بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سردار میر عالم خان لغاری رحمہ اللہ

سردار میر عالم خان لغاری رحمہ اللہ

    رحیم آباد تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان کی لغاری برادری کے بزرگ رہنما، نامور شخصیت اور اپنے علاقے کے بڑے زمین دار جناب سردار میر عالم خان لغاریؒ بھی وصال فرمائے آخرت ہو گئے۔     سردار میرعالم خانc، لغاری خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کے والد سردار رحیم خان لغاریc ڈی، آئی، جی کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرڈ منٹ کے بعد مدینہ طیبہ میںمقیم ہوگئے اور اب ریاض الجنۃ میں ابدی استراحت کرتے ہیں۔ آپ نے گریجویٹ تک بہاولپور اور جامعہ ملیہ دہلی سے تعلیم حاصل کی۔ خاندان کا پورا ماحول دین دار تھا۔ آپ نے بھی کوئی سرکاری ملازمت کرنے کی بجائے زمین دارہ سے تعلق رکھا۔ آپ کا بیعت کا تعلق خانقاہ مسکین پور کے بانی مولانا فضل الٰہی قریشیc کے خلیفہ مولانا عبدالغفور عباسی مدنیc سے تھا۔     حضرت بنوریc نے مدرسہ جامعۃ العلوم الاسلامیۃ کراچی میں قائم کیا۔ سردار میر عالم خان لغاریc کا حضرت بنوریc سے تعلق قائم ہوا تو اس میں اتنی ترقی ہوئی کہ آپ نے حضرت بنوریc کے خادم خاص اور پرائیویٹ سیکرٹری کا درجہ حاصل کر لیا۔ آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ آپ حضرت بنوریc کے سفر و حضر، اندرون و بیرون ملک کے اسفار کے خدمت گار و حاضر باش رہے۔ انہیں خدمات اور اعتماد کے باعث ایک زمانہ میں جناب لغاری صاحبc جامعۃ العلوم الاسلامیہ کراچی کے منتظم بھی رہے۔     جب حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریc ۱۹۷۳ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر منتخب ہوئے اور آپ نے مجلس کی اپنی امارت میں شوریٰ نامزد فرمائی، اس میں سردار میر عالم خان لغاریc کو بھی مرکزی مجلس شوریٰ کا ممبر نامزد کیا۔ پھر پوری تحریک کے دوران بلکہ حضرت بنوریc کے وصال تک برابر سردار میر عالم خان لغاریc مجلس کے حل و عقد میں شریک رہے۔ اس دوران مجلس کے کازکے لیے سردار صاحبc نے جو خدمات سر انجام دی ہیں، وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔     دریں اثنا شیخ الاسلام حضرت بنوریc نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر حضوری با غ روڈ ملتان کی بنیاد رکھی تو اس کی تعمیرات کی کمیٹی کے نگرانِ اعلیٰ سردار میر عالم خان لغاریc تھے۔ موجودہ مرکزی دفتر کی پر شکوہ عمارت کی ساخت وپرداخت میں مرحوم لغاری صاحب کا وافر حصہ ہے۔ اسی طرح عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے مسلم کالونی چناب نگر میںمسجد و مدرسہ کے لیے جو پلاٹ حاصل کیا، اس کی تعمیرات اور نقشہ کے لیے سردار صاحبc‘ مولانا تاج محمودc اور مولانا محمد شریف جالندھریc کے شانہ بشانہ رہے۔ غرض آپ کیـ خدمات ختم نبوت کی شاندار تاریخ ہے۔     شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریc کے وصال کے بعد عالمی مجلس کے امیر حضرت خواجہ خان محمدc منتخب ہوئے تو آپ نے بھی سردار عالم خان لغاریc کی شوریٰ کی رکنیت بحال رکھی۔ مرکزی ناظم اور امیر مرکزیہ کے مشیر کے عہدوں سے بھی سرفراز فرمایا۔ سردار میر عالم خانc جب حضرت بنوریc کے خادم خاص تھے، اس زمانہ میں حضرت بنوریc جمعیۃ علماء اسلام کی سرپرستی فرماتے تھے، تب لغاری صاحبc بھی کراچی میں جمعیۃ علماء اسلام کے عہدے دار رہے۔ اسی طرح رحیم یار خان میں جمعیۃ کے امیر اور مرکزی شوریٰ کے ممبر بھی تھے۔     حضرت شیخ بنوریc کے بعد سردار صاحبc کے والدگرامیc نے مدینہ طیبہ میں قیام کا ارادہ کیا تو سردار صاحبc ان کے ساتھ مدینہ طیبہ قیام پذیر ہوگئے۔ سال بھر میں ایک آدھ بار دونوں باپ بیٹا پاکستان تشریف لاتے اور پھر واپس مدینہ طیبہ کی خاکروبی کے لیے تشریف لے جاتے۔ آپ کے والد گرامیc کا مدینہ طیبہ میں وصال ہوا، پھر بھی سردارصاحبc نے مدینہ طیبہ میں قیام رکھا۔ صحت گرنے لگی تو اپنی خدمت کے لیے ایک ساتھی کوساتھ رکھنا شروع کر دیا، جو حجازِ مقدس اور پاکستان میں آپ کے ساتھ رہتے۔ زہے نصیب! کہ سردارصاحبc قریباً چالیس سال کا طویل زمانہ مدینہ طیبہ کی برکات کو اپنے اندر جذب کرتے رہے۔ آج سے چند سال پہلے فقیر نے خود دیکھا کہ بڑھاپے کے باوجود رمضان المبارک کی تراویح تک کوبڑے اہتمام کے ساتھ اداکرتے۔ تمام نمازیں مسجد نبوی میں باجماعت ادا ہوتیں۔ سردار صاحبc جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو ملاقات کی کوئی ترتیب نکل آتی۔ دیانت داری کی بات ہے کہ ان میں بڑے لوگو ں کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔     چند سال پہلے آپ پاکستان تھے کہ ختم نبوت چناب نگر کانفرنس کی تاریخیں آگئیں، آپ نے اپنے نواسے ڈاکڑ محمد عابد خان خاکوانی کے ذریعہ کانفرنس میں شرکت کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی سال حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی کراچی سے بھی تشریف لائے۔ مولانا محمد عبداﷲ ٹوبہ سے بھی آگئے۔ جب سردار صاحبc جامعہ علوم اسلامیہ میں ناظم تھے تو حضرت مولانا یحییٰ مدنی کا زمانہ تعلیم تھا، یہی حال مولانا محمد عبداﷲ کاتھا، اب یہ تینوں حضرات بڑھاپے کے آخری مرحلہ سے دوچار تھے، تاریخ کی باقیاتِ صالحات جمع ہوئیں تویادوں کے دریچے وا ہو گئے، ان حضرات کا خوب وقت گزرا، اس اتفاقی ملاقات پر فرحاں وشاداں تھے۔ کانفرنس کے دوران اسٹیج پر بھی سردار صاحبc تشریف لائے، اپنے ہاتھوں لگائے چمن کو دیکھا تو خوشی سے آنسوچھلک پڑے۔ ہماری سعادت ہے کہ وہ ہمارے بزرگوں کے ساتھی اورہمارے بزرگ تھے۔ بہت ہی طبیعت میں انہوں نے ان دنوں انبساط محسوس فرمایا، واپسی پر خوشی اور مبارک باد کا پیغام بھی بھجوایا۔     فقیر جنوری کے آخری عشرہ سے فروری کے آخر تک دفتر مرکزیہ سے قریباً باہر رہا۔اس دوران روزنامہ اسلام میں آں مرحوم کے وصال کی خبر پڑھی۔ ۲۰؍فروری۲۱۰۷ء پیر کی روز شام چار بجے شیخ زاہد ہسپتال رحیم یار خان میں وصال فرمایا۔ اسی رات دس بجے اپنے آبائی گاؤں رحیم آباد میں سپردِ خاک ہوئے۔ تقدیر الٰہی کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں، اس بار مدینہ طیبہ گئے تو ارادہ لے کرگئے کہ واپس نہیں آنا، لیکن خاندان کے افراد کی بعض شادیوں کے باعث ورثاء نے اتنا مجبور کیا کہ سفر کر لیا۔ چالیس سال قیامِ مدینہ کے باوجود وصال پاکستان میں ہوا۔ انسان لاکھ چاہے، ہونا وہی ہے جو تقدیر کا لکھا ہے۔      ۲۳؍فروری ۱۹۲۷ء کو اس دنیا میں آئے، ۲۰فروری۲۰۱۷ء کو واپس لوٹ گئے، یوں تاریخ کا ایک نوے سالہ باب مکمل ہوا۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ خوبیوں والے بڑے انسان تھے۔ ایک بار فقیر نے غالباً مدینہ طیبہ میں ملاقات پر عرض کیا کہ آپ نے بہت لمبا وقت حضرت بنوریc کے ساتھ گزارا، کوئی خاص بات؟ تو آبدیدہ ہو گئے، فرمایا: مولانا! حضرت بنوریc سے مجھے نفع بھی بہت حاصل ہوااور نقصان بھی بہت اٹھایا۔ فقیر نے عرض کیا: نفع کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، مگر نقصان کی بات سمجھ میں نہیں آتی، تو فرمایا: ’’حضرت بنوریc کے بعد اب کوئی آدمی اس معیار کا آنکھوں میں جچتا نہیں۔‘‘ اس سے بہتر حضرت بنوریc کو ایک جملہ میں کیا خراج تحسین پیش ہو سکتا ہے جو لغاری صاحبc نے پیش کیا، لیجئے! خادم اور مخدوم پھر ایک نئے جہان میں یکجا ہو گئے، فالحمد للہ!

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین