بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

سلف صالحین کی اللہ کے سامنے آہ وبکا

سلف صالحین کی اللہ کے سامنے آہ وبکا

 

اللہ تعالیٰ کو بندہ کا آنسو بہانا، ندامت کے ساتھ گریہ وزاری کرنا، خوفِ خدا اور خشیتِ الٰہی سے رونا بہت پسندہے، یہ وہ آنسو ہیں جو دل کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں، روح کو پاکیزہ کرتے ہیں اور بندے کو اس کے رب سے قریب کر دیتے ہیں۔ یہ وہ کیفیت ہے جو ایک مؤمن کے دل میں اللہ کی عظمت، محبت اور خوف کی روشنی جگاتی ہے۔ آنکھوں سے بہنے والے یہ قطرے زمین پر گرنے سے پہلے عرشِ الٰہی تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہیں جب انسان اپنی بے بسی اور کمزوری تسلیم کرتے ہوئے اللہ کے سامنے جھک جاتا ہے۔ 
ان آنسوؤں میں دعاؤں کا درد اور توبہ کی سچائی چھپی ہوتی ہے۔ اللہ کے خوف سے بہنے والے یہ آنسو گناہوں کو دھو دیتے ہیں اور دل کو سکون بخشتے ہیں۔ سلف صالحین کے لیے یہ آنسو ان کے ایمان کی گہرائی کی علامت تھے۔ ان کی دعاؤں کی آواز اور گریہ کی شدت آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ کے قُرب کا راستہ خشیت اور عاجزی سے گزرتا ہے۔ یہ آہ و بکا ہمیں سکھاتی ہے کہ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ دل نرم ہو اور آنکھیں اللہ کے ذکر سے تر رہیں۔

قرآن و حدیث میں آہ و بکا کی اہمیت

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے مقرب بندوں کی یہ صفت ذکر کی ہے: 
’’ایمان والے وہی ہیں جن کے دل اللہ کے ذکر سے کانپ اُٹھتے ہیں۔‘‘          (الانفال: ۲)
اسی طرح فرمایا:
’’اور وہ ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے گر پڑتے ہیں اور ان کا خشوع مزید بڑھ جاتا ہے۔‘‘ (الاسراء: ۱۰۹)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رونے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
 ’’دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ جو اللہ کے خوف سے روئی اور دوسری وہ جو اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے جاگی۔‘‘    (جامع ترمذی، حدیث نمبر: ۱۶۳۹)

سلفِ صالحین کی خشیتِ الٰہی اور گریہ

سلف صالحین کی زندگیوں میں خشیت الٰہی اور آہ و بکا نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کی زندگیاں ہمیں اللہ سے تعلق اور اپنی اصلاح کی جانب راغب کرتی ہیں:
 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  جب نماز پڑھتے تو خشیت کی شدت سے رونے لگتے، یہاں تک کہ ان کی قراءت لوگوں کو سنائی نہ دیتی۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۳۹۳۷)
 

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ 

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کا حال یہ تھا کہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے رونے لگتے اور ان کے آنسوؤں کی وجہ سے چہرے پر نشان پڑ جاتے۔ آپؓ اکثر فرمایا کرتے: 
’’اگر آسمان سے یہ آواز آتی کہ تمام لوگ جنت میں جائیں گے سوائے ایک کے، تو مجھے ڈر ہوتا کہ وہ ایک میں ہی نہ ہوں۔‘‘                                 (حلیۃ الاولیاء، جلد:۱، صفحہ:۵۲)
 

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ 

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  جب قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہو جاتی۔ کسی نے پوچھا: ’’آپ جنت و دوزخ کا ذکر سنتے ہیں، لیکن اس قدر نہیں روتے؟‘‘ آپؓ نے فرمایا: 
’’قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر انسان یہاں کامیاب ہو گیا تو آگے آسانی ہوگی۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: ۲۳۰۸)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ 

حضرت علی رضی اللہ عنہ  راتوں کو اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اتنا روتے کہ ان کے آنسو زمین پر گرتے۔ آپ اکثر فرمایا کرتے: ’’آہ! دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور آخرت کی کامیابی بڑی ہے، مگر اس کے لیے تیاری ضروری ہے۔‘‘                      (حلیۃ الاولیاء، جلد: ۱، صفحہ: ۷۶)

حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ 

حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ  اکثر قرآن پڑھتے اور اس کی آیات پر رونے لگتے۔ ایک بار کسی نے پوچھا: ’’آپ اتنا کیوں روتے ہیں؟‘‘ تو فرمایا: ’’میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اللہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کر دے۔‘‘    (طبقات ابن سعد، جلد: ۳، صفحہ: ۲۵۵)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ  رات کو اُٹھ کر عبادت کرتے اور اللہ کے خوف سے اس قدر روتے کہ ان کے گھر والے بھی متاثر ہوتے۔ ان کی اہلیہ نے ایک بار کہا: ’’آپ اس قدر کیوں روتے ہیں؟‘‘ تو فرمایا: ’’مجھے اپنی ذمہ داریوں کا حساب دینا ہے اور اللہ کی عدالت میں کھڑا ہونا ہے۔‘‘  (سیَر اعلام النبلاء، جلد:۵، صفحہ: ۱۲۰)
 

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  خشیتِ الٰہی میں مشہور تھے۔ جب آخرت کا ذکر ہوتا تو آپ پر رقت طاری ہو جاتی۔ ایک بار فرمایا: ’’جو دل اللہ کے خوف سے نہ کانپے، وہ پتھر سے زیادہ سخت ہے۔‘‘ (حلیۃ الاولیاء، جلد:۹، صفحہ:۱۶۲)

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  خشیتِ الٰہی میں رونے کی کثرت کی وجہ سے مشہور تھے۔ ایک بار فرمایا: ’’رونا جہنم کی آگ بجھا دیتا ہے۔‘‘  (ابن الجوزی، صفۃ الصفوۃ، جلد: ۳، صفحہ: ۲۳۴)

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  رات کو اُٹھ کر اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑاتے اور اتنا روتے کہ ان کے آنسو زمین کو تر کر دیتے، وہ فرمایا کرتے تھے:
’’اگر رونے کی طاقت نہ ہو تو رونے کی کوشش کرو، شاید اللہ تم پر رحم کرے۔‘‘  (حلیۃ الاولیاء، جلد: ۶، صفحہ:۳۸۰)

حضرت ربیع بن خیثم رحمۃ اللہ علیہ

حضرت ربیع بن خیثم رحمۃ اللہ علیہ  کا حال یہ تھا کہ جب جہنم کا ذکر ہوتا تو بے ہوش ہو جاتے۔ لوگ انہیں ہوش میں لاتے، اور آپؒ فرماتے:
’’یہ آگ انسان کو کیسے برداشت ہو سکتی ہے؟‘‘                 (صفۃ الصفوۃ، جلد: ۳، صفحہ: ۱۸۷)

حضرت ابو حازم رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت ابو حازم رحمۃ اللہ علیہ  ایک بار اللہ کے خوف سے رو رہے تھے۔ کسی نے پوچھا: ’’آپ کس چیز پر رو رہے ہیں؟‘‘ آپ نے جواب دیا: 
’’مجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھ سے کہے گا: تمہیں بہت نعمتیں دیں، لیکن تم نے ان کا شکر ادا نہ کیا۔‘‘  (حلیۃ الاولیاء، جلد: ۳، صفحہ: ۲۳۴)

حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ  جب آخرت کا ذکر کرتے تو ان پر رقت طاری ہو جاتی۔ ایک مرتبہ فرمایا: 
’’قیامت کے دن بندے کی سب سے بڑی کامیابی وہ ہو گی، جب اللہ اس سے خوش ہو جائے گا۔‘‘   (تاریخ بغداد، جلد: ۹، صفحہ: ۱۶۵)
 

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ  کی خشیتِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ جب اللہ کے عذاب کی آیات سنتے تو گھنٹوں روتے رہتے۔ ایک بار فرمایا: 
’’جس دل میں اللہ کا خوف نہ ہو، وہ پتھر کے مانند ہے۔‘‘       (صفۃ الصفوۃ، جلد: ۲، صفحہ: ۳۸۰)
سلفِ صالحین کے یہ واقعات ہمیں اللہ کے ساتھ تعلق، خشیت، اور آخرت کی تیاری کا درس دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ صفات و اعمال اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین