بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

بینات

 
 

زمزم ۔۔۔۔ فضیلت، اہمیت اور فوائد

زمزم 

فضیلت، اہمیت اور فوائد


دنیا کے اندر پانی کی اور بھی بہت ساری اقسام ہیں، مگر باری تعالیٰ نے ان تمام پر ’’زمزم ‘‘کو ایسی فوقیت دی ہے اور ایسی برتری بخشی ہے جو کسی اور پانی کو نہیں بخشی۔ عام پانی کے پینے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا ہے اور نہ کسی پانی کو برکت کی اُمید سے پیا جاتا ہے، مگر زمزم پینے کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے اور برکتوں کی اُمید سے پیا جاتا ہے۔ اسی طرح عام پانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بارِ گراں سمجھتے ہیں، جبکہ زمزم کو عشق و وارفتگی کے ساتھ شہروں شہروں حجاج کرام اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور یہ درحقیقت سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی یہ منتقل کرتے تھے۔(۱) گویا حجاج اسے اپنے لیے بہترین تحفہ سمجھتے ہیں، اسی لیے اقبال مرحوم نے کہا تھا:

زائرینِ کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی 
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں؟

زم زم کی تعریف وپس منظر

زمزم یہ اسمِ علم ہے اور یہ اس کنویں کے لیے بولا جاتا ہے جو مکہ مکرمہ میں مسجدِ حرام کے وسطی حصے میں واقع ہے۔(۲)
لغوی اعتبارسے زم زم کے معنی ہیں: ’’رُک جا، رُک جا‘‘ اسی طرح بڑی مقدار کے پانی کو بھی زمزم کہا جاتا ہے۔(۳) جبکہ حضرت قتیبہؒ کہتے ہیں کہ پانی کی آواز کو بھی زم زم کہتے ہیں۔(۴)
’’معجم البلدان‘‘ اور ’’لسان العرب‘‘ وغیرہ میں اس کے اکیس نام اور بھی مذکور ہیں، جن میں چند درج ذیل ہیں: (۱) ہزمۃ الملک (۲) ھي سقیا اللہ لإسماعیل (۳) ہزمۃ جبرئیل (۴) الشباعۃ شراب الأبرار اور طیبۃوغیرہ،(۵) جبکہ البحر العمیقمیں ان اکیس ناموں کے علاوہ تیئیس اور بھی مذکور ہیں، جن میں سے چند یہ ہے: (۱) طاہرۃ، (۲) زمازم، (۳) عاصمۃ، (۴) سالمۃ، (۵) صافیۃ، (۶) ظاہرۃ، (۷) عافیۃ اور مبارکۃ وغیرہ۔

پس منظر

حضرت ابراہیم  علیہ السلام  کی بمع اہل وعیال مکہ مکرمہ میں ہجرت کرنے سے قبل یہ جگہ (جہاں آبِ زم زم کا کنواں ہے) ایسی وادی تھی کہ چاروں طرف پہاڑوں کے سوا کچھ نہ تھا، مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اس سرزمین میں اپنے حرم اور مرکزِعبادت و رشد و ہدایت کے دوبارہ قیام کا ارادہ فرمایا تو حضرت خلیل  علیہ السلام  کو حکم دیا کہ اپنے لختِ جگر اور اپنی زوجہ محترمہ کو لے کر اس وادیِ غیر ذی زرع کی طرف ہجرت کر جائیں، حکم کے امتثال میں حضرت ابراہیم  علیہ السلام  نے دو افراد پر مشتمل اپنے خاندان کو لا بسایا اور ساتھ لایا ہوا توشہ اور اور حضرت باجرہ واسماعیلn کو چھوڑ کر واپس تشریف لے گئے۔ جب زادِ سفر ختم ہوا تو ننھے اسماعیلؑ پیاس کی شدت سے تڑپنے لگے، ماں کی مامتا سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور پانی کی تلاش میں سرگرداں ہو گئیں، صفا کی بلندیوں پر چڑھیں، پانی نہ ملا، پھر اُتریں اور دوسری جانب کچھ اس انداز اور روش سےچلیں کہ مُنّا نظروں سے اوجھل نہ ہو، مروہ کی طرف چلتے ہوئے نشیب میں اسماعیل علیہ السلام  آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو ہاجرہ p نے اس فاصلہ کو د وڑ کر طے کیا، کل کی وہ ہاجرہ کی دوڑ ہی آج کی سعی ہے۔ مروہ پر چڑھ کر بھی کہیں پانی نہ ملا، بے قراری کی اس حالت میں صفا مروہ پر سات مرتبہ چڑھنااُترنا ہوا، ساتویں چڑھائی تھی کہ کچھ آواز سنائی دی، آہٹ پر جب نظر گئی، دیکھا کہ حضرت اسماعیل  علیہ السلام  کے پا س ایک فرشتہ موجود ہے، دوڑ کر آئیں تو جبرائیل امین  علیہ السلام  نے تسلی کے کلمات ارشاد فرمائے اور پھر اپنا ’’پَر‘‘ زمین پر مارا تو ایک چشمہ نمودار ہوا، ایک طرف جگر گوشے کی پیاس کی وجہ سے تڑپنے نے ممتا کا کلیجہ پھاڑ رکھا تھا اور دوسری طرف پانی ملنے کی خوشی نے حضرت ہاجرہ p کو فرحت کے وہ فردوس دکھائے کہ بے جان پانی کو مخاطب کیا، گویا اماں بزبان حال کہہ رہی تھیں کہ ماں کی ممتا دیکھ کر تو اُبل بڑا، اتنا ترس کھایا، ۔۔۔۔۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے زم زم کہتے ہوئے باڑھ بنائی، پانی جمع کرکے مشکیزہ بھرا اور جی بھر کر اپنے لعل کو بھی پلایا اور خود بھی سیراب ہوئیں۔(۶)

فضائل و فوائد

زمزم کا پانی ہمیشہ سے محترم ومقدس سمجھا جاتا رہا ہے، اس سے برکت حاصل کرنے کے لیے زائرین نہ صرف اسے پیتے ہیں، بلکہ بطور تبرّک اپنے ساتھ لے کر بھی جاتے ہیں اور تقسیم کرتے ہیں۔ ترمذی شریف میں حضرت عروۃ بن زبیر  رضی اللہ عنہ  سے اماں عائشہ  رضی اللہ عنہا  کے متعلق مروی ہے کہ: ’’أنّہا کانت تحمل من ماء زمزم وتخبر أنّ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلّم کان يحملہ۔‘‘(۷) یعنی جب اماں عائشہ  رضی اللہ عنہا  مدینہ منورہ لوٹتی تھیں تو زمزم ساتھ لے جاتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بھی زمزم ساتھ لے جاتے تھے۔
کعبہ شریفہ چونکہ اہلِ اسلام کا قبلہ ہے، اس لیے حج اور زیارت کے موقع پریہ ان لوگوں کی ضیافت کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ اپنی روحانی برکتوں کے علاوہ آبِ زم زم دنیا کا بہترین پانی ہے جو بھوک اور پیاس میں یکساں مفید ہے، اور اس وادی غیر ذی زرع میں آبسنے والے ان دو پاکیزہ نفوس کی جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے مہمان تھے اور زمزم کی نعمت غیر متوقع اور غیر مترقبہ مل گئی تھی، ان کی واحد کفیل تھی، یعنی پیاس میں زمزم سے سیرابی بھی اور بھوک میں زمزم ہی سے سیر شکمی ہوتی تھی ۔ 
مسلم شریف میں ابوذر  رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: زمزم کا پانی کھانے کے قائم مقام ہے اور بیماری کی دوا ہے۔ (۸)
 اور حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے احمد بن حنبلؒ بیان کرتے ہیں کہ: زمزم کا پانی جس غرض سے پیا جائے مفید ہے۔(۹) اور امام ابن ماجہؒ نے بھی یہ حدیث عبد اللہ بن مؤملؓ کے حوالے سے ذکر کی ہے: ’’ماء زمزم لما شرب لہ۔‘‘(۱۰)
 حاکم نےابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کسی آدمی کو کہا کہ جب تو زمزم کا پانی پیے تو کعبہ کی طرف رخ کرکے اللہ کا نام لے کر تین سانسوں میں خوب پیٹ بھر کر پی، بعد ازاں الحمد للہ کہہ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہمارے اور منافقوں کے درمیان امتیازی شان یہ ہے کہ وہ پیٹ بھر کر آبِ زم زم نہیں پیتے۔(۱۱)
 سعید بن مسیبؒ کہتے ہیں کہ جب جناب عبد المطلب نے زمزم کا کنواں کھودا تو اعلان کیا: ’’لا أحلہا لمغتسل، وہي لشارب حلّ وبلّ‘‘ یعنی ’’یا اللہ! میں آبِ زم زم غسل کرنے والوں کے لیے حلال نہیں سمجھتا اور پینےوالوں کے لیے مبا ح ہے۔‘‘(۱۲)

بیماری کے لیے زمزم کا استعمال

حجاج کرام اور معتمرین اسے اپنے ساتھ لاتے، محفوظ کرتے اور بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، چنانچہ یہ عمل بھی پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہے: 
’’حملہٗ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلّم في الأوادي والقری وکان يصبّ علی المرضٰی ويستقيم۔‘‘ (۱۳)
 ’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اسے اپنے ساتھ مٹکوں میں لاتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسے مریضوں پر ڈالتے اور انہی کو پلاتے تھے۔‘‘
اور ابن عباس  رضی اللہ عنہما  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشادنقل کرتے ہیں: 
’’خير ماء علی وجہ الأرض ماء زمزم فيہ طعام الطعم وشفاء السقم۔‘‘(۱۴)
’’روئے زمین پر سب سے بہتر پانی زمزم ہے، اس میں غذائیت اور بیماری کی شفا ہے۔‘‘
ان روایتوں اور ان جیسی اور روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ باقی دوائیوں سےجیسے علاج کرنا مباح اور جائز ہے، زمزم کے ذریعے بھی علاج کرنا صرف مباح نہیں، بلکہ مسنون بھی ہے۔ 

دنیوی مسائل کے لیے زمزم پینا

زمزم کی افادیت کو اجا گر کرتے ہوئے اپنے ایک اور ارشاد میں فرماتے ہیں :
 ’’مَاءُ زَمْزَمَ لِـمَا شُرِبَ لَہٗ  إِنْ شَرِبْتَہٗ تَسْتَشْفِيْ بِہٖ شَفَاکَ اللہُ ، وَإِنْ شَرِبْتَہٗ لِشِبَعِکَ اَشْبَعَکَ اللہُ بِہٖ ، وَإِنْ شَرِبْتَہٗ لِيَقْطَعَ ظَمَأکَ قَطَعَہُ اللہُ ، وَہِيَ ہَزَمَۃُ جِبْرِيْلَ وَسُقْيَا اللہِ إِسْمَاعِيْلَ۔‘‘ (۱۵)
یعنی ’’زمزم ان تمام مقاصد کے لیے ہے جن کے لیے اسے پیا جاتا ہے، اگر تم اسے شفایابی کے لیے پیوگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں شفا نصیب کریں گے، اگر اسے شکم سیری کے لیے پیوگے تو اللہ تعالیٰ شکم سیر کردیں گے، اگر اسے پیاس بجھانے کے لیے پیوگے، اللہ تعالیٰ دور کردیں گے۔ یہ کنواں حضرت جبریل  علیہ السلام  کا کھودا ہوا ہے، اور یہ حضرت اسماعیل  علیہ السلام  کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیرابی کا انتظام ہے۔ ‘‘
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے وضاحت فرمائی ہے کہ دنیاوی یا اخروی مسائل کو حل کرنے کے لیے آبِ زم زم پینا مسنون ہے۔ 
شفاء الغرام میں امام تقی الدین فاسیؒ نے لکھا ہے کہ احمد بن عبداللہ شریفی نابینا ہوگئے تھے، انہوں نے ماء زمزم بینائی واپس آجانے کی نیت سے پیا، پس بفضل اللہ آپ کی بینائی لوٹ آئی۔(۱۶)
علامہ ذہبیؒ نے عبد اللہ بن مسلم یا ان کے بیٹے احمد بن عبداللہ ؒ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کے ساتھ حج کے لیے میں گیا، اس جماعت میں ایک فالج زدہ آدمی تھا، میں نے ایک دن دیکھا کہ وہ صحیح سالم ہے اور طواف کررہا ہے اور اس پر فالج کے بالکل آثار نہیں ہیں، پوچھنے پر اس نے بتایا: میں بئر زمزم پر آیا اور زمزم لے کر اپنی دواۃ میں ڈالا اور اس دواۃ کی روشنائی سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنے کے بعد سورۂ حشر کی آخری تین آیات لکھیں، اور پھر سورۂ اسراء کی آیت ’’وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِيْ أَوْحَيْنَا إِلَيْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَيْنَا وَکِيْلًا‘‘ (۱۷)   لکھی اور پھر میں نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی: اے اللہ! آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے: ’’ماء زمزم لما شرب لہٗ‘‘ اور یہ قرآن آپ کا کلام ہے، پس (اس کی برکت سے) عافیت کے ساتھ مجھے شفا عطا فرمادیجئے۔ اور پھر میں نے اسے آبِ زمزم کے ساتھ گھولا اور پی لیا، پس مجھے عافیت مل گئی اور فالج کے مرض سے باِذنِ اللہ نجات مل گئی۔ (۱۸)
ابن قیم رحمہ اللہ اپنا واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں مجھ پرایسا وقت گزرا کہ میں مریض تھا، نہ طبیب میسر تھا اور نہ دوا موجود تھی، تو میں آبِ زم زم شفا کی نیت سے پیتا تھا اور ’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ (۱۹) پڑھتا تھا، پس مجھے مکمل شفا حاصل ہوگئی ۔(۲۰)
ان روایات، فقہاء اور ائمہ کے اس عمل سے معلوم ہوتا ہےکہ زمزم دنیوی مسائل کے حل کے لیے بھی انتہائی مفید اور مسنون عمل ہے۔

اُخروی مسائل کے لیے زمزم کا پینا 

بعض صحابہ کرامؓ اور حضرات ائمۂ اُمت سے اخروی مسائل میں آسانی کے لیے زمزم کا پینا ثابت ہے۔ الجوہر المنظم ص:۶۲ پر ’’فضل ماء زمزم‘‘ کے تحت لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  نے زمزم پیا اور یوں کہا: ’’اللّٰہم أشربہٗ لظمأ يوم القيامۃ‘‘ یعنی ’’میں اسے قیامت کے دن کی پیاس سے بچنے کی نیت سے پی رہا ہوں۔‘‘ (۲۱)
 اسی طرح عبد اللہ بن مبارک  رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے منقول ہے کہ وہ زمزم پیتے وقت یہ کہتے کہ: مجھے یہ حدیث’’ماء زمزم لما شرب لہٗ‘‘ پہنچی ہے۔ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اے اللہ! میں اُسے قیامت کی پیاس بجھانےکے لیے پی رہا ہوں۔ (۲۲)
معلوم ہوا زمزم اُمتِ محمدیہ کو خداوندِ قدوس کی طرف سےوہ نعمتِ عظمی اور وہ گوہرِ نایاب دستیاب ہوا ہے کہ دنیوی اور اُخروی دونوں قسم کے مصائب اور مسائل سے نجات پانے کا نہایت ہی آسان اور سہل راستہ میسر ہوا ہے۔

زمزم پیتے وقت دعا کی قبولیت 

دعا کی قبولیت بعض اوقات مکان کے ساتھ(۲۳) جبکہ بعض اوقات زمان کے ساتھ معلق ہوتی ہے، جیسے احادیث میں دو خطبوں کے درمیان (۲۴) اور بعض دوسری احادیث میں عصر اور مغرب کے درمیان کا ذکر ہے، (۲۵) جبکہ کچھ حدیثوں میں اذان(۲۶) اور اقامت کے درمیان دعا کی مقبولیت کا ذکر بھی آتا ہے۔ (۲۷)اسی طرح زمزم پیتے وقت بھی اگر دعا کی جائے تو اسرع بالقبولیت ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  جب جب زمزم پیتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے: ’’اللّٰہم إني أسئلک علمًا نافعاً ورزقاً واسعاً وشفاءً من کلّ داء ۔‘‘ (۲۸)
اسی طرح زمزمی نے ’’نشرالآس‘‘ میں ’’قرۃ العین‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس لیے پیا کہ یااللہ! مجھے أعلم العلماء بنادیجئے۔ امام صاحب ؒ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ اپنے زمانے کے أعلم العلماء بن گئے، فقہ میں جو ان کا مقام ہے وہ اہلِ علم و اہلِ حق پر عیاں ہے۔ امام شافعی ؒ نے فرمایا کہ: ’’الناس في الفقہ عیال علی أبي حنیفۃ۔‘‘ (۲۹)یعنی ’’لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی اولاد ہیں۔‘‘
اور اسی طرح کا واقعہ امام ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی ذکر کیا ہے کہ حافظ ابن خزیمہؒ سے پوچھا گیا: آپ کو کہاں سے (اتنا زیادہ ) علم حاصل ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے زمزم اس نیت سے پیا کہ اے اللہ! مجھے علم نافع عطافرمادیجئے۔ (۳۰)

زمزم تقویتِ قلب کے لیے پینا

زمزم کے اندر ذوالجلال نے یہ خاصیت بھی رکھی ہے کہ اس سے دل مضبوط ہوجاتا ہے اور دل کی گھبراہٹ ختم ہوجاتی ہے۔علامہ عراقی ؒ فرماتے ہیں کہ: رسول کا سینہ چاک کرکے اسے زمزم سے اسی لیے دھویا گیا، تاکہ اس کے اندر آسمان وزمین کے ملکوت اور جنت وجہنم کے دیکھنے کی قوت پیدا ہوجائے۔

زمزم پینے کا طریقہ

زمزم پینے کا طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تین سانس میں قبلہ رو ہوکر پیا جائے اور خوب اچھی طرح سیراب ہوکر پیا جائے، جیسا کہ حضرت اب عباس  رضی اللہ عنہما  نے یہ طریقہ ایک شخص کو بتایا تھا: ’’إذا شربت من ماء زمزم، فاستقبل القبلۃ، واذکر اسم اللہ، وتنفس ثلاثًا، وتضلع منہا، فإذا فرغت، فاحمد اللہ عز وجل۔‘‘(۳۱) اور زمزم سیراب ہوکر نہ پینے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے: ’’إن آيۃ ما بيننا وبين المنافقين، إنہم لا يتضلعون من زمزم۔‘‘ کہ: ’’ہمارے اور منافقوں کے بارے فرق یہ ہے کہ وہ زمزم پیٹ بھر کر نہیں پیتے۔‘‘ (۳۲)
جہاں تک زمزم کھڑے ہوکر پینے کی بات ہے، جیسا کہ آج کل رواج ہوگیا ہے تو اس سلسلے میں فقہی تصریحات سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ کھڑے ہوکر پینا مستحب نہیں ہے۔ البتہ عام پانی کی طرح اسے کھڑے کھڑے پینا مکروہ بھی نہیں ہے، بلکہ اسے کھڑے ہوکر پینا بلاکراہت جائز ہے، جیسے کہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:
 ’’ولعل الأوجہ عدم الکراہۃ إن لم نقل بالاستحباب لأن ماء زمزم شفاء وکذا فضل الوضوء۔‘‘ (۳۳)

خلاصۂ کلام

زمزم کو ادب واحترام سے پیا جائے، اس کے اندر پوشیدہ برکات سے استفادہ کیا جائے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک بڑی نعمت ہے ۔ اس کی قدردانی کرنا اور اس کی حرمت کو پیشِ نظر رکھنا ایمانی فریضہ ہے، اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ ان کاموں میں یہ پانی استعما ل نہ کیا جائے جن سے اس کی توہین ہوتی ہے، مثلاً اس سے ناپاکی اور گندگی صاف کرنا یا اس سے استنجاء کرنا وغیرہ مکروہِ تحریمی ہے۔ (۳۴)
یہ پانی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا قیمتی تحفہ ہے، ہمیں اس کے اندر ودیعت کردہ فوائد سے خود کو قیمتی بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس متبرک پانی سے خوب خوب سیراب ہونا نصیب فرمائے، آمین، ثم آمین۔

حوالہ جا ت 

 

۱: صحيح مسلم: ۴/ ۱۹۱۹، حديث:۲۴۷۳    ۲: مشارق الأنوار علی صحاح الآثار: ۱/ ۳۱۵
۳: مشارق الأنوار علی صحاح الآثار: ۱/ ۳۱۵    ۴: غريب الحديث لابن قتيبۃ: ۲/ ۵۰۲
۵: لسان العرب: ۱۲/ ۲۷۵            ۶: صحيح البخاري: ۴/ ۱۴۲
۷:  سنن الترمذي، ت: بشار: ۲/ ۲۸۷ حديث: ۹۶۳    ۸:  صحيح مسلم: ۴/ ۱۹۱۹، حديث:۲۴۷۳
۹:  مسند أحمد مخرجا: ۲۳/ ۱۴۰، حديث: ۱۴۸۴۹    ۱۰:  سنن ابن ماجۃ: ۲/ ۱۰۱۸، حديث: ۳۰۶۲
۱۱: المستدرک علی الصحيحين للحاکم: ۱/ ۶۴۵، حديث: ۱۷۳۸
۱۲:  السيرۃ النبويۃ لابن کثير: ۱/ ۱۷۳        ۱۳:  بيہقي، ج: ۵، ص: ۲۰۲
۱۴:  جمع الفوائد: ۱۳۶۸۱            ۱۵: دار قطني، ج: ۲، ص: ۲۸۹
۱۶: شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام: ۱/ ۳۳۸    ۱۷: سورۃ الاسراء، الآيۃ: ۸۶
۱۸:  سير أعلام النبلاء، ج:۱۱، ص: ۲۱۲        ۱۹:   القرآن الکريم، سورۃ الفاتحۃ، الآيۃ: ۵
۲۰:   زاد المعاد في ہدي خير العباد: ۴/ ۱۶۴        ۲۱: الجوہر المنظم، ص: ۶۲
۲۲:   البيہقي في شعب الإيمان، رقم الحديث: ۴۱۲۸     ۲۳:   الحصن الحصين للجزري ؒ، ط: عراس، ص: ۶۸
۲۴:  سنن أبي داود، ت: الأرنؤوط: ۲/ ۲۸۲، رقم الحديث: ۱۰۴۹
۲۵:   سنن الترمذي، ت: بشار: ۱/ ۶۱۹، رقم الحديث: ۴۹۱
۲۶:سنن النسائي، رقم الحديث: ۶۶۹، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدۃ، مکتبۃ المطبوعات الإسلاميۃ بحلب، ج: ۲، ص:۲۶
۲۷:سنن الترمذي، ت:بشار، باب ماجاء في أن الدعاء لايرد بين الأذان والإقامۃ، رقم الحديث: ۲۱۲، ج:۱، ص: ۲۸۸
۲۸: الدارقطني في السنن الکبری، ج: ۲، ص: ۲۸۸    ۲۹:   العبر في خبر من غبر: ۱/ ۱۶۴
۳۰:  سير أعلام النبلاء، ط: الحديث: ۱۱/ ۲۲۸    ۳۱:مرعاۃ المفاتيح شرح مشکاۃ المصابيح: ۹/ ۴۷
۳۲:   سنن ابن ماجۃ: ۲/ ۱۰۱۷            ۳۳:   شامي، ج: ۱، ص: ۸۸
۳۴:  شامي، ج: ۲، ص: ۲۸۶

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین