بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

زم زم: روئے زمین پر سب سے افضل پانی

زم زم: روئے زمین پر سب سے افضل پانی


’’زم زم‘‘ دنیا کے تمام پانیوں سے افضل، عمدہ و اشرف ہے اور دنیا کے تمام پانیوں کا سردار اور زمین کے اوپر سب سے عمدہ اور مفید پانی ہے، اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے سب سے بہتر اور مرغوب بھی ہے۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ زم زم کا پانی افضل ہے یا حوضِ کوثر کا؟ محققین کی رائے یہ ہے کہ زم زم کا پانی حوضِ کوثر کے پانی سے افضل ہے۔ یہی وہ عظیم چشمہ ہے جو حضرت جبریل امین  علیہ السلام  کے پر مارنے سے نکلا، اور یہی وہ بابرکت اور مقدس پانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام  اور ان کی والدہ کو پلایا تھا، یہی وہ پاکیزہ پانی ہے جس سے جنابِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا دِل دھویا گیا۔ 
قدرت کا یہ معجزہ مسلمانوں کے لیے عظیم الشان تحفہ ہے، یہ مسلمان ہی سمجھ سکتا ہے۔ دورِ حاضر میں زم زم کی خوبیوں پر تحقیق جاری ہے، لیکن آج بھی اطباء اور ماہرین حیران ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس پانی کو کتنی خصوصیتوں، خوبیوں اور قوتوں سے نوازا ہے۔ زم زم میں ایسے مفید معدنیاتی عناصر و ادویاتی اجزاء شامل ہیں جن پر میڈیکل سائنس بھی حیران ہے۔ زم زم کا پانی روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان اور لا زوال نعمتوں میں سے ہے۔ اللہ پاک قیامت کے قریب تمام زمین سے میٹھا پانی خشک کر دیں گے، مگر زم زم کا پانی اس وقت بھی باقی رہے گا۔ (اخبار للفاکہی)
زم زم دنیا کا واحد پانی ہے جس میں بو پیدا نہیں ہوتی، نیز اس میں بھر پور غذائیت اور ہر بیماری سے شفا بھی ہے۔ اس پانی کا ایک حیران کن کرشمہ یہ ہے کہ روزِ اول سے جاری و ساری ہے اور بالکل کمی نہیں آتی۔ جو لوگ مکہ مکرمہ کی سنگلاخ وادیوں، خشک ریتیلے ریگستانوں اور مضبوط چٹانوں سے واقف ہیں، ان کے لیے یہ انتہائی باعثِ تعجب اور حیرانگی کی بات ہے کہ جہاں دور دور تک آبی وسائل اور ذخائر موجود نہیں ہیں، وہاں زم زم کا کنواں نہ صرف جاری ہے، بلکہ اس کے پینے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اس میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے، بلکہ تمام لوگوں کو خوب سیراب کر رہی ہے۔ حرمین شریفین میں موجود لاکھوں لوگوں کے علاوہ حجاج کرام اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والے افراد اُسے اپنے ساتھ پوری دنیا میں لے کر جاتے ہیں، یوں ہی زم زم کا پانی پوری دنیا کے لوگوں کو سیراب کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زم زم اللہ تعالیٰ کا ایک زندہ جاوید معجزہ ہے، اور اس پر جب بھی اور جتنی بھی تحقیق کی جائے، کم ہے، کیونکہ ہر مرتبہ انسان پر نئے حقائق کے راز آشکارا ہوتے ہیں اور مزید روشن پہلو اور حیرت انگیز فوائد سامنے آتے ہیں۔ یہ دنیا کا وہ واحد عظیم الشان بابرکت پانی ہے جس میں جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لعاب مبارک کی برکت موجود ہے، چنانچہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ:
 ’’ایک مرتبہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  زم زم کے کنویں کے پاس تشریف لائے تو ہم نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے بیرِ زم زم میں ڈول ڈال کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں زم زم کا پانی پیش کیا، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو نوش فرمایا، اور پھر اسی میں کلی فرما دی، پس ہم نے اسی ڈول کا پانی جس میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کلی فرمائی تھی زم زم کے کنویں میں ڈال دیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :’’ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم زم زم کے کنویں سے از خود پانی نکالنے کے لیے غلبہ کرو گے تو میں اپنے ہاتھ سے پانی نکالتا۔‘‘       (مسند احمد، وہو حدیث صحیح) 
زم زم کو خوب سیر ہو کر کثرت سے پینا مستحب اور ایمان کی علامت ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ:
 ’’ہمارے اور منافقین کے درمیان فرق کرنے والی نشانی یہ ہے کہ منافقین زم زم کو سیر ہو کر نہیں پیتے، لہٰذا تم جب زم زم کو پیو تو خوب سیر ہو کر پیا کرو۔‘‘    (رواہ ابن ماجہ وسنن الدارقطنی)

زم زم ہر بیماری کے لیے شفاہے

اللہ تعالیٰ کی رحمت کے انداز بھی بڑے عجیب اور نرالے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر کتنا عظیم فضل اور رحمت ہے کہ اس نے زم زم میں ہر بیماری کی شفا رکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت اور فضل سے زم زم کے ذریعے کتنے ہی لوگوں کو شفا عطا فرمائی ہے، اور بے شمار اب بھی اللہ پاک کی اس عنایت سے مستفید ہو رہے ہیں اور تا قیامت ہوتے رہیں گے۔ زم زم کی خوبیوں اور فضائل کے متعلق احادیث اور واقعات تو بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم اختصار کے پیشِ نظر صرف چند ذکر کریں گے، جن سے اِجمالی طور پر بہت سی خوبیاں اور فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: 
’’روئے زمین پر سب سے بہترین پانی زم زم ہے جس میں طعام کی طرح غذائیت بھی ہے اور مرض کے لیے شفا بھی ہے۔‘‘   (رواہ الطبرانی فی الکبیر وقال المحقق ابن الہمام: رواتہ ثقات، ورواہ ابن حبان ایضاً)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ: 
’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  زم زم کو مختلف برتنوں اور مشکیزوں میں بھر کر لے جاتے اور مریضوں پر ڈالتے اور اُنہیں پلاتے۔‘‘                    (جامع الترمذی، وسنن البیہقی، ج:۵، ص:۲۰۲)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ:
 ’’زم زم کا پانی ہر اس مقصد کے لیے کافی ہے جس کے لیے پیا جائے، جو شخص کسی مرض سے شفا کے لیے پیے اللہ تعالیٰ اس کو شفا دیتے ہیں، اور جوبھوک کی وجہ سے پیے اللہ تعالیٰ اس کا پیٹ بھر دیتے ہیں، اور جو کسی اور ضرورت کے لیے پیے اللہ تعالیٰ اس کی وہ ضرورت پوری فرماتے ہیں۔‘‘                    (رواہ المستغفری فی الطب عن جابرؓ، الجامع الصغیر للسیوطی)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ زم زم غذا، دوا اور ہر مقصد کے حصول کے لیے بے نظیر چیز ہے۔ 
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے کہ ابو بکر بن محمد بن جعفرؒ نے محدث ابنِ خزیمہؒ کے متعلق نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ عظیم الشان علم کس طرح حاصل ہوا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد مبارک ہے کہ: ’’زم زم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ دیتا ہے۔‘‘ میں نے جب بھی زم زم پیا، اللہ تعالیٰ سے علمِ نافع کا سوال کیا۔ (سیر أعلام النبلاء، ج:۱۴، ص:۳۷۰) 
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: میں نے حج سے فارغ ہونے کے بعد زم زم چند مقاصد کے لیے پیا، جن میں سے ایک خاص مقصد یہ تھا کہ میں علم فقہ میں امام سراج الدین بلقینی  ؒ کے مرتبہ کو پہنچوں، اور علمِ حدیث میں ابن حجر عسقلانی  ؒ کے مرتبہ کو پہنچوں، اب میں بطورِ تحدیثِ نعمت کے اپنی اس دعا کی قبولیت کا اعتراف کرتا ہوں۔      ( حسن المحاضرۃ فی تاریخ مصر والقاہرۃ، ج:۱،ص:۳۲۸)
علّامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: میں نے طلبِ حدیث کے ابتدائی زمانہ میں حج کی سعادت کے موقع پر زم زم کا پانی پیا، اور پیتے وقت یہ دعا کی: ’’اے اللہ! مجھے حافظ ذہبیؒ جیسا حافظہ عطا فرما۔‘‘ تقریباً بیس سال بعد پھر دوبارہ حج کی سعادت نصیب ہوئی، اس وقت میں نے اس فن میں اپنی واقفیت کو امام ذہبی ؒ سے کچھ زیادہ پایا، پھر میں نے زم زم پیتے وقت اس سے اونچا مرتبہ حاصل ہونے کی دعا کی، مجھے اللہ تعالیٰ سے اس کے بھی حصول کی امید ہے۔‘‘       (فتح القدیر، ج:۲،ص:۵۰۷)
امام المحدثین حضرت زین الدین العراقی رحمۃ اللہ علیہ  کے پیٹ میں ایک مرتبہ شدید تکلیف تھی، انہوں نے اس سے نجات کے لیے زم زم پیا، اللہ تعالیٰ نے نجات عطا فرمادی، اور شفا یاب ہوگئے۔ (شفاء الغرام)
امام تقی الدین فارسی رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے کہ شیخ احمد بن عبداللہ الشریفی ؒ نابینا ہوگئے تھے، انہوں نے زم زم بینائی واپس لوٹنے کی نیت سے پیا، پس اُن کی بینائی واپس لوٹ آئی۔         (شفاء الغرام)

زم زم سے بچوں کی تحنیک

علّامہ فاکہی ؒ نے ’’اخبارِ مکہ‘‘ میں روایت کیا ہے کہ حبیب بن ثابتؒ کہتے ہیں کہ: میں نے عطاءؒ سے پوچھا کہ میں زم زم کے پانی کو مکہ مکرمہ سے کہیں دور لے جا سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا: ’’جی ہاں!‘‘ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  زم زم کو بوتلوں میں بھر کر لے جایا کرتے تھے، نیز حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  زم زم کو عجوہ کھجور کے ساتھ ملا کر حضرت حسن ؓاور حضرت حسین ؓ کی تحنیک بھی فرماتے۔     (اخبار مکۃ للفاکہی،ج:۲، ص:۵)
ِ

زم زم کے پینے کے آداب

علماء کرام نے زم زم پینے کے متعدد آداب بیان کیے ہیں:
۱:-شروع میں بسم اللہ پڑھنا                                                              ۲:-تین سانسوں میں پینا
۳:-سانس لیتے وقت برتن کو منہ سے ہٹالینا                  ۴:-قبلہ رخ ہونا
۵:-خوب سیر ہوکر پینا                                    ۶:-دنیا وآخرت کی کوئی خوبی حاصل ہونے کی نیت کرکے پینا۔

زم زم کھڑے ہوکر پیا جائے یا بیٹھ کر

اس مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے کہ زم زم کو کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے یا بیٹھ کر، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مناسک میں تخییر کا قول اختیار کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’(ثم یأتي زمزم) أي بئرھا (فیشرب من مائہا) أي قائمًا وقاعدًا۔‘‘ یعنی پھر زم زم کے کنویں کے پاس آئے اور اس سے پانی پیے، چاہے کھڑے ہوکر پیا جائے یا بیٹھ کر۔ بعض حضرات نے کھڑے ہوکر پینے کو مستحب قرار دیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر نوش فرمایا تھا، جبکہ بعض علماء کرام نے بیٹھ کر پینے کو مستحسن قرار دیا ہے۔ بہر حال چونکہ دونوں طرف جلیل القدر علماء ہیں، لہٰذا کسی بھی طریقہ کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ 

ایک ضروری وضاحت

زم زم اخلاص اور اعتقاد کے ساتھ جس مقصد کے لیے پیا جائے وہی پورا ہوجاتا ہے، مگر کبھی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت اس کے بدلے میں دوسری نعمت عطا فرما دیتے ہیں، یا اس کے بدلے کوئی بلا ٹال دیتے ہیں، یا اس کا اجر وثواب آخرت میں محفوظ فرما دیتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حق میں زیادہ جانتے ہیں کہ میرے بندہ کے لیے کیا بہتر ہے۔ایسے ہی بعض گناہ بھی دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، جیسے حرام کی کمائی، والدین کی نافرمانی، کسی کی حق تلفی، قطع رحمی، وغیرہ۔یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ جس نیت سے پانی پی رہا ہے، اس کو حاصل کرنے کا سبب بھی اختیار کرے، اور یہ بھی دعا کے آداب میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو زم زم سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین