بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سراپائے سعادت حضرت مولانا سعید اللہ  رحمۃ اللہ علیہ

سراپائے سعادت

حضرت مولانا سعید اللہ  رحمۃ اللہ علیہ


۲۴؍شوال ۱۴۳۹ھ موافق ۹؍ جولائی بروز سوموار دوپہر تین بجے کراچی کے میمن ہسپتال میں نیم غنودگی کی حالت میں لب پہ اللہ اللہ کا ورد کرتے کرتے حضرت مولانا سعیداللہ  رحمۃ اللہ علیہ  اپنے پروردگار کے دربار میں پہنچ گئے۔ 
مولانا مرحوم انتہائی مشفق، مہربان دوست، متواضع مزاج، اخلاص و للہیت سے بھرپور، تقویٰ شعار، شب بیدار، عالمِ باعمل، حلیم الطبع و بُردبارجیسی عمدہ صفات کے حامل تھے۔ اختلاف و انتشار، عیب جوئی، بغض و عناد اور کینہ پروری جیسی بدخصلتوں سے کوسوں دور تھے۔ اظہارِ الفت ومحبت میں پہل کرنے والے، لبادۂ درویشی اوڑھے نیک سیرت انسان تھے۔ اپنے اساتذہ خصوصاً اکابرینِ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے ایسا عشق تھا جو آنکھوں سے پانی بہادیتا تھا۔ اپنے محسنین کی یادیں جب ان کی زباں پہ آتیں تو لفظ لفظ سے عقیدت کے موتی برستے محسوس ہوتے۔ راقم کی ڈیڑھ ماہ قبل ان سے ہسپتال میں ہونے والی آخری ملاقات میں بھی اپنے محبوب اساتذہ اور دین کی نسبتوں کا ذکرِخیر رہا۔
ہردم مادرعلمی سے وفاء کادم بھرتے تھے۔ اپنی روحانی اولادوں کو اکابر سے الفت وعقیدت کے جذبات سے وفاء شعاری کا سبق پڑھانے کا محبوبانہ انداز رکھتے تھے۔ طلبہ سے برتاؤ میں اولاد کی مانند تربیت کا رنگ زندگی بھر مزاج کا حصہ رہا۔ اپنے معاصر علماء میں ممتاز مقام کے حامل تھے۔نظامت جیسی دقیق و لطیف ذمہ داری کے باوجود فطری حلم و بردباری کی مثال تھے، طالبانِ علوم دینیہ کو اللہ کا مہمان سمجھتے ہوئے ان کی خدمت کو اپنے لیے سعادت گردانتے تھے۔ 
اپنے ہم عصر دوستوں میں شکوہ شکایات جیسی رسموں سے دور، پاکیزہ گفتگو کرنے والے، صاف دل اور نیک سیرت انسان تھے، احباب کی مجلس میں باوقار وجاہت عیاں ہوتی۔ 
راقم کا مشاہدہ رہا کہ اپنی اولاد کو بھی حسن اخلاق سے حسن ظن رکھنے کی تلقین فرماتے ہوئے اپنی گفتگو کا لہجہ انتہائی مؤدب رکھتے۔ غیبت، عناد وکینہ جیسی باتوں کو اپنی مجالس سے دور رکھتے، اگر کوئی مصر ہوتا تو موضوع کو حکمت سے بدل دیتے۔ قناعت پسندی ایسی کہ کم وسائل میں پورے کنبہ کی ضرورتوں کو اپنی خودداری کی چادر سے سفیدپوشی کا بھرم رکھا۔ رب کی رضاء میں جینے کا سلیقہ ان کی زندگی میں چمکتا ہوا نظر آیا۔ اجلے لباس میں ملبوس، سر پہ مسنون عمامہ، کاندھے پہ عالمانہ روایتی رومال ڈالے، درمیانی باوقار چال، مناسب قد کے ساتھ اپنے اُمور میں سلیقہ مندی ان کے ظاہری نقوش تھے۔
ابتدائی چند سالوں میں گلشن عمرؓ کے قریب ایک فیکٹری کے ساتھ متصل مسجد میں امامت کے فرائضِ منصبی ادا کرتے رہے،، فجر سے قبل طلبہ کو نماز کی ادائیگی کے لیے اُٹھاکر اپنی مسجد میں فجرکی نماز پڑھانے پیدل تشریف لے جاتے تھے۔ ۱۹۹۲ء کی ایک صبح حسب معمول نماز فجر کی ادائیگی کے لیے جاتے ہوئے کچھ شرپسند عناصر نے تیزدھار چاقوؤں کے وار سے جان لیوا حملہ کر کے زخمی کردیا تھا، اللہ نے مزید اپنے دین کا کام لینا تھا اور وقتِ اجل میں تقریباً پچیس برس باقی تھے۔
حضرت مولانا سعیداللہ رحمۃ اللہ علیہ  کی رحلت سے مادرِ علمی جامعہ بنوری ٹاؤن اپنے ایک مخلص، باوفاء اور فکرِ بنوریؒ کے قدآور فرزند سے یقیناً محروم ہوگیا۔ گزشتہ چند ماہ میں مولاناؒ کے علاوہ مفتی نیازاحمد، مولانا الطاف الرحمن، اور مولانا عتیق اللہ  رحمۃ اللہ علیہم  جیسے باصلاحیت فرزندان کا دنیا سے رخصت ہونا فرزندانِ جامعہ، اساتذہ، طلبہ اور متعلقین کے لیے انتہائی گہرے صدمے اور الم وحزن کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سعادت مند محبین کے درجات اپنی شان کے مطابق خوب بلند فرمائے۔ آمین
مولانا سعیداللہؒ کی پیدائش ۱۹۵۸ء میں ضلع شانگلہ کے شلاوغور بند نامی گاؤں میں ہوئی، آپ کے والد حضرت مولانا یحییٰ v عالم اسلام کے معروف ادارہ دارالعلوم دیوبندکے فیض یافتہ، فارغ التحصیل اور مستند جید عالم دین تھے، آپ کی اولاد میں تین فرزندوں میں مولانا سعیداللہؒ سب سے چھوٹے تھے، ایک بھائی اپنے آبائی علاقہ میں عصری تعلیمی ادارہ میں مدرس اور ایک بھائی کراچی میں دینی ادارہ سے منسلک رہے۔مولانا سعیداللہؒ کی کم عمری میں ہی والد جیسی ہستی کاسایہ سر سے اُٹھ گیا تھا، ابتدائی تعلیم آپ نے یادگارِ اسلاف حضرت مولانا فضل محمد سواتی رحمۃ اللہ علیہ  (قدیم بزرگ استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن)کے ادارہ مظہرالعلوم سوات میں حاصل کی۔ آپ حافظِ قرآن نہیں تھے، پانچ پارے حفظ تھے۔ اپنی آرزو کی تکمیل کے لیے استاذِ محترم حضرت سواتیؒ سے اظہار کیا تو انہوں نے محدث العصر حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوری الحسینی رحمۃ اللہ علیہ  کے نام داخلہ کے لیے تحریر لکھ کردی، جیب میں موجود کل ستر روپے کی رقم لے کر کراچی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن پہنچے، جہاں اس وقت کے نوجوان استاذ مفتی رضاء الحق مدظلہٗ (حال شیخ الحدیث دارالعلوم زکریا و مفتی اعظم ساؤتھ افریقہ)سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ حضرت بنوریؒ تو سفر حرمین پہ ہیں، اور رہنمائی کی کہ ان کے نائب مفتی احمدالرحمن سے مل لیں، مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی اور حضرت سواتیv کا خط اور اس کے ساتھ ان کی طرف سے اخروٹ کا ہدیہ بھی پیش کیا، مفتی صاحبؒ نے عقیدت سے اس تحریر کو چوما اور داخلے کی کارروائی کی۔ 
ابتدائی درجات میں دوران تعلیم موقع ملتے ہی حضرت بنوریؒ کے درس اور بعداز عصر ہونے والی روح پرور مجلس میں بیٹھنے کی سعادت بھی حاصل کرتے، دوسرے سال حضرت بنوریؒ کے وصال کے بعد تعلیمی سلسلہ درجات کی ترتیب سے جاری رہا، آپ کے اساتذہ میں مولانا محمدادریس میرٹھیؒ، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، مولانا بدیع الزمانؒ، مولانا سید مصباح اللہ شاہؒ، مولانا محمد سواتیؒ، مفتی احمدالرحمنؒ، مولانا قاری عبدالحقؒ، مولانا عبدالقیوم چترالیؒ، مولانا حبیب اللہ مختار شہیدؒ، مولانا محمدامین اورکزئی شہیدؒ اور مولانا قاری مفتاح اللہ مدظلہٗ کے نام نمایاں ہیں۔ آپ کے ہم درس ساتھیوں میں جامعہ کے موجودہ ناظم تعلیمات اور وفاق المدارس العربیہ صوبہ سندھ کے ناظم مولانا امداداللہ یوسف زئی، مفتی عاصم زکی، مولانا سجاد حسن، مفتی محمدامین سمیت دیگر معروف جید علماء و مفتیان شامل ہیں۔
۱۹۸۴ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے سندِفراغ حاصل کی، فراغت کے ساتھ ہی عملی زندگی کا آغاز اندرون سندھ کے علاقہ ٹنڈوآدم میں تدریس کے ذریعہ کیا، ایک سالہ تدریس کے بعد اساتذہ سے ملاقات کے لے مادرعلمی کراچی آئے تو محبوب ترین استاذ و مربی مفتی احمدالرحمنؒ نے جامعہ کی اولین شاخ گلشنِ عمر میں تدریس و نظامت کا حکم فرمایا، اسی سال آپ کی شادی بھی ہوچکی تھی، اس لیے مولانا سعید اللہؒ نے گاؤں جانے کی اجازت چاہی تو مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ: میاں جا! اور اہل خانہ کو بھی ساتھ لے آ۔
۱۹۸۵ء کے سال کی تعطیلات کے بعد سے گلشن عمر میں تقریباً تیس سال اپنی مفوضہ ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ تین برس قبل ادارہ نے جامعہ کی دوسری معروف شاخ مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر میں ذمہ داریاں سونپیں،آپ نے دورانِ تدریس درسِ نظامی کی درجہ اولیٰ سے عالمیہ سال اول (موقوف علیہ)تک اکثر کتب پڑھائیں، جس میں حدیث کی مقبول ترین کتاب مشکوٰۃ شریف پڑھانے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ آپ کا انداز تدریس اور تفہیم انتہائی سلیس تھا، سالوں تدریس کے دوران وقت مقررہ پہ کتاب کے اختتام اور وقت کی پابندی پہ دوام رہا۔ 
گزشتہ چند برس قبل بلڈپریشر کے مرض کی وجہ سے آپ پہ فالج کا حملہ بھی ہوا تھا، بہترین قوتِ مدافعت اور بروقت علاج سے وقت کے ساتھ اس میں کمی آتی گئی، پھر دو برس قبل اچانک آپ کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا، جس کی بنا پہ بطورِ علاج خون کی صفائی(ڈیلائسز)کے ساتھ طریقۂ علاج مستقل جاری رہا۔ اس شدید مرض کی صورت میں بھی آپ اپنی تعلیمی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان دو برسوں میں بعض مرتبہ مرض کی شدت میں اضافہ سے ہسپتال میں کئی کئی روز داخل بھی کروایا جاتا رہا۔ مولانا سعیداللہؒ سے اس دوران جب بھی راقم کی ملاقات ہوئی تو ان کو انتہائی حوصلہ مند رب کا شکر اداکرتے ہوئے اپنے اکابر و مادرعلمی کی یادوں کے تذکرے کرتے ہوئے پایا، ایک بار غنودگی اور بے ہوشی کی حالت میں زیرلب دعاء وکلمہ طیبہ کا ورد کرتے پایا، ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق وفات سے پندرہ روز قبل گردوں کے عارضہ کی وجہ سے شدید اعصابی حملہ ہوا، جس سے تقریباً دس دن مکمل بے ہوشی رہی۔ آپ کے بڑے فرزند قاری اسامہ سعید سلمہٗ نے بتایا کہ ہوش میں آنے کے بعد ہر بار کی طرح اپنے مرض کی شدت کو کم کہہ کر گھر جانے پہ اصرار کرتے رہے۔ دورانِ علاج عبادات و اعمال کی فکر خود بھی دامن گیر رہی، دورانِ علاج خود بھی اوراد و وظائف پڑھنے کا معمول جاری رکھا اور خدمت پہ مامور صاحبزادگان و طلبہ کو بھی تلقین کرتے رہے۔ راقم الحروف کو یہ بھی بتایا گیا کہ ان آخری ایام میں شدید نقاہت کے باوجود لڑکھڑاتی زبان سے اپنے اساتذہ، طلبہ اور مادرِعلمی کا ہی تذکرہ کرتے رہے، سبحان اللہ!۔ ساری زندگی جس مبارک ماحول میں، جس فکر اور جذبہ کے ساتھ دینی خدمات انجام دیں، وہی دینی فکر، وہی جذبہ وہی تڑپ، وہی جستجو آخری لمحات تک ساتھ رہی۔
کراچی کے علاقہ صفورا گوٹھ میں واقع جدید سہولیات سے آراستہ میمن ہسپتال سے آپ کی میت جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ گلشن عمرؓ سہراب گوٹھ لائی گئی۔ تجہیز و تکفین کے بعد آپ کے چاہنے والے طلبہ، علماء کی بہت بڑی تعداد نے رنجیدہ و غمزدہ اور نمناک آنکھوں سے آپ کا آخری دیدار کیا ۔ کثیر تعداد میں حفاظ و علماء سمیت بہت بڑی تعداد نے جامعہ کے استاذ الحدیث حضرت مولانا فضل محمد دامت برکاتہم کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی۔ تدفین سپرہائی وے پہ واقع ’’ادارہ خدام القرآن‘‘ کے احاطہ میں عمل میں لائی گئی۔سوگواران میں آپ کی ہزاروں روحانی اولاد سمیت ایک بیوہ، پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ 
اللہ نے ان کے مقام کو مزید بلند کرنا تھا، اس لیے امراض و دیگر عوارض پہ صبر و شکر کے امتحان سے گزار کر مکمل صفائی کے ساتھ اپنے پاس بلالیا۔ اللہ تعالیٰ مزید خوب سے خوب درجات بلند فرمائے، اور اہل خانہ و تلامذہ اور تمام قریبی رفقاء کو صبرجمیل عطا فرمائے، آمین یارب العالمین!

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین