بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

سفرِ زامبیا اکرام و احترام کی شاندار مثال!


سفرِ زامبیا
اکرام و احترام کی شاندار مثال!


محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہٗ و برد اللہ مضجعہٗ کو اللہ جل شانہٗ نے ان تمام خصوصیات، صفات و کمالات اور ملکات سے مالا مال فرمایا تھا جو کسی بھی دینی و علمی میدان کی پیشوائی کے لیے مطلوب ہوتی ہیں، مثلاً: توبہ و اِنابت، خوف وخشیت الٰہی، عشق رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کی بدولت صفاء قلب و نور، اذکار و اوراد اور عمل بالحدیث کا شوق و جذبہ، متونِ حدیث پر نظر، اُصولِ حدیث کی مہارت، رجال اور طرق و علل سے آگاہی، مذاہبِ اربعہ کے مراجع و مآخذ، اُصولِ فقہ و علم الخلافیات سے واقفیتِ تامہ، عربیت میں پختگی،کلام و فلسفہ و حقائق پر نظر، وسعتِ علم و سرعتِ مطالعہ، قلم کی روانی و سلاست، خطابت و بیان میں جرأت کے ساتھ سنجیدگی اور وقار، بیدار مغزی و شدتِ احساس، وسعتِ فکر و نظر،اہتمام و انتظام، تنظیم و تدبیر کی اعلیٰ مثال اور اعلاء حق کے لیے اُٹھنے والی ہر تحریک کے لیے قائدانہ اوصاف کے حامل تھے۔ آپ کی نمایاں ملی اور دینی خدمات میں تحریکِ ختم نبوت کی امارت و قیادت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے علاوہ فتنۂ پرویزیت کا تعاقب اور علمی محاسبہ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرون و بیرونِ ملک کئی اداروں کے صدر یا رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 

تاسیسِ جامعہ

مذکورہ فضائل و کمالات کے علاوہ اللہ جل شانہٗ نے ایک خاص الخاص فضل و کرم آپ پر فرمایا اور وہ ہے جامعۃ العلوم الاسلامیۃ(ابتدائی نام مدرسہ عربیہ اسلامیہ)کی تاسیس۔ اس کی بنیاد کس طرح سے رکھی تھی؟ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں:
’’چنانچہ برسوں اس سلسلے میں غور و فکر کرتا رہا، اسی دوران ذوالحجہ ۱۳۶۹ھ کے اواخر میں حج سے فراغت کے بعد میری رفیقہ حیات نے مکہ مکرمہ میں ایک خواب دیکھا، جس کی تعبیر میں یہ سمجھا کہ عنقریب مجھے اس کام کے کرنے کی توفیق نصیب ہوگی جس کا میں آرزومند تھا۔ چنانچہ اس کام کو شروع کرنے سے پہلے میں نے مناسب سمجھاکہ اللہ تعالیٰ سے آہ و زاری کے ساتھ دعائیں اور ماثور استخارے کروں، اس مقصد کے لیے میں نے حج بیت اللہ کا ارادہ کیا، تاکہ اس کی برکت سے مجھے توفیق نصیب ہو۔ الحمد للہ‘ اللہ تعالیٰ نے تمام مقاماتِ مقدسہ اور مشاعرِ حج میں مجھے آہ و زاری اور دعا کی توفیق عطا فرمائی، پھر حرمِ نبوی میں حاضری ہوئی اور ایک ماہ سے زیادہ مدینہ منورہ میں قیام کیا، رو رو کر دعائیں کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو اس کام کے لیے مطمئن کردیا۔ حج سے وطن واپس لوٹا، میرے سامنے کام کرنے کا راستہ نہایت مبہم اورغیر واضح تھا، مادی وسائل مفقود تھے،میں برابر سوچتا اور غور و فکر کرتا رہا، آخر کار ایک ایسے خطۂ زمین میں کام شروع کردیا جہاں نہ کوئی مکین تھا، نہ مکان کہ جس میں بارش یا دھوپ کی تمازت سے بچنے کے لیے پناہ لے سکوں، نہ ضروریات پوری کرنے کی کوئی جگہ تھی، نہ راحت و آرام کی،اس سے قبل میں نے اخبارات میں ان فضلاء کے لیے جو درسِ نظامی سے فارغ ہو چکے ہوں ’’تکمیل‘‘کا درجہ کھولنے کا اعلان کیا، جس میں قرآن کریم، سنتِ نبویہ، فقہ اسلامی اور عربی ادب جیسے علوم کی خصوصی تعلیم دینا مقصود تھا۔ میرے اس اعلان پر دس فضلاء نے لبیک کہی، چنانچہ ان دس فضلاء سے میں نے کام شروع کیا۔ ‘‘
حضرت بنوری قدس اللہ سرہٗ نے جس مدرسہ کی بنیاد سادہ سا نام’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ‘‘سے رکھی تھی، اللہ جل شانہ کے لطف و کرم سے وہ قبولیت عامہ عطا ہوئی کہ دنیائے اسلام میں اس کو ایک ممتاز یونیورسٹی کا مقام حاصل ہے، جس سے تشنگانِ علوم نبویہ سیراب ہوکر دنیا کے کونے کونے میں اُمت کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ 

جامعہ کا فیض

ہم اپنے اساتذۂ کرام بالخصوص استاذ محترم مدیر جامعہ حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم کی زبانی ایسے واقعات سنتے رہتے ہیں جن میں جامعہ کے فضلاء کا دنیا بھر میں قرآن و حدیث کے علو م کی خدمت میں مصروف ہونا بتایا جاتا تھا، پھر یہی نہیں کہ صرف بڑے اور سہولیات سے بھر پور شہروں میں ہی خدمات انجام دیتے، بلکہ شہروں سے دور دراز ایسے علاقوں میں بھی کام کرتے نظر آئیں گے جہاں وسائل کی کمیابی ہے۔ وسائل پر انحصار کیے بغیر رشد و ہدایت کے دیپ روشن کیے ہوئے ملیں گے، جن کے اخلاص و للّٰہیت سے بھر پور خدمات کا سن کر جہاں ایمان تازہ ہوتا ہے، وہاں حضرت بنوری نور اللہ مرقدہٗ کے اخلاص و للّٰہیت سے روشن کیے ہوئے منارۂ نور کی عند اللہ قبولیت کا بھرپور اظہار بھی ہوتا ہے۔ 
اللہ جل شانہ اس مینارہ نور کو آسمان رشد و ہدایت پر تا قیامت چمکتا دمکتا،درخشندہ ستارہ بنائے رکھے۔ اس کے فیض سے پورے عالم کو منور فرماتا رہے، آمین یا رب العالمین۔ 
مشہور واقعہ ہے کہ کہ حضرت بنوری نوراللہ مرقدہٗ ایک مرتبہ افریقی ملک زامبیا تشریف لے گئے تھے،اس وقت ایک جگہ پر حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی دلسوزی سے اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں دعا مانگی، جس کے الفاظ کم و بیش اس طرح کے تھے: ’’اے اللہ !میں بوڑھا ہوگیا ہوں، کاش! میرے اندر طاقت اور قوت ہوتی کہ میں ان سیاہ فام لوگوں کو قرآن پڑھاتا،ان کو دین کی تعلیم دیتا۔‘‘ اللہ جل شانہٗ نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی دعا قبول فرمائی کہ کچھ عرصے کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فضلاء نے زامبیا (جو ایک خاص عیسائی مملکت ہے) میں قرآن و حدیث کے علوم کے جگہ جگہ مکاتب و مدارس قائم کیے۔ آج زامبیا کے دارالحکومت ’’لوساکا‘‘میں بیس ایکڑ رقبے پر محیط ایک عظیم الشان مرکزی دینی ادارہ ’’الجامعۃ الاسلامیۃ‘‘کے نام سے قائم ہے، جس میں دورۂ حدیث تک تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی شب و روز تعلیم جاری ہے، مثلاً: شعبہ حفظ و ناظرہ، شعبۂ قرأت وغیرہ۔ اس کے علاوہ فلاحی کاموں کا ایک بہت بڑا شعبہ قائم ہے، جہاں سے نہ صرف غریب مسلمانوں کی امداد و نصرت کا سلسلہ جاری ہے، بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی تعاون جاری ہے۔ ان کے علاقوں میں جا جا کر ان کی ضروریات کا سامان پہنچایا جاتا ہے، ضرورت کی جگہ پر کنویں وغیرہ کے ذریعہ پانی کا انتظام کیا جاتا ہے، ایسا عظیم الشان نظام قائم ہے کہ حکومت کے کرنے والے کام بھی جامعہ کے یہ فضلاء سر انجام دے رہے ہیں۔ 


مادرِ علمی سے محبت

جامعہ اسلامیہ کے منتظمین اور فضلاء کو اپنی مادر علمی(بنوری ٹاؤن) اور اس کے اساتذہ کے ساتھ محبت کا وہ گہرا تعلق ہے کہ ہر سال ختم بخاری شریف کے موقع پر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے اپنے اساتذہ کو ضرور بلاتے ہیں، چنانچہ ہر سال جامعہ سے اساتذہ کرام تشریف لے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے خوشی اور مسرت سے ان کے دل باغ باغ ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے اساتذہ سے بھرپور محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ 

زامبیا کا سفر

گزشتہ سال حضرت مولانا امداداللہ صاحب دامت برکاتہم ناظم تعلیمات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن نے بندہ سے زامبیا جانے کے لیے فرمایا تو خوشی ہوئی کہ جہاں ہمارے اساتذہ کرام جاتے رہتے ہیں وہاں جانے کا موقع مل رہا ہے، بلکہ’’سیاحہ علمیہ‘‘کا سہانا موقع سمجھ کر اس کے لیے تیاری شروع کی، چنانچہ غالباً ۴؍مئی ۲۰۱۶ء کو رات ائیر پورٹ پہنچے، بندہ کے ساتھ دو رفقاء سفر اور تھے، مولانا فصیح الرحمن صاحب اور مولانا رضاء اللہ صاحب اساتذہ جامعہ ہٰذا، جبکہ مولانا معراج حسین صاحب پہلے ہی زامبیا پہنچ چکے تھے۔ تقریباً ۵؍بجے صبح بذریعہ ایمرٹس ائیر لائن سے کراچی سے روانہ ہوکر دبئی پہنچے۔ دو گھنٹے دبئی ائیر پورٹ پر قیام کے بعدپھر دبئی سے روانہ ہوئے تو پاکستانی وقت کے مطابق ۶بجے دار الحکومت لوساکا پہنچے۔ مفتی ایوب صاحب اور بھائی سلیمان صاحب نے ایئرپورٹ کے اندر آکر خود ساری کارروائی مکمل کروائی، جب باہر نکلے تو مولانا محمد یوسف صاحب اور مولانا محمد ادریس صاحب، مولانا مفتی عبدالجبار چترالی صاحب اور مولانا افضل صاحب اور دیگر حضرات نے بڑی محبت سے استقبال کیا، ملاقات کے بعد بندہ کو مولانا محمد افضل صاحب کی گاڑی میں ان کے ساتھ روانہ کردیا گیا۔ باقی حضرات دوسری گاڑی میں تھے، تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت طے کرکے مسجد توحید آئے، جو بہت ہی خوبصورت اور کشادہ تھی۔ (اس مسجد کے بنانے کابھی عجیب واقعہ ہے، آگے عرض کروں گا) اس مسجد میں ظہر کی نماز پڑھی۔ 

مدرسہ’’ الجامعۃ الاسلامیۃ‘‘ آمد

اس کے بعد پھر روانہ ہوئے، گاڑیاں مختلف راستوں سے ہوتی ہوئیں مدرسۃ ’’الجامعۃ الاسلامیۃ‘‘ پہنچیں۔ مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ نے استقبال کیا۔ 
ماشاء اللہ! مدرسہ بیس ایکڑ اَراضی پر محیط ہے، بہت خوبصورت عمارت ہے، درسگاہیں اور طلبہ کے دارالاقامہ بھی خوبصورت ہیں، کھیلنے کے لیے بہت کشادہ گراؤنڈ ہے، بہرحال جامعہ پہنچ کر عصر کی نماز پڑھی، پھر چائے وغیرہ کے ساتھ اکرام کیا گیا۔ چائے کے ساتھ بیکری کا طرح طرح کا سامان تھا جو سب کا سب گھروں میں بنایا گیا تھا، کیونکہ بتایا گیا کہ یہاں بیکری کی دکانیں نہیں۔ مسلمان اپنے اپنے گھروں میں بیکری کا سامان بناتے ہیں، چائے کے بعد آرام کرنے کے لیے کہا گیا۔ مہمانوں کے اعزاز واکرام کے لیے بہت خوبصورت مہمان خانے بنائے گئے ہیں۔ بندہ کو ایک کمرہ دے دیاگیا، تو اے سی چلاکر سوگیا۔ مغرب کی نما زکے لیے بیدار کیا گیا۔ نماز کے بعد تفصیلی بات چیت ہوئی اور عشاء کی نمازکے بعد ایک جگہ دعوت تھی، وہاں گئے۔ وہاں بنوری ٹاؤن کے دیگرفضلاء سے ملاقات ہوئی، دعوت پُرخلوص وپُرتکلف تھی، میزبان نے بہت اکرام کیا۔ کھانے سے فراغت کے بعد واپسی ہوئی۔ رات سونے سے پہلے کل صبح کے پروگرام کے بارے میں بتایاگیاکہ اگر تھکاوٹ محسوس نہ ہوتوصبح نیشنل پارک جاناہے، جوکہ سات سو چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ساتھیوں نے بخوشی رضامندی کااظہار کیا کہ افریقہ کے جنگل تو مشہور ہیں، ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس جنگل کو اور اس میں طرح طرح کی مخلوقِ خدا کودیکھیں، چنانچہ اگلے دن ۱۵؍مئی کو فجر کی نماز پڑھ کر تیاری شروع کی، کھانے پینے کا، اور دیگر ضروری سامان رکھا گیا۔ ناشتہ کیے بغیر روانہ ہوئے، سفر کی دعائیں پڑھی گئیں، مولانا محمد ادریس صاحب گاڑی چلارہے تھے۔ راستہ میں جو چیز باعثِ حیرت تھی وہ یہ کہ سبھی مکان گراؤنڈ فلور پر ہیں اور مکانات بہت کھلے اور کشادہ تھے، سفرمیں ہر جگہ یہی مشاہدہ کیا، کہیں بھی فلیٹوں کی صورت میں مکانات نہیں دیکھے۔ کراچی کارہنے والا جہاں ہر طرح بلند وبالا فلیٹوں کو دیکھنے والا جب یہ منظر دیکھتا ہے تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ سڑکیں بھی کشادہ تھیں، اور ٹریفک کم تھی، اس لیے ہماری گاڑی خوب تیز رفتاری کے ساتھ رواں دواں تھی، کچھ مسافت طے کرکے ایک جگہ اُترے، اور اپنے ساتھ لایاہوا ناشتہ کیا، ناشتہ سے فارغ ہو کر پھر مسلسل سفر کرتے رہے۔ 

پٹاؤکہ شہر آمد

یہاں تک تک کہ ظہر سے قبل پٹاؤکہ شہر پہنچے، بھائی محمد کے گھر دوپہر کا کھاناکھایا، چنانچہ دونوں باپ بیٹے نے استقبال کیا، ظہر کی نماز پڑھی اور کھاناکھایا، بھائی محمد نے بھی ہمارے ساتھ سفر پر جاناتھا، چنانچہ وہ اپنی گاڑی میں خوردونوش کاسامان رکھ کر ہمارے ساتھ روانہ ہوئے، اس طرح دو گاڑیوں میں ساتھی بیٹھ گئے، گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوایا گیا، پھر منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہوئے، عصر کی نماز راستہ میںپڑھی۔ 

نیشنل پارک آمد
 

مغرب کے وقت منزلِ مقصود نیشنل پارک پر پہنچے، سورج غروب ہورہاتھا، گاڑی نے عام سڑک چھوڑ کر جنگل جانے والے کچے راستے پر چلناشروع کیا، جیسے جیسے گاڑیاں آگے جارہی تھیں، ویسے ویسے جنگل کا سناٹا خوف دلارہاتھا، میرا خیال تھا کہ جنگل سے باہر فارم ہاؤس ہوگا، لیکن گاڑیاں تو جنگل کی طرف رواں تھیں، خوف وہراس کی حالت تھی کہ ایک جگہ رہائشی عمارت اور گاڑیاں نظر آئیں، چنانچہ وہاں پہنچے، وہاں کے ملازمین نے گاڑی سے سامان اُتارا۔ شربت پلایاگیا، سب سے پہلے دریاکے کنارے چٹائیاں بچھا کر مغرب کی نماز پڑھی، دریاسے خوف ناک کریہ الصوت آوازیں اور بھی ماحول کوخوفناک بنارہی تھیں، پتہ چلا کہ یہ آوازیں دریائی گھوڑوں کی ہیں جو دریامیں موجود ہیں، نماز کے دوران عجیب کیفیت تھی کہ کہیں ادھر ادھر سے کوئی جانور نہ آجائے۔ 
عشاء کی نماز پڑھ کر رات ہی کو شیر دیکھنے کے لیے نکلے، جب افریقی جنگلوں میں جانے اور وہاں جانوروں کو دیکھنے کے واقعات سنتے تھے تو میرا ایک تصور تھاکہ گاڑی کے چاروں طرف شیشے لگے ہوں گے اور اس کے اوپر لوہے کی گرل لگی ہوگی اس گاڑی میں بیٹھ کر لوگ جنگل کے اندر جاتے ہوں گے تو ہمارے سامنے انتظامیہ نے جو گاڑی سواری کے لیے کھڑی کی اس کو دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ عام جیپ کی طرح ایک بڑی جیپ تھی، نشستیں آڈیٹوریم کی طرح اوپر نیچے تھیں اور بالکل کھلی تھیں، نہ شیشہ اور نہ ہی گرل تھی، ہر طرف سے کھلی تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ رات کی تاریکی میں جنگل میں شیر کو دیکھنے جارہے ہیں، مگر کسی کے پاس حفاظت کے لیے اسلحہ نہیں، حتیٰ کہ ہمارا گائیڈ جوگاڑی بھی چلارہاتھا، اس کے پاس بھی اسلحہ نہیں تھا، بہر حال جانے سے پہلے گائیڈ نے انگلش میں ہدایات دیں، جس کاخلاصہ یہ تھاکہ خاموش رہیں، بالکل نہ بولیں اور نہ ہی کوئی حرکت کریں، ڈرائیور کے علاوہ ایک اور آدمی گاڑی میں لائٹ لے کر کھڑا تھا، جوشیر دیکھنے کے لیے لائٹ گھماتا تھا ، چنانچہ ایک جگہ سفید شیر دیکھا کہ بیٹھاہوا ہے، ڈرائیور نے گاڑی اس کے قریب لے جاکر کھڑی کردی، خوف بھی محسوس ہورہاتھا، کچھ دیر کے بعد شیر وہاں سے چلاگیا، ہماری گاڑی بھی چلتی رہی، ایک جگہ ایک گاڑی کھڑی نظر آئی تو ہم بھی اس طرف چلے، تو دیکھاکہ گاڑی کی ہیڈلائٹ کے سامنے شیربیٹھاہے، ہماری گاڑی بھی قریب جاکررک گئی، شیرویساہی بیٹھارہا، اس کے بعد واپس کیمپ پہنچے، کھاناکھاکر آرام کرنے چلے گئے۔ جن کمروں میں ہم آرام کرتے تھے، جنگلی جانور رات کو ادھر بھی پھرتے رہتے تھے، اس لیے صبح دیکھ بھال کر فجر کی نماز کے لیے نکلتے تھے، اگلے دن یعنی ۱۶مئی پیر کے دن فجر کے بعد ہلکاپھلکاناشتہ کیا۔ تقریباً صبح چھ بجے گاڑی پر سوار ہوکر نیشنل پارک کی طرف روانہ ہوئے، یہ پارک نوہزار پچاس مربع کلومیٹر پر محیط ہے، اس میں شکار کرنا منع ہے، چیک پوسٹ پر ضروری کارروائی کے بعد جنگل کی طرف چل پڑے، بڑا گھنا جنگل ہے، اس میں گھومتے رہے، طرح طرح کے جانور دیکھتے رہے، ہاتھی، زیبرا، زرافہ، ہرن وغیرہ، چلتے چلتے ایک جگہ انگریزوں کی متعدد گاڑیاں کھڑی ہوئی دیکھیں تو ہمارے ڈرائیو رنے گاڑی کا رُخ اسی طرف پھیر دیا، قریب جاکر دیکھا کہ درمیان میں ایک شیر بیٹھا ہے، کچھ فاصلے پر شیرنی بھی ہے، دواطراف گاڑیاں کھڑی ہیں، مگر مکمل سکوت ہے، چند منٹ یہاں ٹھہرنے کے بعد پھر چل پڑے۔ تین گھنٹے جنگل میں گھومتے پھرتے رہے۔ بعض اوقات خطرناک راستوں سے بھی گزرے، چونکہ کافی دور تک جاچکے تھے تو پھر ڈرائیور ایک بڑی نہر کے قریب گاڑی لے گیا، وہاں کشتی پر گاڑی سوار کراکر دوسرے کنارے اُتارا، پھر مختلف جھاڑیوں اور ناہموار راستوں سے ہوتے ہوئے اپنے کیمپ پہنچے، تقریباًساڑھے گیارہ بجے بھرپور ناشتہ کیا اور آرام کرنے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ دوبجے کے قریب اُٹھ کر ظہر کی نماز پڑھی، کچھ دیر بعد دوپہر کاکھاناکھاکر عصر کے بعد اسی جنگل کی طرف گاڑی پر سوار ہوکر چل پڑے۔ مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں شیر اور شیرنی دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں اور بھی گاڑیاں کھڑی ہیں، ہماری گاڑی بھی پانچ سات گز کے فاصلے پر کھڑی کردی گئی، یہاں بھی انگریز سیاح پہلے سے موجود تھے، اس سے معلوم ہواکہ سیاح زیادہ شیر کودیکھنے کااہتمام کرتے ہیں اور باوجود کہ مختلف گاڑیاں کھڑی ہیں، مکمل سکوت کی وجہ سے شیر خاموشی سے بیٹھے تھے، البتہ گردن اُٹھاکر اِدھر اُدھر دیکھتے تھے۔ تقریباً پانچ منٹ کے بعد پھر روانہ ہوئے، جنگل ہی میں ایک کشادہ وصاف جگہ مل گئی، مغرب کی نماز کے لیے اذان دی گئی اور باجماعت نماز پڑھی گئی۔ عجیب ماحول تھا جنگل کا، سکوت اور رات کی تاریکی تھی، کچھ لائٹس سے روشنی کاانتظام کیاگیا، وہیں چائے پی، پھر بڑی ٹارچ لے کر جنگل میں گھومتے رہے۔ بعض مقامات تو خوفناک تھے، مختلف جانور دیکھتے ہوئے واپسی ہوئی۔ عشاء کے قریب کیمپ پہنچے، کھاناکھاکر عشاء کی نماز پڑھ کر سوگئے۔ یہ کیمپ میں ہماری دوسری اور آخری را ت تھی۔ 

چاپاتا شہر آمد

۱۷؍مئی کو فجر کی نماز پڑھ کرناشتہ کرکے چاپاتا شہر کے لیے روانہ ہوئے۔ چاپاتاشہر میں ایک جگہ دوپہر کے کھانے کی دعوت تھی، کھانے کے بعد ظہرکی نماز پڑھی اور آرام کیا۔ عصر کی نما زکے بعد مقامی ساتھیوں کے ساتھ دوگاڑیوں میں ایک جنگل کی طرف چلے کہ وہاں ہرن کا شکار کرناتھا۔ تقریباً گھنٹے کی مسافت طے کر کے مذکورہ مقام پر پہنچے، راستے میں مختلف مقامات میں دیکھاکہ لوگوں نے بھیڑ بکریوں کے ساتھ خنزیر بھی گھروں میں رکھے ہوئے ہیں۔ 

۴۰؍ سال قبل تبلیغی جماعت کی آمد

جنگل کے شروع میں ایک قدیم مسجد دیکھی، مقامی ساتھیوں نے بتایاکہ ۴۰ سال قبل اس پُر خطر راستہ سے ایک پیدل تبلیغی جماعت یہاں آئی تھی، جس کی قربانیوں سے کافی ثمرات ظاہر ہوئے۔ مغرب کی نماز اس مسجد میں اداکر کے چائے وغیرہ پی کر گاڑیوں میں سوار ہوکر جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ مولانارضاء اللہ صاحب، مولانا فصیح الرحمن صاحب اور مولانامعراج حسین صاحب مقامی ساتھیوں کے ساتھ گاڑی کے پچھلے کھلے حصے میں کھڑے بڑی لائٹ سے اِدھر اُدھر جانور دیکھتے تھے۔ ہرنیوں کے ریوڑ ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ جنگلی بھینسیں تھیں مگر شکار ہرن کاکرناتھا۔ اس کی تلاش میں تقریباً ۱۸/۲۰ کلو میٹر اندر جاچکے تھے۔ ہر طرف تاریکی کے ساتھ ساتھ سنّاٹااور خوف و ہراس بھی تھا۔ ایک جگہ ہرن نظر آیا، مولانارضاء اللہ نے نشانہ لگایا مگر نہیں لگا، گھومتے رہے، ایک جگہ پھر ہرن نظرآیا، روشنی پھینکی، نشانہ لگایا، مگر خطأ گیا۔ پھرآگے بڑھتے رہے کہ اچانک گاڑیاں رُک گئیں کہ آگے ہاتھی کی آواز سنائی دی ہے، تووہیں سے گاڑیاں واپس لے کر دوسرے راستے پر ڈال دیں، کیوں کہ سناہے کہ ہاتھی خطرناک حملہ کرتاہے۔ اس راستے پر دور ایک جگہ ہرن نظر آیا، مقامی ساتھی بھائی رشید احمد نے فائر کیاتواس کی گردن پر نشانہ لگا تو وہ گِر گیا، ساتھی چھریاں لے کر اس کی طرف بھاگے، حالانکہ خوف ناک جنگل ہے، کوئی بھی درندہ راستے میں حملہ کرسکتاتھا، چنانچہ ہرن کوذبح کیا، چار ساتھی اس کو اُٹھاکر لائے، بڑے بکرے کی جسامت کے برابر تھا، سینگ بڑے خوبصورت تھے، اس کامیابی پر سب ساتھی خوش تھے۔ وہاں سے واپس آئے اورراستہ ہی میں دوحبشیوں نے اس کی کھال اُتارکر گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے بنادئیے، اس کے بعد واپسی ہوئی۔ ابھی جنگل ہی میں تھے کہ اچانک آگے والی گاڑی رُک گئی کہ راستہ میں ایک بڑاہاتھی راستہ بند کیے کھڑاہے، گاڑیاں رُک گئیں، اس کے جانے کاانتظار کرنے لگے، کچھ دیر کے بعد وہ راستہ سے ہٹ گیا مگر راستہ کی طرف منہ کر کے کھڑاتھا، گاڑیاں تیزی سے چلیں تو گزرتے وقت دیکھاتوواقعی بہت بڑاہاتھی تھا۔ 

چاپاتاواپسی

رات بارہ بجے چاپاتاواپسی ہوئی، عشاء کی نماز پڑھی اور ہرن کے گوشت کے کباب وغیرہ بنائے گئے، رات ایک بجے کھانا کھایا اور آرام کیا، آج ۱۸ مئی کوصبح ناشتہ کرکے واپس اپنے شہر لوساکاکے لیے روانہ ہوئے۔ مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے ایک جگہ ظہر کی نماز پڑھی اور دوپہر کاکھانا کھایا اور عصر کے وقت اپنے مرکز’’الجامعۃ الاسلامیہ‘‘ پہنچے، عصر کی نماز کے وقت آرام کیا۔ 

سائٹ ایریاکادورہ 

آج ۱۹؍ مئی کوفجر کی نماز کے بعد مختصر ساناشتہ کر کے آرام کیا، پھر ۸ بجے ایک جگہ ناشتہ کی دعوت تھی، ناشتہ کیا۔ زامبیاکے سفر میں ایک عجیب بات یہ دیکھی کہ ماشاء اللہ! ناشتہ سمیت ہرکھانا خوب کھایاجاتااور دوسرے کھانے کے وقت بُھوک بھی خوب لگتی تھی، ایسی آب و ہواتھی کہ کبھی بھی گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ ماشاء اللہ! ہرجگہ دعوت کے منتظمین بہت پُرتکلف اہتمام کرتے اور بھرپور محبت کے ساتھ کھاناکھلانے میں مصروف رہتے۔ فجزاھم اللّٰہ أحسن الجزاء 
بہرحال ناشتہ سے فراغت کے بعد لوساکا کی سائٹ ایریا کی طرف لے جایاگیا، مختلف فیکٹریوں میں لے جایا گیا اور مختلف طرح کے سامان بنتے دکھایاگیا۔ مختلف طرح کی ٹافیاں، بسکٹ اور طرح طرح کے صابن اور سرف وغیرہ بنتے دکھایاگیا۔ وہاں جن حضرات سے ملاقات ہوئی اُس سے دل بہت خوش ہوا کہ ماشاء اللہ! ہمارے مسلمان بھائی باشرع اور اسلامی لباس زیب تن کیے ہوئے بڑی بڑی فیکٹریاں، کارخانے چلارہے ہیں۔ مختلف فیکٹریوں کادورہ کر کے مولانا محمد افضل صاحب کے زیرِ تعمیر فارم ہائوس کی طرف چل پڑے کہ آج دوپہر کاکھانا وہاں کھاناتھا، وہاں پہنچے، فارم ہائوس دیکھا، کافی بڑا تھا، تقریباً آدھا تیار ہوچکا تھا، دوپہر کا کھانا کھاکر واپس اپنے مرکز آگئے اور آرام کیا، عصر کی نماز کے بعد چائے بمع لوازمات کے ساتھ مجلس قائم ہوئی، جوکہ مغرب کے بعد بھی قائم رہی۔ 

مسجد عمر آمد

عشاء کی نماز پڑھنے مسجد عمر گئے (جہاں صبح جمعۃ المبارک کابیان بھی کرناتھا)بہت بڑی اور بہت ہی خوبصورت مسجد تھی، عشاء کی نماز کے بعد ایک جگہ کھانے کی دعوت تھی، وہاں سے کھاناکھاکر واپس مرکز پہنچ کر آرام کیا۔ 
آج ۲۰؍ مئی بروز جمعۃ المبارک نماز فجر کے بعد ہلکاپھلکا ناشتہ کیا، پھر تقریباً ساڑھے ۸ بجے مولانامحمد ادریس صاحب کے گھر پُر تکلف ناشتہ کیا، مسجد عمر میں جمعۃ المبارک کابیان کرنے کے لیے ۱۲ بجے نکلے تو اس راستے سے ملک کے صدر نے گزرناتھا، اس لیے راستہ بند تھا، چنانچہ مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے تاخیر سے مسجدعمر پہنچے۔ ۳۰: ۱۲کی بجائے ۳۷: ۱۲ پر بیان شروع ہوا اور ۵۱: ۱۲ پر ختم ہوا، مولانا فصیح الرحمن صاحب نے خطبہ پڑھا اور جمعۃ المبارک کی نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد مولانا محمدا فضل صاحب کے گھر دوپہر کاکھانا تھاجوکہ بہت ہی پُر تکلف تھا۔ وہاں سے فراغت کے بعد اپنے مرکز آگئے۔ مغرب کی نماز کے بعد ایک اور جگہ دعوت تھی۔ کھانے سے فراغت پر واپسی میں راستے ہی میں عشاء کی نماز پڑھی، واپس آکر اپنے اپنے کمروں میں آرام کے لیے چلے گئے۔ 
آج ۲۱؍ مئی بروزہفتہ نمازِ فجر کے بعد حسبِ سابق ہلکاپھلکا ناشتہ کیا، تقریباً ۸ بجے مولانا مبشّر صاحب کے گھر ناشتہ کے لیے چلے گئے۔ ناشتے کے بعد واپس آکر آج رات کے پہلے پروگرام میں تقریر کی تیاری کرنے لگا۔ اس کے بعد آرام کیا، ظہر کی نماز کے بعد مہمان خانہ میں ہندوستانی مہمان اور ساؤتھ افریقہ سے اور دیگر ممالک سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ کھاناکھایا۔ یہ دوپہر کاپہلاکھاناتھا جواپنے میزبانوں کے ہاں کھایاتھا۔ 

تکمیلِ قرآن کی تقریب میں شرکت 

آج بعد از نمازِ مغرب جامعہ اسلامیہ کے پہلے بڑے پروگرام کے تحت ایک عظیم الشان جلسہ کا انعقاد تھا، جوکہ حفّاظ کرام اور قراء ت ِ سبعہ کی تعلیم کی تکمیل پر منعقد کیاجارہاتھا۔ بڑی جامع مسجد میں پروگرام تھا۔ عشاء کی نماز مرکزی مسجد میں پڑھی، فرزندانِ اسلام سے مسجد بھری ہوئی تھی۔ ہندوستان سے معروف شخصیت قاری محمد صدیق صاحب اور ساؤتھ افریقہ سے حضرت مولانامفتی سعید احمد صاحب اور مختلف ممالک کے طلبہ کے والدین، اعزہ واقارب اور مقامی لوگوں کی بڑی تعداد تھی، جس کی وجہ سے مسجد کا ہال برآمدہ وغیرہ سب بھرے ہوئے تھے۔ مقررین کاوقت ۱۰ منٹ مقرر تھا۔ افتتاح قرآن کریم کی تلاوت سے ہوا، اس کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ کی حیثیت سے بندہ کانام لے کر بلایا گیا۔ بندہ نے عظمتِ قرآن کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میرے بعد ہندوستان سے تشریف لائے حضرت قاری محمد صدیق صاحب کودعوت دی گئی۔ حضرت نے اولاً ایک نعت پڑھی، پھر قرآن کریم کے موضوع پر بیان فرمایا۔ ان کے بعد ساؤ تھ افریقہ سے تشریف لاتے ہوئے مہمان مولا نا مفتی سعید احمد صاحب کودعوت دی گئی، حضرت نے انگلش میں بیان فرمایا، (اردو میں صرف بندہ اور قاری صاحب کابیان تھا) بیان کے بعد اس مبارک مجلس میں نکاح پڑھوائے گئے۔ آخر میں حفّاظ کرام نے قرآن کریم کی تکمیل کی اور قراء ت ِ سبعہ کی تکمیل کرنے والوں نے مختلف قراء توں میں قرآن کریم سنایا، اس کے بعد دعاپر تقریب کااختتام ہوا۔ اس کے بعد قریب ہی ایک جگہ سب مہمانوں کے لیے کھانے کی دعوت کاانتظام تھا، وہاں سے فراغت کے بعد اپنے مرکز پہنچے اور آرام کیا۔ 
آج مورخہ ۲۲؍مئی کوختم بخاری شریف کی اہم تقریب تھی، چنانچہ ساڑھے نو بجے روانہ ہوئے۔ 

ختم بخاری شریف کی تقریب

اسکول کے بڑے ہال میں تقریب کاانعقاد کیا گیا تھا، بہت عمدہ انتظامات کیے گئے تھے۔ قریب ممالک سے طلبہ کے والدین آئے تھے، بہت بڑااجتماع تھا۔ مقررین کی فہرست میں آٹھویں۸ نمبر پرمیری تقریر تھی۔ سب تقاریر انگلش میں تھیں، پاکستان سے بندہ اور ہندوستان سے قاری محمد صدیق صاحب کی اردومیں تقاریر تھیں۔ بندہ کا علم اور اہل علم کی فضیلت اور اس کے حقیقی مصداق کون ہیں؟ کے موضوع پر بیان تھا۔ بندہ کے بیان کے بعد آخر میں مفتی سعید احمد صاحب کوبلایاگیا، حضرت نے انگلش میں بخاری شریف کی آخری حدیث پر بہت عمدہ بیان فرمایا۔ بیان کے بعد فارغ التحصیل علماء کی دستاربندی کی گئی، بندہ کو بھی پگڑی باندھنے میں ساتھ ملایاگیاتھا۔ آج کی تقریب بہت اہم اور بہت ہی کامیاب رہی۔ تقریب کے بعد دوپہر کاکھاناکہیں اور تھا، سب کھاناکھاکر واپس اپنے مرکز پہنچ گئے۔ 

طلبہ سے خطاب

مغرب کی نماز کے بعد جامعہ کے طلبہ سے تقریباً آدھے گھنٹے کابندہ کابیان رکھاگیا۔ بیان کے بعد انعامات بندہ کے ذ ریعہ دلوائے گئے۔ عشاء تک یہ تقریب جاری رہی۔ اس کے بعد مولانا محمد افضل صاحب کے خالو صاحب کے گھر دعوت تھی۔ کھانے سے فراغت کے بعد واپس اپنے مرکزآگئے۔ 

آبشار عجوبۂ خداوندی 

آج مورخہ ۲۳؍مئی کو دنیا کاایک عجوبہ ’’آبشار ‘‘دیکھنے کا پروگرام تھا۔ چنانچہ فجر کے بعدحسب سابق ہلکاپھلکاناشتہ کیا، پھر دوگاڑیوں میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ دوگھنٹے کی مسافت طے کر کے ایک جگہ ٹھہرکر اپنے ساتھ لایاہواناشتہ کیا، پھر روانہ ہوئے، تقریباً ۱۲ بجے مطلوبہ مقام پر پہنچے۔ پہلے سے بُک کیے گئے ایک خوبصورت ریسٹ ہاؤس میں قیام کرناتھا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ آرام کے بعد ظہر کی نماز پڑھی اور اپنے ساتھ لایاہوا کھاناکھایا، چائے پی۔ اپناسامان یہیں رکھ کر دونوں گاڑیاں آبشار کی طرف روانہ ہوئیں، تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہاں پہنچے۔ ٹکٹ لیے، غیر ملکی کے لیے ۲۰؍ ڈالر اور مقامی کے لیے آدھاڈالرتھا۔ یہاں بندر بہت زیادہ تھے، جگہ جگہ لکھ کر لگایاگیاتھاکہ بندروں سے اپنے کھانے پینے کے سامان کی حفاظت کریں۔ ایسی جگہ پر ایک بندر آیااور ہمارے ساتھی سے کھانے کا شاپر سمجھ کر چھین کر لے گیا، آگے جاکر دیکھاکہ اس میں پانی ہے تووہیں پھینک دیا۔ اب آبشار دیکھنے سے پہلے اپنی جیبیں خالی کی جارہی تھیں، پاسپورٹ، نقدی وغیرہ سب نکال کر سب گاڑی میں رکھ رہے تھے کہ آگے جاکر بارش میں نہانا بھی تھا، آبشار دیکھنے چلے، کیاہی عجیب و غریب قدرتِ خداوندی کاایک عجوبہ تھا۔ انتہائی خوبصورت مناظر شروع ہوگئے، بتایاگیاکہ یہ آبشارکئی کلومیٹر لمبی ہے جس کی دوتہائی زامبیا اور ایک تہائی زمبابوے میں ہے، جیسے جیسے آگے احتیاط سے آگے بڑھ رہے تھے، بہت گہرائی میں گرنے والے پانی سے فوار اُٹھ کر کچھ بلندی پر جاکر ٹھنڈی پھوار بن کر موسلادھاربارش کی طرح برس رہی تھی، بہت ہی لطف محسوس ہورہا تھا، جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے بارش تیز سے تیز تر ہوکر عجیب لطف پیدا کررہی تھی۔ اس جگہ پر غیر ملکی انگریزاور سیاہ فام مرداورعورتیں چھوٹے بڑے بڑی مقدار میں اس عجیب منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ مختلف مقامات بنائے گئے، لہٰذا مختلف زاویوں سے نظّارہ کیاجارہاتھا۔ اس نظّارے کے بعد یہ آبشار جہاں سے بنتی تھی اس دریا کے پاس گئے، جس کاپانی تیزی سے چلنے کی وجہ سے خوف ناک آواز پیدا کررہاتھا۔ وہاں عصر کی نماز پڑھی، چائے پی کرکچھ دیر بیٹھنے کے بعد زمبابوے کی سرحد کی طرف چلے۔ 

زمبابوے میں داخلہ

سرحد سے اجازت لے کر زمبابوے کی سرحد میں داخل ہوئے، کافی اندر جانے کے بعد پھر واپس ہوئے توگویازمبابوے کے اندر بھی ہمارا جانا ہوگیا تھا۔ پھر تقریباً مغرب کی نماز کے وقت اپنے مقام پر پہنچے۔ مغرب کے بعد گرم گرم کھانے کاانتظام ہورہاتھا، شکار کیے ہوئے ہرن کاگوشت بھی ساتھ لائے تھے، کوئلے سمیت گوشت بھوننے کاساراسامان بھی ساتھ لائے تھے، چنانچہ کچھ ساتھی کوئلوں پر گوشت بھون کر دسترخوان پر رکھ رہے تھے، سردی کی وجہ سے کوئلوں کی انگیٹھی بھی جلارکھی تھی، سب ساتھیوں نے بھرپور کھاناکھایا۔ ٹھنڈی ہوائوں میں گرم گرم کھانا بہت لطف دے رہاتھا۔ کھانے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی، چونکہ تھکاوٹ کافی ہوچکی تھی، لہٰذا سب ساتھی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ ریسٹ ہائوس خوبصورت اور صاف ستھراتھا۔ ۲۴؍مئی کو فجر کی نماز کے بعد ناشتہ لگادیاگیاتھا۔ ناشتہ کرکے واپسی کاسفر شروع کیا۔ دوگھنٹے کی مسافت کے بعد ایک جگہ کچھ دیر کے لیے ٹھہر کرپھرروانہ ہوئے، ایک مسجد میں ظہر کی نماز پڑھی اور چائے پی، پھر روانہ ہوئے۔ 

 اسٹیل مل آمد

اب اگلی منزل مولانا یوسف صاحب کے ماموں کی اسٹیل مل تھی، وہاں دوپہر کے کھانے کی دعوت تھی۔ اسٹیل مل بہت بڑی تھی، کافی رقبے پر پھیلی ہوئی تھی، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے رات کوکام ہونا تھا، اس لیے کام نہ دیکھ سکے، کھاناکھانے کے بعد تقریباً۳۰: ۳بجے اپنے مرکز پہنچے۔ آج عشاء کے بعد ایک جگہ دعوت تھی، کھانے کے بعد واپس آکرآرام کیا۔ 
آج مؤرخہ ۲۵؍مئی کوصبح ناشتہ کی ایک جگہ دعوت تھی، دورہ حدیث سے فراغت پانے والے طلبہ کی بھی دعوت تھی، ناشتہ کیا، ایک بھرپور کھانے کاانتظام تھا، میزبان بہت اصرار کے ساتھ کھاناکھلارہے تھے۔ ناشتہ کے بعد واپسی ہوئی۔ تقریباً ساڑھے دس بجے کے قریب ایک مکتب میں قرآن کریم پڑھنے والے بچوں (جوکہ سب کالے تھے) میں انعامات تقسیم کرنے کی تقریب میں گئے، مجھے کچھ بیان کرنے کے لیے کہاتوتقریباً ۱۵منٹ اردو میں بیان کیا، مولاناحمزہ صاحب مقامی زبان میں ترجمہ کرتے تھے۔ بچوں کے والدین بھی موجود تھے، خواتین پردے میں تھیں۔ بیان کے بعد بندہ کے ہاتھوں انعامات دلوائے گئے، انعامات میں سب گھریلواستعمال کے مختلف برتن تھے۔ چھوٹے بڑے سب خوش ہورہے تھے۔ یہاں سے فراغت کے بعدمولانا حمزہ صاحب کے گھرپُرتکلف دوپہر کھانے کی دعوت تھی۔ کھانے کے بعد جامعہ اسلامیہ کی پہلی عمارت دیکھنے کے لیے گئے، جہاں کام کی ابتداء کی تھی۔ اس کے بعدایک راشن تقسیم کرنے کی تقریب میں گئے، جہاں بہت سے مرد عورتیں اور بچے راشن لینے کے لیے جمع تھے۔ بندہ اور مولاناحمزہ صاحب نے راشن تقسیم کیا، آٹے کی تھیلی کے علاوہ گھی، چینی وغیرہ کی چیزوں کی دوسری تھیلی تھی۔ کافی منظّم اندا زسے راشن تقسیم کیا گیا تھا۔ وہاں سے واپسی ہوئی۔ 

سفر زامبیاکے کچھ مشاہدات وتاثرات

۱…مسلمانوں کی مذہب سے وابستگی

زامبیاکے سفر میں جس چیزسے سب سے زیادہ خوشی ہوئی، وہ مسلمانوں کی اپنے مذہب سے وابستگی ہے۔ خوبصورت مساجدکے ساتھ مکاتب بھی بنائے گئے ہیں۔ مساجد کی کشادگی، ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ باطنی حسن وجمال بھی خوب پایاجاتاہے کہ نمازیوں سے آبادہیں۔ مسلمانوں کی وضع قطع اسلامی شعارکانمونہ ہے، آپس میں محبت وبھائی چارگی کا بھرپور اظہارپایاجاتاہے۔ 

۲…تبلیغی جماعتوں کی آمدورفت

تبلیغی جماعتوں کی آمدورفت رہتی ہے، جس کے اثرات مقامی مسلمانوں میں نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں، جماعتوں کی نصرت کے ساتھ ساتھ مہمان نوازی کا بھی بھرپور مظاہرہ پایا جاتا ہے، مساجدمیں جماعتی کام کے ساتھ ساتھ تعلیم کاسلسلہ بھی جاری ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں دین کے ساتھ وابستگی خوب پائی جاتی ہے۔ 

۳…ایک متاثر کن عمل

ہمارے گجراتی بھائیوں کے بارے میں یہ بات مشہورہے کہ اپنے گھربنانے سے پہلے مسجد اور مکتب بنانے کی فکر ہوتی ہے، واقعتاایساہی پایاگیاہے، بڑی بڑی مساجدکے ساتھ مکاتب بنائے گئے ہیں، جہاں بڑے احسن طریقے سے تعلیم دی جارہی ہے۔ ان کے علاوہ بھی مختلف مدارس قائم ہیں، جہاں کا طریقۂ تعلیم اور نظم وضبط کودیکھ کربے انتہاء خوشی ہورہی تھی، ایک بڑاہی متاثر کن عمل یہ دیکھنے میں آیاکہ مکاتب میں قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی لازم ہے، اوردونوں کے لیے الگ الگ اوقات مقرر ہیں۔ ایک ایسے ہی مکتب میں جاناہواجہاں سب سے پہلی کلاس میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں اور بچیوں کی تعلیم کی ابتداء حروفِ تہجی کی تختی سے کی جارہی تھی، ایک ایک بچے سے حروف کی پہچان کرواکر صحیح تلفظ کے ساتھ اداکرائے جارہے تھے، اس کے ساتھ اگلے سال کی کلاس تھی، پھرتیسرے سال کی الخ۔ اس طرح ایک بچہ جب قرآن کریم کا بہترین حافظ بن جاتاہے تو وہ میٹرک تک عصری تعلیم بھی حاصل کرچکاہوتا ہے۔ پٹاؤ کے‘کے ایک مدرسے میں جاناہوا، تو بتایا گیا کہ اس جگہ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے دعا فرمائی تھی، آج وہاں ایک عظیم الشان مدرسہ ’’انوارالاسلام‘‘ کے نام سے قائم ہے اور وہاں قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی ساتھ ساتھ دی جاتی ہے۔ 

۴…عیسائی بچے اور حفظِ قرآن 

اس مدرسہ میں ایک حیرت انگیز عمل دیکھنے میں آیا، وہ یہ کہ چالیس عیسائی بچے قرآن کریم حفظ کررہے ہیں۔ مسلمان بچوں سے قرآن کریم سننے کے بعد جب ایک عیسائی (سیاہ فام) بچے کو بلایاگیا تو اس نے بلند آواز سے زبانی قرآن کریم کی تلاوت کرکے ایک عجیب ساسماں باندھ دیاتھا، معلوم کرنے پر بتایاگیا کہ ان کے عیسائی والدین خود بچوں کو چھوڑ کر گئے ہیں کہ ان کو قرآن حفظ کرایاجائے، ماشاء اللہ! مدرسہ کی انتظامیہ بڑی حکمت وتدبر اور شفقت اورمہربانی کے ساتھ ان کو قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دے رہی ہے، چونکہ ابھی یہ بچے چھوٹے ہیں، ان شاء اللہ! وقت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تعلیم ان کو نورِ ایمانی سے بھی منور کردے گی اور یہی بچے آئندہ قرآن کریم کے محافظ بنیں گے، ان شاء اللہ! الغرض مکاتب ومدارس میں بہت ہی نظم وضبط کے ساتھ تعلیم دی جارہی ہے۔ 

 

۵…مسلمانوں کی معاشی حالت

وہاں کے مقامی مسلمانوں (سیاہ فام)میں تو عمومی طورپر غربت وافلاس پایاجاتاہے، جو ان کی طرزِ زندگی سے بھی واضح ہوتاہے، البتہ ہمارے گجراتی مسلمان بھائیوں کی محنت ولگن رنگ لائی ہے کہ وہ نہ صرف معاشی طورپر مستحکم ہیں، بلکہ ملکی انڈسٹری میں بھی اچھاخاصہ مقام رکھتے ہیں۔ مختلف فیکٹریوں، کارخانوں کے مالکان ہیں، جہاں بہت سی مصنوعات تیارہوکر ملکی ضررویات پورا کرنے کے علاوہ بیرونِ ممالک بھی برآمدکی جاتی ہیں۔ نیز یہ حضرات اعلیٰ درجہ کے باتوفیق اصحابِ خیر بھی ہیں، وہاں کی خوبصورت مساجد ومدارس اس کا بیّن ثبوت ہیں۔ 

۶…رفاہِ عامہ کے کام

جیساکہ اوپر بتایاگیاہے کہ’’الجامعۃ الاسلامیۃ‘‘کے تحت مختلف شعبے قائم ہیں، جن میں بعض شعبے ایسے ہیں کہ جن کے تحت پسماندہ علاقوں میں راشن تقسیم کیاجاتاہے، راشن وغیرہ کی تقسیم مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلموں میں بھی کی جاتی ہے۔ اسی طرح پانی کی ضررویات کے لیے کنویں، ہینڈپمپ وغیرہ لگائے جاتے ہیں اور زکوٰۃ اورغیرزکوٰۃ کی تقسیم کا ایک مربوط نظم قائم ہے، جیساکہ پہلے بتایا گیا ہے کہ جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں، وہ کام الحمدللہ! بنوری ٹاؤن کے فضلاء وہاں کے مخیرحضرات کے تعاون سے احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ 

۷:…مسجد توحید کی بنا

مسجد توحید کی بناء کا عجیب واقعہ ہے، وہ یہ کہ جب مسلمانوں نے اس جگہ مسجد تعمیرکرنی شروع کی توایک عیسائی عورت نے اپنااثر ورسوخ استعمال کرکے حکومت کی جانب سے مسجد کی تعمیربند کرادی، چونکہ ’’الجامعۃ الاسلامیۃ‘‘کی انتظامیہ مختلف مقامات پر مختلف رفاہِ عامہ کے کام کرتی ہے تو ایک جگہ کنواں کھود کر ہینڈ پمپ لگایا تھا، اس کے افتتاح کی تقریب میں اس وقت کے وزیر داخلہ بھی موجود تھے، وہ اس قدر خوش تھا کہ اس کی خواہش تھی کہ نکلنے والا پانی پہلے میں پیوں، اور جامعہ کی انتظامیہ سے بہت خوش اور متاثر تھا۔ اس وقت کے صدر کاانتقال ہوگیاتھا تویہی وزیرداخلہ صدارتی الیکشن جیت کر ملک کاصدر بن گیا، اس کے پاس مسلمانوں کا وفد ملاقات کے لیے گیا اور مسجد توحید بندکرنے کا تذکرہ کیا ، وہ پہلے سے ہی مسلمانوں سے بڑا متأثر تھا، تو اس نے نہ صرف مسجد توحید کی تعمیر کی اجازت دی، بلکہ ساتھ ہی زمین کا بہت بڑا رقبہ بھی دے دیا، جس پر مدرسہ کی تعمیر ہوئی، پھر اس نے عورت نے بھی اپنا مکان مسلمانوں پر فروخت کردیا، اس طرح وہ مکان بھی اس جگہ میں شامل کردیا گیا، جسے اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے خوب محنت کرنے والوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور امداد کی بہترین مثال سمجھاجاسکتاہے۔ 
بہرحال ہمارا سفر اختتام پذیر ہوا، ۲۵؍ مئی کی رات پاکستان واپسی تھی، اس لیے تیاری شروع کردی۔ مختلف ہدایا دیئے گئے۔ مغرب کی نمازپڑھ کر ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً سب بڑے حضرات ایئر پورٹ پہنچے، وہاں عشاء کی نماز پڑھی، پھر ہمیں رخصت کرتے وقت بھرپور محبت کااظہار کیاگیا۔ جدائی کے وقت طرفین کے جذبات واضح تھے۔ رخصت کر کے یہ حضرات واپس چلے گئے، ہم اندر چلے گئے۔ مقامی وقت کے مطابق ساڑھے نوبجے، پاکستانی وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے جہاز روانہ ہوا۔ ۲۶ ؍مئی کی فجر کی نماز جہاز میں پڑھی۔ چھ گھنٹے کاسفر طے کرکے دبئی پہنچے، دوگھنٹے کے بعد روانہ ہوکر پاکستانی وقت کے مطابق تقریباً ایک بجے دن میں کراچی پہنچ گئے۔ دینی اُخوّت، اسلامی بھائی چارے، دین دوستی، جذبۂ ایثاروقربانی، احترام وقدردانی، روایتی اسلامی اقدار اور بے مثال میزبانی کایہ مختصر مگر تادیر یادرہنے والا یادگار سفر تمام ہوا۔ 
اللہ جلّ شانہٗ کاجس قدر شکر اداکیاجائے کم ہے کہ پورے سفر میں اپنے خاص لطف و کرم کامعاملہ فرمایا، کسی قسم کی بیماری اور پریشانی نہیں ہوئی، وللّٰہ الحمد أولاً وأٰخرا۔ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعاہے کہ میزبانوں اور مہمانوں کے اس دینی رشتے اور اسلامی اُخوت میں مزید و مدید مضبوطی و استحکام پیدافرمائے اور اس دینی وابستگی کو ہماری نسلوں میں جاری و ساری رکھے۔ أٰمین 

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی سیدنا محمد وعلٰی أٰلہ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین