بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’رحمۃٌ للعالمین اتھارٹی‘‘ کی حقیقت

’’رحمۃٌ للعالمین اتھارٹی‘‘ کی حقیقت

 

ہمارے ملک پاکستان کا سربراہ طبقہ اول تو دینِ اسلام کے نفاذ اور اس کے کسی حکم پر عمل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا، اور اگر تیار ہوبھی جائے تو اسے ایسا ملغوبہ بناکر پیش کرتا ہے کہ وہ بجائے اسلام کی ترجمانی کے کسی مستشرق اور ملحد کے فکر وخیال کاآئینہ دار ہوتا ہے۔
 کسی زمانہ میں تحقیقاتِ اسلامی کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا اور مغرب کی یونیورسٹیوں کا پروردہ ایک آدمی (جس کا نام فضل الرحمٰن تھا) کو اس کا سربراہ بنادیا گیا، اس نے اسلام کی تحقیقات کی بجائے اسلام میں تحریفات اور الحاد کو فروغ دیا، جس کے بارہ میں محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ کے ادارئیے ’’بصائر وعبر‘‘ کے نام سے آج بھی شاہد ہیں کہ کس طرح اس کا تعاقب کیا گیا اور اس کی تحریفات کو طشت از بام کیا گیا۔
 اسی طرح عائلی قوانین ان مجتہدین کی سوغات ہے جو مسلمانانِ پاکستان کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ اس کے بعد صدر جنرل ضیاء الحق صاحب کو شوق اُٹھا کہ نظامِ زکوٰۃ‘ مسلمانانِ پاکستان پر لاگو کیا جائے۔ نظامِ زکوٰۃ اس طرح بن گیا ہے کہ بجائے زکوٰۃ کے فوائد کے حصول کے اُلٹا مسلمانوں کے ایمان کو خطرہ میں ڈالنے کا ذریعہ اور سبب بن رہا ہے۔
آج کے وزیراعظم کو بھی شوق اُٹھا ہے کہ رحمۃٌ للعالمین اتھارٹی قائم کریں اور ۱۲؍ ربیع الاول ۱۴۴۳ھ کو اس کا اعلان بھی کردیا گیا اور اس کے لیے ایک ایسے آدمی کو منتخب کیا گیا، جس کا عملی طور پر دینِ اسلام اور سنتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔
 اس شخص کا نام اعجاز اکرم ہے، جس نے امریکن یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل سروسز سے تقابلی اور علاقائی علوم میں ایم اے کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں مذہب اور سیاسیات کا ایسوسی ایٹ پروفیسر رہا ہے اور ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۲ء تک امریکن جنرل آف اسلامک سوشل سائنسز کے منیجنگ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیتا رہا ہے۔
 راقم الحروف کا کہنا یہ ہے کہ ایک تو اس کی تقرری کا عمل غیرشفاف ہے اور دوسرا یہ کہ یہ آدمی اپنے علم اور عمل کے علاوہ اپنے کردار کے اعتبار سے بھی اس درجہ کا نہیں کہ اس کو رحمۃٌ للعالمین جیسے مقدس نام والے ادارے کا سربراہ بنایا جائے۔ہماری تجویز ہے کہ اس ادارہ کا سربراہ اس آدمی کو بنایا جائے جو اپنے علم وعمل اور کردار واخلاق کے اعتبار سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کا متبع ہو، اس کے لیے ملکِ پاکستان میں ایسے علماء کرام اور اسکالرز کی کمی نہیں۔
 اگر ایسا نہیں کرسکتے اور اپنے اعتماد کا ہی آدمی لانا ہے تو اس کے لیے بہترین آدمی وزیر مذہبی امور جناب نور الحق قادری صاحب ہیں، ان کو اس اتھارٹی کا سربراہ بنایا جائے، تاکہ پتا چلے کہ عالم دین اور متشرع آدمی اس اتھارٹی کا سربراہ ہے۔
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین