بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سفَّاکیت کا تسلسل! حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت


سفَّاکیت کا تسلسل!

حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

رئیس المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان قدس سرہٗ کے بڑے صاحبزادے، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی وفیز ۲ کے مہتمم، رئیس، شیخ الحدیث، علماء کمیٹی کراچی کے سرپرست، ہزاروں علمائے کرام کے مربی واستاذ، حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ۲۲ صفر ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۰ اکتوبر ۲۰۲۰ء بروز ہفتہ بعد نمازِ مغرب دارالعلوم کراچی سے واپس آتے ہوئے شاہ فیصل کالونی میں برلبِ سڑک کھڑی اُن کی گاڑی پر فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا،إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ کی خدانخواستہ کسی سے کوئی عداوت اور ذاتی دشمنی نہیں تھی، وہ بہترین معلم ومدرس اور خطیب وادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علومِ قرآن، علومِ حدیث، تعارفِ اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات، فقہی مسائل، مقاصدِ شریعہ، تاریخِ اسلام، خاص کر تاریخِ پاکستان جیسے موضوعات پر عبور رکھتے تھے۔ وہ نہایت پارسا، متقی، فرشتہ صفت اور مرنجاں مرنج طبیعت کے حامل انسان تھے۔ موصوف شہیدؒ حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان قدس سرہٗ کے حقیقی علمی جانشین اور خلف الرشید تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کی شہادت کسی ایک فرد، خاص طبقہ او رکسی ایک مسلک کے عالم کی شہادت نہیں، بلکہ عالمِ اسلام، اہلِ اسلام اور دین دار طبقے کے خلاف کھلی جارحیت ہے اور علمائے دین ومشائخِ عظام کو ہراساں کرنے کی نہایت بدترین کوشش ہے۔ بلاشبہ حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کی شہادت اہلِ علم اور اہلِ دین کے لیے کھلا چیلنج ہے۔ اس دہشت گردی میں کس کا ہاتھ ہے اور کونسی کونسی لابیاں اس کے پیچھے کام کررہی ہیں؟ اس کی تحقیقات کرنا حکومت کا کام ہے، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ اس میں جہاں سفاک قاتل مجرم ہیں، اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ عوام کی جان ومال کا تحفظ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی حکومت اس کی ذمہ داری نہیں اُٹھاسکتی تو اُسے حکومت کرنے اور مسندِ اقتدار پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔
اخبارات میں ہے کہ حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ کے لواحقین اور ورثاء نے حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کی ایف آئی آر کٹانے اور اس میں مدعی بننے سے انکار کردیا ہے۔ حکومتی مشینری کے لیے یہ سوچنے کی بات ہے کہ آخر شہداء کے لواحقین اس مایوسی اور نااُمیدی کی حد تک کیوں پہنچ گئے؟ کہ اب اُنہیں نظر آنے لگا ہے کہ یہ نظام ہمیں کوئی انصاف نہیں دے سکتا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہیدؒ ، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ، حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہیدؒ، حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ، حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہیدؒ کے علاوہ حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ سے لے کر جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے شہید اساتذہ میں سے کسی ایک شہید کے قاتل کو آج تک گرفتار نہیں کیا جاسکا اور جن کے قاتلوں کی نامزد ایف۔ آئی۔ آر کٹائی گئی، اُن کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور اُن کو کیفرِ کردار تک پہنچانا تو دور کی بات ہے، آج تک اُن کو گرفتار نہیں کیا جاسکا اور اگر کسی کو گرفتار بھی کیا تو تمام تر شواہد کے باوجود قاتلوں کو رہا کردیا گیا۔ اسی لیے ہماری جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم نے حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ کا جنازہ پڑھانے سے قبل فرمایا تھا کہ: حضرت مفتی شہیدؒ کا مقدمہ ہم اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ خود اِن ظالموں سے نمٹے گا اور فرمایا:’’ حکمرانو! تم اللہ تعالیٰ کے دربار میں کیا عذر اور کیا جواب پیش کروگے؟ اس دن کی پیشی سے ڈرو۔‘‘ ظاہر ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دربار تو لگے گا اور وہاں ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کی جواب دہی تو کرنی پڑے گی۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے وقت کی سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں اور قاتلوں کی تصویریں اور اُن کے حلیے اس میں نظر آرہے ہیں۔ حکومت کی اتنی ایجنسیاں ہیں، ان کے لیے قاتلوں کو پکڑنا کونسا مشکل کام ہے؟! لیکن اُن کو پکڑنے کی بجائے اور کچھ تحقیقات کیے بغیر فوراً وزیراعظم، حکومتی افراد اور امن وامان کے ذمہ دارحضرات کے بیانات آنا شروع ہوگئے کہ اس میں ہندوستان ملوث ہے۔ ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ بھارت اور اس کی لابیاں اور ایجنسیاں اس میں ملوث ہیں، لیکن قاتل تو اسی کراچی کی سرزمین پر ہیں، اُن کو گرفتار کرکے قوم کے سامنے کیوں پیش نہیں کیاجاتا؟ اس میں کونسی رکاوٹ ہے؟ اور کس نے اُن کو پکڑنے سے منع کیا ہے؟ 
حکومتِ سندھ کے ایک صوبائی وزیر ‘ ایک وفاقی وزیر کو حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ کے قتل کی تحقیقات میں شامل کرنے کا اخبارات میں بیان دے چکے ہیں کہ اس وزیر نے صبح کہا کہ دہشت گردی ہونے والی ہے اور شام کو یہ سانحہ ہوگیا۔ اس کے کیا ذرائع اور سورسس ہیں، جن کی بناپر وہ یہ خبردے رہے تھے؟!
بہرحال ایک طرف حکومتِ وقت پیغامِ پاکستان کی روشنی میں ضابطۂ اخلاق بناکر علمائے کرام سے دستخط لیتی ہے تو دوسری طرف علمائے کرام ہی دہشت گردی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں اور گورنمنٹ ان قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ٹھیک کہا ڈاکٹر مشتاق صاحب نے اپنے مضمون ’’پیغامِ پاکستان، ضابطۂ اخلاق اور دستور وقانون‘‘ میں کہ حکومت علمائے کرام سے تو اس ضابطۂ اخلاق پر دستخط کروارہی ہے، لیکن حکومت خود کوئی ذمہ داری قبول کرنے اور اپنے ذمہ لینے کے لیے تیار نظر نہیں آرہی۔ پیغامِ پاکستان کی روشنی میں ضابطۂ اخلاق اور اس پر ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کا تجزیہ اسی شمارہ میں علیحدہ مضمون کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب کی پیدائش تقریباً ۱۹۵۷ء میں ہوئی۔ آپ نے اپنے والد ماجد کے قائم کردہ ادارے جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی سے درسِ نظامی مکمل کرکے ۱۹۷۳ء میں سندِ فراغ حاصل کی۔ ۱۹۷۶ء میں بی اے ہیومن سائنس، ۱۹۷۸ء میں ایم اے عربی، ۱۹۹۲ء میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ آپ کی تحقیق کا موضوع وہ ۴ ہزار مسلمان علماء تھے، جنہوں نے برِصغیر میں تصنیفی خدمات انجام دیں۔
آپ کی عملی زندگی کا آغاز اپنی مادرِ علمی جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی سے ہوا، درسِ نظامی کی تدریس کے ساتھ ساتھ آپ جامعہ فاروقیہ کراچی کے شعبہ تخصص فی الافتاء کے نگران ، استاذِ حدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی کے ترجمان رسالہ ’’الفاروق‘‘ انٹرنیشنل عربی اور انگریزی کے چیف ایڈیٹر رہے ہیں۔ آپ پاکستان میں بہت سے تعلیمی نصاب اور کورسز کی ترتیب دینے میں پیش پیش رہے، جن میں آپ نے تخصص فی الفقہ اور ایم اے اسلامیات کی نصابی کمیٹی (کراچی یونیورسٹی) اور خاص طور پر عربی ادب کے لیے ’’معہد اللغۃ العربیۃ ‘‘ کے کورس مرتب کرنے کی امتیازی خدمات انجام دی ہیں۔
پروفیسر مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان رحمۃ اللہ علیہ "Kulliya of Islamic Revealed Knowledge and Human Scince (KIRKHS) International Islamic University Malaysia" میں بہت سے تحقیقی منصوبوں اور کتابوں کی تیاری میں حصہ لے چکے ہیں۔
آپ کے (KIRKHS) انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا (کلیۃ معارف الوحی) میں بعض محاضرات عربی زبان میں ’’المقالات المختارۃ في الکتاب والسنۃ‘‘ کے عنوان سے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا (IIUM) میں پی ایچ ڈی اور ماسٹرز کے طلبہ کے مشرف بھی رہ چکے ہیں۔ آپ نے دنیا کے تقریباً ۱۰۰ سے زائد ممالک کا سفر کیا ہے اور بہت سے علمی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں اپنے مقالات پیش کیے ہیں۔ آپ کے تحقیقی مقالات کی تعداد ۲۰۰ سے زائد ہے۔ آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا (IIUM) میں تحقیقی کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں، جن میں ایک خاص منصوبہ یعنی ملائیشیا میں خاندان کے لیے مجوزہ نئے قانون کے نفاذ کے ساتھ طلاق کے مسائل کو حل کرنے جیسے اہم موضوعات بھی شامل ہیں۔
آپ اسلام اور تصورِ کائنات، اسلام اور اخلاقیات اور اکیسویں صدی میں اسلام جیسے کئی موضوعات پر کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ، جن کے نام درج ذیل ہیں: ۱:- المقالات المختارۃ في الکتاب والسنۃ، ۲:- Islam and Knowledge ، ۳:- Islam and Ethis ، ۴:- Islam in 21 st Century، ۵:- Islam and Worldview
آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا کے نصاب میں شامل ۳ کتابوں کے شریک مصنف (Co-Autor ) بھی ہیں، ان کتابوں کے نام درج ذیل ہیں: ۱:- Knowledge and Civilization in Islam ، ۲:- Ethics and Fiqh For Everyday Life ، ۳:- The Islamic Worldview ۔
مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان رحمۃ اللہ علیہ ایک معیاری نظامِ تعلیم پر یقین رکھنے والے اور انسانی حقوق میں یکسانیت اور مساوات کے قائل تھے، اپنے وطنِ عزیز پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے عمومی ملکی وبین الاقوامی معاشرے کی ترقی کے لیے بھرپور جدوجہد اور اس کے لیے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کے استعمال کرنے پر یقین رکھتے تھے اور آپ کی واضح سوچ تھی کہ: ’’تعلیم وتربیت ہی تمام دنیا کے امن وامان اور اس کی ترقی وسلامتی کا واحد حل ہے۔‘‘
آپ ۱۹۸۶ء سے ۲۰۱۰ء تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے جنرل سیکرٹری رہے اور اس دوران آپ نے جامعہ کے بہت سے تعلیمی وتعمیری منصوبے مکمل کیے۔ آپ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۸ء تک انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا میں ’’کلیۃ معارف الوحي‘‘ اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی کمیٹی کے سینئررکن رہے اور وفاق کی مالیاتی، نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین رہے۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہیدؒ کی نمازِ جنازہ جامعہ فاروقیہ فیز۲حب ریور روڈ میں بروز اتوار صبح ۹ بجے آپ کے بھائی حضرت مولانا عبیدا للہ خالد صاحب مدظلہٗ نے پڑھائی، جس میں اکابر علمائے کرام اور مشائخِ عظام سمیت طلبہ، وکلاء اور تاجر برادری کے علاوہ عوام الناس کے ایک جم غفیر نے شرکت کی۔ اس کے بعد آپ کے والد ماجد حضرت مولانا سلیم اللہ خان نور اللہ مرقدہٗ کے پہلو میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہیدؒ نے پسماندگان میں ایک بیوہ کے علاوہ، والدہ، چار بیٹے، ایک بیٹی اور دوبھائی سوگوار چھوڑے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب ’’تاریخ: اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ جو دو جلد میں خوبصورت ٹائٹل اور عمدہ طباعت وکتابت کا پیراہن لیے ہوئے ہے، اس میں ’’چند تمہیدی باتیں‘‘ میںلکھتے ہیں: 
’’اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یہ تاریخ اس نظریے سے مرتب کی گئی ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان جو ہمارے روشن مستقبل کا سرمایہ ہیں، اپنے پیارے وطن کی تاریخ سے باخبر ہوں، وطن کی تاریخ سے باخبر ہونا ہر محب وطن شہری کے لیے ایک لازمی امر ہے۔ آج میرے پیارے وطن میں اگر میں کوئی کمی دیکھتا ہوں، تو وہ ملک سے محبت کی کمی ہے۔ پاکستان ہماری شناخت ہے، پاکستان ہماری زندگی ہے، پاکستان ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ کو پیش کرتے ہوئے ہمارے پیش نظر وہ لبرل اور سیکولر لابی بھی ہے جو پاکستان کا اسلامی چہرہ اور پاکستان کی اسلامی شناخت مٹانا چاہتی ہے۔ ذرا سوچیے! اگر پاکستان کو سیکولر اور لبرل ہی ہونا ہے تو پھر تقسیمِ ہند کی کیا ضرورت تھی؟ اس وقت بھی لوگوں کو ملازمتیں مل رہی تھیں، کاروبار چل رہے تھے، تعلیم کی سہولت حاصل تھی، انگریز حکمران کسی درجہ پر موجودہ حکمرانوں کے مقابلے میں بہتر نظم ونسق چلارہے تھے، پھر قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھی شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانی اور لیاقت علی خان نے پاکستان کا مطلب کیا؟ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کا نعرہ کیوں بلند کیا؟ اس مختصر تاریخ میں ان واقعات کو ریکارڈ پر لانے کی کوشش کی گئی ہے جو پاکستان کی حقیقی تصویر اور اسلامی شناخت ہیں۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’ کتاب میں تحریکِ آزادی پاکستان کے حوالے سے ان سرفروش قائدین کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو خود تو ملک بدر ہوئے، قیدوبند کی تکلیفوں سے گزرے، جنہوں نے جنگ کی دہکتی آگ میں خود کو ڈال کر، طوفانوں سے ٹکراکر سلطنتِ برطانیہ کے جاہ وجلال اور جبر و استبداد کا مقابلہ کیا، لیکن ہمیں آزادی کی لازوال نعمت عطا کرگئے، اُن کا یہ احسان کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
آزادی کے انہی سرفروشوں میں وہ مخلص علماء بھی ہیں جو اپنے دینِ صحیح، خاص تصورِ توحید، عشقِ رسالت، احترامِ آدمیت اور علم وعمل کے بے پناہ جذبہ کی وجہ سے تختۂ دار پر تو جھول گئے، کالے پانی کی سزائیں تو سہتے رہے، لیکن اپنے مقصد اور مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اُن کے پایۂ ثبات میں کبھی کوئی لچک نہیں دیکھی گئی، ان کی بلندیِ کردار ، حسنِ عمل اور کمالِ سیرت کو تاریخ کے صفحات پر محفوظ کرنا، ان کے افکار وخیالات سے ملت کے افراد کو روشناس کرانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ بحمد اللہ! ہم نے اپنی کتاب میں اپنی کم مائیگی اور کوتاہ علمی کے باوجود یہ سعادت وشرف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ (تاریخ اسلامی جمہوریہ پاکستان، ص:۳۱،۳۲)
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’چند تمہیدی باتیں‘‘ کے آخر میں یہ شعر لکھا ہے: 

کبھی اے کاش! ہم سے کوئی ایسا کام ہوجائے
کہ جینا واقعی اِک حسن اِک انعام ہوجائے

آپ کی شہادت سے پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دفاع کی تحریک اور خصوصاً تمام سنی مسلمانوں کو متحرک کرنا اور دفاعِ صحابہؓ کے لیے اُنہیں آمادہ اور تیار کرنا آپ کا ایسا کارنامہ ہے جو اس شعر کی صورت میں مانگی گئی دعا کی قبولیت کی واضح اور صریح دلیل ہے۔حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ ملک بھر میں اصحابِ رسول ر ضی اللہ عنہم کی توہین اور گستاخیوں کے سلسلے کی روک تھام کے لیے انتہائی فکر مند تھے۔ آپ اس کے لیے مؤثر قانون سازی اور ضابطۂ اخلاق کے لیے جدوجہد کررہے تھے کہ ظالموں نے سفاکانہ حملہ کرکے دفاعِ صحابہؓ میں اُٹھنے والی اس مؤثر آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرادیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مولانا کی شہادت کو قبول فرمائے، آپ کی زندگی بھر کی حسنات کو شرفِ قبولیت سے نوازے، آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آپ کے لواحقین ، تلامذہ اور منتسبین کو صبرِجمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
جامعہ کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، نائب رئیس حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری، ناظمِ تعلیمات حضرت مولانا مفتی امداد اللہ ، اساتذۂ جامعہ اور ادارۂ بینات حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کو اپنا سانحہ ، اپنا غم اور اپنا نقصان سمجھتا ہے۔ حضرت کے لواحقین سے تعزیت اور صبرِ جمیل کی توفیق کی دعا کے ساتھ ساتھ قارئینِ بینات سے حضرت شہیدؒ کے رفعِ درجات کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست کرتا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ مرحوم شہید کو کروٹ کروٹ راحتیں نصیب فرمائے اور جنت الفردوس کا مکین بنائے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین