بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمہ اللہ

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمہ اللہ

مولانا بدرِ عالم میرٹھی رحمہ اللہ  بنام حضرت بنوری  رحمہ اللہ

 

مولانا المحترم دام مجدھم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

حج بیت اللہ مبارک ، زیارتِ مدینہ منورہ مبارک۔
خوب گئے اور خوب آئے، نہ جانے کی خبر ہوئی نہ آنے کی ! بہرحال اگر دوستوں کی فہرست میں یاد نہ آئی ہوگی تو جمیع المسلمین والمسلمات کے لیے دعواتِ مستجابہ سے مایوس نہیں ہوں:

بلبل ہمیں کہ قافیہ گل شود بس است

آپ کے پیچھے پیچھے فتن کی تیرہ وتاریک گھٹائیں خدا کی نافرمان زمین پر آئیں اور آپ کی آمد سے پہلے پہلے برس کر چلی گئیں، جن کے درد ناک اور عبرت ناک قطرات خون کی شکل میں آپ نے بھی مشاہدہ کرلیے ہوں گے۔ ایک طرف ان فتنوں کی یورش، دوسری طرف علمی مشاغل کا ہجوم اس طرح گھیرے ہوئے تھا کہ نہ قلم اُٹھانے کی طاقت تھی، نہ رکھنے پر صبر آتاتھا۔ آج کل بھی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ جس وقت سے آپ کی زیارتِ بیت سے واپسی کی اطلاع موصول ہوئی ہے، کبھی ایسانہیں ہوا کہ مبارک باد پیش کرنے کا عزم نہ کیا ہو، اورکبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ عزم پورا ہوسکا ہو۔
آج میرٹھ جارہاہوں ، سانس لینے کی فرصت مل گئی ہے اور اس ۔۔۔۔ فرصت میں ریل میں بیٹھا بیٹھا یہ چند سطریں گھسیٹ رہاہوں، وہ وقت اب بہت قریب ہے جب کہ میرے خیالاتِ پریشان کتاب کی مرتب شکل میں آپ کے سامنے آجائیں۔ کمزور بہت ہوں اور قدم اونچا اُٹھایا ہے، خدانہ کرے کہ کسی کھائی میں جاگرا ہوں۔ دعاکیجیے کہ بہت محتاج ہوں اور آپ گناہ بخشوا کر تازہ تازہ آرہے ہیں۔ والد ماجد کی خدمت میں بھی سلامِ ادب اور درخواستِ دعا۔
                                                                                                                                                                                                                                                                      محمد بدرِ عالم 

مولانا بدرِ عالم میرٹھی  رحمہ اللہ  بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

بندہ محمد بدرِ عالم، بہاول نگر، شنبہ
ذوالمجد و الکرم مولانا المکرم دام فضلکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

ملفوف گو بدیر ملا، مگر خدا کا شکر ہے کہ مل گیا، ایں غنیمت است۔ بندہ ایک طویل سفر سے حال میں واپس ہوا، اس سفر میں پشاور بھی گیا تھا، بحمدہٖ تعالیٰ سب بعافیت ہیں، ’’ترجمان السنۃ ‘‘کی تالیف تکوینی طور پر ہورہی ہے، اسبابِ مساعدت کا یہ عالم ہے کہ کسی کتاب کا نسخہ پاس نہیں ، صرف فضلِ ایزدی، افسردہ طبیعت اور فرسودہ دماغ ساتھ ہے، کوئی خاص جائے قیام مقرر نہیں: ’’فیومًا بحزوی و یومًا بالعقیق‘‘ کا سماں بندھا ہوا ہے، معاشی صورتیں ایک دو نہیں کئی کئی سامنے ہیں ، لیکن طبیعت کا سانچہ اب بدل چکاہے، وہ کسی قالب میں نہیں ڈھلتا۔ زمین کی حقیقت صرف مٹی ہے ، وہ بڑی درد سری اور مشغولی کا متقاضی ہے ، میری حالت یہ ہے کہ میں اس کوجاکر جھانکتا تک نہیں ،پھر اتنی عارضی ہے کہ اس طرف نظر اُٹھانا اضاعتِ وقت ہے۔ جن احباب سے توقع ہوسکتی تھی اور یہ استحقاق ہوسکتی تھی ان کو اپنی گزشتہ فیاضیاں ہی معاصی نظر آرہی ہیں ، اوروہ خود ہم سے ایثار کے متوقع بیٹھے ہوئے ہیں ، جن کے سامنے چھوٹی موٹی خدمات ہیں ،جب ان کا یہ حال ہے تو جن کے سامنے اب تک کچھ خدمات بھی نہیں، ان سے کیا توقع؟ لیکن الحمدللہ کہ ’’إِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَیَھْدِیْنِ‘‘ یہ جملے بے ساختہ اس لیے نکل گئے کہ آپ نے جن سہولتوں کااندازہ لگایا ہے ،شاید وہ جناب ہی کو زیادہ میسر ہوں گی، اس سے زیادہ کیا ؟!
ایک بیش بہا کتب خانہ ہمہ وقت سامنے ہے، حاجی محمد صاحب کا کتب خانہ کراچی میں ہے ، اور میں بہاول نگر ،پھر میرے گھر سے دومیل کی مسافت پر اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک غیر مرتب ڈھیر تھا، جس کو ہاتھ لگانا بھی مشکل تھا، ممکن ہے اب مرتب ہوگیا ہو۔ تلافی کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ: ’’تھادوا تحابوا‘‘ فعل میں اشتراک کا مطالبہ کرتاہے، بہت اچھا اگر عالم کا ہدیہ بھی منظور نہ ہوتو کس کا ہوگا؟! لیکن اس میں اتنے زیرِ بار نہ ہوں ۔۔۔۔۔ صاحبان کی خدمت میں سلام مسنون۔ فقط 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین