بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعاؤں کے نفسیاتی پہلو

رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعاؤں کے نفسیاتی پہلو

 

عبد اورمعبود،بندے اور رب، خالق اور مخلوق کے تعلق کی حسین ترین جھلکیاں دیکھنی ہوں تو کمالاتِ محمدی کے اس باب کا مطالعہ کرنا چاہیے، جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعائیں یا مناجاتِ نبوی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ دعائیں کیا ہیں؟ ایک مُحِب کی محبوب سے باتیں، عارفوں کے سردار کا اظہارِعجز، اپنی بے بسی و بے کسی اور ربِ ذوالجلال کی بڑائی کا اعتراف، شکستہ دلوں کی تسلی کا سامان، دنیا و آخرت کی ساری خیروں کی طلب، تعلق مع اللہ کا نسخہ اور قبولیت کی سند۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی قدّس سرّہٗ کے بقول آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعائیں بھی ایک معجزہ ہیں۔ ان دعاؤں کی نافعیت اور جامعیت پر بہت کچھ لکھا گیا اور بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، تاہم ان کا ایک اہم پہلو نفسیاتی مسائل کا حل اور ان سے نجات ہے۔
نفسیاتی مسائل آج کی دنیا میں بہت اہمیت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں،حتیٰ کہ کثیر جسمانی امراض کا آغاز نفسیاتی مسائل سے ہوتا ہے۔ ذہنی دباؤ (ڈیپریشن) تناؤ (ٹینشن) کی وجہ سے فشارِخون (بلڈپریشر)، مرضِ سکر (شوگر) اور معدہ کی تیزابیت (ایسیڈیٹی) عام ہیں۔ اسی طرح وساوس سے جسمانی ایذا، حتیٰ کہ خود کشی کے رجحانات وغیرہ نفسیاتی مسائل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جسمانی امراض کی مثالیں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات میں بحمداللہ تمام ظاہری وباطنی امراض کے حوالے سے رہنمائی ملتی ہے۔ باطنی امراض کا تزکیہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقاصدِ نبوت میں سے تھا، تاہم جسمانی امراض کے حوالے سے بھی وقیع رہنمائی ملتی ہے۔ غموں، دکھوں، بےچینیوں اور مایوسیوں میں گھرے افراد کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات و ارشادات اور دعاؤں میں سکھ چین، راحت اور اُمید کی کرنیں موجود ہیں۔
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی دنیا اچھی ہو اور جس کا اعتقاد آخرت پر ہو اس کے لیے آخرت کا اچھا ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ دنیا اگرچہ ایک عارضی قیام گاہ ہے، لیکن انسان اس میں کسی برائی اور مصیبت پیش آنے سے گھبراتا ہے۔ دنیوی تکالیف بسااوقات انسان کو اس کے مقصدِ اصلی یعنی عبادت اور آخرت کی تیاری سے غافل کردیتی ہیں، لہٰذا مومن بندہ دنیا کی اچھائی بھی مانگتا ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی جامع ترین دعا میں ان تمام پہلووؤں کی رعایت رکھی گئی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔‘‘
’’ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر۔‘‘
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
اس آیت میں لفظِ حسنہ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں اور بھلائیوں کو شامل ہے،مثلاً دنیا کی حسنہ میں بدن کی صحت، اہل و عیال کی صحت، رزقِ حلال میں وسعت و برکت، دنیوی سب ضروریات کا پورا ہونا، اعمالِ صالحہ، اخلاقِ محمودہ، علمِ نافع، عزت و وجاہت، عقائد کی درستی، صراطِ مستقیم کی ہدایت، عبادات میں اخلاصِ کامل سب داخل ہیں۔ اور آخرت کی حسنہ میں جنت اور اس کی بے شمار اور لازوال نعمتیں اور حق تعالیٰ کی رضا اور اس کا دیدار، یہ سب چیزیں شامل ہیں۔ 
مایوسیوں اور بے چینیوں کی بڑی وجہ شکر اور صبر سے محرومی ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی عطا پر شکر کا عادی بن جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں اضافہ ہونے کے ساتھ اپنی خوش قسمتی کا احساس ترقی کرتا رہتا ہے، ایسے ہی اگر آدمی مصیبت اور ناگواریوں پر صبر کا عادی بن جائے اور یہ جان لے کہ یہ حالت اسے آزمانے کے لیے ہےکہ وہ اپنے ایمان پر پکا ہے یا نہیں؟ اور یہ حال طاری کرنے والی ذات بھی اس کے فائدے پر نگاہ رکھے ہوئے ہے تو اس کے لیے مصیبت برداشت کرنا آسان ہو جائے گا، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے شاکرو صابر بننے کی دعا بھی مانگی ہے۔ تاہم یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ عام حالات میں اللہ تعالیٰ سے صبر مانگنا ایک طرح کا اپنے آپ کو از خود مشکلات کے لیے پیش کرنا ہے، لہٰذا عام حالات میں محض صبر کی بجائے شکر اور صبر کی صفات اکٹھی مانگنی چاہئیں، جیسا کہ مندرجہ ذیل دعا میں مانگا گیا ہے:
’’رَبِّ اجْعَلْنِيْ لَکَ شَکَّارًا، لَکَ ذَکَّارًا، لَکَ رَہَّابًا، لَکَ مُطِيْعًا، إِلَيْکَ مُخْبِتًا، إِلَيْکَ اَوَّاہًا مُنِيْبًا۔‘‘
 ’’اے اللہ! مجھے اپنا خوب شکر کرنے والا بنا، تیرا خوب ذکر کرنے والا بنا، تجھ سے بہت زیادہ ڈرنے والا بنا، تیرا سراپا اطاعت گزار اور فرمانبردار بنا، تیرے حضور انتہائی عاجزی اور انکساری سے جھکنے والا بنا، نرم دل اور تیری بارگاہِ کرم کی طرف باربار رجوع ہونے والا بنا۔‘‘
آج کی دنیا کا بڑا مسئلہ قناعت کا نہ ہونا ہے۔ قناعت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو جو دیا ہے اس پر مطمئن رہے، بلکہ اسے اپنے استحقاق سے بڑھ کر سمجھے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی ایسی چیز کے پیچھے پڑجاتا ہے جو اس کے مقدّر میں ہی نہیں ہوتی یا جو چیز اس کے حق میں خلافِ مصلحت تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس سے دور کردی تھی۔بہت سا مال،بہت سا وقت اور کثیر ذہنی صلاحیتیں صرف کرنے کے بعد جب آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ:

اس راہ میں اِک عمر گزار آئے تو جانا

یہ راہ فقط لوٹ کے آنے کے لیے ہے

اس وقت مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہلے ہی سے ایسی دعا تلقین فرما دی ہے جو ہمیں قناعت بھی عطا کرتی ہے اور اس چیز کے پیچھے اپنی توانائیاں خرچ کرنے سے بھی باز رکھتی ہے جس کا ملنا مقدر میں نہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ، وَوَسِّعْ لِيْ خُلُقِيْ وَطَيِّبْ لِيْ کَسْبِيْ، وَقَنِّعْنِيْ بِمَا رَزَقْتَنِيْ، وَلَاتُذْہِبْ قَلْبِيْ إِلٰی شَيْءٍ صَرَّفْتَہٗ عَنِّيْ۔‘‘
’’یا اللہ! میرے گناہ معاف فرما،میرے اخلاق وسیع کردے،میری روزی پاک کردے، جو آپ نے مجھے دیا اس پر مجھے قناعت نصیب فرمائیں اور جو چیز آپ نے مجھ سے پھیر دی اس کی طرف میرے دل ( کی طلب) کو نہ لے کر جائیں۔‘‘
اسی طرح انسان اپنی کم سمجھی کے باوصف ایسی چیزوں سے محبت کر بیٹھتا ہے جو اسے اپنے میں مشغول کر کے مقصدِحقیقی یعنی بندگیِ مولیٰ اور یادِ الٰہی سے غفلت میں ڈال دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں یہ محض اللہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے کہ ان چیزوں کو بندے سے دور کردیا جائے اور بندے کو ان چیزوں سے دور کر دیا جائے۔ایک مومن کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ ایسی چیزوں کے دور ہونے کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے اوقاتِ زندگی کو یادِ الٰہی میں بسر کرے:
’’اللّٰہُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّيْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ فَرَاغًا لِيْ فِيْمَا تُحِبُّ۔‘‘
’’اے اللہ! میری پسندیدہ چیزوں میں سے جس چیز کو آپ نے مجھ سے دور کردیا اسے میرے لیے ا پنی پسندیدہ چیز کے لیے فارغ ہو جانے کا ذریعہ بنا دے۔‘‘

معاملات کی عدم درستگی اور نفسیاتی اُلجھنیں 

ذہنی دباؤ اور ڈپریشن وغیرہ کا ایک بڑا سبب دوسرے انسانوں کے ساتھ معاملات کی عدم درستگی ہے۔ کبھی یہ پریشانی دوسروں کے حسد کی وجہ سے ہوتی ہےتو کبھی حق کا تقاضا کرنے کی وجہ سے۔ بسا اوقات آدمی قرض لیتا ہے، لیکن جلد ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے قرض خواہوں کی طرف سے تقاضا شروع ہوجاتا ہے، یہ ایک مستقل ذہنی تناؤ کا باعث ہوجاتا ہے۔اس کیفیت سے بچنے کے لیے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعاؤں میں ہمارے لیے روشنی کا سامان موجود ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے اکثر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نماز کے بعد یہ دعا کرتے دیکھا:
’’اللّٰہُمَّ إِ نِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْمَـاْثَمِ وَالْمَـغْرَمِ۔‘‘یعنی ’’اے اللہ! میں گناہ اور قرضہ سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
ایک صاحب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا کہ آپ مقروض ہونے سے اتنی پناہ کیوں مانگتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : آدمی جب مقروض ہوتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے۔ 
اسی طرح ابوامامہ انصاری ؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسجد میں ایسے وقت میں دیکھا جب کہ نماز کا وقت نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے طرح طرح کی پریشانیوں نے گھیرا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کلمات نہ بتلاؤں کہ جب تم انہیں پڑھو تو اللہ تعالیٰ تم سے غم دور فرمادے اور تمہارا قرض بھی ادا کروادے۔ ابوامامہ ؓ نے عرض کیا: جی ضرور۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ دعا صبح شام پڑھنے کے لیے ارشاد فرمائی :
’’اللّٰہُمَّ إِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّيْنِ، وَقَہْر الرِّجَالِ ۔‘‘
’’اے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں فکر اور غم سے،اور آپ کی پناہ مانگتا ہوں کم ہمتی اور سستی سے، اور آپ کی پناہ مانگتا ہوں بزدلی اور بخل سے،اور آپ کی پناہ مانگتا ہوں قرض کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤسے۔‘‘
ذہنی ونفسیاتی امراض سے بچاؤ اور ان سے متاثر افراد کے لیے یہ دعا ایک عظیم تحفہ ہے۔

عافیت کی دعا
 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع ترین دعاؤں میں عافیت کی دعا ہے۔کئی جگہوں پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عافیت کی دعا مانگی ہے، بلکہ امت کو اس کے مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اپنے چچا حضرت عباس  رضی اللہ عنہ  کو بار بار عافیت کی دعا مانگنے کو ارشاد فرمایا:
’’عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُـطَّلِبِ رضي اللہ عنہ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ! عَلِّمْنِیْ شَیْئًا اَسْاَلُہُ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللہَ الْعَافِیَۃَ، فَمَکَثْتُ اَیَّامًا، ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ! عَلِّمْنِيْ شَیْئًا اَسْاَلُہُ اللہَ، فَقَالَ لِیْ: یَا عَبَّاسُ! یَاعَمَّ رَسُوْلِ اللہِ! سَلِ اللہَ العَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔‘‘
’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہ: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرارہااور پھردوبارہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں گیا اورمیں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے کہا: اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔‘‘
عافیت ایک ایسی جامع چیز ہے جس میں دنیا اورآخرت کی تمام بھلائیاں شامل ہیں۔ شارحِ مشکوٰۃ علامہ نواب قطب الدین دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: عافیت کے معنی دین میں فتنہ سے سلامتی اوربدن میں بری بیماریوں اور سخت رنج سے نجات ہے۔                              (مظاہر حق جدید، ص:۷۰۷، ج:۲) 
حقیقت میں انسان دنیاو آخرت کی ان سبھی بھلائیوں کا محتاج ہےاور ان میں سے کسی ایک کے نہ ہونے سے طبیعت میں انتشار اور بے چینی رہتی ہے، اسی لیے عافیت کے لفظ سے آدمی ان سب چیزوں کو مانگ لیتا ہے، گویا ’’سب کچھ ہی مانگ لیا ہے تجھ کو مانگ کر‘‘ اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی جب مدین پہنچے تو کمالِ تواضع سے آپ نے اللہ تعالیٰ سے جامع دعا مانگ لی تھی:
’’رَبِّ اِنِّيْ لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٍ۔‘‘
’’میرے پروردگار! جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کردے،میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘
’’وَعَنْ اَنَسٍ - رَضِيَ اللہُ عَنْہُ - اَنَّ رَسُولَ اللہِ - صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ - عَادَ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ قَدْ خَفَتَ، فَصَارَ مِثْلَ الْفَرْخِ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: ہَلْ کُنْتَ تَدْعُو اللہَ بِشَيْءٍ اَوْ تَسْاَلُہُ إِيَّاہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، کُنْتُ اَقُولُ: اللّٰہُمَّ مَا کُنْتَ مُعَاقِبِيْ بِہٖ فِيْ الْآخِرَۃِ فَعَجِّلْہُ لِيْ فِيْ الدُّنْيَا. فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: سُبْحَانَ اللہِ! لَا تُطِيْقُہٗ وَلَاتَسْتَطِيعُہٗ: اَفَلَا قُلْتَ: اللّٰہُمَّ آتِنَا فِيْ الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِيْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؟ قَالَ: فَدَعَا اللہَ بِہٖ فَشَفَاہُ اللہُ۔‘‘      (رواہ مسلم)
’’حضرت انس  رضی اللہ عنہ  سے ایک واقعہ منقول ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہ شخص پرندے کے بچے کی طرح لاغر اور کمزور ہوچکے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے پوچھا کہ: کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ: میں اللہ سے دعا کرتا تھا کہ اے اللہ! جو عذاب تو نے مجھے آخرت میں دینا ہے، وہ دنیا ہی میں دے دے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’سُبْحَانَ اللہِ!‘‘ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور تم میں اتنی استطاعت ہی نہیں، تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے تھے: ’’اللّٰہُمَّ اٰتِنَا فِيْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِيْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔‘‘ یعنی ’’اے اللہ! ہمارے ساتھ دنیا و آخرت میں بھلائی کا معاملہ فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا،چنانچہ انہوں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دے دی۔ ‘‘
اذان اور اقامت کے درمیانی وقت میں دعا قبول ہوتی ہے۔ایک صحابی ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا کہ اس وقت میں کون سی دعا مانگا کروں؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عافیت مانگنے کی ہدایت فرمائی:
’’وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ فُتِحَ لَہٗ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَہٗ اَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ وَمَا سُئِلَ اللہُ شَيْئًا يَعْنِي اَحَبَّ إِلَيْہِ مِنْ اَنْ يُسْاَلَ الْعَافِيَۃَ۔‘‘     (رَوَاہُ التِّرْمِذِيّ )
’’عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تم میں سے جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے اور اللہ تعالیٰ سے عافیت سے بڑھ کر اس کی پسندیدہ چیز نہیں مانگی گئی۔‘‘
مرقاۃ میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ عافیت اللہ تعالیٰ کو اس لیے زیادہ محبوب ہے کہ یہ لفظ دونوں جہانوں کی بھلائیوں کا جامع ہے جس میں صحت اور سلامتی شامل ہے۔عافیت کی اس اہمیت کی وجہ سے عافیت کی طلب پر تاکید کو تفصیل سے بیان فرمایا، چنانچہ فرمایا:
’’اللّٰہُمَّ عَافِنِيْ فِيْ بَدَنِيْ، اللّٰہُمَّ عَافِنِيْ فِيْ سَمْعِيْ، اللَّہُمَّ عَافِنِيْ فِيْ بَصَرِيْ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اَنْتَ۔‘‘
’’اے اللہ! میرے بدن میں عافیت دیجیے،میرے کانوں میں عافیت دیجیے، میری آنکھوں میں عافیت دیجیے، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘

ماحول اور نفسیاتی مسائل

نفسیاتی اُلجھنوں کی بڑی وجہ ماحول کا طبیعت سے موافق نہ ہونا ہے۔ سب سے پہلے وہ ماحول جس میں انسان کا بے تکلفانہ وقت گزرتا ہے،اس کا گھر ہے۔ بیوی بچے چونکہ انسان کے تابع ہوتے ہیں، لہٰذا انسان انہیں اپنے سے ہم آہنگ دیکھ کر مسرّت و شادمان ہوتا ہے۔ جو آدمی دین سے محبت کرتا ہے اور خود دین پر عامل ہے،اس کے لیے اپنے اہل و عیال کی دینداری اور اعمالِ صالحہ میں مشغولی دلی سکون کا باعث ہے، جبکہ گھر والوں کا بے دین ہونا اور گناہوں میں مشغول ہونا اس کے لیے غم اور پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے اپنے اہل و عیال کی طرف سے بے فکر نہیں رہتے، وہ جہاں انہیں دنیوی آسائش پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، وہیں ان کی دینی ضروریا ت اور اُخروی سہولت کا اس سے بڑھ کر خیال رکھتے ہیں۔اپنی کو شش اور فکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں کہ:
’’رَبَّنا ہَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَامًا‘‘ (الفرقان:۷۴) 
’’ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنادے۔‘‘
جدّ الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لیے نماز قائم کرنے کی دعا مانگ کر ایک مومن کامل کی دلی خواہش کا نقشہ پیش کردیا تھا:
’’رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلَاۃِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ‘‘   (ابراہیم:۴۰) 
’’یا رب! مجھے بھی نماز قائم کرنے والا بنادیجیے اور میری اولاد میں سے بھی (ایسے لوگ پیدا فرمائیے جو نماز قائم کریں) اے ہمارے پروردگار! اور میری دعا قبول فرمالیجیے۔‘‘
 اسی طرح اولاد کی آسودہ حالی سے آدمی کو تسلّی ہوتی ہےاور اس کی معاشی بدحالی اور تنگی سے آدمی کو غم ہوتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لیے رزق کی فراخی کی دعا بھی مانگ لی تھی : ’’وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ‘‘ اور یہ اس لیے تاکہ وہ شکرگزار بندے بن جائیں: ’’لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ‘‘ یہ دعائیں قرآنِ مقدس میں محفوظ ہیں اور نفسیاتی اُلجھنوں سے نجات کا ذریعہ ہیں۔
نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعاؤں میں جہاں اہل وعیال کے لیے خیر کی طلب ہے، وہیں ان کے شر سے پناہ بھی مانگی گئی ہے۔ شادی کے بعد زوجہ سے ملاقات کے وقت وظیفۂ زوجیت کی ادائیگی سے قبل اس دعا کا پڑھنا مسنون ہے:
’’اللّٰہُمَّ إِنِّي اَسْاَلُکَ خَيْرَہَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَہَا عَلَيْہِ، اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَہَا عَلَيْہِ۔‘‘
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی خیر مانگتا ہوں، اور تو نے اس کو جن خصلتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، ان کی بھلائی کا طلبگار ہوں، اور اس کے شر سے اور جن خصلتوں کے ساتھ تو نے اس کو پیدا کیا ہے، ان کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
اسی طرح ایسی بیوی سے پناہ مانگی گئی ہے جس کی برائی اور تکلیف سے آدمی قبل از وقت بوڑھا ہو جائے۔ ایسے ہی ایسی اولاد کےشر سے پناہ مانگی گئی ہے جو آدمی کے لیے وبالِ جان اور آخرت میں مواخذہ کا باعث بن جائے:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَارِ السُّوْءِ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِيْ قَبْلَ الْمَـشِيْبِ، وَمِنْ وَلَدٍ يَکُوْنُ عَلَيَّ رَبًّا، وَمِنْ مَالٍ يَکُوْنُ عَلَـيَّ عَذَابًا، وَمِنْ خَلِيْلٍ مَاکِرٍ، عَيْنُہٗ تَرَانِيْ، وَقَلْبُہٗ يَرْعَانِيْ، إِنْ رَأی حَسَنَۃً دَفَنَہَا، وَإِذَا رَأی سَيِّئَۃً اَذَاعَہَا۔‘‘
’’اے اللہ! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں برے پڑوسی سے اور ایسی بیوی سے جو مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کر دے اور ایسی اولاد سے جو میرا آقا بن بیٹھے اور ایسے مال سے جو میرے لیے باعث عذاب بن جائے اور ایسے چالباز دوست سے جس کی آنکھیں مجھے تک رہی ہوں اور اس کا دل میرے پیچھے پڑا ہو اور میری ہر نیکی کو دباتا جائے اور ہر برائی کو نشر کرتا جائے۔‘‘

وساوس

بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل میں بڑا کردار وساوس کا بھی ہے۔وساوس وسوسہ کی جمع ہے جس کا مطلب ایک نہ سنائی دینے والی آواز ہے۔وساوس ایمان وعقائد سے متعلق بھی ہوتے ہیں اور عمل سے متعلق بھی۔عقائد میں مثلاً اللہ سبحانہ وتعالیٰ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یا دیگر انبیاء B ،فرشتوں، تقدیر، جنت وجہنّم کے متعلق ۔ عمل کے متعلق مثلاً پاکی اور ناپاکی کے وسوسے،حلال و حرام کے متعلق وسوسےیا اپنے دیگر معمولاتِ زندگی کے بارے میں بےبنیاد خیالات مثلاً اپنی صحت کے متعلق وسوسے۔ وسوسے نفسانی بھی ہوتے ہیں جو خود انسان کے اندر سے پریشان خیالات کی صورت میں ظاہر ہورہے ہوتے ہیں اور شیطانی بھی ہوتے ہیں۔ ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ بھی ہوتا ہے اور شیطان بھی۔ فرشتہ اس کے دل میں اچھے خیالات ڈالتا ہے، جس سے انسان کی طبیعت نیکی کی طرف مائل ہوتی ہے، جبکہ شیطان برے خیالات ڈالتا ہےجس سے انسان کی طبیعت برائی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ عام طور پر آدمی جب اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو اس وقت شیطان کو اپنا زہر گھولنے کا اچھا موقع مل جاتا ہے۔ جوں ہی آدمی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے تو شیطان گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اسی کا ایک بڑا اثر وہ ہے جو نمازکی پابندی پر ملتا ہے کہ نماز آدمی کو بےحیائی اور برے کاموں سے روک دیتی ہے۔
آج کل کے نفسیاتی مسائل میں وساوس کی بھی کثرت ہے۔ لوگ طرح طرح کے ایسے مسائل بتاتے ہیں جن کی کوئی صحیح بنیاد نہیں ہوتی، مثلاً کسی کو یہ وسوسہ ہوتا ہے کہ اس کا چہرہ خراب ہوتا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی کو صورتیں چلتی نظر آتی ہیں تو کسی کو آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔ جو لوگ عبادات کے پابند ہوتے ہیں انہیں نماز، روزے، وضو حتیٰ کہ نکاح برقرار رہنے تک میں وسوسے آتے ہیں۔ (Obcessive Compulsive Disorders OCDs) کے نام سے ان نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے قسم ہا قسم کی دوائیاں دی جا رہی ہیں۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان وساوس کے لیے ایسا علاج اوردعا تعلیم فرمائی ہے جس سے یہ وساوس نہ صرف دور ہوتے ہیں، بلکہ بجائے پریشان کرنے کے قربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’وَعَنْ اَبِيْ ہُرَيْرَۃَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: يَاْتِيْ الشَّيْطَانُ اَحَدَکُمْ فَيَقُوْلُ: مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ حَتّٰی يَقُوْلَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ؟ فَإِذَا بَلَغَہٗ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللہِ وَلْيَنْتَہِ ۔‘‘
’’حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے تو کہتا ہے کہ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب وہ یہاں تک پہنچے تو اللہ سے پناہ مانگے اور اس وسوسہ سے اپنے آپ کو روک لے۔‘‘
’’وَعَنْ اَبِيْ ہُرَيْرَۃَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُوْنَ حَتّٰی يُقَالَ: ہٰذَا خَلَقَ اللہُ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللہَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ: آمَنْتُ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۔‘‘
’’حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے، یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا؟ تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو آدمی اس طرح کا کوئی وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ کہے :’’آمَنْتُ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ‘‘ (میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا)۔‘‘
قرآن کریم میں شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل دعا تلقین کی گئی ہے:
’’رَبِّ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّيَاطِيْنِ۔‘‘
 جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعاؤں میں ایک دعا ہے، جس کا پڑھتے رہنا نفس کے مکرو فریب اور وسوسوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے:
’’اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِيْ رُشْدِيْ وَاَعِذْنِيْ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ ۔‘‘
’’اے اللہ! میرے دل میں میری ہدایت (بھلائی) ڈال دیجیے اور میرے نفس کے شر سے اپنی پناہ میں رکھیے۔‘‘

دفتری اور کاروباری اُلجھنیں

بسا اوقات آدمی دفتری یا کاروباری معاملات میں ایسے لوگوں کے ماتحت ہوتا ہے جو اس کے لیے باعثِ اذیت ہوتے ہیں، چنانچہ وہ کام جسے اس نے مالی آسودگی حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا تھا، اب ذہنی دباؤ اور دردِ سر کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسی تکلیف سے حفاظت ونجات کا سامان رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات میں بحسن وخوبی موجود ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’عَنْ خَالِدِ بْنِ اَبِيْ عِمْرَانَ، اَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: قَلَّمَا کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ يَقُوْمُ مِنْ مَجْلِسٍ حَتّٰی يَدْعُوَ بِہٰؤلَاءِ الدَّعَوَاتِ لِاَصْحَابِہٖ: 
اَللّٰہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِکَ مَا يَحُوْلُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيْکَ، وَمِنْ طَاعَتِکَ مَا تُبَلِّغُنَا بِہٖ جَنَّتَکَ، وَمِنَ الْيَقِيْنِ مَا تُہَوِّنُ بِہٖ عَلَيْنَا مُصِيْبَاتِ الدُّنْيَا، وَمَتِّعْنَا بِاَسْمَاعِنَا وَاَبْصَارِنَا وَقُوَّاتِنَا مَا اَحْيَيْتَنَا، وَاجْعَلْہُ الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَاْرَنَا عَلٰی مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا عَلٰی مَنْ عَادَانَا، وَلَا تَجْعَلْ مُصِيْبَتَنَا فِيْ دِيْنِنَا، وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا اَکْبَرَ ہَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا۔
‘‘
’’حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  مجلس سے اُٹھتے ہوئے اکثر اپنے اصحاب کے لیے یہ دعا فرمایا کرتے تھے: 
’’اے اللہ! ہمیں اپنا ایسا خوف عطا فرما جو ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل ہوجائے، اور اپنی ایسی اطاعت گزاری نصیب فرما، جس کی بدولت تو ہمیں جنت میں داخل فرمادے ، اور یقین کی وہ دولت عطا فرما جس کی برکت سے تو ہم پر دنیاوی مصیبتوں کا آسان فرمادے ، اور ہمارے کانوں ، آنکھوں اور طاقت کو ہماری زندگی کے لیے فائدہ مند بنا اور اسے ہمارے بعد بھی جاری فرما، اور ہم پر ظلم اور دشمنی کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما، اور ہماری مصیبتوں کو ہمارے دین میں داخل نہ فرما ، اور ہم پر دنیاوی غموں کو حاوی نہ فرما ، اور ہم پر ایسے لوگوں کو مسلط نہ فرما جو ہم پر رحم نہ کریں۔‘‘

بڑھاپا اور ذہنی اُلجھنیں

انسان اگرچہ زندگی گزارنے میں دوسرے انسانوں کا ضرورت مند رہتا ہے، لیکن دوسروں پر بوجھ بننا اور نکمّا بن کر رہنا ایک شریف آدمی کو ناگوار ہوتا ہے۔ تاہم بڑھاپے میں آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں پر بوجھ بن جاتا ہے، طرح طرح کے امراض میں گِھر کر انسان بسا اوقات مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعائیں سہارا بنتی ہیں۔ مندرجہ ذیل دعائیں ملاحظہ فرمائیں:
’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِکَ عَلَـيَّ عِنْدَ کِبَرِ سِنِّيْ، وَانْقِطَاعِ عُمْرِيْ۔‘‘
’’اے اللہ! میرا سب سے وسیع رزق بڑھاپے میں اور عمر کے اختتام کے وقت مقرر کیجیے ۔‘‘
’’اَللَّہُمَّ اجْعَلْ خَيْرَ عُمُرِيْ آخِرَہٗ، اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ خَوَاتِيْمَ عَمَلِيْ رِضْوَانَکَ، اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ خَيْرَ اَيَّامِيْ يَوْمَ اَلْقَاکَ۔‘‘
’’اے اللہ! میری عمر کا آخری حصہ بہترین حصہ بنائیے، میرے عمل کے خاتمےآپ کی رضا پر ہوں، میرا بہترین دن وہ ہو جس دن میں آپ سے ملوں۔‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے تربیت میں نفسیات کی رعایت

ایک نوجوان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے (معاذاللہ) زنا کی اجازت مانگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں قریب بلایا اور سمجھایا :
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے! لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اُسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے فرمایا: میرے قریب آجاؤ! وہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے پوچھا: کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کروگے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر دریافت فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے۔اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دعا فرمائی :
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہٗ، وَطَہِّرْ قَلْبَہٗ، وَحَصِّنْ فَرْجَہٗ۔‘‘
’’اے اللہ! اس کے گناہ کو معاف فرما،اس کے دل کو پاک فرمااوراس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما۔‘‘
راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد زنا کے برابر کوئی فعل اس نوجوان کی نظر میں برا نہیں تھا۔یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نوجوان صحابیؓ کی پیغمبرانہ شان کے مطابق نفسیاتی تربیت فرمائی اور ان کے حق میں دعا بھی فرمائی، جس کا اثر تھا کہ جس کام کی وہ اجازت مانگ رہے تھے، اب وہی ان کی نظر میں بدترین بن گیا۔

دعا میں اعتدال کی رعایت

انسانی فطرت ہے کہ انسان بے عزت ہونا پسند نہیں کرتا، تاہم اس جذبے کا اعتدال میں ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر اس میں افراط ہوجائے تو انسان ایسا نازک مزاج بن جائے کہ خلافِ طبیعت بات کسی صورت برداشت نہ کرسکے، حتّیٰ کہ اس میں اپنی بڑائی کا جذبہ اس حد تک ترقی کر ے گا کہ اسے اپنے علاوہ دیگر انسان ذلیل و حقیر محسوس ہونا شروع ہو جائیں گے اور یہی تکبّر ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے:

تکبّر عزازیل را خوار کرد

بزندانِ لعنت گرفتار کرد

اسی تکبّر کے بارے میں فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبّر ہو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا۔ 
دوسری طرف اگر تفریط ہو جائے تو آدمی اس قدر پستی کا شکار ہو جائے کہ جو چاہے اسے ذلیل کرتا پھرے، اسے بے وقعت و بے قیمت سمجھے اور اس کی بے عزّتی کرتا رہے، لیکن اسے کچھ بھی نہ ہو، اگرچہ حدیثِ پاک میں تواضع اور انکساری کی تعلیم دی گئی ہے اور اپنے آپ کو عاجز سمجھنا پسندیدہ ہے، لیکن اس قدر عاجز بن جانا کہ آدمی ذلیل کیا جائے ،دینی و دنیوی اعتبار سے مضر ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان تمام پہلوؤں کی رعایت اپنی مندرجہ ذیل دعا میں نہایت خوبصورت انداز میں فرمادی ہے:
’’اللّٰہُمَّ اجْعَلْنِيْ شَکُوْرًا، وَاجْعَلْنِيْ صَبُوْرًا، وَاجْعَلْنِيْ فِيْ عَيْنِيْ صَغِيْرًا، وَفِيْ اَعْيُنِ النَّاسِ کَبِيْرًا ۔‘‘
’’اے اللہ! مجھے شکر کرنے والا اور صبر کرنے والا بنادے اور مجھے میری نگاہ میں چھوٹا اور لوگوں کی نگاہ میں بڑا بنادے۔‘‘
اس دعا کی جامعیت ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ سے تواضع بھی مانگی جارہی ہے، اور مخلوق کی نگاہ میں عزت بھی۔ آدمی اپنے آپ کو عاجز و حقیر جانتا ہے، جبکہ دوسرے اسے قابلِ عزّت سمجھتے ہوں۔

مقامِ رضا کی طلب

ٹینشن اور ڈپریشن کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے لیے ایک حالت کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے، لیکن اسے اس کے برعکس حالات پیش آرہے ہوتے ہیں، مثلاً وہ ایک جگہ ملازمت کے لیے کوشش کرتا ہے، لیکن اسے مرضی کے خلاف دوسری جگہ ملازمت مل جاتی ہے۔آدمی ایک جگہ رشتہ کا متمنی ہوتا ہے، لیکن وہاںرشتہ نہیں ہوتا، ایسی صورتحال میں طبیعت پریشان رہتی ہے۔تاہم اگر اس بات کا دھیان ہو کہ ہر اچھی اور بری حالت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو حال بھی پیش آتا ہے اس میں خیر ہوتی ہے تو طبعی پریشانی کے باوجود دل مطمئن رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ بھی نہیں پیدا ہوتا:

مالک ہے جو چاہے کرے تصرُّف
کیا وجہ کسی بھی فکر کی ہے
بیٹھا ہوں میں مطمئن کہ یارب!
مالک بھی تو ہے حکیم بھی ہے

اسی یقین کو پیدا کرنے اور پھر اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہنے کی دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے تلقین فرمائی ہے:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ اَسْاَلُکَ إِيْمَانًا يُبَاشِرُ قَلْبِيْ، وَيَقِيْنًا صَادِقًا حَتّٰی اَعْلَمَ اَنَّہٗ لَا يُصِيْبُنِيْ إِلَّا مَاکَتَبْتَ لِيْ ۔‘‘
جب مومن کی نگاہ میں فاعلِ حقیقی اللہ جلّ جلالُہ کی ذات بن جاتی ہے اور اس کی تقسیم پر راضی بھی ہوجاتا ہے تو اب دوسروں سے شکوے اور شکایت کی حاجت ہی نہیں رہتی اور نہ ہی کوئی احساسِ محرومی رہتا ہے، بلکہ حال یہ بن جاتا ہے کہ :

تیرا غم بھی مجھ کو عزیز ہے 
کہ وہ تیری دی ہوئی چیز ہے 
خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے

دوسروں سے توقعات وابستہ کرنا بھی ناامیدیوں اور مایوسیوں کا سبب بن جاتا ہے۔کوئی عزیز چاہے کتناہی قریبی کیوں نہ ہو ،ہمیشہ توقعات پر پورا نہیں اُتر سکتا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم ہے کہ آدمی لوگوں سے کوئی توقع وابستہ نہ کرے، بلکہ لوگوں سے شریعت کے مطابق سلوک کرتا رہے اور تمام امیدیں اللہ تعالیٰ سے وابستہ رکھے۔ یہی ایک مومن حقیقی کی شان ہے کہ وہ عمل کرتا بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اس کا بدلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کرتا ہے۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعاؤں سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہےکہ دنیا و آخرت کی تما م ضرورتوں کے لیے صرف اللہ تعالیٰ پر نظر رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرکے اسی سے توقعات وابستہ کر لینی چاہئیں:
’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِيْ مِمَّنْ تَوَکَّلَ عَلَيْکَ فَکَفَيْتَہٗ، وَاسْتَہْدَاکَ فَہَدَيْتَہٗ، وَاسْتَنْصَرَکَ فَنَصَرْتَہٗ۔‘‘
’’اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں شامل کردے جنھوں نے تجھ پر توکل کیا تو تُو ان کے لیے کافی ہوگیا،اور انہوں نے تجھ سے ہدایت مانگی تو تُو نے انہیں ہدایت دی اور تجھ سے مدد طلب کی تو تُونے ان کی مدد کی۔‘‘
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین