بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمہ اللہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمہ اللہ 

مولانا بدرِ عالم میرٹھی رحمہ اللہ   بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بہاولنگر  ،  ۲۴ جمادی الثانیہ
مخدوم ومحترم جناب مولانا محمد یوسف صاحب   دام مجدہم 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

قبل ازیں حج کے مفروض تصور میں ایک عریضہ ارسال خدمت کرچکا ہوں، اور اس مضحکہ خیز جنوں کی افروختگی میں وہاں کے لیے ایک سفارشی خط لکھ دینے کی درخواست بھی پیش کرچکا ہوں، یہ دورہ ہر سال پڑتاہے اور مایوسی پر ختم ہوجاتاہے، اس لیے آپ اس کو ایک خوش کن خواب سے زیادہ نہ سمجھیں۔
اس وقت باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ آج کل آئینِ اسلامی کی ترتیب کا مسئلہ یہاں کی فضا میں گونج رہاہے، کراچی کے قیام میں ‘میں نے اس سے پہلو تہی اختیار کرلی تھی، ارادہ یہاں بھی یہی ہے، لیکن اگر یہ ذمہ داری گلے پڑگئی تو پھر اپنی قدرت کے بقدر اس کو پورا کرنا بھی اسلامی فرض ہے، اس قحط الرجال کے دور میں اپنی علمی سراسیمگی کے باجود شاید اعانت سے پورے طور پر دست کش ہوجانا بھی شرعاً جائز نہ ہو، اس لیے اس سلسلہ میں جو تفصیلی مشورہ دے سکیں اس سے مطلع فرمائیں، یعنی کن کتب کا اور کن ابواب کا مطالعہ مفید ہوگا؟جہاں تک ممکن ہو‘ مآخذِ متداولہ تحریر فرمائیں، نوادر سے استفادے کے لیے بڑے وسیع کتب خانے کی ضرورت ہے، مصر اور عرب کا آئین مل سکے یا اس سلسلہ کی کوئی تصنیف ہوتو کسی صاحبِ معرفت شخص کو لکھ دیں کہ وہ اس کا ایک نسخہ میرے نام کراچی ارسال کردیں۔
بمبئی اور سورت کے کتب خانوںکی ایک مفصل فہرست بھی درکار ہے، ابھی ایک ماہ میرا یہاں اور قیام ہے، اس کے بعد ان شاء اللہ! کراچی واپسی کا قصد ہے، اس لیے یہ فہرستیں مہیا فرماکر یہیں ارسال کردیں، یاان کے مالکین کو میرا بہاولنگر کا پتہ تحریر فرمادیں، اور تاکید کردیں کہ وہ ایک ایک فہرست اس حقیر کے نام ارسال کردیں، تاکہ اس موضوع کے لیے مفید کتب کا انتخاب کیاجاسکے۔ علماء کے فقدان ،ترتیب و تاسیس کی بے مناسبتی اور سرعتِ انتقالِ ذہنی کی کمیابی نے اس مرحلہ کو بڑا دشوار گزر کردیاہے۔
وسعت اور رسوخِ علمی کا تو کہنا ہی کیا!یہ باب تو مدت ہوئے تقریباً معدوم ہوچکاہے، ان حالات میں اس سلسلہ میں تداخل بڑی جرأت ہے ، اور ا س لیے آج تک کنارہ کش ہی رہا اور اب بھی یہی قصہ ہے، لیکن اگر ناتمام علماء کی آراء نے آئینِ اسلامی کو بازیچۂ اطفال بنالیا توپھر مداخلت ناگزیر ہوگی، اس لیے پہلے سے تیاری ضروری ہے، اور اگر اللہ مع نیت خیر عطا فرمائے ، تو اس وقت کی بہترین عبادت بھی یہی ہے، اس لیے چاہتاہوں کہ وقت سے پہلے ان ابواب سے کچھ روشناس ہوجاؤں، ان سیاسیاتِ اسلامیہ پر جوجدید تصنیفات ہوئی ہیں ،ان کے نام سے بھی یہاں کوئی آشنا نہیں،ان کتابوں کا وجود تو درکنار، اس سلسلہ میں حافظ ابن تیمیہؒ کی تصانیف بھی ہیں،اور دیگر علماء نے بھی مستقلاً تصانیف لکھی ہیں، مگر پہلی زندگی میں ان کے نام ہی دیکھے تھے،اب وہ بھی ذہن میں نہیں ہیں، اورنہ کوئی فہرست سامنے ہے، اس لیے آپ اگر تکلیف گوارا فرماکر اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیں تو باعثِ مشکوری ہوگا،ڈابھیل کے مدرسہ میں بھی کچھ رسائل اس موضوع کے ہیں ، غالباً مجلسِ علمی میں بھی ہوں گے، ان میں سے کچھ منتخب کتب کے نام معلوم ہوجائیں تو اکٹھے استفادے کی صورت نکالی جائے۔

مولانا بدرِ عالم میرٹھی رحمہ اللہ   بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

بندہ حقیر محمد بدر عالم عفی عنہ

بہاولنگر، تھیلی بازار،یوم الاثنین

صاحب المجد والکرم جناب مولانا مولوی محمد یوسف صاحب دام مجدہم

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ 

بندہ مع الخیر ہے، ملفوف موصول ہوکر کاشفِ حالات ہوا۔ مکرمی !بندہ کی عمر اب آخر ہے، اور ہر شمع علم بھی ٹمٹماتی نظر آرہی ہے ، اب میرے سامنے سوال مروت ومصلحت کا نہیں ہے،وأَنّٰی أولٰئک! سب کی حقیقت معلوم کرچکاہوں ، میرے سامنے بھی مدتوں مراقبے کرنے والے وقت نکل جانے کے بعد شیر کی طرح گرچ چکے ہیں۔ بہرکیف !یہ طویل داستان ہے، ولسنا نخوض فیہ، جوکچھ آپ سے عرض کیاگیاہے وہ آئندہ سال ہی کے لیے ہے ،لیکن کم ازکم آپ سے استمزاج پہلے سے ضروری ہے،علمی نمو کی یہاں بھی اتنی زیادہ امید نہیں ہے،تاہم ایک سعی ہے، شاید یہ بارآور ہوجائے، مایوسی صرف اس بنا پرہے کہ اب وہی روحِ رشیدی وقاسمی پھر چاہیے اور وہی مفقود ہے، وإِلَّا سامان سب مہیا ہیں۔ کسی بے بنیاد یا ضعیف بنیاد پرمعروضہ پیش نہیں کیاگیا ہے، بلکہ ان شاء اللہ! ایک مستقل اور بظاہر مستحکم صورت مکمل ہوجانے پر یہ جرأت کی گئی ہے۔حضرت شاہ صاحب v کا علم تقریباً فنا ہوچکا ہے، حاسدین پہلے سے اس تاک میں تھے اور اس کے حاملین خود بخود بے حظ ہوتے جاتے ہیں۔ آپ جیسے زندہ اشخاص کے ذریعہ امید ہے کہ شاید یہ لکیر کچھ دن اور پیٹ لی جائے۔ میں بحمداللہ مردہ دل تو نہیں ہوں، لیکن میرے پاس بظاہر اب عمر قصیر ہے، اور’’ فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ، وَإِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ‘‘کی آواز کانوں میں آتی ہے، اس لیے اب زیادہ جدوجہد کی ہمت نہیں۔ یہ ہوسکتاہے کہ اگررفیق اپنے ساتھ لگائے رکھیں تو کچھ دن اور گِھسٹ چلوں۔ یہ جو کچھ عرض کیاجارہاہے نہ کسی حسن ظنی اور نہ کسی تملُّق کی بنا پر ،بلکہ اپنی کوتاہ نظر کے موافق ضرورت اور حقیقت کی بنا پر، اس دورِ انحطاط میں نسبتاً یہاں کچھ نہ کچھ ترقی کی امید زیادہ ہے۔ صاحب’’ فتح الملہم‘‘ سے بھی اس باب میں تذکرہ آچکاہے، رہا آپ کا تالیف و تدریس کا تقابل تو میرے نزدیک یہ ’’مقامات‘‘ کے چھٹے مقامے جیسی بات ہے، جس میں قلم، کاتب اور محاسب کا مقابلہ مذکور ہے۔
مکرمی !میرے نزدیک اگر کسی عالم کا وجود کسی گوشہ میں مفید ہو تو اس کو اس جگہ سے منتقل ہونے کا مشورہ دینا خیانت ہے ، میں وہاں کے زریں دور کا تجربہ کرچکا ہوں اور یہ حق الیقین رکھتاہوں کہ اس فضا کے لیے ایک عالم لایَعْقِل بھی کافی ہے، بل فوق الکاف ،یہاں ہمیں جس پیمانے پر کام شروع کرنا ہے اس کی تفصیلات سن کر آپ کچھ دیر کے لیے تو ان شاء اللہ تعالیٰ بہت مسرور ہوں گے ، جو تمنائیں اب تک مراکز میں پوری نہیں ہوسکیں وہ یہاں بنیادی طور پر ضروری ہوں گی۔ میں عنقریب ایک نصاب مرتب کرنے والا ہوں، اگر آپ بھی اس سلسلہ میں میری مدد فرمائیں تو میرا بڑا بار ہلکا ہوجائے گا۔ اس بارے میں اصحابِ رائے بہت کم ہیں ، مردم شماری کے لیے تو رفقائے کار موجود ہیں، لیکن وہ اصحاب درکار ہیں جن کو یہ دھن لگی ہوئی ہو۔ میں چاہتا ہوں ایک نقشہ مکمل ہونے سے قبل اس کو بلند سے بلند معیار کے مطابق مکمل کرلیاجائے، ورنہ پھر سرنو اس کو اُدھیڑنا مشکل ہوگا۔تدریس کے ساتھ اگر کسی کو تالیف کا شوق ہوگا تو اس کے لیے بھی کافی سے زیادہ مواقع موجود ہیں، بلکہ میراخیال خود یہ ہے کہ سب سے پہلے ایک مجموعہ نصاب ہی کے متعلق کیوں نہ تیار کیاجائے؟! افسوس ہے کہ اگر آپ اس وقت میرے شریک کار ہوتے تو بہت سے مراحل طے ہوجاتے، لیکن اب جو کچھ مشورہ مل جائے وہی غنیمت ہے، اس میں تساہل نہ فرمائیں، ورنہ بعد میں شاید آپ کو بھی تأسف ہو۔اگر ابتدائے سال سے بلکہ شعبان سے آپ کی رائے معلوم ہوجائے تو پھر ہم سب مل کر اسی ماہ سے علمی مستقبل تعمیر کرنے کے لیے جدو جہد شروع کردیں۔یہاں مقصد صحیح مخاطبین کو جمع کرنا اور ان کو پیداکرناہے ، اور ایک ایسا نصابِ تعلیم بناناہے جوگزشتہ نقصانات کی تلافی کرسکے۔ یہ جملہ امور بالتفصیل عرض کرنا باعثِ تطویل ہے اور غیر ضروری بھی، آپ جن امور میں ابہام سمجھیں یاتشریح ضروری سمجھیں خود استفسار فرمالیں، باقی بندہ کے مزاج سے آپ آشنا ہیں ۔کبھی کوئی پیچیدہ بات پسند ہی نہیں کرتا، اگر آپ کا تسلی بخش جواب آجائے تو ذمہ داران سے بات کرکے آپ کو عریضہ تحریر کردوں ۔
حکیم ۔۔۔ صاحب ۔۔۔ (سے دوا وصول کرکے ) ارسال فرمائیں، ۔۔۔۔۔۔ اور اسی طرح کے کاغذ میں رکھ کر اس پر صرف ’’دوا‘‘ کا لفظ لکھیں، دوسرے خط میں اس کی قیمت تحریر فرمادیں، وہیں کسی صاحب کو لکھوں گا، آپ کو ادا کردیں گے،ان شاء اللہ تعالیٰ ۔کسی صاحب سے مراد دوست نہیں، بلکہ اپنے عزیز ہیں۔آپ کے دل میں تو یقینا اس سے زیادہ کی بھی وسعت ہونی چاہیے،مگر کیا مجھے بھی اس سے اسی وسعت کے ساتھ استفادہ کرلینامناسب ہوگا؟!یہ محلِ تامل ہے۔
’’الفتح الرباني‘‘ (۱) میں ایک حدیث کے الفاظ میں ہے :’’فلا أجد قلبي یعقل علیہ‘‘(۲) صحابیؓ کا یہ فقرہ قرآن شریف کے متعلق ہے، اس پر آپ کا جواب یہ ہے : ’’إن قلبک حُشِيَ الإیمان، (وإن الإیمانَ یُعْطَی العبدَ) قبل القرآن‘‘ (۳)اس کا مطلب کچھ سمجھ میں آجائے تو لکھیے ۔
    آفتاب سلمہٗ سلام عرض کرتاہے، فقط۔

حواشی

۱:- الفتح الرباني لترتیب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشیباني، شیخ احمد عبدالرحمن بنّا ساعاتی v کی کتاب ہے، جس میں مسند احمد کی احادیث کو ترتیب دیا گیا ہے۔
۲:- مسند احمد، مسند عبداللہ بن عمرو r: ۱۱/۱۷۷، رقم الحدیث: ۶۶۰۴۔
۳:- بریکٹ میں درج عبارت اصل خط میں لکھنے سے رہ گئی ہے، یہ جملہ بھی مذکورہ حدیث کا جزء ہے۔ صحابی  رضی اللہ عنہ نے تلاوتِ قرآن کریم کے وقت اپنی کیفیت بتلائی تو جواب میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین