بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سلام کے مسنون ومکمل کلمات!

سلام کے مسنون ومکمل کلمات!


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
۱ :- ’’السلام علیکم‘‘ کی بجائے ’’سلام‘‘ اور ’’وعلیکم السلام‘‘ کی بجائے ’’والسلام‘‘ کہنا کیسا ہے؟ 
 ۲:- ملاقات اور گفتگو کے آخر میں ’’خدا حافظ‘‘ کہنا از روئے شرع ثابت ہے؟ اگر نہیں تو گفتگو اور ملاقات کے اختتام پر کیا کہنا مسنون ہے؟ مستفتی: عبداللہ

الجواب باسمہٖ تعالٰی 
 

۱:- واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں سلام کے مخصوص الفاظ ہیں، جن میں سب سے مختصر مسنون سلام ’’السلام علیکم‘‘ یا ’’سلام علیکم‘‘ ہے۔
 اور اس میں سب سے زیادہ کامل و اکمل سلام ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ ہے ۔
اور صرف ’’سلام‘‘ یا ’’تسلیم‘‘ سے سلام شمار تو ہوگا، لیکن وہ مسنون سلام نہیں ہوگا۔
اسی طرح سلام کے جواب میں مماثلت یا سلام کے الفاظ سے زیادہ الفاظ میں جواب دینا چاہیے ، پس ’’والسلام‘‘ سلام کے مختصر الفاظ سے بھی کم الفاظ پر مشتمل ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ کم از کم جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا جائے، اگرچہ جواب صرف ’’والسلام‘‘ کہنے سے مکمل ہو جائے گا، لیکن سنتِ جواب سے محروم رہے گا۔
 ۲:- ملاقات اور گفتگو کے آخر میں ’’خداحافظ‘‘ کہنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کو سلامِ وداع یعنی رخصتی کے سلام کے قائم مقام نہ سمجھا جائے، کیونکہ اس کے معنی میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
 البتہ رخصتی کے وقت سلامِ وداع سے پہلے مسنون ہے کہ ’’اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِيْنَکَ، وَاَمَانَتَکَ، وَاٰخِرَ عَمَلِکَ‘‘ یا ’’اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِيْنَکَ، وَاَمَانَتَکَ، وَخَوَاتِيْمَ عَمَلِکَ‘‘ کہا جائے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: 
’’ثم رأيت في الظہيريۃ ولفظ السلام في المواضع کلہا: السلام عليکم أو سلام عليکم بالتنوين، وبدون ہٰذين کما يقول الجہال لا يکون سلاما۔‘‘ (فتاویٰ شامی، فصل فی البيع، ص: ۴۱۶، ج :۶، ط: سعيد) 
عمدۃ القاری میں ہے: 
’’وأقل السلام: السلام عليکم، فإن کان واحدا خاطب والأفضل الجمع لتناولہٖ ملائکتہ، وأکمل منہ زيادۃ، ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اقتداء بقولہٖ عزوجل: رحمۃ اللہ وبرکاتہ عليکم أہل البيت۔(ہود:۱۱)۔‘‘ (عمدۃ القاری ، باب بدء السلام، کتاب الاستیذان، ص: ۳۵۸، ج: ۲۲، ط: دارالکتب العلمیہ)
 وفیہ ایضا:
’’والأفضل الأکمل في الرد أن يقول: وعليکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘  (عمدۃ القاری باب بدء السلام، کتاب الاستیذان، ص:۳۵۹،۳۵۸، ج:۲۲، ط: دارالکتب العلمیہ) 
وفیہ ایضا: 
’’معنی الآيۃ إذا سلم عليکم المسلم فردوا عليہ أفضل مما سلم أو ردوا عليہ بمثل ماسلم بہ، فالزيادۃ مندوبۃ والمماثلۃ مفروضۃ۔‘‘ (عمدۃ القاری ،باب السلام من اسماء اللہ تعالیٰ، کتاب الاستیذان، ص: ۳۶۴، ج:۲۲، ط: دار الکتب العلمیہ)
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
’’(دوم)( الفاظِ سلام) (مسنون) ’’سلام‘‘ یا ’’السلام‘‘ کا لفظ ’’علیک‘‘ یا ’’علیکم‘‘ کے ساتھ کہے۔ (جائز) صرف سلام یا تسلیم، اس لیے کہ یہ لفظ قرآن میں مذکور مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور، پس صرف سلام یا تسلیم پر اکتفاء کرنے والا ثوابِ سنت سے محروم رہے گا۔‘‘ (فتاویٰ رحیمیہ، مسائلِ شتیٰ، ص:۴۸۲،ج:۱۰، ط :دار الاشاعت)
جامع الترمذی میں ہے:
’’عن ابن عمرؓ قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا ودع رجلا أخذہ بيدہ، فلايدعہا، حتی يکون الرجل ہويدع ید النبي صلی اللہ عليہ وسلم ويقول: ’’اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِيْنَکَ، وَاَمَانَتَکَ، وَاٰخِرَ عَمَلِکَ۔‘‘ (جامع الترمذی،باب ما جاء ما یقول اذا ودع إنسانا، ابواب الدعوات، ص:۱۸۲، ج: ۲، ط: قدیمی)
 

  

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

 

ابوبکر سعیدالرحمٰن

محمد انعام الحق  

عبد اللہ خدا بخش

الجواب صحیح 

تخصصِ فقہِ اسلامی 

محمد شفیق عارف

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین