بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا اسلوبِ تعلیم اور منہجِ تبلیغ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا اسلوبِ تعلیم اور منہجِ تبلیغ


حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے تعلیم وتبلیغ کے سلسلے میں مختلف مواقع پر اپنے افعال واقوال کے ذریعے امت کی رہنمائی فرمائی ہے، اور متعدد اصول وضوابط ذکر کیے ہیں جن کالحاظ رکھنے سےایک طرف طلبہ (خواہ چھوٹے بچےہوں یا نوجوان اور بوڑھے)کی استعداد بڑھے گی اور علم میں رسوخ اور پختگی حاصل ہوگی، تو دوسری طرف حق بات قبول کرنے کی صلاحیت اور اس کا برملا اظہار کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ 
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کےتعلیم وتبلیغ کے سلسلے میں بیان فرمودہ اسلوب اور طریقہ کار کانفع اور افادیت، دیگر تمام انسانوں کے بیان کردہ قواعد سےکہیں زیادہ اور بڑھ کرہے۔ ذیل میں ہم احادیث کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کااسلوبِ تعلیم اور منہجِ تبلیغ ذکر کریں گے۔ 
واضح رہے کہ تعلیم وتبلیغ میں متعدد اعتبار سے مشابہت پائی جاتی ہے، بلکہ اگر غور کیا جائے تو تعلیم بھی ایک قسم کی تبلیغ ہے، اس لیے دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیا جارہا ہے۔ 

تعلیم وتبلیغ کے لیے سامعین کی زبان اور لغت کا لحاظ کرنا

تعلیم وتبلیغ کا سب سے بہتر اور اثر انگیز طریقہ یہ ہےکہ سامعین کو انہی کی زبان میں تعلیم دی جائے، اور حق بات پہنچائی جائے، کیونکہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ انسان اپنے ہم وطن، خصوصاً ہم زبان کی بات توجہ اور غور سے سنتا ہے، اسی طرح اپنی زبان میں سنی گئی باتیں اس کو اچھی طرح ضبط اور یاد ہوتی ہیں، چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر قوم اور قبیلہ کو اسی کی زبان اور لہجہ میں احکام کی تعلیم دیتے اور دین کی تبلیغ فرماتے، جیساکہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبیلہ بنی اشعر کے لوگوں کو انہیں کی زبان اور لہجہ میں مخاطب کرکے فرمایا:
’’ليس من امبر امصيام في امسفر۔ ‘‘ (۱)
ترجمہ: ’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ ‘‘
علامہ زرقانیؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’لأن المصطفٰی يخاطب کل إنسان بلغتہٖ۔‘‘ (۲)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ہر انسان کے ساتھ اسی کی زبان میں بات فرماتے تھے۔ 

تعلیم وتبلیغ میں سامعین کی توجہ اور دلچسپی کی رعایت کرنا

تعلیم وتبلیغ کے بنیادی اصولوں میں ایک یہ بھی ہے کہ تعلیم دیتے وقت، اسی طرح تبلیغ کرتے وقت سامعین کی توجہ اور دلچسپی کی رعایت رکھی جائے، اور ایسے اسلوب میں ان کے سامنے اپنی بات پیش کی جائے کہ وہ اور زیادہ رغبت سے سنیں اور پوری طرح متوجہ رہیں۔ بے جا اور بے وقت انہیں تبلیغ کرنا شروع نہ کردے کہ سامعین اکتاہٹ کا شکار ہوجائیں۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  بھی وعظ ونصیحت کرتے وقت اس بات کا خیال کرتے تھے کہ سامعین اکتاہٹ میں مبتلا نہ ہوں، حالانکہ مسلمانوں اور خصوصاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے سب سے زیادہ رغبت اور شوق والا کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشادات سننا ہی تھا، تاہم امت کوتعلیم وتبلیغ کا صحیح نہج سکھلانے کے لیے آپ ہر روز نصیحت کرنے کے بجائےناغے کے ساتھ وعظ فرماتے تھے، تاکہ سامعین کی رغبت باقی رہے، چنانچہ امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ وغیرہ نے روایت ذکر کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کے ایک شاگرد نے ان کے سامنے اپنی خواہش ظاہر کی کہ کاش! آپ روزانہ ہمیں وعظ ونصیحت فرماتے! تو انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ اس لیے نہیں کرتاکہ کہیں تم اُکتاہٹ میں نہ مبتلا ہوجاؤ، پھر فرمایا:
’’إن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کان يتخولنا بالموعظۃ في الأيام، مخافۃ السآمۃ علينا۔ ‘‘ (۳)
یعنی ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناغہ فرماکر نصیحت کرتے تھے، تاکہ ہم اُکتاہٹ کا شکار نہ ہوجائیں۔ ‘‘

مخاطب کی سمجھ اور صلاحیت کی رعایت رکھنا

تعلیم وتبلیغ میں مخاطبین کی سمجھ اور صلاحیت کی رعایت رکھنا بےحد ضروری ہے۔ جتنا ممکن ہو بات آسان انداز میں پیش کی جائے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو روز مرہ اور ارد گرد پیش آنے والے واقعات اور مثالوں کے ذریعے اپنا کلام آراستہ کیا جاسکتا ہے، تاکہ مخاطب کو آسانی سے بات سمجھ آسکے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات میں بھی اس بات کا پہلو نمایاں ہے، چنانچہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم وغیرہ کی ایک روایت میں ہےکہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا، جسے اپنے بیٹے کے بارے میں شک وشبہ تھا، اور عرض کیا کہ: اےاللہ کے رسول! میرےہاں ایک سیاہ لڑکاپیدا ہوا ہے (جبکہ وہ شخص خود سیاہ نہیں تھا اور بظاہر اس کے آباءواجداد میں بھی کوئی کالا نہیں تھا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟اس نے کہا:ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:وہ کس رنگ کے ہیں؟ اس نے کہا:سرخ، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نےپوچھا: کیا ان میں کوئی سفید مائل بسیاہی بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:یہ رنگ کہاں سے آیا؟ اس نے عرض کیا: ہوسکتا ہےکسی رگ نے اسے کھینچ لیا ہو، یعنی اس کی نسل میں کوئی اس رنگ کا ہو، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ممکن ہےتمہارے بیٹے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ (۴)

بے جا جوش وجذبات سے اجتناب کرنا

تعلیم وتبلیغ کے اہم اصولوں میں ایک یہ ہے کہ معلّم اور مبلّغ کو اپنے جوش وجذبات پر کنٹرول ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل اور جذباتی نہ بنیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ارشادات اور عمل کے ذریعےمتعدد مواقع پراس اصول کی اہمیت اُجاگر کی ہے:
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور کھڑے ہوکر مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اس کی طرف اُٹھ کھڑے ہوئےاور ’’رک جاؤ، رک جاؤ‘‘ کہنے لگے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:اس کوچھوڑ دو، پیشاب سے مت روکو، توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے اس کوچھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ پیشاب کر کے فارغ ہوگیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے بلایا اور فرمایا:یہ مساجد پیشاب اور گندگی پھیلانے کے لیے نہیں، یہ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے بنائی گئی ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کو حکم دیا، وہ پانی کا ڈول کے کر آیا اور اس جگہ پر بہادیا۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم لوگ آسانی پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کرنے کےلیے نہیں۔‘‘ (۵)
’’ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں ایک نوجوان حاضر ہوا، اور عرض کرنے لگا کہ: اے اللہ کے رسول! مجھے زنا کرنے کی اجازت دیجئے، وہاں موجود لوگوں نے اس کو ڈانٹا، بلکہ اس کے نزدیک بیٹھے لوگوں نے اس کو مارنا چاہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں روکا، اور اس نوجوان کو اپنے قریب بلاکر فرمایا:کیا تم چاہوگے کہ لوگ تمہاری ماں کے ساتھ اس طرح کریں؟ اس نے کہا: میں آپ پر فداجاؤں، اللہ کی قسم! ہر گز نہیں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اسی طرح دوسرے لوگ بھی اپنی ماؤں کے لیے یہ نہیں چاہیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:کیا تم اپنی بیٹی کے لیے یہ پسند کروگے؟ اس نے عرض کیا:آپ پر قربان جاؤں، اللہ کی قسم! ہرگز نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے بارے میں نہیں چاہیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: کیاتم اپنی بہن کے لیے یہ چاہوگے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی رشتہ دار خواتین کے بارے میں پوچھتے رہے، اور وہ انکار کرتا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جو چیز اللہ نے ناپسند قرار دی ہے، تم بھی اسے ناپسند کرو، اور جو چیز اپنے لیے پسند کرتے ہواپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے سینے پر اپنا ہاتھ مارا اور دعا کی، جس کی بدولت اس کو پھر کبھی برائی کے خیالات نہیں آئے۔‘‘ (۶)
ان دونوں حدیثوں سے یہ بات بالکل واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ تعلیم وتبلیغ کے لیے اشتعال اور جذبات سے اجتناب کرنا ازبس ضروری ہے، اگرچہ سائل کوئی نامناسب عمل یابات کرے، تب بھی نرمی اور خوش اخلاقی کا دامن نہ چھوڑنا چاہیے۔ 

واضح اور غیر مبہم الفاظ کا استعمال

تعلیم وتبلیغ کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ تعلیم دیتےاور تبلیغ کرتے وقت واضح اور غیر مبہم الفاظ استعمال کرنا، اور صاف لہجہ اپنانا چاہیے، نہ اتنا تیزی اور سرعت سے بولےکہ مخاطب کو بات سمجھ نہ آئے، اور نہ ہی اتنی سست رفتاری سے کلام کرے کہ مخاطب اس کی بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہے، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی کرتے ہوئےمناسب رفتار اور واضح الفاظ کے ساتھ تعلیم وتبلیغ کرے، جیساکہ ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  جب کوئی بات ارشاد فرماتے تو تین مرتبہ اسے کہتے، تاکہ لوگ اسے اچھی طرح سمجھ سکیں۔ (۷)
اورصحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں ہےکہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے اپنے بھانجے حضرت عروہؒ بن زبیرؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تم لوگوں کی طرح جلدی جلدی نہیں بولتے تھے۔(۸)

محبت اور شفقت کا معاملہ کرنا

تعلیم وتبلیغ کے نفع بخش اور سود مند ہونے کے لیے ضروری ہے کہ معلّم اور مبلّغ نرمی اور شفقت کی صفت کے ساتھ متصف ہوں، لوگوں کے ساتھ محبت ورحمت کا معاملہ کریں، انہیں اپنے خاندان کے لوگوں کی مانند سمجھیں، یہی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے امت کودی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
’’إِنَّمَا أنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ، أعَلِّمُکُمْ۔‘‘ (۹)
یعنی ’’میں تمہارے والد کے مانند ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔ ‘‘

سوالات کرکےمخاطبین کی استعداد پرکھنا

تعلیم وتبلیغ کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات سے ایک نہایت اہم اصول یہ بھی ثابت ہے کہ وقتاً فوقتاً سوالات وغیرہ کرکے سامعین کی استعداد پرکھنا چاہیے، تاکہ انہیں غور وفکر کا موقع ملے، اور حصولِ علم اور دین کی بات سننے میں شوق اوردلچسپی پیدا ہو، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہےکہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ مؤمن کے مشابہ ہے، مجھے بتاؤکہ وہ کون سا درخت ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ: لوگوں کو جنگل کے درختوں کا خیال آیا، اور میرے دل میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، اور میں نے کہنا چاہا، لیکن چونکہ میں سب سے چھوٹا تھا، اس لیے میں شرما گیا، تو لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس درخت کے بارے میں بتلائیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کہتے ہیں کہ: جو بات میرے دل میں آئی تھی، وہ میں نے اپنے والد کو بتلائی تو انہوں نےکہا:اگر تم وہ بات کہہ دیتے تو وہ مجھے ان دنیوی نعمتوں سےزیادہ محبوب ہوتی۔‘‘ (۱۰)
اوپر ذکرکردہ پوری تفصیل کا خلاصہ یہ ہےکہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا بیان کردہ اسلوبِ تعلیم اور منہجِ تبلیغ اپنائیں، جس سے نہ صرف سامعین کو علم میں رسوخ حاصل ہوگا، بلکہ انہیں حق بات قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بھی ہوگی۔ 

حوالہ جات

۱:مسند أحمد، (۳۹/۸۴)، رقم الحديث: ۲۳۶۷۹، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، ط: ۱۴۲۰ھ -۱۹۹۹م/ شرح معاني الآثار للطحاوي، (۲/۶۳)، رقم الحديث:۳۲۴۱، الناشر: عالم الکتب، ط: ۱۴۱۴ھ– ۱۹۹۴م
۲: شرح الزرقاني علی المواہب الدنيۃ، شہاب الدين الزرقاني، (۱/۱۳۴)، الناشر: دار الکتب العلميۃ، ط:۱۴۱۷ھ -۱۹۹۶م
۳: صحيح البخاري، کتاب الدعوات، باب الموعظۃ ساعۃ فساعۃ، (۸/۸۷)، رقم الحديث:۶۴۱۱، الناشر: دار طوق النجاۃ، ط:۱۴۲۲ھ /صحيح مسلم، کتاب صفۃ القيامۃ والجنۃ والنار، باب الاقتصاد في الموعظۃ، (۴/۲۱۷۲)، رقم الحديث:۲۸۲۱، الناشر:دار إحياء التراث العربي، بيروت
۴: صحيح البخاري، کتاب الطلاق، باب إذا عرض بنفي الولد، (۷/۵۳)، رقم الحديث: ۵۳۰۵/ صحيح مسلم، کتاب اللعان، (۲/۱۱۳۷)، رقم الحديث:۱۵۰۰
۵: صحيح البخاري، کتاب الوضوء، باب صب الماء علی البول في المسجد، (۱/۵۴)، رقم الحديث:۲۲۰ /وصحيح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب وجوب غسل البول وغيرہ من النجاسات إذا حصلت في المسجد، (۱/۲۳۶)، رقم الحديث:۲۸۵
۶: السنن الکبری للبيہقي، کتاب السير، باب في فضل الجہاد في سبيل اللہ، (۹/۱۶۱)، رقم الحديث: ۱۸۹۷۷، الناشر:مجلس دائرۃ المعارف النظاميۃ، الہند، ط: ۱۳۴۴ھ /مسند أحمد، (۳۶/۵۴۵)، رقم الحديث: ۲۲۲۱۱، الناشر:مؤسسۃ الرسالۃ، ط:۱۴۲۰ ھ-۱۹۹۹م
۷: المعجم الکبير للطبراني، (۸/۲۸۵)، رقم الحديث: ۸۰۹۵، الناشر: مکتبۃ العلوم والحکم۔ الموصل، ط:۱۴۰۴ ھ-۱۹۸۳م/مسند أحمد، (۲۱/۳۱)، رقم الحديث: ۱۳۳۰۸
۸: صحيح البخاري، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي صلی اللہ عليہ وسلم، (۴/۱۹۰)، رقم الحديث: ۳۵۶۸/ وصحيح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أبي ہريرۃ الدوسي رضي اللہ عنہ، (۴/۱۹۴۰)، رقم الحديث:۲۴۹۳
۹: سنن أبي داود، کتاب الطہارۃ، باب کراہيۃ استقبال القبلۃ عند قضاء الحاجۃ، (۱/۳)، رقم الحديث:۸، الناشر:المکتبۃ العصريۃ۔ بيروت، 
۱۰: صحيح البخاري، کتاب العلم، باب الحياء في العلم، (۱/۳۸)، رقم الحديث: ۱۳۱ –باب الفہم في العلم، رقم الحديث:۷۲ 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین