بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمہ اللہ

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمہ اللہ

 

مولانا بدرعالم میرٹھی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ

 


بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملیر چھاؤنی کراچی
بمعرفت سید شہاب ثاقب، پوسٹ ماسٹر

مکرم ومحترم جناب مولانا یوسف صاحب زیدت مکارمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ 

 

گرامی نامہ مؤرَّخہ ۱۷نومبر ‘ ۲۷ نومبر کو موصول ہوا۔ علالتِ مزاج معلوم ہوکر تردد ہوا ، اللہ تعالیٰ آپ کو صحتِ عاجلہ نصیب فرمائے اور موجودہ بخار کو سیئاتِ ماضیہ کا کفارہ بنادے۔آمین
مجلسِ علمی کا پاکستان میں منتقل ہونا صرف مناسب ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ بہرحال ان اداروں کا تخاطب مسلمانوں سے ہی ہوسکتا ہے، اور جہاں مسلمانوں کا وجود ہی کمزور ہورہا ہو وہاں ان اداروں کی طاقت سے کیا فائدہ؟! یہ انتقال بھی اضطراری حالات سے قبل اپنے اختیار سے کرلینا موزوں ہے، آئندہ اس کے ارباب حل وعقد جانیں! رموز مملکت خویش الخ 
آپ نے اپنی خیرخواہی کی بناپر مجھے حاجی احمد صاحب سے ملاقات کا مشورہ دیا ہے، مہتمم صاحب نے بھی ان سے اور چند دیگر حضرات سے ملاقات کرنے کے لیے لکھا تھا۔ اتفاقاً ایک ہوٹل میں۔۔۔ سے میری ملاقات ہوگئی، انہوں نے بھی یوسف صاحب ، اڈی صاحب سے ملاقات پر زور دیا، اور ڈابھیل میں مدرسی کی جگہ سنبھالنے کے لیے ترغیب اورترہیب دونوں سے کام لیا، مگر میرا احباب و اغیار کو ایک ہی جواب رہا ہے:

جانتا ہوں ثوابِ طاعت وزہد

پرطبیعت اِدھر نہیں آتی

برادرم! اگر آپ یہاں موجود ہوتے تو بسر وچشم آپ کی ملاقات کے لیے حاضر ہوتا اور جب کبھی تشریف لائیں گے اس وقت بدل و جان حاضر ہوں گا، مگر یہ ایک بے علم کی ایک اہلِ علم سے ملاقات ہوگی،اس کے سوا جن حضرات سے میں نے آج تک ملاقات میں پیش قدمی نہیں کی، ان سے پیش قدمی کرنابالخصوص اپنے موجودہ حالات میں نعمتِ علم کی ناسپاسی تصور کرتاہوں۔ مجھے ان حضرات میں کسی سے بھی بے تکلفی کا موقع نہیں ملا، اور ایک کو دوسرے کا صرف ’’تصور بوجہ ما‘‘ حاصل رہاہے۔ علم کے قدرشناس ہونے کی حیثیت سے میرے دل میں ان کی بڑی قدر ومنزلت ہے، مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جس نعمت کی قدر دانی سے اہلِ علم میں ان کی قدر ومنزلت ہو، اہلِ علم اس خزانے کے خود مالک ہوکر اپنے ہاتھوں سے اس کی قدر ومنزلت گرادیں۔ عسر ویسر‘ صحت ومرض کی طرح انسانی زندگی کے دو احوال ہیں، ان کاپیش آنا انسان کے لیے عیب نہیں، مگر ان کے اقتضاء کو پورا نہ کرنا عیب ہے۔ آج کل یہاں مختصر تجارتوں کے بہت مواقع ہیں ، لیکن مانع صرف یہ ہے کہ جن انگلیوں سے ہمیشہ متاعِ علم پرکھی جاتی تھی، اب ان سے متاعِ دنیا پرکھی جائے! ابھی رزقِ موعود کی ساعاتِ انتظار بھی تنگ نہیں ہوئیں، پانچ سالہ دورِ فراغت کے بعد دو چار ماہ کی خیالی تشویش بے صبری کے مرادف ہے۔  وطن سے بے وطن ہوجانے کے بعد دل میں ایک بڑا تردُّد ہورہا ہے کہ کیا اب دیارِ غربت کو وطنِ اصلی بنانا مناسب ہوگا؟ یا ایک دو قدم اور آگے بڑھا کر اس خاکِ پاک میں جا پڑنا بہتر ہوگا، جہاں اگر وطنِ اصلی کی بو نہ آئے تو وطنِ ایمانی کی خوشبو تو آئے گی۔ گرانی وارزانی ، رنج وراحت اور عسر ویسر کی بحث اصحابِ سرمایہ کے لیے ہے، ہم اہلِ خباء کے لیے کیا؟ جہاں رات بسر ہوگئی وہ اپنا گھر ہے، اور جو خشک وتر مل گیا وہ اپنا رزق ہے۔ موثَّق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ’’ندوۃ المصنفین‘‘ کا کتب خانہ اکثر محفوظ رہ گیا، وللہ الحمد! اور مولانا عتیق الرحمن صاحب کا ارادہ اب اس کو پہلے سے زیادہ شاندار صورت میں قائم کرنے کا ہے۔ اس کے کچھ ذرائع بھی ان کو بہم پہنچ رہے ہیں، اور تباہ شدہ اداروں سے یوں بھی اہلِ علم کو ہمدردی بڑھ جاتی ہے، لیکن خاص میرے لیے مشکل یہ ہے کہ مجھے اب دہلی پہنچنا بھی مشکل اور یہاں سے کام کرکے اس کو یقین کے ساتھ ادارے تک پہنچانا بھی مشکل۔ ابھی تک مفتی صاحب کا کوئی مکتوب نہیں ملا کہ کچھ روشنی نظر آتی۔ اس کے علاوہ اپنی حاجت کے لیے دین کی کسی جدید ضرورت کا احساس پیدا کرانا اور اس کے لیے کوئی جدوجہد کرنا بھی اپنے بس کی بات نہیں، البتہ جس علمی مرکز کے قیام کا تصور حاجی صاحب کے ذہن میں ہے وہ بہت مبارک اور بروقت ہے، یہ ان کا حق بھی ہے اور ان کے لیے موزوں بھی۔ مجھے خطرہ ہے کہ شاید موجودہ حالات میں دیوبند کی مرکزیت کو کچھ نقصان پہنچے، اس لیے ان اطراف میں ایک دوسرے مرکز کے قیام کی اشد ضرورت ہے، جو اس مرکز کے لیے کم از کم دست وبازو کا کام دے سکے۔ مہتمم صاحب وحاجی میاں صاحب ودیگر پرسانِ حال سے سلام کہہ دیجیے، خیریتِ مزاج سے مطلع فرمائیں کہ تعلقِ خاطر رہے گا۔ 


مولانا بدرعالم میرٹھی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ


مولانا المحترم زید مجدکم 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں ملتان اور بہاولپور سے کل ہی واپس آیا ہوں، یہاں پہنچ کر آپ کا مکتوبِ گرامی ملا، بہت مسرت ہوئی۔ جو حالات اجمالاً میں نے تحریر کیے تھے، ان میں یہ لکھنا غالباً رہ گیا کہ ان سب کے باوجود نعمتِ اطمینان اتنی حاصل ہے کہ عمر بھر بھی کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ حیاتِ طیبہ کا وعدہ گو عمل صالح پر موعود ہے، مگر یہاں فقدانِ شرط کے باوصف مشروط متحقق ہے، ولہ الحمد والمنّۃ کثیراً کثیراً۔
عزت ومعاش کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ مدِ بصر کوئی روک نظر نہیں آتی، تمام راہیں کشادہ ہیں ، مگر کیا کیا جائے! اپنی طبعی ساخت کی وجہ سے عالم اپنی وسعت کے باجود تنگ نظر آرہا ہے۔ بہرحال !یہ داستان زبان وقلم پر نہیں آسکتی ، اور اگر کچھ عرض بھی کروں تو آپ کا دل غالباً اس کوباوربھی نہ کرے گا۔

 

 

علمی نشاط اب کہاں ڈھونڈ ملے گا، جب کہ علمی بساط ہی لپٹ چکی ہے ، یوں کہیے کہ اگر کوئی ایسا گوشۂ عافیت مل جائے جہاں بادِ مخالف کے جھونکے اپنے علمی مذاق کو اور سوخت نہ کریں تو بھی بساغنیمت ہے۔ میں عنقریب غالباً دو ہفتے تک کراچی کا سفر کروں گا ان شاء اللہ تعالیٰ! وہاں حالات کا خود مشاہدہ اور جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کن عریضہ جناب کی خدمت میں ارسال کرسکوں گا۔ طبیعت ہر سمت ا ور ہر پہلو میں یکساں آئینی طرز کی عادی ہے ،اس لیے اس اثناء میں صرف خوش کن الفاظ کبھی نہیں لکھ سکا، ورنہ جو کچھ پہلے لکھ چکا ہوں اس کو بھی بڑی حد تک فیصلہ کن ہی سمجھیے، عَسَی اللّٰہُ أَنْ یَّأْتِیَنِيْ بِھِمْ جَمِیْعًا۔

میری علمی کوئی مجلس ایسی نہیں ہے جس میں احباب کے سامنے آپ کے علمی مذاق کا ذکر نہ آتا ہو، اور یہ اس لیے ہے کہ اب تمنا اپنی روشناسی کی باقی نہیں ہے۔ آج سے پہلے بھی تمنا یہی تھی کہ دائرۂ احباب میں جو بھی ہوں ان کی امکانی تشہیر میں کوتاہی نہ کی جائے۔ ’’فیض الباری ‘‘کا ورق ورق میرے اس دعوے کی تصدیق کے لیے کافی ہے ، اور اب تو زندگی کے آخری مراحل سے گزر رہا ہوں، اگر کسی مؤقر جماعت کا فرد ہوں تو اس کو اپنے لیے بھی توقیر سمجھتا ہوں، ورنہ انفرادی عزت میرے نزدیک موت کے مرادف ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ! آپ سے ضرور ملاقات ہوگی۔
اگرچہ یہ ضرور ہے کہ مجھے بہت سے علمی افکار میں آپ کی طبیعت پر زور دینا پڑے گا، مگر مجھے بھی قوی امید ہے کہ بہت جلد آپ میرے ہم نوا ہوسکیں گے۔ اب توایسے رجالِ کار سے میدان ہی خالی نظر آرہاہے ،جن کے سامنے تبادلۂ خیالات کی ہمت کی جاسکے۔نظمِ تعلیمی اورنصابِ تعلیم کا مرحلہ سر کرنا ہی مشکل ہے، طرزِ تعلیم کو کون بدلنے پر تیار ہوگا؟ بلاشبہ یہ سب سے اہم مرحلہ ہے، اور اس اہم نکتے سے میں سوفیصدی متفق ہوں۔ بہرحال اب آپ کو بہت جلد اپنے اس دیرینہ علمی رفیق سے ملنے کا شوق رکھنا چاہیے، اور اگر مشیتِ الٰہیہ مقدر فرماوے اس راہ میں مزید استخارے نہ کرنے چاہئیں۔ میں مرکز پر پہنچ کر من وعن حالات پیش کردوں گا اور اس کے بعد مجھے اس کا حق بھی غالباً زیادہ ہوگا کہ میں زور دار الفاظ میں دعوت نامہ پیش کرسکوں۔ آپ اتنا کرم کریں کہ کتابوں کے ختم کرانے کی جدوجہد میں مجھے اپنی نصف ملاقات سے جلد جلد مشرف فرماتے رہیں، تاکہ مرکز میں پہنچ کر ہم بہت جلد کسی قطعی فیصلے پر پہنچ سکیں۔ غالباً آپ بھی ماہ ڈیڑھ ماہ تک اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ کیا میں یہ عرض کرنے کی جرأت کروں کہ آپ اپنے علمی مشاغل میں انہماک کے سوا دوسرے غیر اہم مشاغل سے یکسوئی قائم رکھ کر ہمارے ارادوں کی تکمیل میں ہماری مدد فرمائیں گے؟!
نیز یہ کہ زیادہ سے زیادہ کب تک ہم آپ کی ملاقات کی امید کرسکتے ہیں ؟
مولوی مالک سلمہٗ سے سلام کہہ دیجیے ،ایک خط میں نے ان کے نام لکھا تھا، جواب نہیں ملا، اس لیے تردد ہے شاید ان کو نہیں ملاہوگا: وأرجو من جنابکم أن لاتنسوني في دعواتکم المستجابۃ۔ 
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 فقط محمد بدرِعالم
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                              چہار شنبہ، بہاولنگر

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین