان سے زیادہ ہمارے ائمہ حضرات سنت اوراحادیث کی قدر کرتے ہیں، کیونکہ ہم ہی بعض آیاتِ قرآن کوحدیث کے ذریعے منسوخ ہونے کے قائل ہیں، مرسل روایات کوقابلِ احتجاج سمجھتے ہیں، مجہول راوی کی روایت کوقیاس پر ترجیح دیتے ہیں، صحابیؓ کے قول کوقیاس پرمقدم جانتے ہیں، کیونکہ اس میں سماع کااندیشہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم قیاس صحیح کوبھی قابلِ عمل سمجھتے ہیں، جبکہ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک ’’مرسل‘‘ قابلِ احتجاج نہیں، اس قاعدہ کی بنیاد پر بہت سی روایات متروک ہوئیں، نیز مجہول راوی کی روایت معتبرنہ سمجھنے کی وجہ سے بھی بہت سی روایات ناقابلِ عمل رہیں، نیز جب وہ اکیلے صحابیؓ کے قول کو قابلِ تقلید اور حجت نہیں سمجھتے توا ن کے نزدیک بالضروربعض وہ اقوالِ صحابہؓ جن میں سماع کاشبہ ہو وہ قابلِ احتجاج نہ رہی۔ بہرحال ائمہ حنفیہ ہی اصولی اورفروعی مسائل میں لوگوں کے لیے رہنماکی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے فتاویٰ سے ہی لوگوں کودینی رہنمائی ہوتی ہے، البتہ فقہ حنفی کی مثال ایک گہرے سمندر کی ہے جس میں ہرغوطہ زن غوطہ نہیں لگاسکتا اور اس راستے کی شرائط پوری کرناہرطالب کاکام نہیں۔‘‘

حضرت مجدد صاحبؒ کی رائے

حضرت مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتےہیں:
’’عجیب معاملہ ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ سنت کی پیروی میں سب سے آگےہیں، حتیٰ کہ احادیثِ مرسلہ کو احادیثِ مسند کی طرح متابعت کےلائق جانتےہیں اور ان کو اپنی رائے پر مقدم کرتےہیں اور ایسے ہی صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے قول کو حضرت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم  کی شرف ِصحبت کے باعث اپنی رائے پر مقدم رکھتےہیں، دوسروں کاحال ایسا نہیں ہے، اس کے باوجود بھی مخالفین ان کو صاحبِ رائے کہتےہیں اورایسے ایسے الفاظ ان کی جانب منسوب کرتےہیں جو بے ادبی کی خبر دیتےہیں۔‘‘(۴)

حضرت شاہ صاحبؒ کا مکاشفہ

حضرت علامہ شاہ ولی اللہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  ’’فیوض الحرمین‘‘ کے مشاہدات میں سے ایک جگہ تحریر فرماتےہیں:
’’عرّفني رسول اللہ صلّی اللہ عليہ وسلّم أنّ في المذہب الحنفي طريقۃ أنيقۃ ہي أوفق الطّرق بالسنّۃ المعروفۃ التّي جُمعت ونقّحتْ في زمان البخاريّ وأصحابہ۔‘‘(۵)
ترجمہ: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو سمجھایا کہ مذہبِ حنفی میں ایک ایسا بہتر راستہ موجود ہے جو تمام طرق میں سب سے زیادہ ان احادیث کے موافق ہے جن کی جمع وتدوین امام بخاریؒ اور ان کے اصحاب کے زمانےمیں ہوئی تھی۔‘‘(۶)

چند ضروری نکات

ائمہ مجتہدین تو بہت بلند مرتبے کی حامل دیدہ ور شخصیات ہیں، کوئی عام سچا مسلمان بھی یہ اقدام نہیں کرسکتا کہ حدیث سے عناد رکھے یا قصداً کسی حدیث پر عمل کرنا چھوڑدے، اس لیے ائمہ مجتہدین اور بالخصوص مذاہبِ اربعہ متبوعہ کے مجتہدین سے متعلق یہ تصور کرنا اونچے درجے کی بدگمانی ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔
بعض اوقات جو اس طرح کی بات سامنے آجاتی ہے کہ مثال کے طور پر کسی مذہب کا کوئی مسئلہ کسی روایت کے ظاہر کے بالکل خلاف اور اس سے واضح طور پر متصادم معلوم ہوجائے تو وہاں بھی جلد بازی سے کام لے کر فیصلہ کرنا بالکل مناسب نہیں ہے، بلکہ درج ذیل نکات کو سامنے رکھ کر انصاف، دیانت داری اور اعتدال کےساتھ غور وفکر سے کام لیاجائے تو معلوم ہوجائے گا کہ جس مجتہد نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، وہ اس سلسلہ میں بالکل معذور ہے اور اس کی تحقیق واجتہاد سے اگر کسی کا اختلاف بھی ہے تو بھی اس کی وجہ سے اس کو نہ حدیث کا دشمن گرداننا درست ہوسکتا ہے اور نہ ہی روایات کے مقابلہ میں اتباعِ ہویٰ کا عادی خیال کرنا جائز ہے۔ وہ نکات یہ ہیں: 

پہلا نکتہ

بعض اوقات یہ جو دیکھنےمیں آتاہے کہ ائمہ مجتہدین کسی روایت پر عمل نہیں کرتے تو اس کی مختلف وجوہات واعذار ہوتے ہیں، علامہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس پر ایک مفید رسالہ رکھاہے، اس میں ائمہ مجتہدین کے ترکِ عمل بالحدیث کے دس اسباب ذکر فرمائےہیں، ان دس اعذار کو گنوانے کے بعد تحریر فرماتےہیں: 
’’فہٰذہ الأسباب العشرۃ ظاہرۃ، وفي کثير من الأحاديث يجوز أن يکون للعالم حجۃ في ترک العمل بالحديث لم نطلع نحن عليہا؛ فإن مدارک العلم واسعۃ ولم نطلع نحن علی جميع ما في بواطن العلماء. والعالم قد يبدي حجتہ وقد لا يبديہا، وإذا أبداہا فقد تبلغنا وقد لا تبلغنا وإذا بلغتنا فقد ندرک موضع احتجاجہ وقد لا ندرکہ سواء کانت الحجۃ صواباً في نفس الأمر أم لا ۔‘‘(۷)
ترجمہ: ’’(کسی روایت پرعمل نہ کرنے اوراسے قابلِ استناد نہ سمجھنے کی) یہ دس ظاہری وجوہات ہیں۔ دیگربہت سی روایات قابلِ استناد نہ سمجھنے کے بارے میں کسی عالم کے لیےان کے علاوہ بھی دیگر بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، جو شاید ہمیں معلوم نہ ہوں، کیونکہ علم کے ذرائع بہت ہیں۔ اور علماء کے دلوں میں جوباتیں ہیں، ہم ان سب پرمطلع نہیں ہوسکتے۔ اہلِ علم بسااوقات اپنی دلیل کااظہارکرتے ہیں، بعض دفعہ نہیں، اورجوذکرکرتے ہیں وہ باتیں کبھی ہم تک صحیح صورت میں پہنچتی ہیں، کبھی نہیں، ان کی جو دلیل ہم تک پہنچے، خواہ وہ دلیل درحقیقت درست ہویاغلط، کبھی توہم اس کی جانچ پڑتال کرسکتے ہیں، بسااوقات نہیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ مجتہد جب بھی اجتہاد کرتاہے تو شرعی دلائل کی روشنی ہی میں کرتا ہے اور اگر وہ کسی روایت سے استدلال نہیں کرتا یا اس کے خلاف موقف اپناتا ہے تو اس کے پاس بھی کچھ شرعی دلائل ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ اس طرح اقدام کرتا ہے، وہ دلائل اگر کسی دوسرے صاحب ِ علم واہلِ اجتہاد کے نزدیک کمزور بھی ہوں تو بھی اس جہاں میں اجتہادی مسائل میں حق وباطل کا یقینی فیصلہ کرنا مشکل ہے، لہٰذا کسی کو ایک ہی موقف کا پابند بنانا حد سے تجاوز اور بابِ اجتہاد کا دروازہ بند کردینےکے مترادف ہے۔

دوسرا نکتہ

حدیث کے حدیث ہونے کا انکار کرنا اور ہے اور حدیث ماننے اور تسلیم کرنےکے باوجود اس پر عمل نہ کرنا اس سے بالکل مختلف اور الگ چیز ہے۔ اب اگر کوئی مجتہد حدیث پر عمل کرنے کےلیے کچھ شرائط وضوابط مقرر کرتاہے اور وہ شرائط اس کے اجتہادی ذوق کے مطابق ضروری ہوں اور پھر کوئی حدیث ان ضوابط کے مطابق پایۂ ثبوت کو نہ پہنچے تو اس صورت میں یہ کہنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ فلاں مجتہد فلاں حدیث پر عمل نہیں کرتا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے نزدیک وہ نقل پایۂ ثبوت کو نہ پہنچنے کی وجہ سے حدیث ہے ہی نہیں ۔

تیسرا نکتہ
 

کسی بھی مستند عالم کا یہ موقف نہیں ہے کہ جو بھی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرکے کہی جائے، وہ حدیث ہے اور اس پر عمل کرنا بہر حال ضروری ہے، بلکہ محدثین کرام ہوں یا فقہاء عظام، دونوں حضرات کے نزدیک اس کے لیے کچھ شرائط وضوابط مقرر ہیں جن پر جانچ پرکھ کر وہ یہ فیصلہ کرتےہیں کہ فلاں بات جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسوب کرکے روایت کی جارہی ہے، وہ واقعۃً حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بات ہے یانہیں؟ اس نوعیت کی جو شرائط اورضوابط مقرر کیے گئے ہیں، وہ تمام منصوص نہیں ہیں، بلکہ ہر جماعت کے علمی واجتہادی ذوق کا نتیجہ ہیں اور اس میں اختلاف کا ہونا نہ بعید ہے اور نہ مذموم، لہٰذا جس طرح محدثین کی شرائط پر پورانہ اُترنے والی روایت پر عمل چھوڑنا حدیث پر عمل نہ کرنے کے مترادف نہیں ہے، یوں ہی فقہاء کرام کو بھی اس بات کا حق حاصل ہے اور ان کے ضابطہ کے مطابق اگر کوئی روایت پایۂ ثبوت واحتجاج تک نہیں پہنچتی تو اس پرعمل نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حدیث پر عمل نہیں کرتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی خبرِ واحد کا شرائطِ قبول پر پورا نہ اُترنا اور اس کی وجہ سے اس پر عمل نہ کرنا ’’ردِحدیث‘‘ نہیں کہلاتا، جس طرح تواتر کا انکار، قرآنیت کا انکار، قطعیت کا انکار‘ متواتر، قرآن اور قطعی کا انکار نہیں کہلاتا، یوں ہی ضابطۂ ثبوت پر پورا نہ اُترنے والی روایت پر عمل نہ کرنا حدیث پر عمل نہ کرنے کے مترادف نہیں ہے۔

چوتھا نکتہ

جس طرح ثابت شدہ حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کرنا روا نہیں ہے، یوں ہی غیر ثابت شدہ نقل کو حدیثِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سمجھنا اور اس کو شرعی حجت کا درجہ دےکر احکام کا استنباط کرنا بھی نہایت نزاکت کا حامل ہے اور اس میں بھی تغافل برتنا جائز نہیں ہے، دونوں پہلوؤں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

پانچواں نکتہ

یوں تو ہر مسلمان پر حسنِ ظن رکھنے کی تعلیم وہدایت کی گئی ہے اور بلا وجہ کسی مسلمان پر بھی بدگمانی کرنا درست نہیں ہے، لیکن ائمہ مجتہدین اور حضرات اہلِ علم کےساتھ بالخصوص اس بات کا اہتمام کرنا ضروری ہے، اور مسلمان ہونے کے ناطے اس سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے کہ حدیث کو حدیث سمجھنے کے باوجود محض اتباعِ ہویٰ جیسے عناصر کی وجہ سے اس پر عمل نہ کیا جائے یا بلا وجہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو رد کردے، اس لیے اگر کسی مجتہد کا کوئی ایسا اجتہاد سامنے بھی آئے جو بظاہر کسی روایت سے متعارض ہو، تو بھی ان کے بارےمیں بدگمانی سے بچنا اور بچتے رہنا ضروری ہے۔
یہ چند باتیں ہیں جن پر اگر انصاف اور دیانت داری کےساتھ غور وفکر کیاجائے اور عملی طور پر اس کا اچھی طرح اہتمام کیا جائے تو اُمید ہے کہ مفید ثابت ہوں گی اور بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔

حواشی وحوالہ جات

۱-  یہاں اجمال واختصار کو پیش نظر رکھ کر چند اصولی نکات کا ذکر کرنا مقصود ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ علم اصولِ فقہ وحدیث کا کوئی متخصص اس کو مستقل تالیف ومقالہ کا موضوع بنائے اور حنفیہ کے اصولِ اخذ واستنباط کے ساتھ ساتھ محدثین اور دیگر مذاہبِ متبوعہ کے اصول کو لے کر مقارنہ کیا جائے اور ساتھ ان روایات کا بھی اپنی حد تک استقراء وتتبع کرے جو ان ضوابط پر عمل کرنے کی صورت میں زیرِ عمل آجاتے ہیں، تاکہ بات پوری طرح منقح اور صاف ہوجائے۔ البتہ موضوع چونکہ اہمیت کےساتھ ساتھ نزاکت کا بھی حامل ہے، اس لیے قدم قدم پر پورے ادب واحترام کا پاس ولحاظ رکھنا ضروری ہے کہ بحث ومناقشے کے دوران حضرات محدثین کرام اور دیگر ائمہ مجتہدین کی شان میں کوئی نازیبا لفظ سامنے نہ آئے۔ 
۲-  یہاں مکرر یہ عرض ہے کہ اس سے شوافع یا دیگر محدثین پر رد وقدح یا جرح وتعریض کرنا ہرگز مقصود نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے بچائے رکھے اور ائمہ دین کے ساتھ دل وجان سے ادب کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ وہ حضرات ان روایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار یا مطعون نہیں ہیں، کیونکہ وہ اپنے اجتہادی ذوق کے مطابق ان جیسے امور کو حدیث سمجھتےہی نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس میں کسی فریق پر رد وقدح کرنا کسی طرح روا نہیں ہے۔
۳ -  أصول السرخسي:۲/ ۱۱۳
۴-  مکتوبات، دفترِ دوم، مکتوب نمبر:۵۵
۵-  فیوض الحرمین، ص:۴۸
۶-  یہاں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ بعض مترجمین حضرات نے نہ جانے اس عبارت کا ترجمہ کیوں اس ڈھنگ سے کیاہے جس کی بدولت عبارت کا اصل مقصود ہی واضح نہیں ہوتا، بلکہ اس کے برعکس مفہوم مترشح ہوتاہے اوراس کی وجہ سے فقہ حنفی سے بلا وجہ ایک قسم کا ذہنی یا عملی بعد پیدا ہوجاتاہے۔
۷-  رفع الملام عن الأئمۃ الأعلام ، ص: ۳۵
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین