بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سفرِ آخرت کے تین مسافر! ڈاکٹر امجد علیؒ   ، سائیں عبدالصمد ہالیجویؒ ، سعید احمد بن خواجہ خان محمدؒ

سفرِ آخرت کے تین مسافر!

ڈاکٹر امجد علیؒ   ، سائیں عبدالصمد ہالیجویؒ ، سعید احمد بن خواجہ خان محمدؒ


ڈاکٹر امجد علی رحمۃ اللہ علیہ  

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل، حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی قدس سرہٗ کے شاگرد، مدرسہ ابن عباسؓ و مدرسہ عائشہ صدیقہؓکے بانی ورئیس، تحریکی وتخلیقی بنیادوں پر عربی زبان کی ترویج و اشاعت کے مُوجد وداعی، نصف صدی سے زائد زندگی تبلیغی خدمات میں لگانے اور طبِ نبوی کو رواج دینے والے اور سنت طریقۂ علاج مثلاً حجامہ وغیرہ کے موجد، اپنے ادارہ میں حفظِ حدیث کو رواج دینے والے، حضرت مولانا ڈاکٹر امجد علی رحمۃ اللہ علیہ  اس دنیائے رنگ وبو میں ۸۱ بہاریں گزار کر ۹ ؍صفر المظفر ۱۴۴۵ھ مطابق  ۲۷؍اگست ۲۰۲۳ء بروز اتوار بعد نمازِ عشاء ہزاروں طلبہ، علماء اور متعلقین کو سوگوار چھوڑ کر سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے، إناللہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔ 
ڈاکٹر امجد علی صاحب کی پیدائش ۱۹۴۲ء میں ہوئی، آپ پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی مرحوم کے صاحبزادے تھے، ابتدائی طبی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کےلیے برطانیہ اور امریکہ تشریف لے گئے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سینئر فزیشن اور بعد میں بطور ڈین فیکلٹی آف میڈیسن کے طور پر کراچی کے معروف و مشہور لیاقت نیشنل ہسپتال میں برسوں خدمات انجام دیں۔ برطانیہ میں دورانِ تعلیم تبلیغی جماعت سے منسلک ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی عربی زبان اپنے والد چوہدری محمد علی سے سیکھنا شروع کی، بعد میں دینی علوم انفرادی طور پر اپنے وقت کے جید محقق علماء سے حاصل کی، جن میں سر فہرست محدثِ زمانہ حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی  رحمۃ اللہ علیہ ، جامعہ‎ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے سابق مہتمم مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر  رحمۃ اللہ علیہ ، اور جامعہ کے موجودہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد انور بدخشانی دامت برکاتہم، جامعہ یوسفیہ بنوریہ کے سابق شیخ الحدیث مولانا ہارون الرشید  رحمۃ اللہ علیہ  سمیت دیگر شامل ہیں، بعد میں دورہ حدیث کا سال غالباً ۸۶/۱۹۸۵ء، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں مکمل کیا، جس میں مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا محمد ادریس میرٹھی، امامِ اہلِ سنت مفتی احمد الرحمٰن، مولانا بدیع الزمان، مولانا سید مصباح اللہ شاہ، مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید  رحمۃ اللہ علیہم  جیسے بلند پایہ اکابر علماء آپ کے اساتذہ میں شامل تھے۔ 
۱۹۸۷ء میں والدہ کی دیرینہ خواہش (خواتین میں دینی تعلیم ) کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اکابر علماء کرام کے مشورے سے طالبات کی دینی تعلیم کے منفرد ادارہ مدرسہ عائشہ صدیقہؓ کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں ۲۰۰۰ء میں دینی تعلیم کے معروف ادارے مدرسہ ابن عباسؓ کی بنیاد رکھی، جس میں ابتدا سے ہی عربی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ آپ کے قائم کردہ تمام اداروں میں عربی درس و تدریس اور تعلیم وتعلم کا شاندار نظام رائج ہے۔ اس کے بعد چھوٹے بچوں کی عربی تعلیم کے لیے روضہ عائشہؓ کے نام سے ادارہ قائم کیا جو اپنی نوعیت کا منفرد اور کئی خصوصیات پر مشتمل ہے۔ اس دوران بھی آپ تبلیغی اسفار اور تبلیغی محنت میں مشغول رہے۔ تقریباً آدھی دنیا سے زائد ممالک میں اسفار فرمائے۔ دینی و درسی کتب کا معروف اشاعتی ادارہ مکتبۃ البشریٰ قائم کیا، جس نے اشاعتی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا اور آج بھی اس ادارے کی شائع کردہ دینی کتب پاکستان سمیت بیرون دنیا کے کئی ممالک میں مقبول و معروف ہیں۔ حضرت ڈاکٹر صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنا اصلاحی تعلق سلسلہ قادریہ کی معروف روحانی و علمی شخصیت امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ  سے ساٹھ کی دہائی میں قائم کیا، اپنے شیخ کی رحلت کے بعد ان کے فرزند مولانا عبیداللہ انور  رحمۃ اللہ علیہ  سے تصوف کا سلسلہ جاری رکھا، بعد ازاں شیخ الحدیث حضرت محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ  سے اور پھر کافی عرصہ مدینہ منورہ میں حضرت مولانا سعید احمد خان صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کی صحبت میں گزارا۔ 
حضرت ؒ کی نمازِ جنازہ مدرسہ ابن عباسؓ کے قریب وسیع گراؤنڈ میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، جگہ کی تنگی کے باعث بڑی تعداد ٹریفک میں ہجوم کی وجہ سے نماز جنازہ میں شرکت سے رہ گئی، حضرت کی وصیت کے مطابق سوسائٹی قبرستان طارق روڈ میں اپنے والد، والدہ اور حضرت مفتی حسن صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  (بانی جامعہ اشرفیہ لاہور، خلیفہ مجاز حضرت تھانوی ؒ) کے پہلو میں تدفین عمل میں لائی گئی۔ آپ کی نمازِ جنازہ میں جامعہ کے کئی اساتذہ، علماء، طلبہ کے علاوہ دیگر مدارس کے ذمہ داران، اکابر علماء، تبلیغی مشایخ اور دیگر ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی۔
محترم جناب الحاج بھائی عبداللطیف صاحب اور جناب سید انوار الحسن صاحب کی معیت میں راقم الحروف نے حضرت ڈاکٹر صاحب کے مدرسہ سیدہ عائشہؓ للبنات میں تعزیتِ مسنونہ کی غرض سے حاضری دی، محترم حضرت مولانا محمد بلال صاحب اور ان کے دوسرے رفقاء سے تعزیت کا اظہار کیا اور دعائے مغفرت کی۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کے لگائے گئے باغ کو خوب ترقیات سے نوازے اور آپ کے متعلقین کو آپ کے مشن کو جاری وساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
اللہ تعالیٰ حضرت ڈاکٹر صاحب کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، اور ان کے صدقاتِ جاریہ کو جاری وساری رکھے، اور ان کے متعلقین کو آپ کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔ تمام قارئین بینات سے حضرت ڈاکٹر صاحب کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔

سائیں عبدالصمد ہالیجوی رحمۃ اللہ علیہ 

ولی کامل، ہزاروں علماء وصلحاء کے پیرومرشد، جمعیت علماء اسلام پاکستان صوبہ سندھ کے امیر حضرت مولانا سائیں عبدالصمد صاحب ہالیجوی نور اللہ مرقدہٗ اس دنیا فانی میں ۸۰ سال گزارنے کے بعد ۱۱ ؍صفر المظفر ۱۴۴۵ھ مطابق ۲۹ ؍اگست ۲۰۲۳ء بروز منگل داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے عالمِ بقا کی طرف روانہ ہوگئے، إناللہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہٗ ما أعطی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔ 
صوبہ سندھ میں بسنے والا ہر باشعور اور متدین آدمی جانتا ہے کہ سندھ کی قدیم خانقاہوں میں سے خانقاہ ہالیجی شریف کو بلند پایہ مقام اور مرتبہ حاصل ہے، جس کے پہلے مسند نشین مجاہدصفت عالم دین حضرت مولانا تاج محمود امروٹی قدس سرہٗ کے خلیفہ مجاز قطبِ زمانہ حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجوی نور اللہ مرقدہٗ تھے، اس کے بعد ان کے بیٹے مولانا محمود اسعد  رحمۃ اللہ علیہ  تھے، اور ان کے بعد مولانا عبدالصمد ہالیجوی رحمۃ اللہ علیہ  تھے۔ آپ زہدوتقویٰ کے پیکر، سادہ مزاج، سادہ بودوباش کے حامل تھے، اپنی پیرانہ سالی اور کئی عوارض کے باوجود آپ نے سندھی میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا جو ابھی طباعت کے مراحل طے کرررہا ہے، ان شاء اللہ! یہ ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنے گا۔ آپ سندھ اور بلوچستان کے کئی مدارس کے سرپرست بھی تھے۔ 
آپ اپریل ۱۹۴۳ء میں ہالیجی شریف میں حضرت مولانا سائیں محمود اسعد ہالیجوی کے گھر پیدا ہوئے تھے، آپ کا نام آپ کے دادا، جنگِ آزادیِ ہند کے عظیم مجاہد، پیرومرشد، ولی کامل حضرت مولانا سائیں حماد اللہ ہالیجویؒ نے ’’عبدالصمد‘‘ تجویز کیا تھا۔آپ انڈھڑ قوم سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے آباء واجداد راجستھان انڈیا سے بہاولپور ہجرت کرکے آئے اور پھر وہاں سے پنوعاقل میں آبادہوئے، آپ نے جب آنکھ کھولی تو آپ کے اردگرد تصوف کا ہی روحانی اور نورانی ماحول تھا، جس میں آپ پلے بڑھے اور ایک وقت آیا کہ آپ خانقاہ کے سجادہ نشین ہوئے اور آپ نے ایک کثیر مخلوق کو اپنے انوارات سے واصل باللہ کیا۔
ناظرہ قرآن مجید اور درسِ نظامی کی ابتدائی کتب اپنے والد ماجدؒ سے پڑھی تھیں، اور اس کے بعد خانقاہ ہالیجی شریف ہی میں مولانا عبدالمجید نجارؒ، مولانا محمد صدیق ہنجراہؒ سے پڑھنے کے بعد رحیم یار خان کا سفر اختیار فرمایا تھا اور مولانا عبدالغنی جاجروی (رحیم یار خان) سے شرفِ تلمذ حاصل کیا تھا۔ حضرت مولانا عبدالکریم بیر شریف (قمبر شہداد کوٹ) سابق مرکزی امیر جمعیت علماء اسلام پاکستان کی شاگردی کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا تھا۔ جامعۃ مدینۃ العلوم حمادیہ پنوعاقل میں دو سال پڑھنے کے بعد آپ نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں داخلہ لیا تھا، وہاں ۱۹۶۸ء میں شیخ المعقول والمنقول حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزارویؒ اور شیخ الحدیث والادب حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ سے دورہ حدیث کی تکمیل فرمائی تھی۔دورہ حدیث کی تکمیل کے بعد آپ نے تین سال تک جامعہ مدینۃ العلوم حمادیہ پنوعاقل میں پڑھایا اور پھر خانقاہ ہالیجی شریف تشریف فرماہوکر تدریس کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۳ء تک صحیح بخاری شریف پڑھاتے رہے۔اپریل ۱۹۸۰ء میں والد گرامی حضرت مولانا سائیں محمود اسعد ہالیجویؒ کی وفات کے بعد خانقاہ اور مدرسہ کی ساری ذمہ داری آپ نے تاحیات احسن طریقہ سے نبھائی۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان سے تعلق اور وابستگی آپ کو ورثہ میں ملی تھی، آپ کے دادا مرحوم حضرت مولانا سائیں حماد اللہ ہالیجوی جمعیت علماء اسلام پاکستان کے بانی رہنماؤں میں تھے، جبکہ آپ کے والد محترم جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سکھر ڈویژن کے امیر تھے۔ آپ نے بھی مریدین ومتوسلین کی اصلاح اور درس وتدریس کے ساتھ ساتھ میدانِ سیاست میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۷۴ء، تحریکِ نظامِ مصطفیٰ ۱۹۷۷ء اور تحریکِ بحالیِ جمہوریت ۱۹۸۳ء میں آپ پیش پیش رہے تھے۔ ۱۹۸۲ء میں آپ کو جمعیت علماء اسلام پاکستان کی مرکزی شوریٰ کا رکن مقرر کیا گیا تھا۔ ۱۹۸۵ء میں ضلعی امیر اور ۱۹۹۰ء سے تاوفات مسلسل صوبائی امیر تھے۔ ۱۹۸۸ء اور ۱۹۹۰ء کے عام انتخابات میں پنو عاقل سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے، جب کہ ۱۹۹۳ء کے الیکشن میں سکھر کی سیٹ پر الیکشن لڑا تھا۔
راقم الحروف کو ویسے تو کئی بار حضرت کی زیارت نصیب ہوئی، لیکن ایک بار سکھر میں ایک کانفرنس کے موقع پر حضرت سے تفصیلی ملاقات ہوئی اور فرمایا کہ میں آپ کے اداریے اور مضامین پڑھتا رہتا ہوں، جس سے دل کو بہت خوشی ہوتی ہے، اور اسی موقع پر حضرت نے درگاہ ہالیجی شریف آنے کا بھی فرمایا، میری محرومی کہ حضرت کی زندگی میں وہاں نہ جاسکا، آپ کے وصال کے بعد تعزیت کے لیے جانا نصیب ہوا۔
آپ ایک عرصہ سے علیل تھے۔ آپ کی وفات حسرت آیات آپ کے لواحقین، مریدین، متوسلین، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے رہنماؤں اور لاکھوں کارکنوں کے لیے دلی صدمہ اور ناقابلِ ازالہ نقصان ہے۔ اس صدمات کے مرحلوں میں اللہ جل جلالہ کی مرضی پر راضی رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس کا مکین بنائے، آمین۔
ادارہ بینات حضرت کے پسماندگان اور متعلقین سے تعزیت کا اظہار کرتا ہے اور ان کے غم کو اپنا غم سمجھتا ہے اور قارئین بینات کے باتوفیق حضرات سے حضرت کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست کرتا ہے۔

سعید احمد بن خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ 

خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے سابق سجادہ نشین، عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے سابق امیرِمرکزیہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس سرہٗ کے چوتھے نمبر کے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین صاحبزادہ حضرت مولانا خلیل احمددامت برکاتہم العالیہ کے چھوٹے بھائی محترم جناب صاحبزادہ سعید احمد اچانک حرکتِ قلب بند ہونے سے ۱۵؍ صفر المظفر ۱۴۴۵ھ مطابق ۲؍ ستمبر ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ انتقال فرماگئے، إناللہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہٗ ما أعطی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔ 
حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس سرہٗ کی پہلی اہلیہ سے تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئیں۔ پہلی اہلیہ کے انتقال کے بعد حضرت نے دوسرا نکاح کیا، اس سے دو بیٹے ہوئے، بڑے صاحبزادے سعید احمد تھے، جن کا انتقال ہوا ہے۔آپ کی پیدائش ۸؍ محرم الحرام ۱۳۸۹ھ مطابق ۲۷؍ مارچ ۱۹۶۹ء کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے مدرسہ عربیہ سعدیہ خانقاہِ سراجیہ سے حاصل کی، عصری علوم میں میٹرک کیا، پھر دینی وعصری تعلیم کو خیرباد کہہ کر سفر وحضر میں اپنے والد کی خدمت میں مصروف رہے۔ حضرت خواجہ خان محمد قدس سرہٗ کے زندگی بھر کے خدمت گزار لالہ عابد مرحوم ہوا کرتے تھے، ان کی رحلت کے بعد بھائی سعید احمد نے اس خدمت کو اپنے لیے ایک اعزاز اور سعادت سمجھا، اسی طرح آپ خانقاہ شریف کے جملہ امور میں حصہ لیتے تھے، آپ نے بیعت اپنے والد ماجد حضرت خواجہ خان محمد قدس سرہٗ سے کی، آپ کے اوصاف کے بارہ میں مولانا اللہ وسایا صاحب نے اپنی کتاب ’’تذکرہ خواجۂ خواجگان‘‘ میں لکھا ہے:
’’ ماشاء اللہ بہت متشرّع ہیں، نماز، روزہ کے پابند، حضر ت والد صاحب قبلہؒ کے بہت ہی چہیتے صاحبزادے ہیں۔ حضرت قبلہؒ کی خدمت کو حرزِ جان بنالیا۔ حضرت قبلہؒ کے زمانۂ حیات میں خانقاہ شریف کے لنگر خانے کا نظام ان کے سپرد رہا۔ ویسے بھی بہت منتظم مزاج ہیں، برادری اور خانقاہ شریف کے کاموں کے لیے افسران سے میل ملاپ رکھنا اور ان سے کام لینے کا اُن کو ڈھنگ آتا ہے۔ سیاست میں اُترے تو ایک بار ناظم بھی منتخب ہوئے، سیاست میں ان کی رائے کو احترام کا درجہ حاصل ہے۔ مقدر کے دھنی ہیں، مٹی پر ہاتھ رکھ دیں تو سونا ہوجاتی ہے۔ سراجیہ سی این جی اور دیگر کئی کام شروع کررکھے ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے ان پر رزق کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ خود زیادہ نہیں پڑھے تو اَب وہ تمام حسرت اپنی اولاد پر نکال رہے ہیں۔ انہیں پڑھنے کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کررکھا ہے۔ ایک سیاست دان یا برادری کے ملک ووڈیرے والی صلاحیتیں ان میں موجود ہیں۔‘‘
مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیوہ، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا سوگوار چھوڑا ہے۔ 
آپ کے بڑے بھائی صاحبزادہ حضرت مولانا عزیز احمد دامت برکاتہم نائب امیرِمرکزیہ عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت ماہِ ستمبر کی مناسبت سے جو ملک بھر میں تحفظِ ختمِ نبوت کے عنوان سے پروگرام منعقد ہورہے ہیں، اسی سلسلہ میں کوئٹہ کانفرنس میں شرکت فرماکر حیدرآباد اور کراچی کانفرنسوں میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے ہوئے تھے، جمعہ کو ائیرپورٹ سے سیدھا حیدرآباد کانفرنس میں شرکت کی، رات کو دو بجے کانفرنس کی دعا کرائی، پھر درگاہِ عالیہ ہالیجوی شریف کے سجادہ نشین سائیں عبدالصمد نور اللہ مرقدہٗ کی تعزیت کے لیے دو گاڑیوں میں سوار ایک قافلہ جس میں حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب، حضرت مولانا قاضی احسان احمد، حضرت مولانا مفتی خالد محمود اور راقم الحروف ایک گاڑی میں اور دوسری گاڑی میں صاحبزادہ عزیزا حمد، مولانا تجمل حسین صاحب(مبلغ عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت نواب شاہ) اور حضرت کے دوست جناب عبدالقادر کریو صاحب تھے، نوبجے درگاہ ہالیجی شریف پہنچے، وہاں تعزیت کی، واپسی پر مجلس کے دفتر پنوں عاقل میں کچھ دیر آرام کیا اور واپس کراچی آتے ہوئے تقریباً دو بجے کے قریب صاحبزادہ عزیز احمد صاحب کو اپنے بھائی کی وفات کی خبر ملی، آپ نے حضرت قاضی صاحب کے فون پر قاضی صاحب اور مولانا اللہ وسایا صاحب کو بتایا۔ اتفاقاً خواجہ خلیل احمد صاحب بھی کراچی میں تھے، حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب کے معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ سعید احمد خود ہی گاڑی ڈرائیو کرکے میانوالی شہر گئے، وہاں اچانک دل کی تکلیف ہوئی، ڈاکٹر کے پاس آپ کو لے جایا گیا تو ڈاکٹر صاحب نے تصدیق کی کہ آپ کی روح جسد خاکی سے پرواز کرگئی ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کی مغفرت فرمائے، آپ کے پسماندگان کی کفالت فرمائے، اور آپ کے لواحقین کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازے، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین