بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

روزہ ، اعتکاف اور عید سے متعلق چند اہم مسائل و احکام 

روزہ ، اعتکاف اور عید سے متعلق چند اہم مسائل و احکام 

 

کان، ناک، آنکھ وغیرہ میں دوا ڈالنے  اور انجکشن لگانے سے روزے کا حکم!

سوال

1-کیا روزے کے دوران شوگر چیک کرنے سے روزہ ٹوٹتا ہے؟
2- کیا روزے کے دوران انسولین کا انجکشن لگانے سے روزہ ٹوٹتا ہے؟
3- کیا روزے کے دوران گلوکوز کا انجکشن لگانے سے روزہ ٹوٹتا ہے؟
4- کیا روزے کے دوران کان کے ڈراپ، ناک میں اسپرے اور آنکھوں کے قطرے استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹتا ہے؟
5- روزے کے دوران اگر شوگر کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں روزہ توڑا جائے تو کفارہ یا قضا کیا ہوگا؟ (ایک روزہ یا ساٹھ روزے؟)
6-کیا حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی عورتیں روزہ رکھ سکتی ہیں؟                 سائل:فرخ

جواب

1-شوگر کے مریض کے لیے روزہ کے دوران جسم سے خون نکال کر ٹیسٹ کروانا جائز ہے، اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، کیونکہ ٹیسٹ کے لیے جسم سے خون نکالاجاتاہے، منفذ (قدرتی راستے) سے جسم میں کوئی چیز داخل نہیں کی جاتی اور خون نکلنے یا نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ 
2  ، 3 - انسولین چونکہ کھال میں لگانے کا انجکشن ہے اور روزہ کی حالت میں گوشت میں انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس لیے روزہ کی حالت میں انسولین لگانے میں کوئی قباحت نہیں۔ اسی طرح گلوکوز کا انجکشن لگانا روزہ کو فاسد نہیں کرتا، البتہ گلوکوز کا ا نجکشن بلاضرورت طاقت کے لیے چڑھانا مکروہ ہے۔ 
4-کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔ 
اسی طرح ناک میں اسپرے کرنے سے اور تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، البتہ اگر اتنی کم مقدار میں اسپرے کی جائے جس سے یقینی طور پر دوا اندر جانے کا خدشہ نہ ہو، بلکہ دوا ناک میں ہی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ البتہ کان اور ناک میں دوا ڈالنے کی صورت میں اگر روزہ فاسد ہوجاتاہے تو صرف قضاء لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔
روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔
5-روزہ کے دوران اگر شوگر کم یا زیادہ ہونے کی وجہ سے روزہ توڑ دیا تو ایسی صورت میں صرف قضاء لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔
6-حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت) پر بھی روزہ رکھنا فرض ہے، روزہ رکھ سکتی ہیں، البتہ اگر حاملہ یا مرضعہ کو اگر کوئی ایسی نوبت پیش آجائے کہ اس سے اپنی جان یا بچے کی جان کا ڈر ہے تو روزہ توڑنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ بہتر ہے۔ الغرض روزہ رکھیں،دودھ پلانے یا کسی اور عذر سے روزہ نہ رکھ سکیں تو آئندہ قضاء لازم ہے۔واضح رہے کہ روزے کے دوران بچوں کو دودھ پلانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، کیونکہ دودھ پلانے سے کوئی چیز اندر نہیں جاتی، بلکہ باہر آتی ہے، باہر آنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔
دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

 

مصلّٰی میں نفلی اعتکاف کرنے کا حکم

سوال
 

مصلّٰی میں نفل اعتکاف کرنے کا کیا حکم ہے؟ یعنی ایسی جگہ ہے جہاں پانچ وقت نماز اور جمعہ وغیرہ ادا کی جاتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ مردوں کے لیے ایسی مساجد میں سنت اور واجب اعتکاف کرنا شرط ہے جہاں امام و مؤذن مقرر ہو، ایسی مساجد کے علاوہ مصلّوں اور گھروں میں اعتکاف کرنے کی شرعاً اجازت نہیں، اگر مرد گھر میں یا مصلّٰی میں اعتکاف کرے گا تو اس کا اعتکاف درست نہیں ہوگا، البتہ صورتِ مسئولہ میں نفل اعتکاف مصلّٰی میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ ’’تبیین الحقائق‘‘ میں ہے:
’’إن الاعتکاف الواجب لا يجوز في غير مسجد الجماعۃ والنفل يجوز۔‘‘  (تبیین الحقائق، کتاب الصوم، باب الإعتکاف، ج:۱، ص:۳۴۹، ط:دار الکتاب الإسلامي)                                                   فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر :  144508100110                  دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

 

خواتین کے اعتکاف میں جگہ کی تعیین کی حیثیت

سوال

عورت نے اعتکاف کرنے سے پہلے اپنے کمرے، دالان اور صحن کی بھی نیت کر لی تھی کہ خدا نخواستہ اگر طبیعت ایک کمرے میں گھبرائی تو کھانے کے بعد کچھ دیر چہل قدمی کرلے گی، تو کیا خاتون کا یہ نیت کرنا صحیح تھا؟ نیز اگر خاتون اسی نیت کی وجہ سے صحن میں چلی گئی تو کیا اعتکاف ٹوٹ گیا؟ اگر اعتکاف ٹوٹ گیا تو اُسے باقی دنوں میں قضاء کرسکتی ہے یا رمضان کے گزرنے کا انتظار کرے؟

جواب

خواتین کے لیے گھر کی اس جگہ میں اعتکاف کرنے کا حکم ہے جو نماز اور ذکر و تلاوت کے لیے مختص ہو اور اگر ایسا کوئی مقام گھر میں مختص نہ ہو تو گھر کے کسی گوشہ پر جائے نماز بچھا کر اور اپنا بستر لگا کر متعین کرنا شرعاً ضروری ہوگا، اس تعیین کے بعد مذکورہ مقام اعتکاف کرنے والی خاتون کے حق میں شرعاً مسجد کے حکم میں ہوگا، جہاں سے بلا ضرورت نکلنے سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا، نیز اعتکاف صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی مخصوص جگہ کی نیت کی جائے، جگہ کی تعیین کے بغیر مختلف جگہ کی نیت کرنا درست نہیں ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت نے جس کمرے کی نیت کی تھی اس میں اعتکاف کرنا تو صحیح تھا، لیکن گھر کے صحن اور دالان کی نیت درست نہیں تھی، اور بغیر کسی شرعی عذر کے کمرے سے باہر نکلنے کی صورت میں اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔
نیز اعتکاف ٹوٹنے کی صورت میں رمضان یا رمضان کے علاوہ کسی بھی دن ایک روزہ کے ساتھ صرف ایک دن کا اعتکاف کرنے سے قضا پوری ہوجائے گی۔البتہ عید الفطر کے دن اور ایامِ تشریق (۱۰ تا ۱۳ ذوالحجہ) میں قضا نہ کرے، کیوں کہ ان پانچ ایام میں روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے۔ ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے:
’’والمرأۃ تعتکف في مسجد بيتہا إذا اعتکفت في مسجد بيتہا فتلک البقعۃ في حقّہا کمسجد الجماعۃ في حقّ الرّجل لا تخرج منہ إلّا لحاجۃ الإنسان۔‘‘  (کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف: ۱ /۲۱۱، ط: دار الفکر)     فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر :  144209201929                  دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

 

اعتکاف کے دوران ناخن، زیرِ ناف بال کاٹنے اورغسلِ جمعہ کا حکم

سوال

کیا اعتکاف کے دوران ناخن اور زیرِ ناف بال کاٹ سکتے ہیں؟ اعتکاف میں جمعہ کے دن غسل کا کیا حکم ہے؟

جواب

اعتکاف کے دوران مسجد میں ناخن کاٹنے کی اجازت ہے، لیکن احتیاط رہے کہ ناخن وغیرہ مسجد کی حدود میں نہ گرنے پائیں۔ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے تمام غیر ضروری بالوں کی صفائی کرلینی چاہیے، اور اگر کسی کے چالیس دن اعتکاف کے دوران مکمل ہورہے ہوں تو ایسے شخص کے لیے اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ہی صفائی کرلینا ضروری ہے، تاہم اگر کسی نے صفائی نہ کی ہو اور دورانِ اعتکاف چالیس دن مکمل ہوجائیں تو اس کے لیے صفائی کے لیے بیت الخلاء میں قضائے حاجت کے دوران بالوں کی صفائی کی اجازت ہوگی، تاہم صفائی کے نام پر بلا ضرورت زائد وقت بیت الخلاء وغیرہ میں گزارنے کی اجازت نہ ہوگی ،البتہ وہ افراد جن کے چالیس دن مکمل نہ ہوئے ہوں ان کے لیے زیرِ ناف بالوں کی صفائی کے لیے جانے کی شرعاً اجازت نہ ہوگی، اگر کوئی چلا گیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ اعتکاف کے دوران معتکف کے لیے طبعی یا شرعی ضرورت کے علاوہ کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، غسلِ جمعہ نہ طبعی ضرورت میں شامل ہے اور نہ ہی شرعی ضرورت میں، لہٰذا مسنون اعتکاف میں صرف جمعے کے غسل کے لیے باہر نکلنا جائز نہیں ہے ،اس سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔  فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’(وأما مفسداتہ) فمنہا الخروج من المسجد فلا يخرج المعتکف من معتکفہ ليلا ونہارا إلا بعذر، وإن خرج من غير عذر ساعۃ ‌فسد ‌اعتکافہ في قول أبي حنيفۃ -رحمہ اللہ تعالی - کذا في المحيط. سواء کان الخروج عامدا أو ناسيا ہکذا في فتاوی قاضي خان۔‘‘        (کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف:۲۱۲/۱، ط:رشیدیۃ)                                                       فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر :  144409101589                  دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن


اعتکاف میں بیت الخلاء جاکر سگریٹ پینا

سوال

اعتکاف کی حالت میں بیت الخلاء جائے اور وہاں پر سگریٹ پیے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

’’بیت الخلاء‘‘ خواہ گھر کا ہو یا مسجد کا، اس میں کھانا، پینا مکروہ ہے، مسجد کے بیت الخلاء میں اس کی کراہت اور بھی زیادہ ہوجائے گی کہ سگریٹ وغیرہ کی بدبو دیگر لوگوں کی تکلیف کا سبب بنے گی،اور نیز بیت الخلاء جنات اور شیاطین کی آماجگاہیں ہیں، اس میں سگریٹ پینے کے لیے رُکے رہنا ناپسندیدہ عمل ہے۔
’’شرح البخاری‘‘ میں ہے:
’’و من آدابہ أن لايأکل و لايشرب في الخلاء۔‘‘ (شرح البخاري للسفیري: ۲/۳۲۲، ط:دارالفکر)
باقی معتکف بیت الخلاء میں استنجا کرنے کے بعد اگر سگریٹ پینے کے لیے رکا رہا تو اس سے اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا، البتہ اگر معتکف نے طبعی حاجت کے لیے بیت الخلاء جاتے ہوئے یا اس کا انتظار کرتے ہوئے یا حاجت کے دوران سگریٹ پی لی تو اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔        فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر :  144209201729                 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

 

عید کے دن کیے جانے والے مختلف اعمال اور ان کی شرعی حیثیت

سوال

1- عید کے دن لوگوں کا مسجد میں ایک دوسرے کو مبارک باد دینا اور معانقہ کرنا کیسا ہے؟ جبکہ یہ کام رسم سمجھ کے کرتے ہیں، نہ کہ ثواب اور عبادت سمجھ کے ۔
2- عیدکے دن لوگ قبرستان جانے کا اہتمام کرتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟
3- اسی طرح عید کے دن حسبِ استطاعت کوئی بکرا ذبح کرتا ہے، کوئی مٹھائیاں تقسیم کرتا ہے، اس کی کیا حیثیت ہے ؟ 
4- عید سے چند ماہ پہلے جس کے گھر فوتگی ہوئی ہو وہ عید کے دن خوشی نہیں مناتے اور اس شخص کی فوتگی کا غم مناتے ہیں، ان کا یہ کرنا کیسا ہے؟
5- عید کے دن جو عیدی دی جاتی ہے، اس کا دینا کیسا ہے ؟

جواب

1-عید کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا یعنی عید مبارک کہنا خواہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر، یہ جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  ایک دوسرے کو یہ دعا دیتے تھے کہ: ’’تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ صَالِحَ الْأعْمَالِ‘‘ لیکن ایسا کرنا لازم یا واجب نہیں، لہٰذا اس کو لازم اور ثواب سمجھ کر کرنا بدعت ہے۔
باقی عید کے موقع پر عید کی مبارک باد دینے کے لیے گلے ملنا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  یا صحابہؓ سے ثابت نہیں؛ لہٰذا اس کو ثواب سمجھ کر گلے ملنا بھی بدعت ہے، البتہ اگر کوئی لازم نہ سمجھتے ہوئے مل لے تو حرج نہیں۔
البتہ عید کی نماز کے بعد تمام لوگوں کا سلام پھیرتے ہی آپس میں گلے ملنا شرعاً ثابت نہیں، نیز بعض اوقات مسجد کی بے ادبی کا باعث ہوتا ہے، جس سے مسجد میں شور و شغب ہوتا ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔
2-عید کا دن خوشی اور مسرت کا ہوتا ہے، بسااوقات خوشی میں مصروف ہوکر آخرت سے غفلت ہوجاتی ہے اور زیارتِ قبور سے آخرت یاد آتی ہے، اس لیے اگرکوئی شخص عید کے دن قبرکی زیارت کرے تومناسب ہے، کچھ مضائقہ نہیں؛ لیکن اس کو لازم اور ضروری سمجھنا خواہ یہ التزام عملاً ہی سہی جس سے دوسروں کو یہ شبہ ہو کہ یہ چیز لازمی اور ضروری ہے، درست نہیں؛ نیز اگر کوئی شخص اس دن زیارتِ قبور نہ کرے تو اس پرطعن کرنا یا اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں، اس حوالے سے احتیاط لازم ہے۔
3- عید کا دن خوشی کا دن ہوتا ہے، اگر کوئی اپنی استعداد کے مطابق بکرا وغیرہ ذبح کرکے عزیزواقارب کی دعوت کرتا ہے یا مٹھائی تقسیم کرتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
4- شرعاًبیوہ کے علاوہ تین دن سے زیادہ سوگ منانا کسی کے لیے جائز نہیں، اگر وفات کو تین دن ہوچکے ہوں تو معمول کے مطابق عید کی خوشی اور دیگر امور انجام دینے چاہئیں، چالیسویں اور پہلی عید وغیرہ تک سوگ منانے کی روایت غیر اسلامی ہے۔
5-لازم سمجھے بغیر محض خوشی کے اظہار کے لیے بچوں کو عیدی دینے کی حیثیت تحفہ کی ہے۔
                                                         فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر :  144408101629               دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین