بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

رومن رسم الخط اورقرآن کریم

رومن رسم الخط اورقرآن کریم

موبائل فون کی فراوانی اورسماجی رابطہ کے مواقع (ویب سائٹس) کی باآسانی دستیابی نے بے شمار مواصلاتی سہولتیں پیدا کردی ہیں۔ میسجز اور کالز کے ذریعے اہم سے اہم خبر منٹوں میں ملک کے چپے چپے میں پہنچادی جاتی ہے۔ جو لوگ بیرون ممالک کمانے،تعلیم حاصل کرنے یا دینی خدمات سرانجام دینے جاتے ہیں،اب ان کے لیے اپنے پیاروں سے رابطہ رکھنا اور حالات سے باخبر رہنا کوئی مشکل بات نہیں۔ اسی طرح جن لوگوں نے غیر ممالک خصوصاً مغربی ممالک میں سکونت اختیار کرلی ہے، ان کے لیے اب اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم اوربنیادی دینی تعلیم دلوانا قدرے آسان ہوگیا ہے، اس لیے کہ بہت سے علماء اور قراء حضرات نے آن لائن اکیڈمیاں کھول لی ہیں، جن میں اساتذہ کی باقاعدہ جماعتیں تعلیم وتعلم میں مشغول رہتی ہیں۔ مشائخِ کرام کی مجالس سے براہِ راست استفاضہ اور مفتی حضرات سے شرعی راہنمائی حاصل کرنا بہت آسان ہوچکا ہے، مگر ان گنت فوائد کے ساتھ ساتھ موبائل اور انٹرنیٹ کے کثرتِ استعمال نے لاتعداد اخلاقی، سماجی اور فقہی مسائل کو بھی جنم دیا ہے، مثلاً:ویڈیوکالز کے ذریعے نکاح وطلاق کا وقوع، اقرارِ حقوق کا حکم، گھر بیٹھے کاروبارکرنے کے نت نئے طریقے، غیرمحارم سے تحریری گفتگو (Chat) وغیرہ کا شرعی حکم۔ ان جیسے بے شمار مسائل ہیں جن سے سماجی رابطے استعمال کرنے والوں کو روز ہی سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ موبائل اورکمپیوٹر کے موجد اور منتظم کیونکہ انگریز ہیں، اس لیے انٹرنیٹ وغیرہ کی مادری زبان بھی انگریزی ہے۔ اگرچہ چین نے مکمل طور پر اوربہت سے عرب ممالک نے جزوی طور پر کمپیوٹر کی زبان اور اصطلاحات کو اپنی قومی زبان میں ڈھال لیا ہے، مگربہت سے ممالک اب بھی انگریزی انٹرنیٹ کے صارف ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے صارفین میں ایک بہت اہم مسئلہ قرآنی آیات کو رومن رسم الخط میں لکھنے کا ہے۔ لوگ قرآنی آیات رومن خط میں لکھ کر ایک دوسرے کو ارسال کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ‘‘ کو’’Qul Howallaho Ahad‘‘۔۔۔۔۔۔۔’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ کو ’’Iyyaka Naubodo ‘‘لکھ دیتے ہیں۔ یہ طریقہ لوگوں میں پھیلتا جا رہا ہے، حتیٰ کہ بعض مکتبوں نے قرآنِ کریم کے رومن رسم الخط کے نسخے بھی چھاپ دیے ہیں۔ اس کی چند وجوہات سامنے آتی ہیں: ایک تویہ کہ مختلف زبانیں بولنے والے مسلمانوں کے درمیان انگریزی رابطہ زبان کا کام دیتی ہے۔ دوسری یہ کہ کچھ ممالک مثلاً ترکی،ملائشیا، انڈونیشیا وغیرہ نے اپنا عربی رسم الخط ترک کرکے رومن رسم الخط اپنا لیاہے۔ اور کچھ زبانوںکے رسم الخط عربی سے سراسر مختلف ہیں، لیکن انگریزی زبان ان تمام ممالک میں پڑھی،پڑھائی اور سمجھی جاتی ہے اور رومن رسم الخط سے سب آشنا ہیں۔ اسی طرح بہت سی علاقائی زبانیں جو ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہیں، مثلاً: تامل،گجراتی وغیرہ، ان زبانوں کے بولنے والے بھی رومن رسم الخط باآسانی سمجھ سکتے ہیں،جبکہ عربی زبان اور رسم الخط ان کی علاقائی زبان سے مماثل نہ ہونے کی بنا پر مشکل اور اجنبی ہے۔ چنانچہ ان تمام ممالک میں قدرے مشترک انگریزی زبان اور رومن رسم الخط ہے۔ ان مشکلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بعض مکتبوں نے قرآنِ کریم کے ترجمہ وتفسیر کے ساتھ آیات کی رومن تقطیع بھی چھاپ دی ہے اور لوگ میسج اور ای میل وغیرہ میں رومن میں ہی آیات لکھ دیتے ہیں۔ سرسری طور پر توان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآنی آیات کے لیے رومن خط کا استعمال ایک مستحسن امر لگتا ہے، مگر ایسا کرنے میں بہت سی شرعی قباحتیںپیدا ہوتی ہیں جو اس کام کو تحریف فی القرآن جیسے بھیانک جرم تک لے جاتی ہیں۔ قرآنِ کریم کے رسم الخط کی شرعی حیثیت معلوم کرنے سے پہلے انگریزی زبان اور رومن رسم الخط کے رابطہ زبان ہونے کی حیثیت پر نظر ڈالتے ہیں۔ ان تمام باتوں کی بنیادانگریزی فہمی اوررومن رسم الخط سے شناسائی اور عربی زبان اور رسم الخط سے اجنبیت پر ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے اپنی علمی ترقی اور فکری معراج انگریزی تہذیب وتمدن، انگریزی وضع قطع اور انگریزی رسم الخط کو سمجھ لیا ہے، اس لیے ہمارے نظامِ تعلیم کی بنیادیں اور مقاصد، تعلیم کے انگریزی فلسفہ پر ہیں۔ اور ہمارے تعلیمی نصاب بھی اس بات کو مدِ نظر رکھ کر ترتیب دیے جاتے ہیں کہ کس طرح طالب علم جلد از جلد انگریزی بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرلے، انگریزی تہذیب وتمدن کو باآسانی اپنا لے۔ اسی لیے ہمارے ممالک میں اعلیٰ ترین تعلیمی درسگاہیں کانونٹ سکول اور کانونٹ طرز کے کالج اور یونیورسٹیاں سمجھی جاتی ہیں، جہاں کے فارغ التحصیل طلبہ انگریزی بولنے میں ماہر، مغربی تہذیب کے دلدادہ اور دوسروں کو رنگنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ دنیا کی سات ارب آبادی میں صرف ۳۵کروڑ افراد کی مادری زبان انگریزی ہے۔ اور جن ممالک میں انگریزی ثانوی اور دفتری زبان کی حیثیت رکھتی ہے وہاں ۱۵ سے ۲۰ کروڑ افراد انگریزی بولنے والے ہیں۔ اور یہ بھی وہ ممالک ہیں جوسلطنتِ برطانیہ کے زیرِ تسلط رہ چکے ہیں۔ دنیا کی ساڑھے چھ ارب آبادی کے لیے تو انگریزی رابطہ زبان کی حیثیت نہیں رکھتی۔دنیا کے بیسیوں ممالک ہیں جن کے موبائل،کمپیوٹر، انٹرنیٹ سمیت تمام تر مواصلاتی نظام اپنی قومی زبانوں میں ہیں۔ بہت سے ترقی یافتہ ایشیائی اور یورپین ممالک ایسے ہیں جو انگریزی تعلیم تو دور کی بات ہے، انگریزی زبان کا استعمال بھی اپنے لیے باعثِ عار سمجھتے ہیں، مگر پوری دنیا میں انگریزی کی ضرورت اور اہمیت کا ادراک انگریزوں سے بھی زیادہ صرف ہم پاکستانی اور ہندوستانیوں کو ہے۔ جہاں تک تعلق ہے ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ کا توان کی مادری زبانیں عربی رسم الخط میں ہی لکھی جاتی تھیں، جس طرح اردو اور فارسی لکھی جاتی ہیں۔ بیسویں صدی میںکچھ نے جنگِ عظیم کے بعداور کچھ نے اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعدرومن رسم الخط اپنالیا۔ان ممالک نے اپنا ماضی،اپنی تاریخ، اپنی تہذیب وثقافت سب کچھ مغربی تہذیب کے قدموں میں قربان کرکے ترقی کی راہ تلاش کرلی۔مگر ان ممالک میں کتنی ترقی ہوئی؟اس ترقی سے انہوں نے کیا کھویا، کیا پایا؟اور آج یہ لوگ تاریخ کے کس عبرتناک موڑ پر کھڑے ہیں؟ یہ الگ موضوعِ بحث ہے۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ انگریزیت کافسوں اتنا زور آور نہیں کہ اس کے لیے ہم اپنے ضمیر کی نفی کرکے عربی سے ناآشنا بن جائیں اور قرآنِ کریم کا رسم الخط ہی بدل ڈالیں۔ رہی بات ان لوگوں کی جن کی علاقائی زبانیں عربی سے سراسر مختلف ہیں اور انہیں عربی رسم الخط میں قرآنِ کریم پڑھنا دشوار ہے، تو اس مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں صحابۂ کرام اور تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد میں دیکھنا چاہیے۔ جب یہ عظیم لوگ کہ جو عربی کے علاوہ ہر زبان سے نابلد تھے، عربی رسم الخط کے قرآنِ کریم کو لے کر انہی ایشیائی، افریقی اوریورپی ممالک میں پہنچے جن کی عجمیت آج ہمیں قرآن فہمی کے لیے رکاوٹ محسوس ہونے لگی ہے،انہی لوگوں کو قرآن پڑھایا،سکھایا، انہی میں سے تابعین، تبع تابعین، ائمہ،مفسرین،محدثین،فقہاء اور متکلمین پیدا ہوئے۔ ذرا سوچیے! کیا عربی آج ان لوگوں کے لیے زیادہ مشکل ہے یا اس وقت تھی؟ کیا غیر عربی رسم الخط میں قرآن لکھنے کی ضرورت اس وقت زیادہ تھی یا اب ہے؟ اُس وقت دنیا میں مشرقی ممالک میں فارسی رسم الخط استعما ل ہوتا تھا اور مغربی ممالک میں رومن۔مگر صحابہؓ وتابعین ؒنے رسم الخط بدلنا تو دور کی بات ہے، لغتِ قریش اور مصحفِ عثمانی کے رسم الخط سے بھی ذراانحراف نہیں کیا۔ یہ سب کمزور خیالات ہیں جو مغربی تہذیب وتمدن سے مرعوبیت کی بنا پرپیدا ہوئے ہیں۔ قرآنِ کریم کے رسم الخط کا شرعی حکم مسلمانوں کے لیے قرآنِ مجید کے لفظ اور معنیٰ دونوں کی حفاظت فرض ہے۔ الفاظ کی حفاظت یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے اس نسخے کی حفاظت اور پیروی کی جائے جو لغتِ قریش پر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع سے اور تین خلفاء راشدین sکی کڑی نگرانی میںجمع کیا گیا اورتیسرے خلیفہ حضرت عثمان q کی زیرِ نگرانی کتابی صورت میں مرتب کرکے جس کی نقلیں تمام عالمِ اسلام میں پھیلائی گئیں۔ اس نسخہ کو ’’ مصحفِ عثمانی‘‘کہتے ہیں۔ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ کتابتِ قرآن،سورتوں کی ترتیب،غرض ایک ایک حرف میں مصحفِ عثمانی کی پیروی واجب ہے۔ اس میں ردو بدل،کمی بیشی قطعاً ناجائز ہے۔امام جلال الدین سیوطی v نے ’’الاتقان‘‘ میںاور علامہ دانی v نے ’’المقنع‘‘ میں امام مالک v سے نقل کیا ہے کہ: ’’وسئل مالک ہل یکتب المصحف علی ما أحدثہ الناس من الہجائ؟ قال: لا إلا علٰی الکتبۃ الأولٰی … قال أبو عمرو: ولامخالف لہٗ فی ذلک من علماء الأمۃ۔‘‘ ’’امام مالک v سے پوچھا گیا: لوگوں میں جوخاص طرزِ تحریر رائج ہوگیا ہے، کیا اس میں قرآن لکھ سکتے ہیں؟ آپؒ نے فرمایا: نہیں، مگر اسی پہلی طرزِ کتابت پر ہونا چاہیے۔ (الاتقان،ص:۷۴۴،المقنع،ص:۱۶۴)علامہ ابوعمرودانی vفرماتے ہیں کہ: اس مسئلہ میں علماء ِ امت میں سے کوئی بھی امام مالک v کامخالف نہیں ہے۔‘‘            (المقنع،ص:۱۶۵)  امام سیوطی v نے مصحفِ عثمانی کی اہمیت کے پیشِ نظر چند دیگر ائمہ کے اقوال بھی نقل کیے ہیں:  ’’سئل مالک عن الحروف فی القرآن مثل الواو والألف أتری أن یغیر من المصحف إذا وجد فیہ کذلک؟ قال: لا۔ قال أبو عمرو: یعنی الواو والألف المزیدتین فی الرسم المعدومتین فی اللفظ نحو الواو فی’’أولوا‘‘ وقال الامام أحمد: یحرم مخالفۃ مصحف الامام فی واو أو یا أو ألف أو غیر ذلک وقال البیہقی فی شعب الإیمان: من یکتب مصحفا فینبغی أن یحافظ علی الھجاء الذی کتبوا بہ ھٰذا المصاحف ولا یخالفھم فیہ ولا یغیر مما کتبوہ شیئاً فإنھم کانو أکثر علمًا وأصدق قلبًا ولسانًا أعظم أمانۃً منا فلا ینبغی أن نظن بأنفسنا استدراکا علیہم ۔‘‘                             (الاتقان: ۷۴۴) ’’امام مالک v سے حروف(زائدہ) کے بارے میں سوال کیا گیا،مثلاً واو،الف،کیا خیال ہے آپ کا اگر وہ مصحف میں ایسے ہی (زائدحالت میں) پائے جائیںتو انہیں تبدیل کر دیا جائے؟ آپؒ نے جواب دیا: نہیں۔ ابو عمروؒ فرماتے ہیں: یعنی وہ واواور الف جو لکھنے میں تو زیادہ ہوں مگر تلفظ میں معدوم ہوں، جیسیواو لفظِ ’’اُولُو‘‘ میں۔ امام احمدv نے فرمایاکہ: واو،یااور الف وغیرہ میں بھی مصحفِ امام کی مخالفت حرام ہے۔ امام بیہقی v نے شعب الایمان میں فرمایا کہ: جو مصحف کی کتابت کرے، اسے چاہیے کہ ان حروفِ ہجاء کی حفاظت کرے جس پر صحابہ sنے یہ مصاحف لکھے ہیں۔ اور اس میں نہ ان کی مخالفت کرے اور نہ ہی کسی ایسی چیز کو بدلے، جسے انہوں نے لکھا ہو۔ اس لیے کہ وہ ہم سے زیادہ علم والے،ہم سے زیادہ دل اورزبان کے سچے، اور ہم سے زیادہ امانت دار تھے۔ پس یہ مناسب نہیں کہ ہم اپنے آپ کو ان کی کمی پورا کرنے والا گمان کریں۔‘‘ مثال کے طور پر ’’بسم اللّٰہ‘‘میں ’’ب‘‘ کے بعد’’س‘‘ لکھاجاتا ہے، حالانکہ عربی رسم الخط کے لحاظ سے ’’ب‘‘ کے بعد ’’الف‘‘ آنا چاہیے تھا اور ایسے ہونا چاہیے تھا’’باسم اللّٰہ‘‘۔لیکن کیونکہ مصحفِ عثمانی میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ بغیر ’’الف‘‘ کے لکھی گئی ہے، اس لیے ’’بسم اللّٰہ‘‘ایسے ہی لکھنا واجب ہے۔اسی طرح ’’اقرأ باسم ربک‘‘ میں یہی لفظ اسم ہمزہ کے ساتھ لکھا ہے،حالانکہ بالاتفاق دونوں جگہ ہمزہ پڑھا نہیں جاتا،مگر پہلی جگہ بغیر ہمزہ کے اور دوسری جگہ ہمزہ کے ساتھ لکھنا واجب ہے، اس کی مخالفت کرنا حرام ہے۔ صحابۂ کرامs کے اجماعی نسخہ یعنی ’’مصحفِ عثمانی ‘‘ کو امت نے ہر دور میں معیار اور امام اس لیے مانا ہے کہ ’’إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْأٰنَہٗ ‘‘اور’’إِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘میں حفاظتِ قرآن کے خدائی وعدہ کی تکمیل صحابۂ کرامs کے وجودِ مسعود سے ہوئی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ v نے ازالۃ الخفاء میں بالتفصیل اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدۂ حفاظت کا ظہور صحابۂ کرام s کے وجود ِ مسعود کے ذریعہ ہوا۔(جواہرالفقہ،ج: ۲، ص:۷۶،بقیہ صفحہ:۴۸)نیز علامہ دانی v نے المقنع میں امام مالکv سے نقل کیا ہے کہ صحابۂ کرامs نے مصحف کو ایسے مرتب کیا جیسے وہ رسول اللہ a سے سنتے تھے۔ ’’إنما ألف القرآن علٰی ماکانوا یسمعون من قراء ۃ رسول اللّٰہ a  ۔‘‘ (المقنع، ص:۱۵۸) ان تمام دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم رومن رسم الخط کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس میں کیا کیا خرافات لازم آتی ہیں۔ سب سے پہلے تو عربی رسم الخط بدل جاتا ہے، حالانکہ قرآنِ کریم میںہے: ’’بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ‘‘۔۔۔۔’’اللہ نے قرآن کو کھلی عربی زبان میں اتارا۔‘‘(الشعرائ:۱۹۵) دوسرے نمبر پر حرکات یعنی زیر زبر پیش کا مسئلہ ہے۔ عربی زبان میں اگرچہ یہ بالکل جدا اور ممتاز ہوتے ہیں اور حرکات لکھنے یا نہ لکھنے سے کلمہ کی اصلی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر اس کے باوجود سلف صالحین نے حرکات کے معاملہ میں بھی ازحد احتیاط برتی ہے۔ حتیٰ کہ بعض کے نزدیک حرکات لکھنا مکروہ ہے۔ بعض کے نزدیک صرف مشکل مقام پر جائز ہے۔ مگر علامہ دانیv نے فیصلہ کن رائے یہ پیش کی کہ حرکات اورنقطے سرخ روشنائی سے لکھے جاویں، تاکہ قرآن کی اصلی عبارت سے ممتاز رہیں۔ (جواہرالفقہ: ۲/۷۵) رومن خط میں خرابی یہ ہے کہ ایک تو حرکات بصورتِ حروف لکھی جاتی ہیں۔دوسرے وہ حروفِ زائدہ جو مصحفِ عثمانی کی پیروی میں لکھے جاتے ہیںرومن خط میں ان حروفِ زائدہ کی نشاندہی سرے سے ہو ہی نہیں سکتی۔مثلاً ’’بسم اللہ‘‘ کو رومن میں ’’Bismillah ‘‘میں لکھتے ہیں۔ اس میں ’’ب‘‘ کی جگہ تو’’ B‘‘آگیا، مگر ’’ب‘‘ کی زیر کے لیے اک نیا حرف ’’ i ‘‘لانا پڑا،جبکہ لفظ’’ اللہ‘‘ کے ہمزہ کی نشاندہی کرنے والا سرے سے کوئی حرف ہی موجود نہیں۔ اگر ’’i‘‘ کے بعد ’’A‘‘ہمزہ کی نشاندہی کے لیے لکھا جائے تو رومن خط کے لحاظ سے اس لفظ کا تلفظ ہی بدل جائے گا۔یہ سب کچھ قرآنِ کریم کے الفاظ میں تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟حالانکہ قرآنِ کریم کے ایک ایک حرف کی حفاظت مسلمانوں پر لازم ہے۔

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین