بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سانحہ منیٰ ۔۔۔۔ اہل اسلام کے لیے عظیم صدمہ

سانحہ منیٰ ۔۔۔۔ اہل اسلام کے لیے عظیم صدمہ

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

یہ دنیا دارالفناء اور آخرت دارالبقاء ہے، یہاں جو بھی آیا ہے وہ جانے کے لیے ہی آیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ۱:’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً وَّإِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ۔   (الانبیائ:۳۵) ترجمہ:’’ہرجی کو چکھنی ہے موت اور ہم تم کو جانچتے ہیں برائی سے اور بھلائی سے آزمانے کو اور ہماری طرف پھر کر آجاؤگے۔‘‘ ۲:’’کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ۔‘‘     (الرحمن:۲۶-۲۷) ترجمہ:’’جتنے(ذی روح) روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہوجائیں گے اور صرف آپ کے پروردگار کی ذات جو کہ عظمت والی اور احسان والی ہے باقی رہ جائے گی۔‘‘ لیکن ہر ایک کے اس دنیا سے جانے کے اسباب مختلف ہوتے ہیں: کوئی بستر پر پڑے پڑے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرتا ہے تو کوئی ہسپتال میں اپنی زندگی ہار بیٹھتا ہے۔ کوئی شراب کے نشہ میں دَھت اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو کوئی اپنی زبان ذکر اللہ سے تر رکھے ہوئے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملتا ہے۔ کوئی عین نماز کی حالت میں سربسجود کیے ہوئے اپنے رب سے جاملاقات کرتا ہے تو کوئی احرام کی دو چادریں پہنے ہوئے جنت کی دہلیز تک پہنچ جاتا ہے اور قیامت میں حجاج کی صف میں کھڑے ہونے کا اعزاز اور تمغہ ابھی سے حاصل کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم a نے ارشاد فرمایا: ’’تم جس طرح زندگی گزاروگے اسی طرح موت آئے گی اور جس طرح موت آئے گی قیامت کے دن اسی حالت میں اُٹھائے جاؤگے۔‘‘ ’’کما تعیشون تموتون وکما تموتون تبعثون۔‘‘                       (روح البیان،سورہ آل عمران،ج:۲، ص:۱۲۵، ط: داراحیاء التراث العربی، بیروت) ترجمہ:’’جیسے تم زندگی گزاروگے ویسے ہی تمہاری موت آئے گی اور جیسے تمہاری موت آئے گی ویسے ہی تم (قیامت میں) اٹھائے جاؤگے۔‘‘ غزوۂ احد کے موقع پر آپ a کے سگے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ q کو شہید کیا گیا اور ان کا مثلہ کیا گیا، آپ a نے ان کو دیکھ کر فرمایا: مجھے اگر اپنی پھوپھی حضرت صفیہ t کے غمگین اور زیادہ افسردہ ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں اپنے چچا حضرت حمزہ q کو اسی طرح چھوڑدیتا، ان کو درندے اور پرندے کھاتے اور قیامت کے دن وہ بھی میرے چچا کی اس شہادت پر گواہی دیتے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’حدّثنا عبید اللّٰہ بن موسٰی عن أسامۃ بن زیدٍ عن الزہری عن أنسٍ قال:لمّا کان یوم أحدٍ ، مرَّ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحمزۃؓ وقد جدع ومثّل بہ ، فقال:لولا أن تجد صفیّۃ لترکتہ حتّٰی یحشرہ اللّٰہ من بطون السّباع والطّیر ، ولم یصلّ علی أحدٍ من الشّہداء  ، وقال:أنا شہیدٌ علیکم الیوم۔‘‘                               (مصنف ابن ابی شیبہ، تخلیل اللحیۃ، ج:۱۴، ص:۲۶۰،ط:الدارالسلفیہ، الہند) اسی طرح حضور اکرم a کے زمانہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے میدان میں ایک صحابیؓ اونٹ سے گرکر فوت ہوگئے تو آپ a نے فرمایا: ’’اغسلوہ بماء وسدر وکفنوہ فی ثوبین ولاتمسوہ طیبا ولاتخمروا رأسہ ولاتحنطوہ فإن اللّٰہ یبعثہٗ یوم القیامۃ ملبّیًا۔‘‘ (صحیح البخاری، ج:۱،ص: ۴۹۶، باب المحرم یموت بعرفۃ ولم یأمر النبی صلی اللہ علیہ وسلم أن یؤدّٰی عنہ بقیۃ الحج،ط: الطاف اینڈ سنز، کراچی) ترجمہ:’’اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو ،دو کپڑوں میں کفن دو، خوشبو مت لگاؤ، نہ اس کے سر کوڈھانپو اور نہ حنوط لگاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُسے تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھائے گا ۔‘‘ اس سال حج کے دوران حجاج کرام کو دو عظیم سانحات پیش آئے: ایک تو مسجد حرام میں کرین گرنے کا سانحہ جس میں دو سو سے زائدحجاج کرام شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے اور دوسرا منیٰ میں پیش آنے والا سانحہ، جس پر پورا عالم اسلام افسردہ، غمزدہ اور عظیم صدمہ سے دوچار ہوگیا ہے۔ ایک طرف دیکھا جائے تو اس میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے مسلمانوں کے لیے شہادت کے رتبہ کے ساتھ ساتھ عظیم انعامات اور بشارات ہیں، وہ آخرت کے اعتبار سے کامیاب لوگ شمار کیے جائیں گے، احرام کی حالت میں قیامت تک حج کا ثواب پاتے رہیں گے، طواف کررہے تھے تو ہمیشہ ان کو طواف کا ثواب ملتا رہے گا، نماز میں تھے تو قیامت تک نماز کا اجر حاصل کرتے رہیں گے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو ان دونوں حادثات میں انسانی کوتاہیوں، گناہوں اور غلطیوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ جس دن حرم میں کرین گرنے کا حادثہ پیش آیا، یہ حادثہ عصر کی نماز کے بعد ہوا، اسی دن ظہر کی نماز کے بعد صفا کی طرف جانے والے ایک راستہ کو ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں اور محافظین نے بند کررکھا تھا، لیکن ایک جتھا آیا ، اس نے دھکے دے کر ان رکاوٹوں کو دور کیا اور محافظین وپولیس اہلکاروں پر ہاتھ بھی اٹھائے، حالانکہ یہ تمام پولیس اہلکار اور محافظین حجاج کرام کی سہولت اور اُنہیں کے فائدہ کے لیے یہ تمام انتظامات کرتے ہیں، لیکن جب ان کے ساتھ ہاتھا پائی کی جائے اور ان کو دھکے دیے جائیں تو کیا اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کو جوش نہیں آئے گا اور اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے گھر کی بے حرمتی کرنے والوں اور اپنے گھر کے محافظین کا انتقام نہیں لیں گے؟ اس کے علاوہ آج کے حجاج کرام کی اکثریت اللہ کے گھر کی عظمت اور حرمت کو اتنا پامال کرتی ہے کہ ہر وقت کھٹکا لگارہتا ہے کہ کہیں اَبھی اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب نہ نازل ہوجائے۔ بے پردگی اور بے حجابی تو پہلے بھی تھی، لیکن موبائل آجانے کے بعد تقریباً ہر تیسرا چوتھا آدمی مسجد حرام اور مطاف میں مووی بناتا نظر آتا ہے، جس میں مردوزن سب شامل ہیں اور مووی بھی اس طرح کہ بیت اللہ کی طرف پشت کی ہوئی ہوتی ہے اور دوسری طرف ان کا رخ ہوتا ہے، جس سے بیت اللہ کی بے حرمتی اور بے وقعتی صریح لازم آتی ہے، اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب نہیں آئے گا تو کیا آئے گا؟ رہا ۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۴؍ ستمبر ۲۰۱۵ء کو پیش آنے والا منیٰ کا سانحہ‘ یہ بھی اچانک اور اتفاقی حادثہ نہیں ہے، اس میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال اور عناصر کا ہی بڑا دخل ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ : ایک ملک کے حجاج کا ایک جتھا جس کے باہر کمانڈوز قسم کے مردوں کا حصار اور اس کے اندر عورتیں جو کافی دور اور دیر سے مختلف نعرے لگاتے ہوئے جمرات تک پہنچتے ہیں اور وہ حصار بدستور موجود ہے اور وہ اتنا مضبوط ہے کہ قریب کوئی اور حاجی جمرات کر ہی نہیں سکتا۔ ایک حاجی صاحب کے بقول کہ میں نے کوشش کی کہ میں اس جتھے سے بچ بچاکر جمرات کرلوں، لیکن وہ اتنا مضبوط اور اس کا بہاؤ اتنا زیادہ کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں یہ مجھے ہی نہ روند ڈالیں، اس لیے میری کوشش ناکام ہوگئی۔ بہرحال جب یہ جتھا اسی طرح حصار بنائے جمرات پر پہنچا تو اس نے مختلف نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ کنکریوں کو صرف سات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ ہر ایک نے ایک تھیلی بھری ہوئی تھی جب تک وہ خالی نہیں ہوئی، وہ مسلسل کنکریاں ماررہا تھا اور اپنی زبان میں کچھ کہہ رہا تھا۔ کنکریوں سے فراغت کے بعد یہ جتھا اسی انداز میں واپس ہوا، جس انداز میں یہاں آیا تھا اور آگے جاکر بجائے مقررہ راستوں پر جانے کے‘ رکاوٹیں عبور کرکے غلط سمت کی طرف جانے کی کوشش کی، سعودی محافظین نے روکنے کے بہت جتن کیے، لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور آگے نائجیریا کا بھی ایک بڑا قافلہ آرہا تھا، جس سے دونوں کا ٹکراؤ ہوا، اس پہلے جتھے کے کچھ لوگوں نے گرمی اور حبس کی وجہ سے حصار سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اس سے بھگدڑ مچی اور یہ سنگین حادثہ رونما ہوا، اس کے علاوہ اور بھی کئی عوامل اس میں کارفرما ہوں گے، لیکن ظاہراً یہی بتایا گیا، جس میں گیارہ سو سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں اور ابھی تک کئی سو لاپتہ اور زخمی ہیں، لیکن اس حادثہ کے فوراً بعد ایک ملک کے ذمہ داران کے سعودی عرب کو دھمکی آمیز بیانات اور اس کے متصل ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلہ کو اٹھانا اور حرمین کو کھلا شہر قرار دینے کا مطالبہ کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ پلان اور منصوبہ بھی جزیرۂ عرب میں بپا شورش کو بھڑکانے کا حصہ تھا، جس کو سعودی عرب کی دانشمندانہ قیادت نے بڑے تحمل، برداشت اور بردباری سے کنٹرول کیا۔ ہماری اس بات کی تائید۱۹؍ ذوالحجہ ۱۴۳۶ھ ، ۴؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء بروز اتوار روزنامہ امت کے کالم نگار جناب امجد چوہدری کے کالم ’’سانحہ منیٰ حادثہ یا سازش؟‘‘ کے آخر میں جو کچھ لکھا ہے‘ اس سے بھی ہوتی ہے، جناب موصوف لکھتے ہیں: ’’خطے کی اس صورت حال کو مدنظر رکھا جائے تو سانحہ منیٰ میں سازش کا امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ واقعہ اس بار پیش بھی ایسی جگہ آیا ہے جہاں بظاہر ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اس سے پہلے بھگدڑ کے واقعات جمرات پل پر پیش آتے رہے ہیں، لیکن اس بار یہ وہاں سے کچھ دور اس وقت پیش آیاجب شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد ایرانی حجاج کا ایک گروپ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف ہی پلٹ آیا اور چوک نما جگہ پر ان کا جمرات پل کی جانب بڑھنے والے حجاج سے ٹکراؤ ہوگیا۔ ایرانی حجاج کی شہادتیں زیادہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔ اگر آپ سازشی نظریے سے دیکھیں تو کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سعودیہ کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی خواہش مند طاقتوں نے حجاج کے روپ میں اپنے چند تربیت یافتہ ایجنٹ بھیج دیئے ہوں، اتنے بڑے مجمع کو کسی غلط رخ کی جانب موڑنا تو ان ایجنٹوں کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوسکتا ہے۔ اس میں تو انہوں نے بس ایک ساتھ آوازیں لگاکر یا اشاروں سے ایک طرف رخ ہی متعین کرنا ہوگا، اس کے بعد تو لوگ خود ہی چل پڑیں گے۔ سعودی عرب کے پاس اسکیننگ کا تو کوئی نظام نہیں کہ وہ دیکھ سکے کہ جو ۲۵؍ لاکھ عازمین اس کی سرزمین پر آرہے ہیں، ان کا پس منظر کیا ہے؟ شناخت بدل کر کوئی بھی ملک اپنے ایجنٹ عازمین کی صورت میں وہاں بھیج سکتا ہے۔ سازش ہونے کی سوچ کو سانحہ منیٰ کے بعد کے واقعات سے بھی تقویت ملتی ہے۔ افسوس ناک طور پر بعض ممالک نے اس معاملے پر غیر معمولی شورشرابا شروع کردیا۔ سعودی عرب کو دھمکیاں تک دی گئیں۔ اس سے پہلے بھی حادثات ہوئے ہیں، لیکن اس بار جس طرح رد عمل ظاہر کیا گیا، یہ خطے کے حالات کا عکاس بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق کیا گیا ہو، مثلاً اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو اٹھانے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا، حتیٰ کہ مقامات مقدسہ کو عالمی تحویل میں دینے کے مطالبے کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ اس سانحے میں سازش کی بُو آنے کی ایک اور وجہ وہ خط بھی ہے جو برطانوی میڈیا میں اس حادثے کے فوراً بعد سامنے لایاگیا، ایک نامعلوم شہزادے کے حوالے سے شائع اس خط میں تقریباً وہی باتیں کہی گئیں جو سعودیہ کے دشمن کررہے ہیں، یعنی کہ سانحہ منیٰ کو جواز بناکر موجودہ سعودی قیادت کو ناکام قرار دیا گیا، خط میں سعودی شاہی خاندان کو شاہ سلمان کے خلاف بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی گئی، ایسا بھی پہلی بار ہوا ہے کہ حج پر کسی سانحے کے بعد سعودی شاہ کی معزولی کا مطالبہ سامنے لایا جائے اور وہ بھی ایک نامعلوم سعودی شہزادے کے حوالے سے۔ اب پتہ نہیں یہ خط تیار کرنے والا نامعلوم شخص شہزادہ ہے بھی یا نہیں، لیکن اس خط کا مقصد واضح ہے کہ سعودی شاہی خاندان میں اختلافات کے بیج بوئے جائیں۔ دشمن کی نظریں اب ہمارے مقامات مقدسہ پر ہیں۔ رب العالمین ہم پر رحم کرے اور مسلمانوں کو ان سازشوں کو سمجھنے اور انہیں ناکام بنانے کی سمجھ اور ہمت دے۔ ان مقامات کی حفاظت تو رب العالمین کریں گے، وہی رب جس نے ابرہہ کے لشکر کو پرندوں کے ذریعہ نیست ونابود کردیا تھا، لیکن ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، اگر امت مسلمہ نے یہ ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو قیامت کے روز ہم پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے۔‘‘                                                     (روزنامہ امت ، ۱۹؍ ذوالحجہ ۱۴۳۶ھ ، ۴؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء بروز اتوار) ہماری وفاقی حکومت کے وفاقی وزیز خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب نے بھی اپنے بیان میں کچھ اسی طرح کا اشارہ کیا ہے: ’’اسلام آباد(خبرایجنسیاں) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سانحہ منیٰ میں ایک ملک کے لوگ ملوث تھے، بدھ کو پریس کانفرنس میں انہوں نے سانحہ منیٰ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے پر دل دکھی ہیں۔ پہلے حرم میں کرین گرنے کا واقعہ ہوا، اس میں بھی پاکستانی شہید ہوئے، اس کے بعد منیٰ میں سانحہ ہوگیا۔ وزارتِ خارجہ اور وزارتِ مذہبی امور کا سعودی حکام سے رابطہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایک ملک کے ۲۵۰؍ افراد سے زائد پر مشتمل گروپ اُلٹا چلا تھا، جس کے نتیجے میں بھگدڑ شروع ہوئی اور سینکڑوں افراد شہید ہوگئے۔ وزیز خزانہ نے کسی ملک کا نام لینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی معاملہ ہے۔‘‘          ( روزنامہ امت،یکم اکتوبر۲۰۱۵ئ) تمام شواہد دیکھنے کے بعد اس ملک کے وزیر صحت کو اعتراف کرنا پڑا کہ سعودی عرب منیٰ حادثے میں بے قصور ہے: ’’دبئی(امت نیوز/ ایجنسیاں) ایران کے وزیر صحت نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کے برعکس منیٰ میں بھگدڑ کے دوران پیش آنے والے حادثے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حادثے میں سعودی عرب کی حکومت کو قصوروار نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ العربیہ ڈی وی کے مطابق ایرانی وزیر صحت حسن ہاشمی نے اپنے سعودی ہم منصب انجینئر خالد بن عبدالعزیز الفالح سے جدہ میں ملاقات کے دوران منیٰ حادثے کے بعد سعودی حکومت کی جانب سے کیے گئے ہنگامی امدادی اقدامات کو سراہا، انہوں نے کہا کہ منیٰ میں بھگدڑ کے نتیجے میں پیش آنے والا حادثہ المناک ہے، مگر اس میں سعودی حکومت کا کوئی قصور نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘                                         ( روزنامہ امت،یکم اکتوبر۲۰۱۵ئ) بہرحال اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب سے ہر حال میں ڈرتے رہنا چاہیے، خصوصاً حج کے ایام میں اور ارضِ مقدس پر تو بہت زیادہ ڈرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جیسے یہاں دعائیں نقداور فوری قبول ہوتی ہیں، ویسے ہی یہاں بے ادبی، گستاخی اور بے حرمتی کرنے پر گرفت بھی فوراً ہی ہوتی ہے،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ۔‘‘(الحج:۲۵) ترجمہ:’’اور جو اس میں چاہے ٹیڑھی راہ شرارت سے اسے ہم چکھائیں گے ایک عذاب دردناک۔‘‘  اللہ تبارک وتعالیٰ ان چیزوں سے ہر ایک کو محفوظ فرمائے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس، نائب رئیس، انتظامیہ اور تمام اساتذہ‘ منیٰ کے سانحہ پر افسردہ ہیں اور سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان اور ان کے رفقاء ومعاونین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیںاور بھرپور حج انتظامات کرنے پر اُنہیں خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حجاج کرام بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ تھامطاف میں کنکریاں ہوتی تھیں جو پاؤں کو چبھتی تھیں۔ اسی طرح پینے کے لیے وافر مقدار میں پانی نہیں ملتا تھا، کچھ عرب بدو صراحی نما برتن لیے ہوئے ایک چھوٹی سی پیالی میں پانی ڈال کردیتے اور پھر اس پر پیسے مانگتے تھے۔ اسی طرح جمرات پر ہر سال بھگدڑ مچتی تھی، کیونکہ ایک تو یہ ستون نما تھے اور جگہ کم ہوتی تھی اور دوسرا یہ کہ آنے اور جانے کا راستہ ایک ہوتا تھا۔ لیکن اب دیکھیں پانی ہر جگہ وافر مقدار میں موجود ہے، آپ مسجد الحرام سے مزدلفہ تک چلے جائیں، آپ کو جگہ جگہ ٹھنڈے پانی کے کولر لگے ملیں گے اور اوپر سے آبشار نما کھمبے آپ کے جسم وجان کو راحت پہنچانے میں مصروف ملیں گے اور اس پر مزید دس ذوالحجہ کو سعودی عرب کی پولیس اور فوج کے نوجوان ہر بزرگ حاجی اور کمزور آدمیوں پر ٹھنڈے پانی کی بوتلوں اور مشینوں کے ذریعہ اسپرے کرتے نظر آئیں گے۔ زمزم حرمین میں وافر مقدار میں ملتا ہے۔ مسجد الحرام اور مطاف کی توسیع کو دیکھیں تو آدمی حیران ہوجاتا ہے، ابھی جو باب عبداللہ کی طرف نئی تعمیر ہوئی ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور سنا ہے کہ ابھی دو تین سال مزید اس کی تکمیل، تزئین وآرائش میں لگیں گے۔جمرات کی توسیع تو کثیر المنزلہ اور بہت زیادہ کشادہ کردی گئی ہے اور اوپر سے ہیوی قسم کے پنکھے لگادیئے گئے ہیں کہ آدمی وہاں بہت زیادہ ٹھنڈک اور تازگی محسوس کرتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جمرات تقریباً پانچ منزلہ بنائی گئی ہے اور ہر روڈ سے آنے والوں کے لیے الگ الگ منزل رمی کے لیے مقرر کی گئی ہے اور اگر کسی وقت کسی منزل پر رَش ہوجائے تو راستے میں لگی لائٹیں نشان دہی کرتی ہیں کہ ابھی رَش ہے، آپ جمرات کے لیے نہ جائیں۔ ان تمام انتظامات اور تعمیرات کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکام نے حرمین شریفین کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھولے ہوئے ہیں اور اس پر کسی حساب وکتاب کی ان کو کوئی پرواہ نہیں۔ بہرحال حج کے حوالہ سے اس سال بھی سعودی انتظامات میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں تھی، الحمدللہ! ہر اعتبار سے تمام انتظامات بھرپور تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور حرمین شریفین کو شریروں کے شر اوردشمنوں کی دشمنی سے محفوظ فرمائے ، آمین۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین     

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین