بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سحری میں دعا اور نیت سے متعلق چند احکام

سحری میں دعا اور نیت سے متعلق چند احکام


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
1-اگر سحری کھانے کے بعد روزہ کی دعا پڑھنا یاد نہ رہے تو کیا روزے پر کوئی اثر پڑے گا؟ 
2-یہ نیت کی ہو کہ کل روزہ رکھے گا، جبکہ رمضان المبارک چل رہا ہو تو کیا اس سے روزہ پر کوئی اثر پڑے گا؟ 
3-کیا رمضان میں رات سے ہی نیت کرنا ضروری ہے؟ 
4-باقی گیارہ ماہ میں جو روزے رکھے جاتے ہیں اس میں رات سے نیت ضروری ہے؟
                                                                                                                                           مستفتی: شکیل احمد

الجواب حامداً و مصلیاً

1- سحری کھانے کے بعد دعا پڑھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جب دل میں اتنا دھیان ہے کہ آج میرا روزہ ہے تو ایسی صورت میں روزہ ہوجائے گا۔ دعا نہ پڑھنے سے روزہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’والنیۃ معرفتہ بقلبہ أن یصوم ۔۔۔ والسنۃ أن یتلفظ بھا۔۔۔۔الخ۔‘‘ (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الأول في تعریفہ، ج:۱، ص:۱۹۵، ط: ماجدیۃ)
2- واضح رہے کہ زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر دل میں اتنا دھیان ہے کہ کل میں روزہ رکھوں گا یا کل میرا روزہ ہے، تو ایسی صورت میں روزہ ہوجائے گا، روزہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
البتہ اگر دل میں کل روزہ رکھنے کے حوالے سے سرے سے ارادہ ہی نہ تھا اور بھوک نہ لگنے یا کسی اور وجہ سے بھوکا پیاسا رہا تو ایسی صورت میں روزہ نہیں ہوگا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’وشرط صحۃ الأداء النیۃ والطھارۃ عن الحیض والنفاس۔۔۔ الخ۔‘‘ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الأول في تعریفہ، ج:۱، ص:۱۹۵، ط: ماجدیۃ)
3- رمضان المبارک میں رات سے روزہ کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر صبح کچھ کھایا پیا نہ ہو تو دن کو نصف النہار (ٹھیک دوپہر کے وقت) سے پہلے پہلے رمضان کے روزے کی نیت کرلینا درست ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ رات سے یا سحری کے وقت ہی سے نیت کرلی جائے۔
4- رمضان، نذرِ معین اور نفل کے ادا روزہ میں رات سے نیت ضروری نہیں ہے، بلکہ نصف النہار سے پہلے تک نیت کرلی تو درست ہے، البتہ رمضان، نذرِ معین اور نفل کے قضا روزے، نیز مطلق نذر اور کفارہ کے روزے میں رات سے نیت کرنا ضروری ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’وجاز صوم رمضان والنذر المعین والنفل ۔۔۔ من اللیل إلٰی ماقبل نصف النھار۔۔۔ الخ۔‘‘ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب الأول في تعریفہ، ج:۱، ص:۱۹۵، ط: ماجدیۃ)
’’الدر المختار‘‘ میں ہے:
’’(فیصح) أداء (صوم رمضان والنذر المعین والنفل بنیۃ من اللیل) ۔۔۔‘‘
’’رد المحتار‘‘ میں ہے:
’’(قولہ: فیصح أداء صوم رمضان الخ) قید بالأداء ، لأن قضاء رمضان وقضاء النذر المعیّن أو النفل الذي أفسدہٗ یشترط فیہ التبییت والتعیّن۔۔۔ الخ۔‘‘  (الدرالمختار، کتاب الصوم، ج:۲، ص:۳۷۷، ط: سعید)
’’الأشباہ والنظائر‘‘ میں ہے:
’’وإن کان غیر أداء رمضان من قضاء أو نذر أو کفارۃ، فیجوز بنیۃ متقدمۃ من غروب الشمس إلٰی طلوع الفجر ، ویجوز بنیۃ مقارنۃ لطلوع الفجر۔۔۔ الخ۔‘‘   (القاعدۃ الثانیۃ، مباحث عشرۃ في النیۃ، البحث السابع في وقتھا، ص:۴۸، ط: قدیمی)

من مفسدۃ قتل غيرہ۔‘‘     (الأشباہ والنظائر لابن نجيم، ص: ۸۵، ط: دار الکتب العلميۃ، بيروت، لبنان)
وفيہ أيضا:
’’الضرر لا يزال بالضرر ۔۔۔ وکتبنا في شرح الکنز في مسائل شتی ۔۔۔ ولا يأکل المضطر طعام مضطر آخر ولا شيئا من بدنہ ۔‘‘
(الأشباہ والنظائر لابن نجيم، ص: ۸۶، ط: دار الکتب العلميۃ، بيروت، لبنان)

 

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

محمد عبدالقادر

محمد شفیق عارف

فضل الرحمٰن

الجواب صحیح

 

تخصصِ فقہ اسلامی

شعیب عالم

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین