بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 سائنس دانوں کو پرکھنے کا معیار اور علمائے کرام پر الزامات

 سائنس دانوں کو پرکھنے کا معیار اور علمائے کرام پر الزامات


Evaluating the Performance of Scientists and Blame on Ulama e Kiram


دنیا کے اندر کچھ معیارات قائم ہیں اور ان معیارات کی بنیاد پر لوگوں کو اُن کے متعلقہ شعبوں میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے، مثلاً اگر کسی اسکول کی دوسری کلاس کے طالب علم کی پرفارمنس Performance کو پرکھنا ہے تو اس کا ایک عالمی معیار بھی مقرر ہے اور ملکی معیار بھی مقرر ہے اور ایک باضابطہ امتحانی پراسس کے ذریعے سے اس طالب علم کے تعلیمی معیار کو جانچا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے اگر کسی مدرسے کے طالب علم کےتعلیمی معیار کو پرکھنا ہے تو اس کے لیے ہم وفاق المدارس العربیہ (جوکہ دینی تعلیمی بورڈ ہے) میں اس کے حاصل شدہ نتیجے کو سامنے رکھتے ہو ئےاس طالب علم کی تعلیمی استعداد اور کارکردگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اب چاہے وہ طالب علم کسی بھی درجے (متوسطہ، ثانویہ، خاصہ، عالیہ، عالمیہ) کا ہو، اس کی تعلیمی کارکردگی کواس کے حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر مختلف درجات ( ممتاز، جیدجدا، جید، مقبول، ضعیف ) میں رکھا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے میڈیسن، انجینئرنگ، کامرس، یا کسی اور شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی کارکردگی کو بھی آسانی کے ساتھ پرکھا جاسکتا ہے اور اس کے لیے پہلے سے متعین شدہ ’’کارکردگی کے اہم اشارے‘‘ Key Performance Indicators (KPIs)  موجود ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ تعلیمی بورڈ جتنا معتبر ہوگا، اتنا ہی لوگوں کا اس کے نتیجے پر اعتبار ہوگا۔

ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز کا کردار 

حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ Higher Education Institutes  (HEI) کی کارکردگی کو مؤثر بنانے اور ان کی جانچ پڑتال کے لیے مختلف ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز Accreditation Councils and Professional Bodiesکا نظم بھی باقاعدہ موجود ہے، جو کہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان اداروں کے تعلیمی معیارات کو جانچنے، ان کی عمومی جانچ پڑتال کرنے، اور ان کی استعداد کو بڑھانے سے متعلق تجاویز حکومتِ وقت اور ان اداروں کو بروقت دے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز، ریگولیٹری باڈیز کا بھی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں (دیکھئے: ٹیبل نمبر ۱)۔
ان ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز کی اہمیت اور افادیت سمجھنے کے لیے ہم پاکستان انجینئرنگ کونسل کو ایک مثال کے طور پر لیتے ہیں۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل جو کہ انجینئرنگ، انجینئرنگ کی تعلیم اور انجینئرنگ کے متعلقہ مسائل کو پاکستان کے اندر دیکھتی ہے، اس کے دائرہ کار کے اندر پورے پاکستان سے فارغ ہونے والے انجینئرز کو رجسٹرڈ کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے اندر کوئی بھی انجینئر کام نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ باقاعدہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ نہ ہوجائے۔ نیز پاکستان کے اندر مختلف کمپنیوں اور حکومتی اداروں کو ٹھیکے لینے اور کوئی بھی انجینئرنگ سے متعلق کام کی اجازت نہیں ملے گی جب تک کہ وہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اُترتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان انجینئرنگ کونسل پورے پاکستان کے تمام انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے انجینئرنگ پروگراموں کو نہ صرف یہ کہ ریگولیٹ کرتی ہے، بلکہ انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے انجینئرنگ کے نصاب کی تدوین، اس نصاب کو عصری تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا اور اس نصاب کی جانچ پڑتال بھی اسی کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان انجینئرنگ کونسل، پور ے پاکستان کے انجینئرز کی نمائندہ آواز کے طور پر بھی دیکھی جاتی ہے جو کہ اپنی تجاویز حکومت کو دیتی ہے۔ اور آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ پوری دنیا پاکستان کی انجینئرنگ کی ڈگریوں کو عالمی سطح پر تسلیم Recognize کرے اور پاکستان کی کسی بھی انجینئرنگ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طالب علم کو اعلیٰ تعلیم مثلاً ماسٹرز M.S اور پی ایچ ڈی P.H.D میں بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں بغیر کسی مشکل اور پریشانی کے داخلہ مل سکے۔ اور پاکستان کی انجینئرنگ ڈگری کو آکسفورڈ یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، اور ایم آئی ٹی کی انجینئرنگ ڈگری کے مساوی تسلیم کیا جائے۔ نتیجے کے طور پر ایک طالب علم جو کہ یونیورسٹی آف سڈنی، آسٹریلیا سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرے گا، وہ مساوی تسلیم کی جائے گی NED یونیورسٹی آف انجینئرنگ یونیورسٹی کی انجینئرنگ کی ڈگری کے۔ نیز اگر پاکستان سے فارغ التحصیل کسی انجینئر کو کسی بھی ملک میں کوئی انجینئرنگ کے شعبے میں جاب حاصل کرکے اپنی خدمات انجام دینی ہوں تو اس کو کوئی اضافی کورس یا سرٹیفکیٹ حاصل نہ کرنا پڑے۔
 

ٹیبل نمبر ۱: حکومتِ پاکستان کی مختلف ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز کے نام

پاکستان میڈیکل کونسل - میڈیسن، میڈیسن کی تعلیم اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔ اس کا پرانا نام پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تھا۔
Pakistan Medical Commission (PMC) [1] 
پاکستان بار کونسل - قانون، قانون کی تعلیم اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔
Pakistan Bar Council     (PBC) [2] 
پاکستان انجینئرنگ کونسل - انجینئرنگ، انجینئرنگ کی تعلیم اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔
Pakistan Engineering Council (PEC) [3] 
پاکستان نرسنگ کونسل - نرسنگ، نرسنگ کی تعلیم، اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔
Pakistan Nursing Council (PNC) [4] 
پاکستان فارمیسی کونسل - فارمیسی سے متعلق مسائل اور فارمیسی کی تعلیم سے متعلق چیزوں کو دیکھتی ہے۔
Pharmacy Council for Pakistan (PCP) [5] 
نیشنل کونسل فار طب - طب، طب کی تعلیم اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔
National Council for Tibb (NCT) [6] 

ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کا سائنسدانوں، محققین اور پروفیسروں کو پرکھنے کا معیار
 

جس طرح یہ ساری ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز مختلف پروفیشنز کی نمائندگی کرتی ہیں اور اُن کے پرکھنے کے معیارات قائم کرتی ہیں، بعینہ اسی طرح سائنسدانوں، محققین اور پروفیسروں کو پرکھنے کےبھی اصول و معیارات مقرر ہیں۔ ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کے اندر ہائر ایجوکیشن کمیشن Higher Education Commission (HEC) کی جانب سے تین پیمانے کسی بھی پروفیسر کو جانچنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں(7)۔ ان میں پہلا: اس کے پاس ڈاکٹریٹP.H.D کی ڈگری کا ہونا ہے۔ دوسرا: اس کا تدریس و تحقیق کا تجربہ Teaching and Research Experience اور تیسرا: اس کے سائنسی تحقیقی مقالہ جات Scientific Research Papers کی مطلوبہ تعداد میں اشاعت ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی شرائط کے مطابق BPS Scale پر پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں تقرر کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
٭    لیکچرار Lecturerکے تقرر کے لیےصرف ماسٹرز کی ڈگری مطلوب ہے۔
٭    اسسٹنٹ پروفیسر Assistant Professor کے تقرر کے لیے صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری مطلوب ہے۔
٭    ایسوسی ایٹ پروفیسرAssociate Professor کے تقرر کے لیے پی ایچ ڈی ڈگری کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر دس سال کا تدریس و تحقیق کا تجربہ ہو یا پانچ سال کا پی ایچ ڈی کے بعد کا تجربہ ہو، یعنی  Post P.H.D Experience، اور دس تحقیقی مقالے بھی چھپے ہوئے ہوں۔
٭     پروفیسر Professor کے تقرر کے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر پندرہ سال کا تدریس و تحقیق کا تجربہ ہو یا دس سال کا پی ایچ ڈی کے بعد کا تجربہ ہو، یعنیPost P.H.D Experience، اور پندرہ تحقیقی مقالے بھی چھپے ہوئے ہوں۔
اس بات سے قطع نظر کہ یہ تقرر کے معیارات اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے سائنسدانوں، محققین، اور پروفیسروں کوپرکھنے کے پیمانے عالمی معیارات کے مطابق نہیں ہیں، مگر ابھی ہم اس بحث میں نہیں پڑ رہے، ان شاءاللہ! کسی دوسرے موقع پر اس موضوع پر تفصیلی بات کریں گے۔

پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی PCST  کا سائنسدانوں کو پرکھنے کا معیار

پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی Pakistan Council for Science and Technology (PCST) جو کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجیMinistry of Science and Technology (MOST)  حکومتِ پاکستان کا ایک ذیلی ادارہ ہے، جس کا ایک مقصد پاکستان کے اندر وفاقی حکومت کو سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق تجاویز دینا بھی ہے، وہ پاکستان کے سائنسدانوں کوسائنس کے تمام شعبوں میں پرکھ کر پاکستان کے سب سے زیادہ نتائج دینے والے سائنسدانوں Productive Scientists of Pakistan (PSP) کی فہرست ہر سال مرتب کرتا ہے۔ وہ سائنسدانوں کو ان کی سائنسی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھتا ہے اور ان میں جن عوامل کو وہ مدِ نظر رکھتے ہیں، وہ یہ ہیں: اس سائنسدان کی کتب جو اس نے شائع کیں، اس کو جو ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز ملے ہیں، اس کی تحقیق کا اثر، اس کو جو مختلف پروجیکٹس سے آمدنی ہوئی ہے، نیز اس کے تحقیقی مقالوں کا ایمپیکٹ فیکٹر اور اس کے زیرِ سرپرستی کتنے طلباء نے پی ایچ ڈی ڈگری کا حصول کیا ہے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: ٹیبل نمبر ۲)۔

ٹیبل نمبر: ۲، پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں کو پرکھنے کا معیار

Parameter (عوامل)

Weightage (وزن) 

Cumulative Impact Factor

%20

Citation (Total Citations, h-index, Citations per article) 

%40

Patents Granted

%5

P.H.D Supervised

%5

Books Published/Edited

%5

External Research Grants

%10

Applied Research Output/Innovation

%10

Awards

%5

 


عالمی سطح پر سائنسدانوں کو پرکھنے کا معیار

عالمی سطح پر سائنسدانوں کو مختلف پیمانوں پر اُن کی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے اور یہ کارکردگی کے جانچنے کا معیار سائنس کے ہر شعبے کے حساب سے الگ الگ ہوتے ہیں، مثلاً کمپیوٹر سائنس کے شعبے کے سائنسدانوں کو فلکیات، طبیعات، کیمیا، یا طب کے سائنسدانوں کے معیارات کے مطابق نہیں جانچا جائے گا۔ اب ہم ان میں سے کچھ پرکھنے کے معیارات سے متعلق بات کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک معیار اس سائنسدان کا اپنے شعبے کے اندربین الااقوامی ایوارڈز کا جیتنا بھی ہے۔ پھر یہ ایوارڈز بھی سائنس کے ہر شعبے کے مطابق الگ الگ ہوتے ہیں، مثلاً ایک ایوارڈ ہے جس کو ٹیورنگ ایوارڈ ACM Turing Award کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ صرف کمپیوٹر سائنس کے شعبے کے اندر کام کرنے والے سائنسدانوں کو ہی دیا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے کمیونیکیشن کے شعبے کے اندر کام کرنے والوں کو مارکونی پرائز Marconi Prize  (8) سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے ریاضی کے شعبے کے اندر گراں قدر خدمات انجام دینے پر ایبل پرائز The Abel Prize  (9) سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے طبیعات، کیمیا، طب، لٹریچر، امن اور اکنومکس کے شعبہ جات کے اندر نوبل پرائز Nobel Prize  (10) بھی دئیے جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں Highly Cited Researchers کی فہرست بھی شائع کی جاتی ہے جو کہ سائنس کے ہر شعبے کے اندر دنیا کے بہترین سائنسدانوں اور محققین کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی طریقے سے سائنسدانوں کی تحقیق کے معیار کو جانچنے کے لیے ببلیومیٹرکسBibliometrics کے عوامل کو استعمال کرتے ہوئے ہم کسی بھی سائنسدان کی کارکردگی کو جانچ اور پرکھ سکتے ہیں۔

علمائے کرام، مفتیانِ کرام اور دینی طبقے پر الزامات کی بوچھاڑ

ہم نے تفصیل کے ساتھ سائنسدانوں کو ملکی اور بین الااقوامی سطح پر جانچنے اور پرکھنے کےکچھ پیمانے بیان کردئیے ہیں۔ اب اگر غور کیا جائے تو چاہے یہ پیمانے ملکی سطح کے ہوں یا بین الااقوامی سطح کے، ان میں مذہب، رنگ، نسل، قومیت، فرقہ وغیرہ کو شامل نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ سائنسدانوں کو اُن کی سائنسی کارکردگی کی بنیاد پرہی پرکھا جارہا ہے۔ سوال یہ ہےکہ پھر
٭    کیوں پاکستان کے انگریزی اخبارات کے اندر ایسے مضامین چھپتےرہتے ہیں جن کے اندر علمائے کرام اور مفتیانِ کرام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ سائنسدانوں کو غیر سائنسی معیارات پر جانچ اور پرکھ رہے ہیں؟
٭    کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ جب تک علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی اس سوچ کو جڑ سے ختم نہیں کردیا جاتا کہ سائنسدانوں کو مذہب اور ان کے فرقے کے مطابق نہ جانچا جائے، تب تک پاکستان ترقی نہیں کرسکتا؟
٭     کیوں ٹی وی چینلز پر اور یو ٹیوب پر بعض حضرات آکر علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اُن حضرات پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان کے اندر سائنس کی ترقی میں رکاوٹ یہ مُلا اور مولوی حضرات ہیں؟
٭     کیوں بعض حضرات یہ کہتے تھکتے نہیں کہ پاکستان میں چونکہ مُلا کا راج ہے تو اس وجہ سے پاکستان سائنسی طور پر ترقی نہیں کرسکا؟ 
٭     کیوں بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ سائنس اور مذہب الگ الگ ہیں اور ان مولویوں کو نہ صرف یہ کہ طاقت کے ایوانوں سے باہر رکھا جائے، بلکہ ان کو سیاست کا حق بھی نہ دیا جائے ؟ 
٭     کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مدرسے ہی اصل بیماری کی جڑ ہیں اور اگر ان مدرسوں کے نصاب کو تبدیل کیا جائے تو پھر پاکستان سائنسی میدان میں ترقی کرسکے گا؟
٭     کیوں یہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ مذہب اور سائنس الگ الگ ہیں اور اس پر اپنی طرف سے موشگافیاں کی جاتی ہیں اور خود ساختہ اور غیر مستند لوگوں کو ٹی وی پروگراموں میں بلا کر دینی طبقے کے موقف کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟
٭     کیوں یہ کہا جاتا ہےکہ دیکھو بڑی مشکل سے پاکستان نے طبیعات کے اندر ایک نوبل پرائز جیتا تھا اور اس ایک نوبل پرائز کے پیچھے بھی یہ علماء ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں اور اس سے براءت کا اظہار کرتے ہیں؟
 غرض اس طرح کے بیسیوں سوالات باقاعدہ ایک منظم طریقے سےمین اسٹریم میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے ہماری نوجوان نسل کےاذہان کے اندر منتقل کیے جاتے ہیں، تاکہ اُن کو مذہب سے، علمائے کرام سے، مفتیانِ کرام سے اور مدارس سے دور کیا جائے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ سوالات میرے خود ساختہ نہیں بلکہ راقم ان سوالات کو انگریزی اخبارات میں گاہے بگاہے پڑھتا رہتا ہے اور مختلف مواقع پر ان کو سنا بھی ہے۔ خیر! ابھی ہمارا موضوع ان تمام سوالات کے جوابات کا احاطہ کرنا نہیں اور ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔

چور مچائے شور کا عملی مظاہرہ

وطنِ عزیز پاکستان میں دینی طبقے اور خاص طور پر علمائے کرام پر یہ الزام تراشی کی جاتی ہے کہ وہ سائنسدانوں کو ان کی سائنسی کارکردگی کے بجائے ان کے مذہب، رنگ، نسل، اور دیگر عوامل کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔ اگر ہم اس الزام کی تفصیل میں جائیں تو ہمیں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ علمائے کرام پر یہ صرف الزام تراشی ہے اور اس الزام کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کو ان کی سائنسی کارکردگی کے بجائے ان کے مذہب، رنگ، نسل، اور دیگر عوامل کی بنیاد پر پرکھنے کا بنیادی سہرہ تو آپ (یعنی مغرب) ہی کے سر پر ہے، مثلاً اگر کسی یہودی النسل سائنسدان کو کوئی ایوارڈ ملتا ہے تو مغرب خود اس کی بہت زیادہ تشہیر کرتا ہے۔ اگر کسی کالے رنگ کے سائنسدان کو کوئی ایوارڈ ملتا ہے تو مغرب ہی اس کی تشہیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی اقلیتی فرقے کے سائنسدان کو کوئی ایوارڈ ملتا ہے تو اس کی غیر معمولی تشہیر کے پیچھے بھی مغرب ہی ہوتا ہے۔ اور یہ سب مغرب  Equity, Diversity, and Inclusion کے نام پر کرتا ہے۔ مغرب اس کے ذریعے یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ ان کے یہاں تعصب نہیں ہے اور وہ رنگ، نسل، مذہب، قومیت، اور دیگر عوامل سے بالاتر ہوکرصرف سائنسی بنیادوں پر ہی ایک سائنسدان کی کارکردگی کو پرکھتے ہیں، یعنی جب وہ یہودی النسل، کالے رنگ، یا اقلیتی فرقے کے سائنسدانوں کی بہت زیادہ تشہیر کرتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مغرب‘ رنگ، نسل، مذہب، فرقے کو نہیں دیکھتا، بلکہ مغرب نے سائنسدان کو صرف اس کی سائنسی کارکردگی کی بنیاد پر ہی جانچا ہے۔ 

علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا سائنسی باڈیزاور سائنسی اداروں پر اثر انداز ہونا

پھر ذرا خود ہی انصاف سے کام لیجئے اور دیکھئے کہ کیا ملکی سطح پر یعنی پاکستان کی سطح پر جب سائنسدانوں کی کارکردگی کو پرکھا جارہا ہے تو اس میں کون سے ادارے ملوث ہیں؟ مختلف ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز، ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، عصری تعلیم کے ادارے اور حکومتِ وقت۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ان اداروں میں کہاں علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا دخل ہے؟ کہاں مفتیانِ کرام مملکتِ پاکستان کے اندر سائنسدانوں کے پرکھنے کے معیارات پر اثر انداز ہو رہے ہیں؟ اگر پاکستان کے اندر سائنسدانوں کو پرکھنے کے معیارات کے اندر کوئی جھول ہے اور پاکستان کے اندر ان میں سے کوئی بھی ادارہ سائنسی کارکردگی کے بجائے رنگ، نسل، مذہب، قومیت، اور دیگر عوامل کو سائنسدانوں کی کارکردگی کا معیار بنا رہا ہے (جب کہ حقیقت میں ایسا بھی نہیں ہے)، تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ان اداروں کی کوتاہی کا الزام بھی علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کے سر تھوپ دیا جائے؟ اور پھر جب ہم عالمی سطح پر سائنسدانوں کے پرکھنے کے معیارات پر بات کرتے ہیں تو کیا نوبل پرائز سلیکشن کمیٹی میں علمائے کرام اور مفتیانِ کرام اثر انداز ہوتے ہیں؟ کیا کسی اورعالمی ایوارڈ کی سلیکشن کمیٹی میں علمائے کرام اثر انداز ہوتے ہیں؟ یقیناً بالکل ایسا نہیں ہے۔ اس کے برخلاف‘ علمائے کرام تو امانت داری اور دیانت داری کا سبق دیتے ہیں کہ ہر کام کے اندر میرٹ اور اہلیت کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ایوارڈ اور تقرر کیا جائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کے یہ دائرہ کار Mandate کے اندرہی نہیں آتا کہ وہ سائنسی پالیسی مرتب کریں تو پھر ان پر الزام کیسا؟ غرض الزام لگانے والوں کی نیت ہی میں کھوٹ ہے اور وہ سائنس کی آڑ میں عوام کو علمائے کرام سے متنفرکرنا چاہتے ہیں۔

پاکستانی سائنسدانوں اور محققین کی سائنسی کارکردگی

یہاں پر تو گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے کہ بھلا علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا کسی ایک آدھ واقعے پر سائنسدانوں ہی کی اصلاح کی خاطر ان کو متنبہ کرنا کہ آپ بعض سائنسدان اور لبرل حضرات سائنسدانوں کی کارکردگی کے معیارات کو گڈ مڈ نہ کریں تو بجائے اس کے کہ اپنی اصلاح کی جاتی، اپنے سائنس میں نکمے پن، کاہلی، کام چوری، اور کرپشن کو کم کیا جاتا، اور علمائے کرام کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے فرائضِ منصبی کو تندہی کے ساتھ انجام دیا جاتا، اُلٹا سائنسی دنیا میں پاکستان کی ناکامی، بے وقعتی اور زوال کا الزام بھی ان حضرات علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کے سر بڑی چالاکی کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ اب آپ ہی ذرا انصاف سے کام لیں کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ان سائنسدانوں نے کتنے نوبل پرائز Nobel Prize حاصل کیے ہیں؟ کیا پاکستانی سائنسدانوں نے کبھی ٹیورنگ ایوارڈ ACM Turing Award حاصل کیا ہے؟ کتنے پاکستان کے اندر آئی ای ای ای فیلوزIEEE Fellows موجود ہیں؟ کتنے دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانHighly Cited Researchers پاکستان کے اندر موجود ہیں؟ کتنے ایبل پرائز The Abel Prize پاکستانی محققین نے حاصل کیے؟پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کے ۱۰۰ بہترین یونیورسٹیوں میں تو درکنار، دنیا کی ۵۰۰ یونیورسٹیوں میں بھی ان کا نام بڑی مشکل سے آتا ہے اور بمشکل آ بھی جائے تو اگلے سال نکل بھی جاتا ہے۔ غرض ایک طویل فہرست ہے جس سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ہماری ملکی کارکردگی مجموعی طور پر سائنس کے میدان میں کیسی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم سائنسدان اپنے سائنسی شعبوں میں مہارت حاصل کریں، خوب محنت کریں۔ کرپشن، اقربا پروری، سُستی سے بچیں اور امانت اور دیانت سے کام لیتے ہوئے ملک و ملت کا نام سائنسی دنیا میں روشن کریں، مگر صورتحال ہم سب کے سامنے ہے۔

علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی تنخواہوں کا سائنسدانوں کی تنخواہوں اور مراعات سے موازنہ

ایک اور حیران کن موازنہ ان پروفیسروں اور سائنسدانوں کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں ہے۔ ہمارے سروں کے تاج علمائے کرام اور مفتیانِ کرام ہم سے کچھ نہیں مانگتے، بلکہ اُلٹا ہمارے ایمان اور ہماری نسلوں کے ایمان کی فکر کرتے ہیں اور اس کے بدلے کچھ بھی نہیں لیتے، بلکہ پوری زندگی تنگدستی ہی میں گزار دیتے ہیں۔ پاکستان کے کسی بڑے شہر کی بڑی جامع مسجد اور مدرسے کے اندر کسی عالم اور مفتی کی ماہانہ تنخواہ ۳۰ یا ۴۰ ہزار سے بھی زیادہ نہیں جاتی، جبکہ اس کے برعکس اگر ہم عصری تعلیمی اداروں کے سائنسدانوں اور پروفیسرز کی تنخواہیں دیکھیں تو الامان والحفیظ، کوئی موازنہ ہی نہیں مدرسے کی تنخواہوں سے۔ اس وقت ایچ ای سی کے ایک حالیہ نوٹیفیکیشن ۲۰۲۱ ء کے مطابق ٹی ٹی ایس Tenure Track System (TTS) Scale  کے اسکیل کے مطابق:
٭     ایک اسسٹنٹ پروفیسر Assistant Professor کی ماہانہ تنخواہ تقریباً ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے سے شروع ہو کر تین لاکھ چھپن ہزار( 175,500 - 356,475  – Salary: Rs) تک جاتی ہے۔
٭     ایک ایسوسی ایٹ پروفیسرAssociate Professor کی تنخواہ تقریباً دولاکھ تریسٹھ ہزار ماہانہ سے شروع ہو کر چار لاکھ ترانوے ہزار ( 263,250 - 493,590  – Salary: Rs ) تک جاتی ہے۔
٭    اسی طرح ایک فل پروفیسرProfessor کی تنخواہ تقریباً تین لاکھ چورانوے ہزار ماہانہ سے شروع ہو کر چھ لاکھ چوراسی ہزار ( 394,875 - 684,450 – Salary: Rs) تک جاتی ہے۔
پھر اگر بی پی ایس اسکیل BPS Scale اور ایس پی ایس اسکیل SPS Scale کی بات کریں تو وہاں پر تنخواہوں کا پیکیچ الگ ہے۔اس کے علاوہ جو دیگر مراعات ان سائنسدانوں کو ملتی ہیں وہ الگ ہیں، جن کے اندر علاج معالجے کی سہولیات، عمدہ آفس، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے طلباء کی رہنمائی کرنے پر علیحدہ الاؤنس اور بہت کچھ۔اس کے علاوہ جو پورے پاکستان کےاندر ان سائنسدانوں کو انفرااسٹرکچر اور دیگر ریسورسس حاصل ہیں وہ الگ۔ تو پھر ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ کی کارکردگی عالمی اور ملکی سطح پر نظر بھی آئے، مگر اس کے برخلاف آپ میں سے کچھ لبرل اور مذہب بیزار لوگوں کی بندوقوں کا رخ علمائے کرام اور دینی طبقے کی طرف ہی اُٹھتا ہے، الا ماشاء اللہ۔

قادیانیوں کا نوبل پرائز کو اپنے مذہب کی حقانیت کے طور پر استعمال کرنا

جب مسلمانوں کو اور خاص طور پر دینی طبقے کو خاص طور پر اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ کیوں مذہب کی بنیاد پر کسی سائنسدان کو جانچ رہے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مذہبی طبقہ اور علمائے کرام محض ردِ عمل کے طور پر ایسا کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر علمائے کرام کسی انفرادی سائنسدان کو کچھ کہہ رہے ہیں تو یہ محض ایک ردِ عمل کے طور پر ہے نہ کہ علمائے کرام عمومی طور پر تمام سائنسدانوں سے متعلق یہی رائے رکھتے ہیں، مثلاًجب ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز ملتا ہے اور قادیانی طبقہ ایک منظم تحریک کے ذریعے campaign  چلاتا ہے اور اپنے قادیانی مذہب کو حق ثابت کرنے کے لیے نوبل پرائز کو دلیل کے طور پر استعمال کرتا ہے تو اس کا لازمی امر یہ ہے کہ دینی طبقہ اور علمائے کرام اس کا رد کریں گےاور یہ کہیں گے کہ یہ نوبل انعام حاصل کرنا کوئی مافوق الفطرت کام نہیں ہے کہ آج تک کسی کو نہ ملا ہو۔اگر قادیانیوں کی اس بودی دلیل کو ہی دیکھا جائے تو پھر کیا عیسائی مذہب ہی اصل مذہب ہے؟ کیونکہ سب سے زیادہ نوبل پرائز جیتنے والے شاید عیسائی مذہب ہی کے پیروکار ہوں گے؟ اصل میں جب علمائے کرام ڈاکٹر عبد السلام کے نوبل پرائز کو رد کرتے ہیں تو اس کا مقصد قادیانیوں کی اس دلیل کو رد کرنا ہوتا ہے کہ آپ لوگ یعنی قادیانی اور مذہب سے متنفر ایک خاص طبقہ مذہب کو سائنس کے جانچنے کا معیار نہ بنائے اور اس رد کا مقصد نوبل پرائز کو رد کرنا نہیں ہوتا۔ بقول شاعر:

خِرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خِرد
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے

یعنی پہلے قادیانی طبقہ، لبرل طبقہ اور مذہب سے متنفر طبقہ سائنس کے علاوہ کے معیارات پر سائنس دانوں کو خود ہی پرکھے اور خوب اس کی تشہیر کرے اور پھر جب علمائے کرام اور دینی طبقہ اس کا رد کرے تو پھر انہی علمائے کرام کو اس کا موردِ الزام ٹھہرایا جائے کہ یہ تو سائنس دانوں کو غیر سائنسی معیارات مثلاً مذہب، رنگ، نسل، قومیت، فرقہ وغیرہ کی بنیاد پر پرکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ سراسر ناانصافی اور اس لبرل اور مذہب بیزار طبقے کا دوہرا معیار ہے۔ اسی بات کو ہمارے حضرت، شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی v نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی ایک کتاب ’’غدارِ پاکستان‘‘ کے اندر بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح قادیانی دجل و فریب دے کر ڈاکٹر عبد السلام کے نوبل پرائز کو اپنے قادیانی مذہب کی حقانیت کی دلیل کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں۔ جوحضرات اس پر مزید تفصیل دیکھنا چاہتے ہیں، وہ حضرت شہید رحمۃ اللہ علیہ کی اس کتاب کا مطالعہ کرلیں۔ 

علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا سائنسی تحقیق اور سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کرنا

جہاں تک پاکستان میں دینی طبقے، علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا تعلق ہے کہ وہ غیر مسلم سائنسدانوں کے کام کو سراہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان کی سا ئنسی تحقیق و ایجادات کو نہ صرف سراہتے ہیں، بلکہ اس بات کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کے اندر بھی نوجوان سائنسدان سائنس کے اندر دن دوگنی رات چوگنی ترقی کریں اور کبھی بھی دینی طبقے، علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی طرف سے سائنس دانوں کو غیر سائنسی معیار پر نہیں پرکھا جاتا۔ ہاں! اگر کبھی سائنسدانوں کی طرف سے مذہب اور دین پر تنقید ہوتی ہے یا سائنسدان اپنے سائنسی دائرہ کار سے نکل کر مذہب کے اصولوں پر اپنی غیر منطقی رائے زنی کرتے ہیں تو یہ دینی طبقے، علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا حق ہے کہ وہ اس کی تردید و تنقید کریں۔ اصل میں مسائل جب شروع ہوتے ہیں جب لوگ اپنے دائرہ کار سے نکل کر دوسروں کے دائرہ کار میں مداخلت کرتے ہیں۔ جب جب مذہب بیزار سائنسدانوں، لبرل طبقے اور پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے مذہب، رنگ، نسل، فرقے کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا جائے گا، تب تب ان شاءاللہ یہ بوریہ نشیں اللہ والے علمائے کرام دین کی حفاظت کے لیے اپنی پوری کوشش کرتے رہیں گے اور علمائے کرام کی طرف سے ردِ عمل بھی آئے گا۔
علمائے کرام اور مفتیانِ کرام اصولوں کی بات کرتے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی سائنس، سائنسی ترقی، اور سائنسی تعلیم کی نفی نہیں کی ہے، بلکہ وہ تو ہر چیز کو اس کے جائز مقام پر رکھ کر حق بات کرتے ہیں۔ علمائے کرام اور مفتیانِ کرام تو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ ہر شخص اپنے شعبے میں خوب مہارت حاصل کرے اور دنیا میں مسلمانوں کا اور خاص طور پر وطنِ عزیز پاکستان کا نام روشن کرے۔الحمدللہ! پاکستانی بحیثیتِ قوم نہ صرف یہ کہ غیر مسلم سائنسدانوں کے کام کو سراہتے ہیں، بلکہ پاکستانی عوام یہ کوشش بھی کرتی ہے کہ اپنے نوجوان طبقے کو مغرب کی اعلیٰ تعلیم گاہوں میں بھیج کر اپنے اسلام کی اس تعلیمی میراث کو دوبارہ ان سےحاصل کیا جائے۔ راقم بذاتِ خود اس کا چشم دید گواہ ہے کہ جب بھی حضرات مفتیانِ کرام اور علمائے کرام سے مشورہ لیا تو انہوں نے ہمیشہ حوصلہ افزائی ہی کی اور سائنسی علوم میں مہارت اور اپنے کام کو امانت داری اور احسن طریقے سے انجام دینے کی ترغیب دی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح سوچ اور فکر کے ساتھ علمائے کرام کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ملک و قوم اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین!

حواشی و حوالہ جات

[1]   Pakistan Medical Commission (PMC)-https://www.pmdc.org.pk/ 
[2]  Pakistan Bar Council (PBC)-http://pakistanbarcouncil.org.pk/ 
[3]   Pakistan Engineering Council (PEC)- https://www.pec.org.pk/
[4]  Pakistan Nursing Council (PNC)-http://www.pnc.org.pk/ 
[5]   Pakistan Pharmacy Council (PCP)- https://www.pcpisb.gov.pk/ 
[6]  National Council for Tibb (NCT)-http://www.nct.gov.pk/ 
[7] HEC Faculty Appointment Criteria for Engineering, Information Technology, and Computing Disciplines, Accessed: 25 Feb 2022, https://www.hec.gov. pk/english/ services/ universities /QA /Documents /Engineering ,%20IT, %20and%20 Computing %20 discplines.pdf 
[8]   Marconi Prize - https://www.marconisociety.org/marconi-prize/ 
[9]  The Abel Prize - https://abelprize.no/ 
[10]  Nobel Prize - https://www.nobelprize.org/ 


 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین