بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 سائنسی تحقیق، عصری علوم اور دینی مدارس (دوسری اور آخری قسط)

 سائنسی تحقیق، عصری علوم اور دینی مدارس

Scientific Research , Modern Education and Madaris

 (دوسری اور آخری قسط)

 

کیا دینی مدارس کا مقصد سائنسی تحقیق کروانا ہے؟

جس طرح میڈیکل کالج کا مقصد طب کی تعلیم دینا ہے، انجینئرنگ یونیورسٹی کا مقصد انجینئرنگ کی تعلیم دینا ہے، لاء کالج کا مقصد قانون کی تعلیم دینا ہے، بعینہ اسی طرح دینی مدارس کا مقصد دینی علوم کی تعلیم دینا ہے، تاکہ علماء کی ایک معتدبہ تعداد معاشرے کی ضرورت کے لیے تیار ہوسکے اور جو اپنا تن من دھن لگا کر دین کی خدمت کرسکے۔ پھر دینی علوم میں شعبہ جات اتنے سارے ہیں کہ اس چھوٹی سی زندگی میں تمام شعبہ جات کے اندر مہارت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے، اسی واسطے دینی مدارس میں مختلف تخصُّصات موجودہیں، پھر ان تخصُّصات کے بعد بھی علم میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے ایک لمبی عمر درکار ہے۔ اور بات صرف دینی علوم تک محدود ہوتی تو ٹھیک مگر دینی علوم اور مدارس کے اندر تقویٰ اور للہیت کی لائن سے بھی بہت سارے میدان ہیں، جن کو طلبہ نے سر کرنا ہوتا ہے اور پھر کہیں جا کر ایک راسخ العقیدہ عالم اور مفتی تیار ہوتا ہے۔
اگر ہم مروجہ درسِ نظامی کے نصاب کو دیکھیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ پوری تندہی، خلوص اور لگن کے ساتھ ۸ سے ۱۰ سال لگانے کے بعد دینی علوم کے اندر استعداد پیدا ہوتی ہے۔بعینہ یہی صورتِ حال عصری علوم اور تحقیق کرنے والوں کو بھی پیش آتی ہے۔ اب چونکہ دینی مدارس کا مقصد دینی علوم کی استعداد پیدا کرنا ہوتا ہے تو طالب علم طب، کیمیا، قانون، ریاضی، اور دیگر سائنسی علوم میں مہارت حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں! البتہ بنیادی معلومات جو کہ عصری علوم کے طلبہ کو بھی دی جاتی ہیں، ان علماء حضرات کو بھی ملتی ہیں، مگر یہ اتنی ہی واقفیت ہوتی ہے جتنی کہ ایک ڈاکٹر کو انجینئرنگ کے شعبے سے ہوتی ہے، یا ایک وکیل کو ریاضی سے ہوتی ہے یا ایک کیمیا دان کو کمپیوٹر سائنس کے شعبے سے ہوتی ہے۔ اب جس طریقے سے کسی وکیل سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ کوئی ویکسین ایجاد کرے گا، یا کسی کیمیا دان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کمپیوٹر سائنس کے مشکل الگوریتھمز Algorithms ایجاد کرے گا، بالکل اسی طریقے سے ایک عالمِ دین سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ سائنسی علوم میں مہارت حاصل کرے گا اور کوئی سائنسی تحقیق کرے گا۔ خلاصہ کلام اس ساری بات کا یہ ہے کہ دینی مدارس کا کام سائنسی تحقیق کروانا نہیں ہے۔

دینی علوم میں علمائے کرام کا تحقیق اور پی ایچ ڈی کرنا

الحمدللہ وفاق المدارس اور اکابر کی کوششوں کی وجہ سے درسِ نظامی کے فاضل کو ماسٹرز کے مساوی ڈگری دی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ ماسٹرز کی ڈگری، ماسٹرز ان آرٹس Masters in Arts (M.A) کی ڈگری ہوتی ہے، جو کہ اپنے اندر چند اسلامی علوم کے تخصُّصات رکھتی ہے، مثلاً اسلامی تاریخ، فقہ، حدیث، تفسیر، علوم القرآن، عربی علوم، مختلف ادیان کا تقابلی جائزہ، دعوت، سیرۃ، تصوف، فلسفہ و علم العقائد، وغیرہ۔ پھر انہی مضامین اور تخصُّصات کی بنیاد پر یہ علمائے کرام انہی علوم کے اندر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا حصول کرتے ہیں اور اپنی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہیں، مگر یہ تحقیق آرٹس کے مضامین سے متعلق ہیں، نا کہ سائنس سے متعلق۔ اسی طریقے سے بہت سے علمائےکرام معاشیات اور مینجمنٹ سائنس کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے ان علوم کے اندر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور کچھ علمائے کرام نے صحافت اور ماس کمیونیکیشن یعنی ابلاغِ عامہ کو اپنا مطمحِ نظر بنایا اور ان مضامین میں پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا حصول کیا۔ نیز کچھ علمائے کرام قانون کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ایل ایل بی اور ایل ایل ایم کرتے ہیں، لہٰذا اس سے ہم یہ نتیجہ نہیں اخذ کرسکتے ہیں کہ یہ علمائے کرام سائنس کے علوم کے اندر تحقیق کررہے ہیں۔ 

کوئی مسئلہ بتانے کے لیے علمائے کرام کا سائنسدان بننا ضروری نہیں

یہ عام مشاہدہ ہے کہ جب کسی ایک شعبے کے ماہر کو کسی دوسرے شعبے کے ماہر کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اس سے استفادہ کرتا ہے، مثلاً جب کسی مقدمے کے اندر جج اور وکیل حضرات کو سائبر سیکورٹی سے متعلق چیزوں کو سمجھنا ہوتا ہے تو وہ کمپیوٹر کے ماہر سے اپنی مطلوبہ معلومات لینے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے جب کسی حکومتی وزیر کو کوئی پالیسی مرتب کرنی ہوتی ہے تو وہ متعلقہ شعبہ جات کے ماہرین سے رجوع کرنے کے بعد اپنی پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ کہیں بھی یہ سوال نہیں ہوتا کہ وہ جج، وکیل یا حکومتی وزیر سب کچھ چھوڑ کر اس متعلقہ علم کو حاصل کرنے لگ جائے۔ بعینہ اسی طریقے سے دینی علوم کے ماہر حضرات یعنی مفتیانِ کرام جب کسی مسئلے سے متعلق کوئی معلومات لینا چاہتے ہیں تو مختلف شعبوں کے ماہرین سے معلومات لے کر شریعت کے احکامات بتا دیتے ہیں، جیسے اگر کسی چیز کی حلت و حرمت پر بات کرنی ہے تو پہلے مفتیانِ کرام متعلقہ فوڈ سائنس کے ماہرین اور کیمیکل انڈسٹری کے ماہرین سے معلومات لے کر اسلامی حکم بتا دیتے ہیں۔ اسی طریقے سے اگر کسی سائل کو کوئی مشکل معاشی مسئلہ پیش آتا ہے تو مفتیانِ کرام متعلقہ ماہرین سے رجوع کرنے کے بعد متعلقہ مسئلے کا حکم تفصیل کے ساتھ بیان فرمادیتے ہیں۔تو حاصل اس ساری بات کایہ ہے کہ علمائے کرام کا کسی مسئلے کو بتانے کے لیے ان علوم کا ماہر یعنی سائنس دان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔

سائنسی تحقیق کے پیچھے مادیت جبکہ دینی تحقیق کے پیچھے دین کی خدمت کا جذبہ

مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ سائنسی تحقیق اور عصری علوم کی جامعات کے اندر اور بالخصوص پاکستان کی جامعات کے اندر طلبہ کا ذہن اس طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ اگر میڈیکل ڈاکٹر بنوگے، انجینئر بنوگے تو اچھی نوکری ملے گی، اور جب اچھی نوکری ملے گی تو تنخواہ اچھی ہوگی اور پھر سارے مسائل کا حل نکل آئے گا، یعنی اساتذہ کرام سے لے کر طلبہ تک، پورے نظام میں مادیت کی سوچ کارفرما ہے، الاماشاءاللہ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سائنسی تحقیق کے پیچھے نیت انسانیت کی خدمت ہو اور سائنسی تحقیق کی ترویج و اشاعت ہو اور اگر ہم دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں اور تحقیق کرنے والوں کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ پورے خلوص کے ساتھ تحقیق کرتے ہیں، تاکہ اپنےسائنسی شعبے اور انسانیت کی خدمت کرسکیں، مگر اس کے باوجود بھی بنیادی طور پر مادیت ہی ان کی ساری جدوجہد کا مرکز ہوتا ہے۔ اس کے برعکس دینی مدارس اور علمائے کرام کا مقصد خالص دین کی خدمت ہوتا ہے اور ان میں دین کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور اسی خلوص کی برکت سے یہ چٹائیوں پر بیٹھنے والے علمائے کرام بلا کسی معاوضہ کے اپنی پوری پوری زندگیاں دین اور دینی علوم کی خدمت میں وقف کردیتے ہیں۔
اب جبکہ ہم دینی مدارس کے علمائے کرام عصری جامعات کی طرف راغب ہوں گے تو لامحالہ ان کے اندر بھی دنیا حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوگی اور اگر وہ دنیاوی لوگوں کی طرح مسابقت نہیں کریں گے تو پھر وہ ان عصری علوم میں پیچھے رہ جائیں گے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی علوم کی خدمت کے اندر اخلاص اور للہیت جیسے عناصر کو عنقاء ہونے سے بچایا جائے اور اس کے لیے اکابر کی ترتیب پر علم حاصل کرتے ہوئے دینی مدارس صرف دینی علوم پر توجہ دیں۔

دینی مدارس میں جدید فقہی مقالات کی تدوین و اشاعت اور ان کا معیار

الحمدللہ یہ بات لکھتے ہوئے بہت مسرت ہوتی ہے کہ دینی مدارس اپنے کام کے اندر نہ صرف ماہر ہیں، بلکہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنا لوہا پوری دنیا کے اندر منوایا ہے۔ مجھے عصری علوم کے طالب علم کی حیثیت سے جب دینی مدارس سے نکلنے والے جدید فقہی مقالات ، مضامین و تحقیقات دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو دل خوشی سے جھوم اُٹھتا ہے۔ نیز جب ہم تخصص کے شعبہ جات سے فارغ التحصیل مفتیانِ کرام کا تحقیقی کام دیکھتے ہیں تو وہ بھی بہت اعلیٰ اور معیاری قسم کا ہوتا ہے۔ تحریر کے اسلوب سے لے کر تحقیقی مواد تک اور پھر مضمون کے ڈھانچے سے لے کر مصادر تک، تمام ہی کام انتہائی اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔ ان دینی مدارس کے نظم کے تحت جو باقاعدہ مجموعہ فتاویٰ جات شائع ہوتے ہیں، وہ اپنے اندر انتہائی اعلیٰ درجے کا تحقیقی مواد رکھتے ہیں اور ان کے اندر علوم کا ایک خزانہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو رسائل و جرائد مختلف دینی مدارس شائع کرتے ہیں، وہ بھی نہایت اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ دینی مدارس کے اندر جو تحقیق ہو رہی ہے اس کو ہم اس طرح سے بیان کرسکتے ہیں (دیکھیے: شکل نمبر: ۱)۔ 
یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جو تحقیق دینی مدارس کے اندر سائنسی شعبوں سے متعلق ہورہی ہے (جیسا کہ شکل نمبر :۱ میں دکھایا گیا ہے)، وہ بنیادی سائنسی تحقیق نہیں ہے، بلکہ وہ سائنسی شعبوں سے متعلق جو فقہی احکامات ہیں، اس سے متعلق تحقیق ہے، مثلاً کمپیوٹر سائنس سے متعلق تحقیقی مضمون بلاک چین (کرپٹوکرنسی – بٹ کوائن) سے متعلق یہ دینی مدارس تحقیق نہیں کررہے، بلکہ کمپیوٹر کے ماہرین اور سائنسدانوں سے بلاک چین (کرپٹوکرنسی) کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ کر اس کے دینی احکامات بتارہے ہوتے ہیں۔

شکل نمبر: 1

دینی مدارس کے اندر تحقیق وجدید فقہی مقالات

تحقیق و فقہی مقالات جو سائنسی شعبوں سے متعلق ہے

1-بنیادی سائنس کے شعبے
2-سوشل سائنس کے شعبے
 

تحقیق وفقہی مقالات جو غیر سائنسی شعبوں سے متعلق ہے  : عقائد ، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاقیات)

مروجہ سائنسی تحقیق کا ماڈل اور اس کا اطلاق دینی تحقیق و فقہی مقالات پر

آج کل کی دنیا میں جو مروجہ سائنسی ماڈل تحقیق کے حوالے سے موجود ہے، اس میں جامعات کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ پھر ان جامعات کا حکومتی اداروں، پالیسی ساز اداروں، اور انڈسٹری کے ساتھ تعامل بھی ہونا چاہیے اور ان جامعات کی فنڈنگ کا نظام ایک مربوط طریقے سے چل رہا ہے۔ انہی جامعات سے پھر سائنسدان تیار ہوتے ہیں، جو کہ اپنے اپنے سائنسی شعبہ جات کے اندر مختلف مضامین پر تحقیقی کام کرتے ہیں۔ ایک سائنسدان اور پروفیسر کو جو وسائل میسر آتے ہیں اس کی بنیاد پروہ پورا اپنا ریسرچ سینٹر بناتا ہے اور اپنے جیسے دیگر سائنسدانوں کے گروپ کو ملا کر سائنسی تحقیق کو آگے لے جانے کی سعی کرتا ہے،اس کے لیے اس کو فنڈنگ بھی چاہیے ہوتی ہے، جو کہ اس کو مختلف ذرائع سے آسانی کے ساتھ میسر آجاتی ہے اور اس کی بنیاد پر وہ دیگر طلبہ کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی تفویض کرتا ہے ، نیز اپنے سائنسی تحقیقی کام کو بھی آگے بڑھاتا ہے۔ جو بھی یہ سائنسدان تحقیق کرتا ہے اس تحقیق کو سائنسی مضامین اور مقالات کی شکل میں شائع کیا جاتا ہے اور پھر انہی مقالات کی بنیاد پر اس سائنسدان کا اگلے گریڈ پر ترقی اور دیگر ذرائع آمدن کے مواقع میسر آتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ مروجہ سائنسی تحقیق ماڈل کے اندر تحقیقی مقالات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ذیل میں ہم سائنسی تحقیقی مقالہ جات کی اہمیت کو ایک شکل سے واضح کرتے ہیں (دیکھیے: شکل نمبر ۲)۔ اس میں ہم یہ بتا رہے ہیں کہ سائنسی مقالہ جات کے لکھنے کی اہمیت کیا ہے؟!

شکل نمبر ۲: سائنسی مقالہ جات کیوں لکھے جاتے ہیں؟

پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول کے لیے

پروفیسر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے
فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے

کوئی نئی چیز ایجاد کرتے وقت
تحقیق کرنے کے لیے

سائنسی تحقیق کو عام کرنے کے لیے
ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی سپرویزن کے لیے

سائنسی دنیا میں اپنا لوہا منوانے کے لیے
اس کے بالمقابل اگرہم دینی مدارس کی بات کریں اور تخصص کی بات کریں تو وہاں کا تحقیق کاماڈل مروجہ سائنسی ماڈل سے مختلف ہے، مثلاً دینی مدارس کے اندر جو تخصص کے مقالہ جات لکھے جاتے ہیں، ان کے اندر Peer Review Process یعنی تحقیقی مقالہ جات کو پرکھنے کے معیار کا طریقہ مروجہ سائنسی طریقے کے مطابق نہیں ہوتا، نیز ان فقہی مقالہ جات کی عالمی سطح پر کوئی اشاعت نہیں ہوتی اور خاصی پذیرائی بھی نہیں ملتی۔ ہاں! البتہ بعض مرتبہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک تخصص کا طالب علم اپنے فقہی مقالہ کو عالمی سائنسی تحقیقی جریدے میں اشاعت کے لیے بھیجتا ہے، مگر اس کے لیے اس فقہی مقالے کو اس جریدے کے اصول و ضوابط کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے اور یہ کافی محنت طلب کام ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی دینی مدرسے کا فقہی رسالہ مثلاً بینات یا البلاغ عالمی سطح پر سائنسدانوں کے یہاں تسلیم ہوجائے؟ اس کا جواب نفی میں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو سائنسی جرائد ہوتے ہیں ان کو اپنے آپ کو رجسٹرڈ اور انڈیکس کروانا پڑتا ہے، سائنسی ریگولیٹری باڈیز کے پاس اور ان کے کچھ بیس سے اوپر اصول ہیں، جن کی بنیاد پر وہ ان جرائد کو تسلیم کرتے ہیں، ان اصولوں پرکاربند ہونے سے دینی جرائد کی خودمختاری پر اثر پڑے گا، اس واسطے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ یہ دینی جرائد سائنسی دنیا میں تسلیم کیے جاسکیں۔ پھر یہاں پر یہ سوال بھی بجا ہے کہ دینی مدارس کو ایسا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ علمائے کرام کا مقصد ڈگریوں کا حصول نہیں، نیز پیسوں اور اعلیٰ عہدوں کا حصول بھی ان کا مقصد نہیں تو پھر وہ یہ راستہ اختیار ہی کیوں کریں؟!

وفاق المدارس کے نظم کے تحت فقہی مقالات کی تدوین واشاعت اور ان کے جانچنے کا ملکی نظم

الحمدللہ وفاق المدارس کے نظم کے تحت مدارس کی نمائندہ جماعت کا ماہنامہ شمارہ ’’وفاق‘‘ وفاق المدارس سے متعلق خبروں کو چھاپتا رہتا ہے اور اس کے اندر مختلف تحقیقی مقالہ جات بھی چھپتے رہتے ہیں۔ ایک ترتیب یہ بھی شروع کی جاسکتی ہے کہ وفاق المدارس ایک بین الاقوامی تحقیقی جریدے کا اجراء کرے اور اس کے اندر ایک ایڈوٹوریل بورڈ Editorial Board تشکیل دیا جائے، جس کے اندر ایڈیٹر اِن چیف اور ایڈیٹرز ہوں اور یہ تمام حضرات پورے پاکستان کے نامور علمائے کرام ہوں اور اپنے اپنے دینی شعبہ جات میں مہارت رکھتے ہوں، اور پھر پورے پاکستان کے تمام مدارس کے تخصص کے طلبہ تحقیقی مقالہ جات اس جریدے کے اندر چھاپنے کے لیے بھیجیں۔ پھر ان فقہی مقالہ جات کی مروجہ سائنسی طریقے کے مطابق جانچ پڑتال کی جائے اور صرف انہی فقہی مقالہ جات کو اس جریدے کا حصہ بنایا جائے جو کہ متعین کردہ معیار پر پورا اُترتے ہوں۔ اس سار ے نظم کے تحت پورے پاکستان کے فقہی مقالات کو ایک دینی جریدے کی شکل میں شائع ہونے کا باقاعدہ موقع مل جائے گا۔

علمائے کرام کی خدمت میں کچھ گزارشات

آخر میں گزارش یہ ہے کہ جو علمائے کرام اور مفتیانِ کرام پاکستان کی عصری علوم کی جامعات سے پی ایچ ڈی اور تحقیق کررہے ہیں تو ان کو خصوصی طور پر محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ آج کل چونکہ ہمارے ملک پاکستان کی عصری جامعات کے اندر بنیاد چونکہ ڈگری اور پیسے کا حصول ہے اور تحقیق ان کا مقصد نہیں ہے تو لا محالہ یہ چیز ہمارے علمائے کرام کے سامنے بھی پیش آئے گی اور جو علمائے کرام اور مفتیانِ کرام ان عصری جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کریں گے، ان کے اندر سائنسی استعداد کی کمی ہوگی اور وہ یہ سمجھیں گے کہ سائنس اسی کا نام ہے، جو کہ انہوں نے ان عصری جامعات کے اندر سیکھی ہے۔ اب اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو قصور ان عصری جامعات اور سائنسدان حضرات کا ہے جو کہ غیر معیاری تحقیق کروارہے ہیں اور اسی کی بنیاد پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تفویض کررہے ہیں۔
انتہائی ادب کے درجے کے اندر رہتے ہوئے ہم علمائے کرام کی خدمت میں کچھ گزارشات رکھنا چاہتے ہیں:
 پہلی چیز تو یہ ہے کہ اگر ہم نے سائنسی علوم پر کام کرنا ہے تو پھر ان کے اصولوں اور معیارات کے مطابق ہی تحقیق کرنی ہوگی۔ اس میں سب سے بنیادی بات تو سائنسی تعلیم کا حصول ہے اور پھر اس میں رسوخ ہے۔ اگر پروفیشنل ڈگریوں کی بات کی جائے تو چاہے آپ حکومتی اسکولوں سے پڑھے ہوں یا کیمبرج نظامِ تعلیم والے اسکولوں سے، آپ پروفیشنل ڈگری کا حصول کریں گے، مثلاً آپ انجینئرنگ کے شعبے میں یو ای ٹی سے انجینئر کی ڈگری حاصل کریں گے اور اگر آپ طب کے شعبے سے منسلک ہونا چاہتے ہیں تو کسی میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کریں گے، پھر اس کے بعد ان شعبوں میں مہارت حاصل کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے، جیسا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگریاں ہیں، اور پھر ان کے بعد پوسٹ ڈاکٹریٹ بھی ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔ اس سارے پروسس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ایک طالب علم جو کہ اگر بہترین انگریزی اسکولوں سے تعلیم حاصل کرے اور پھر اپنی زندگی کے ۱۶ یا ۱۷ سال کھپانے کے بعد وہ انجینئر یا میڈیکل ڈاکٹر بنتا ہے، پھر اگر بہت ہی اعلیٰ نمبروں کے حصول کے بعد وہ ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا حصول کرلے تو پھر کہیں جا کر وہ ایک عام سا محقق اور سائنسدان بنتا ہے، جس کو اپنے شعبے کی محض شُد بد ہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم یہ چاہ رہے ہیں کہ ایک طالب علم جو کہ درسِ نظامی سے فارغ ہو اور تخصص کرنے کے بعد وہ عصری جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلے تو یہ ایک مشکل کام ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ میں اس کام کو مشکل کیوں کہہ رہا ہوں؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ جودینی مدارس سے علماء اور مفتیانِ کرام درسِ نظامی اور تخصص سے فارغ ہورہے ہیں، وہ انجینئر یا ڈاکٹر نہیں ہوتے، ہاں! البتہ چونکہ ایچ ای سی اُن کو ماسٹرز کے مساوی ڈگری دے دیتی ہے تو اس بنیاد پر وہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اندر داخلہ لے لیتے ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حصول بھی کرلیتے ہیں، مگر سائنسی شعبوں میں جیسا کہ طب، ارضیات، فلکیات، طبیعات وغیرہ میں یہ ڈگریاں نہیں ہوتیں۔ تو یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ اگر عصری علوم پر مہارت بھی حاصل کرلیں اور عصری جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل بھی کرلیں تو وہ سائنسدان بن جاتے ہیں۔
دوسری گزارش یہ تھی کہ اگر علمائے کرام اور مفتیانِ کرام عصری جامعات سے تحقیق اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل بھی کرنا چاہتے ہیں تو تحقیق عالمی معیار کی کرنا ہوگی۔ اب یہ کیسے پتہ چلے گا کہ عالمی معیار کی تحقیق کیسے کی جائے؟ تو اس کے لیے ہم دنیا کی بہترین جامعات کے اندر ہونے والی تحقیق کا اپنی تحقیق سے مقابلہ کرکے دیکھ لیں، اس سے ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری تحقیق کی کتنی وقعت ہے!۔ نیز ہم یہ بھی کوشش کریں کہ ہماری تحقیق عالمی معیاری سائنسی جرائد کے اندر چھپے اور اس کے لیے ہم Clarivate کی سائنسی جرائد کی لسٹ کے اندر سے اعلیٰ معیار کے سائنسی جرائد منتخب کرسکتے ہیں۔
تیسری گزارش یہ تھی کہ عالمِ اسلام کے اندر بہت ہی اعلیٰ اور معیاری قسم کی تحقیق کا کام مدارس کےنظم کے تحت سرانجام دیا جارہا ہے اور اس کی مثال وہ مقالہ جات ہیں جو کہ بینات، البلاغ، ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک، وغیرہ اور دیگر جرائد کے اندر چھپ رہے ہیں اور یہ مقالہ جات انتہائی اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں اور بعض مرتبہ تخصص کے طلبہ اپنے تحقیقی مضامین ان جرائد کی زینت بناتے ہیں، مگر بنیادی طوری پر یہ رسائل وجرائد سائنسی نہیں ہیں۔ اب اگر ہمیں سائنسی تحقیق کرنی ہے تو ہمیں اپنی تحقیق کو سائنسی جرائد و رسائل کے اندر چھپوانا ہوگا۔
اسی طرح سے ہمارے اکابرین بار بار یہ ارشاد فرماچکے ہیں کہ مدارس کا مقصد سائنسدان یا انجینئر یا ڈاکٹر پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ ایسے رجالِ کار تیار کرنا ہے جو کہ علومِ اسلامی میں مہارت رکھتے ہوں، تاکہ دین کی خدمت پوری یکسوئی کے ساتھ کرسکیں۔ اب چونکہ کچھ مدارس علمائے کرام کو سائنسی تحقیق اور پی ایچ ڈی کی طرف راغب کررہے ہیں تو ہمیں اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کہ وہ سائنسی تحقیق کریں اور ان کی سائنسی تحقیق اعلیٰ معیار کی ہو۔
دوسری اہم چیز! اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ مدارس سے بھی سائنسدان اور انجینئر اور میڈیکل ڈاکٹر حضرات کو نکلنا چاہیے تو پھر ان مدارس کی ضرورت کیا ہے؟ اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک نئی میڈیکل یونیورسٹی یا انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لاتے ہیں تو وہ تو پہلے سے ہی موجود ہیں اور نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی تعداد ۲۲۹ کے قریب ہے۔ اتنی وافر مقدار موجود ہونے کے باوجود پھر ان نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں کیوں لایا جائے؟ اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ اس واسطے قیام میں لایا جائے، تاکہ ہم دینی ذہن کے انجینئرز ، سائنسدان، اور ڈاکٹر تیار کرسکیں تو سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکے گا؟ اصل میں ان کے اندر داخلہ میرٹ کی بنیاد پر ہوگا تو آپ کیسے یہ قدغن لگائیں گے کہ سارے کے سارے دینی ذہن والے ہی داخلہ لیں گے اور کیسے حکومت اس بات کی اجازت دے گی اور کیسے عالمی ایکریڈیشن باڈیز اُن کی اسناد کو تسلیم کریں گی؟ یعنی یہ عصری علوم کی جامعات مدارس کے نظام کے ماتحت تو نہیں ہیں کہ ان کے اندر صرف اور صرف دینی رجحان کو دیکھتے ہوئے داخلے دیئے جائیں، اس میں تو معاشرے کے تمام طبقات داخلہ لینے کے اہل ہوں گے، اگر وہ میرٹ کی بنیاد پر اُترتے ہوں۔
جب ہم مسلمان سائنسدانوں کی بات کرتے ہیں تو ان میں ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی، فخر الدین رازی، ابو نصر محمد بن محمد فارابی، ابن سینا، محمد بن موسیٰ خوارزمی، امام غزالی، اور ابن خلدون قابلِ ذکر ناموں میں نظر آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر سائنسدان طب، فلکیات، طبیعات، کیمیا، فلسفہ، علم الکائنات (کونیات)، ما بعد الطبیعات، منطق، ریاضی اور جغرافیہ وغیرہ سائنسی علوم کے ماہر تھے۔ تو اگر ہمیں بحیثیت مسلمان سائنس کی دنیا میں اپنا نام پیدا کرنا ہے تو یہ بات ناگریز ہے کہ ہم ان سائنسی علوم پر محنت کریں۔ اگر طب کی دنیا میں مسلمانوں کا نام پیدا کرنا ہے تو پھر طب کے مضامین پر عالمی سطح کی معیاری تحقیق کرنا ہوگی، اگر فلکیات پر مسلمان سائنسدانوں کو سکہ جمانا ہے تو پھر فلکیات پر ہم رسوخ پیدا کریں اور اگر ریاضی کے میدان میں مسلمانوں کا نام پیدا کرنا ہے تو پھر ریاضی کے علوم پر تحقیق کرنا ہوگی۔ اگر بحیثیت قوم ہم یہ چاہتے ہیں کہ پھر ہماری صفوں میں سے البیرونی، رازی، فارابی، ابن سینا، خوارزمی، غزالی اور ابن خلدون جیسے جید سائنسدان پیدا ہوں تو پھر ہمیں سائنس کےمیدان میں ترقی کرنا ہوگی اور جیسا کہ ہم اس مضمون کے شروع میں بیان کرچکے ہیں کہ پاکستان میں عصری جامعات اور ان کے اندر ہونے والی تحقیق عالمی سطح اور معیار کی نہیں ہے، لہٰذا خالی ہمارے عزم کرنے سے ہم اس خلا کو پُر نہیں کرپائیں گے، بلکہ اس کے لیے ہمیں اپنی عصری جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کے معیار کو بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے اور یہ عصری جامعات، ان کے عہدے داران اور پاکستانی سائنسدانوں کا میدان ہے، جس پر وہ ایک حکمتِ عملی تیار کریں اور یہ مدارس کے دائرہ کار کے اندر نہیں آتا۔ 
اگر ہم تیسری چوتھی صدی کے مسلمانوں کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ایک ہی چھت کے نیچے مختلف علوم حاصل کرتے تھے۔ ایک لمحے کے لیے اگر ہم یہ نظام پاکستان میں نافذ کردیں تو ہمارے پاس پاکستان کے اندر تعلیمی ادارے ہوں گے جو کہ دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کی تدریس بھی دیں گے اور پھر جو طالب علم جس شعبے کے اندر مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس شعبے کو اختیار کر لے گا، مثلاً ایک طالب علم انٹرمیڈیٹ تک دینی اور عصری علوم حاصل کرے گا اور پھر وہ اپنے پسندیدہ شعبے کے اندر مہارت حاصل کرنے کے لیے بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا حصول کرے گا، یہاں پر وہ چاہے تو انٹرمیڈیٹ کے بعد طب کے شعبے کو اختیار کرلے اور چاہے تو اسلامی تاریخ کے مضمون کو اختیار کرتے ہوئے اس کے اندر بیچلرز، ماسٹرز، اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا حصول کرے۔ اس سے یہ ہوگا کہ یہ جتنے بھی مدارس موجود ہیں، وہ اس طریقے سے فعال نہیں رہیں گے جس طرح سے آج کے حالات میں موجود ہیں اور عصری علوم کا تو حال ہم اپنی جامعات میں دیکھ چکے ہیں تو پھر ہم اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے۔ تو خلاصہ کلام اس سارے مضمون کا یہ ہوا کہ اگر ہم سائنسی دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو عصری جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کے معیار کو ہمیں بڑھانا ہو گا، نہ کہ مدارس کے نظام کو تبدیل کرکے ان میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھانے شروع کردیئے جائیں، وہ بھی اس نیت سے کہ ایسا کرنے سے ان مدارس سے بھی سائنسدان پیدا ہوسکیں۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین