بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظمت کی عقلی دلیل

رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظمت کی عقلی دلیل


پیشِ نگاہ مضمون محدث العصر حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوری  رحمہ اللہ  کے ایک پشتو بیان کی اردو ترجمانی ہے، جو ماہنامہ ’’جامعہ اسلامیہ‘‘ اکوڑہ خٹک، بابت اگست ۱۹۶۵ء ، جلد:۶، شمارہ:۵ میں شائع ہوا تھا۔ افادۂ عام کے لیے نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔                                         (ادارہ)

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی راہنمائی کے لیے ہر دور میں پیغمبر مبعوث فرمائے ہیں، اور یہ سلسلہ حضرت آدم  علیہ السلام  سے شروع ہوا (اور) حضرت رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ختم ہوا ہے، حدیث میں مذکور پیغمبر ایک لاکھ چوبیس ہزار تھے۔ ہر پیغمبر اپنے دور میں کامل ترین شخصیت ہوتی ہے اور جس مقصد کے لیے اُنہیں بھیجاگیا ہوتاہے بظاہر اُن میں کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ نبی، رسول یا پیغمبر (ہونے کا) مطلب یہ ہے کہ بشری کمالات سے فوق العادۃ شخصیت ہوتی ہے اور حق تعالیٰ خود ان کا انتخاب کرتے ہیں، اپنی کوشش یا ریاضت سے یہ منصب حاصل نہیں ہوتا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ربانی عطیہ ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس زمانہ میں یہ پیغمبر مبعوث ہوتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ اس زمانہ میں جتنا شر وفساد ہواور جتنی بھی خرابیاں ہوں، نبی کی شریعت میں (اُن کا) پورا پورا علاج موجود ہوگا، لیکن ہر پیغمبر ایک محدود زمانے کے لیے آتے اور ایک خاص قوم کے لیے بھیجے جاتے تھے، غرض یہ کہ اُن کی اصلاح اور ہدایت کا دائرہ ایک حد تک ہوتاتھا۔
اسی طرح ایک اور بات بھی قابلِ غور ہے کہ نسلِ انسانی کے ابتدائی دور میں تمدن بھی چھوٹا اور محدود تھا، اس میں خرابیاں بھی محدود تھیں اور نسلِ انسانی کی ضرورتیں بھی کم تھیں، رفتہ رفتہ دنیا ترقی کرتی رہی اور تمدن بھی بلند ہوتا رہا، معاشرہ میں نت نئے امراض پیدا ہونا شروع ہوئے۔ گویا یوں سمجھنا چاہیے کہ جیسے ایک معصوم بچہ ہوتا ہے، اس کی ضرورتیں بہت کم ہوتی ہیں، جتنا بڑا ہوتا جاتا ہے تو اس کی ضرورتیں بھی زیادہ ہوتی جاتی ہیں اور جتنی گھریلوزندگی بڑھتی جاتی ہے، اتنی ہی اس کی حاجتیں بڑھتی جاتی ہیں، اسی طرح گزشتہ انبیاء کرام  علیہم السلام  کے زمانے میں دنیا کا ابتدائی دور تھا اور ہر پیغمبر ایک خاص زمانہ کے لیے تھا، لیکن خاتم النبیین  صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا کے ایسے دور میں تشریف لائے کہ دنیا کی عمر پختہ ہوچکی تھی، ہر قسم کی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں، اور اقوامِ (عالم) میں دنیا کا ہر مرض پیدا ہوگیا تھا، ایک طرف بیزنطینی حکومت اپنی معراج تک پہنچ چکی تھی، دوسری طرف ایران کی مجوسی حکومت کمال تک پہنچی ہوئی تھی، مال ودولت کی کثرت کی وجہ سے کسی قوم میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں وہ سب پیدا ہوگئی تھیں، دوسری طرف جزیرۃ العرب میں افلاس وغربت کا وہ درجہ تھا کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کے ایسے نازک دور میں کہ گویا پوری دنیا دو حکومتوں میں تقسیم ہوچکی تھی، جس طرح کہ آج کی دنیا روس اور امریکہ کے درمیان تقسیم ہوچکی ہے۔ 
ایسے بھیانک دور میں اس غریب ومفلس اور غیر متمدن قوم میں ایک شخص اُٹھتا ہے اور پوری دنیا کی (اس) عظیم الشان طریقہ سے اصلاح کرتا ہے۔ آج بھی دنیا حیرت زدہ ہے کہ تئیس (۲۳) سالوں میں کتنا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا اور اس کی اصلاح کا دائرہ صرف جزیرۃ العرب تک یا  صرف یمن، شام ومصر تک یا صرف عرب تک محدود نہ تھا، بلکہ عرب وعجم کے ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ سب کے لیے ایک نسخۂ شفا پیش کیا ، اور قیامت تک جو نسلیں اور اقوام آئیںگی، ان سب کے لیے اور قیامت تک معاشرہ میں جتنی خرابیاں اور امراض پیدا ہوںگے، ان سب کا علاج ا س میں موجود ہے، وہ کتنا عظیم پیغمبر ہوگا، اور اس کی شریعت کتنی بڑی شریعت ہوگی۔
ایک مدرسہ، ایک اسکول، ایک مکتب (جو) ایک گاؤں کے لیے بنا ہوتا ہے، (اور) ایک مدرسہ، ایک مکتب (جو) ایک شہر کے لیے تیار کیا گیا ہو‘ ان دونوں میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے، اور اگر کہیں کوئی مدرسہ پوری دنیا کے لیے ہو تو وہ کتنا بڑا ہوگا، اور اس میں کتنے انتظامات ہوںگے، اور ( اس میں) قیامت تک جو بے علم (اَن پڑھ، جاہل) آئیںگے، ان سب کی تعلیم اور تربیت کے لیے انتظام موجود ہو (تو) وہ کتنا بڑا مدرسہ ہوگا۔
 اسی طرح مثال لے لیجئے، ایک ہسپتال ایک چھوٹے گاؤں کے لیے ہو اورایک ہسپتال ایک بڑے شہر کے لیے ہو، ان دونوں میں کتنا فرق ہوگا، اگر کہیں ایسا شفاخانہ بن جائے جو تمام دنیا کے لیے ہو، تو اس شفاخانہ کے انتظامات، دوائیوں، بستروں، ڈاکٹروں و کمپوڈروں کا کوئی حساب نہیں لگاسکتا، اگر یہ دو مثالیں کسی کو سمجھ میں آجائیں تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کمالات کا اندازہ کسی قدر لگاسکے گا۔
جب ایک پیغمبر دنیا کی تمام اقوام کے لیے ہو، ہر زمانہ کے لیے ہو، قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے ہو، اورہرزمانہ کے لیے ہو، تو وہ کتنا عظیم پیغمبر ہوگا!
 رہا یہ شبہ کہ قیامت تک نجانے یورپ اور امریکہ میں کیا کیا امراض پیدا ہوںگے تو ایک ایسا قانون جو ایک خاص زمانہ میں آیاہو، وہ کس طرح ساری دنیا کے لیے قانون بن سکتا ہے؟ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ قانون اس ذات نے بنایاہے جس کا علم کامل اس بات سے باخبر تھا کہ قیامت تک یہ چیزیں پیدا ہوں گی، اور اس کی قدرت بھی ایسی کامل تھی کہ وہ ہرچیز کا علاج کرسکتا تھا، اور پھر دنیا کا خالق بھی (وہی ذات) تھی (تو) جتنا علم پیدا کرنے والے کو ہوسکتا ہے، کسی اور کو اس کا امکان بھی نہیں، تو خدا تعالیٰ جو اس عالم کا خالق ہے، اس کا علم بھی محیط ہے اور اس کی قدرت بھی کمال کو پہنچی ہوئی ہے، اپنی پیدا کردہ دنیا کو اس سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔ 
یہ سوال اس وقت کیا جاسکتا تھا کہ جب اسلام اور قرآن‘ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بنائی ہوئی اشیاء ہوتیں، اور بشر کا علم اور قدرت اتنی نہیں ہوسکتی، لیکن جب قرآن اور اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں، تو یہ سوال بالکل نہیں کیا جاسکتا۔ 
آج ہم دنیا کی اقوام کو یہ چیلنج دے سکتے ہیں کہ آپ کے معاشرہ میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں اور کمیونزم اور کیپٹل ازم کی وجہ سے دنیا میں جو تباہی کا سیلاب آرہا ہے، اسلام اور قرآن کریم کے سیدھے راستہ کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔ دنیا کی اس مادی ترقی میں جتنی پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں، حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قانون کے سوا اُن کا اور کوئی علاج نہیں، اس سے بڑھ کر آپ  علیہ السلام  کی عظمت کی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟!

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین