بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سر ڈھانکنا شرفاء کے لباس کا حصہ ہے!

سر ڈھانکنا شرفاء کے لباس کا حصہ ہے!


اُترپردیش میں موجودہ بجٹ اجلاس کے دوران سماجوادی پارٹی کے ارکانِ اسمبلی لال ٹوپی پہن کر شرکت کررہے تھے، جس پر اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے اپنا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈھائی سال کا بچہ ٹوپی پہننے والے شخص کو گنڈا سمجھتا ہے۔ اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ کا یہ بیان حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب اور علاقوں اور پارٹیوں کے لوگ ٹوپی کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان کی بڑی بڑی شخصیات حتیٰ کہ ملک کے سب سے بڑے عہدوں پر فائز حضرات بھی ٹوپی کا استعمال کرتے رہے ہیں، جس طرح سکھ مذہب کے ماننے والے پگڑی باندھتے ہیں، اسی طرح مسلمان پگڑی بھی باندھتے ہیں اور ٹوپی بھی پہنتے ہیں۔ اس موقع پر میں نے ضروری سمجھا کہ مذہبِ اسلام میں ٹوپی پہننے اور سر ڈھانکنے کی اہمیت پر کچھ سطریں تحریر کردوں، تاکہ بعض ہمارے مسلم نوجوان بسا اوقات جو ٹوپی کا مذاق اُڑاتے ہیں، ان کے شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے۔
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر ادا ایک سچے اور شیدائی امتی کے لیے نہ صرف قابلِ اتباع بلکہ مرمٹنے کے قابل ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا روز مرہ کی عادات واطوار سے، مثلاً کھانے یا لباس وغیرہ سے۔ ہر امتی کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہر سنت کو اپنی زندگی میں داخل کرے اور جن سنتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی اچھی اور محبت بھری نگاہ سے دیکھے اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کرے۔ اُمتِ مسلمہ متفق ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  عموماً سر ڈھانک کر ہی رہا کرتے تھے، جس کے لیے عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے، جیساکہ احادیث وعلماء امت کے اقوال میں مذکور ہے۔ دنیا میں حدیث کی کوئی بھی مشہور کتاب ایسی موجود نہیں ہے جس میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمامہ کا ذکر متعدد مرتبہ وارد نہ ہوا ہو۔ ہمیشہ سے اور آج بھی ٹوپی مسلمانوں کی پہچان ہے اور صحابہؓ وتابعین وتبع تابعین ومحدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے، لہٰذا ہم سب کو عمامہ وٹوپی یا صرف ٹوپی کا استعمال ہر وقت کرنا چاہیے۔ اگرہر وقت ٹوپی پہننا ہمارے لیے دشوار ہو تو کم از کم نماز کے وقت ٹوپی لگاکر ہی نماز پڑھنی چاہیے۔ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز ادا تو ہوجائے گی، مگر فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے کی عادت بنانا صحیح نہیں ہے، حتیٰ کہ بعض فقہاء وعلماء نے متعدد احادیث، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابیؓ کی طرف سے اپنے شاگرد حضرت نافع  ؒ کو تعلیم دینے اور صحابۂ کرامؓ کے زمانہ سے اُمتِ مسلمہ کے معمول کی روشنی میں ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، جن میں سے حضرت امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ-۱۵۰ھ) کا نام قابلِ ذکر ہے۔ 

ٹوپی سے متعلق احادیثِ مبارکہ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: مُحرِم(یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا مرد) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا۔ (بخاری ومسلم) معلوم ہوا کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں عمامہ اور ٹوپی عام طور پر پہنی جاتی تھی۔ 
حضرت رکانہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، فرمارہے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپی پر عمامہ باندھنا ہے۔ (ترمذی) 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (طبرانی) 
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’الجامع الصغیر‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ ’’الجامع الصغیر‘‘ کی شرح لکھنے والے شیخ علی عزیزی ؒنے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ (السراج المنیر لشرح الجامع الصغیر، ج: ۴، ص: ۱۱۲) 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبراني) 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں کان والی ٹوپی پہنتے تھے اور حضر میں پتلی یعنی شامی ٹوپی ۔ (ابو شیخ اصبہانی  ؒ نے اس کو روایت کیا ہے)
 شیخ عبد الرؤوف مناوی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ ٹوپی کے باب میں یہ سب سے عمدہ سند ہے۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج:۵، ص:۲۴۶) 
ابو کبشہ انماری  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  کی ٹوپیاں پھیلی ہوئی اور چپکی ہوئی ہوتی تھیں۔ (ترمذی) 
حضرت خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  کی غزوۂ یرموک کے موقع پر ٹوپی گم ہوگئی تو حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میری ٹوپی تلاش کرو، تلاش کرنے کے باوجود بھی ٹوپی نہ مل سکی۔ حضرت خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ دوبارہ تلاش کرو، چنانچہ ٹوپی مل گئی، تب حضرت خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمرہ کی ادائیگی کے بعد بال منڈوائے تو سب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بال لینے کے لیے ٹوٹ پڑے تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر کے اگلے حصہ کے بال تیزی سے لے لیے اور انہیں اپنی اس ٹوپی میں رکھ لیا، چنانچہ میں جب بھی لڑائی میں شریک ہوتا ہوں، یہ ٹوپی میرے ساتھ رہتی ہے، اور اسی کی برکت سے مجھے فتح ملتی ہے (اللہ تعالیٰ کے حکم سے)۔ (رواہ حافظ البیہقي في دلائل النبوۃ والحاکم في مستدرکہ، ج:۳، ص:۲۲۹) امام ہیثمی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیح ہیں۔ (مجمع الزوائد، ج: ۹، ص:۳۴۹) 
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے: ’’باب السجود علی الثوب في شدۃ الحر‘‘ یعنی سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنے کا حکم، جس میں حضرت حسن بصری ؒ کا قول ذکر کیا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  اپنی ٹوپی اور عمامہ پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ایک شہید وہ ہے جس کا ایمان عمدہ ہو اور دشمن سے ملاقات کے وقت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئے بہادری سے لڑے اور شہید ہوجائے، اس کا درجہ اتنا بلند ہوگا کہ لوگ قیامت کے دن اس کی طرف اپنی نگاہ اس طرح اٹھائیں گے۔ یہ کہہ کر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے یا حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے جو حدیث کے راوی ہیں اپنا سر اٹھایا، یہاں تک کہ سر سے ٹوپی گرگئی۔ (ترمذی) 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔ (علامہ ابن تیمیہ ؒ اور دیگر علماء نے اس واقعہ کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے)
حضرت زید بن جبیر ؒ اور حضرت ہشام بن عروہ ؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما (کے سر) پر ٹوپی دیکھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہؒ) 
حضرت عبد اللہ بن سعید ؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  (کے سر) پر سفید مصری ٹوپی دیکھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ) 
حضرت اشعث ؒ کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  بیت الخلاء سے نکلے اور ان (کے سر) پر ٹوپی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہؒ) حدیث کی اس مشہور کتاب ’’مصنف ابن ابی شیبہؒ    ‘‘ میں متعدد صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کی ٹوپیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے اختصار کی وجہ سے میں نے صرف تین صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کی ٹوپی کا تذکرہ یہاں کیا ہے۔ 

ٹوپی سے متعلق علماء امت کے اقوال

مشہور فقیہ ومحدث حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ فقہ حنفی کی بے شمار کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔ ہندوپاکستان وبنگلہ دیش وافغانستان کے جمہور علماء فرماتے ہیں کہ: ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ 
علامہ ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے تحریر کیا ہے کہ: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد) 
شیخ ابن العربی ؒ فرماتے ہیں کہ: ٹوپی انبیاء اور صالحین کے لباس میں سے ہے۔ سر کی حفاظت کرتی ہے اور عمامہ کو جماتی ہے۔ (فیض القدیر) 
سعودی عرب کے علماء کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے، نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورۃ الاعراف: ۳۱) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے، لہٰذا ہمیں ٹوپی پہن کر ہی نماز پڑھنی چاہیے۔ سعودی عرب کے خواص وعوام کا معمول بھی یہی ہے کہ وہ عموماً سر ڈھانک کر ہی نمازادا کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں ۲۰ سال کے قیام کے دوران میں نے کسی بھی سعودی عالم یا خطیب یا مفتی یا مستقل امام کو سر کھول کر نماز پڑھتے یا پڑھاتے یا خطبہ دیتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ ان کو ہمیشہ سر ڈھانکے ہوئے ہی دیکھا۔ 

پہلا نکتہ

بعض حضرات ٹوپی کا استعمال تو کرتے ہیں، مگر ان کی ٹوپیاں پرانی، بوسیدہ اور کافی میلی نظر آتی ہیں۔ ہم اپنے لباس ومکان ودیگر چیزوںپر اچھی خاصی رقم خرچ کرتے ہیں، مگر ٹوپیاں پرانی اور بوسیدہ ہی استعمال کرتے ہیں، حالانکہ سر کو ڈھانکنا زینت ہے، جیساکہ مفسرین ومحدثین وعلماء نے کتابوں میں تحریر کیا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حکم ’’خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ‘‘ کے مطابق زینت مطلوب ہے۔ نیز ٹوپی یا عمامہ کا استعمال اسلامی شعار ہے ، اس سے آج بھی مسلمانوں کی شناخت ہوتی ہے، لہٰذا ہمیں اچھی وصاف ستھری ٹوپی کا ہی استعمال کرنا چاہیے۔

دوسرا نکتہ

نماز کے وقت عمامہ یا ٹوپی پہننی چاہیے، لیکن عمامہ یا ٹوپی پہننا واجب نہیں ہے، لہٰذا اگر کسی شخص نے عمامہ یا ٹوپی کے بغیر نماز شروع کردی تو نماز پڑھتے ہوئے اس شخص پر ٹوپی یا رومال وغیرہ نہیں رکھنا چاہیے، کیونکہ اس کی وجہ سے عموماًنمازی کی نماز سے توجہ ہٹتی ہے، خواہ تھوڑے وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو، البتہ نماز شروع کرنے سے قبل اسے سرڈھانک کر نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے۔

خلاصۂ کلام

عمامہ یا ٹوپی پہننا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت وعادتِ کریمہ ہے، کیونکہ احادیث وسیر وتاریخ کی کتابوں میں جہاں جہاں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر پر کپڑے ہونے یا نہ ہونے کا ذکر وارد ہوا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر پر عمامہ یا ٹوپی کا تذکرہ ۹۹ فیصد وارد ہوا ہے۔ نیز صحابہؓ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء اور علماء کرام بھی عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے، نیز ہمیشہ سے اور آج بھی یہ مسلمانوں کی پہچان ہے، لہٰذا ہم سب کو عمامہ وٹوپی یا صرف ٹوپی کا استعمال ہر وقت کرنا چاہیے۔ اگرہر وقت ٹوپی پہننا ہمارے لیے دشوار ہو تو کم از کم نماز تو ٹوپی لگاکر پڑھنی چاہیے، ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز ادا تو ہوجائے گی، مگر فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے کی عادت بنانا صحیح نہیں ہے، حتیٰ کہ فقہاء وعلماء کی ایک جماعت نے متعدد احادیث، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابی کی طرف سے اپنے شاگرد حضرت نافع  ؒ کو تعلیم اور صحابۂ کرامؓ کے زمانہ سے اُمتِ مسلمہ کے معمول کی روشنی میں ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، جن میں سے حضرت امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ-۱۵۰ھ) کا نام قابلِ ذکر ہے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین