بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

بینات

 
 

رائے، اہلِ رائے اور فقہائے احناف !

رائے، اہلِ رائے اور فقہائے احناف !


’’رائے‘‘ کا مفہوم و تعارف

’’رائے‘‘ کا لفظ عربی زبان میں تجویز ومشورہ، خیال واعتقاد، عقل وتدبیر اور غور وفکر وغیرہ معانی کےلیے استعمال ہوتاہے۔ ’’اہلِ رائے‘‘ کا لفظ ان افراد کے لیے استعمال کیاجاتاہےجو رائے کےساتھ زیادہ ربط و تعلق رکھتے ہیں۔ دریافت طلب سوال یہ ہے کہ:
الف: اہلِ رائے کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟ کون اس لفظ کا مصداق بنتے ہیں؟
ب: اس کی حیثیت ومقام کیا ہے؟ کیا یہ مدح ومنقبت کا لفظ ہے یا مذمت کا عنوان ہے؟
ان دونوں باتوں کی تہہ تک پہنچنے کے لیے خود ’’رائے‘‘ کےلفظ کی حقیقت اور اس کی حیثیت ومقام کو جاننا ضروری ہے۔ اہلِ علم کے ہاں رائے کا لفظ مختلف مفاہیم ومقاصد کےلیے استعمال ہوتا ہے، کبھی تو تردید ومذمت کےطور پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ بسا اوقات مدح وتعریف کےسیاق میں اس کا اطلاق ہوتا ہے، جہاں مذمت مقصود ہو‘ وہاں اس کا مقصود کچھ ہوتا ہے اور جہاں مدح ومنقبت کےسیاق میں واقع ہو، وہاں اس کا پس منظر کچھ اور ہوتا ہے، یہ کیسےمتصور ہوسکتا ہے کہ ایک ہی چیز کو ایک ہی وقت اچھا بھی کہا جائے اور بُرا بھی قرار دیا جائے!

علامہ ابن القیم  ؒ کی تحقیق

علامہ ابن قیم الجوزیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مفید کتاب ’’إعلام الموقّعین‘‘ میں اپنے مزاج ومذاق کے مطابق اس پر بڑی تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے، اس میں وہ تحریر فرماتےہیں:
’’وإذا عرف ہٰذا فالرأي ثلاثۃ أقسام: رأيٌ باطل بلا ريب، ورأيٌ صحيح، ورأي ہو موضع الاشتباہ، والأقسام الثلاثۃ قد أشار إليہا السلف، فاستعملوا الرأي الصحيح، وعملوا بہ وأفتوا بہ، وسوغوا القول بہ، وذموا الباطل، ومنعوا من العمل والفتيا والقضاء بہ، وأطلقوا ألسنتہم بذمہٖ وذم أہلہٖ۔ 
والقسم الثالث: سوغوا العمل والفتيا والقضاء بہٖ عند الاضطرار إليہ حيث لا يوجد منہ بد، ولم يلزموا أحدا العمل بہٖ، ولم يحرموا مخالفتہٗ، ولا جعلوا مخالفہٗ مخالفًا للدين، بل غايتہٗ أنہم خيروا بين قبولہٖ وردہٖ؛ فہو بمنزلۃ ما أبيح للمضطر من الطعام والشراب الذي يحرم عند عدم الضرورۃ إليہ۔
‘‘ (۱)
ترجمہ: ’’اسی بنا پر رائے کی تین قسمیں ہیں: باطل رائے، صحیح رائے اور مشتبہ رائے۔ ان تینوں اقسام کی طرف سلف نے اشارہ کیا ہے۔ رائے صحیح کو استعمال کیا ہے، اس پر عمل کیا ہے اور اس پر فتویٰ دیا ہے، اور اس کو جائز قراردیا ہے۔ اور باطل رائے کی مذمت بیان کرکے اس پر عمل کرنے، اس پر فتویٰ دینے اور اس پر فیصلہ کرنے سے منع کیا ہے، اور رائے اور اہل الرائے کی خوب مذمت کی ہے۔
اور تیسری قسم پر اضطرار کے وقت جب کوئی دوسرا چارہ نہ ہو عمل، فتویٰ اور قضا ء کو جائز قرار دیا ہے، اور کسی پر اس پرعمل کرنے کو لازم نہیں سمجھا اور نہ اس کی مخالفت کو حرام کہا ہے اور نہ اس کے مخالف کو دین کا مخالف کہا ہے، بلکہ اس کےقبول کرنے اور نہ کرنے میں اختیار دیا ہے، جس طرح حالتِ اضطرار میں مضطر کے لیے حرام چیز بقدرِ ضرورت حلال ہوجاتی ہے۔‘‘
اس کے بعد غلط ومذموم رائے کی پانچ مختلف قسمیں اور درست رائے کی چار متنوع صورتیں اور متعلقہ تفصیلات ذکر فرمائی ہیں۔ اس سےواضح ہوتاہےکہ:
1-’’رائے‘‘ کوئی ایساشجرہ ممنوعہ نہیں ہے جو بہرحال مذموم وممنوع ہی ہو۔
2- اسی طرح یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ سلف صالحین نے جہاں ’’رائے‘‘ یا ’’اہلِ رائے‘‘ کی مذمت کی ہے، اس سے ایک مخصوص قسم کی رائےہی مراد ہے، جس کی مذمت بالکل بجا بلکہ دینی حدود کی حفاظت کےلیےضروری ہے۔
3-’’رائے‘‘ کا استعمال صرف فقہائے/حنفیہ یا متاخرین علماء نےہی نہیں کیا، بلکہ سلف کےہاں اس کا معمول رہاہے۔ علامہ ابن قیم مرحوم کی صراحت کےعلاوہ بھی یہ تینوں باتیں ایسی ہیں جن کا کسی منصف مزاج عقل مند شخص سے انکار متصور نہیں ہے۔

رائےکی حیثیت جاننےکی کسوٹی

اب سوال یہ ہوتاہے کہ ’’رائے‘‘ کی کونسی قسم مذموم وممنوع ہےاور کونسی نوع ممدوح ومطلوب؟ ان اقسام کو جاننے کا معیار ومدار کیا ہوگا؟ 
اس کا جواب یہ ہے کہ مختلف اہلِ علم نےاس پر مختلف انداز میں گفتگو فرمائی ہے۔ خود علامہ ابن القیمؒ نےدرج بالا عبارت کے بعد اس پر بڑے بسط و تفصیل کےساتھ روشنی ڈالی ہے۔ تاہم اصولی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو درج ذیل دو نکات کو سامنے رکھ کر کسی رائے کی حیثیت ومقام معلوم کیا جاسکتا ہے:
الف: ’’رائے‘‘ کی بنیاد واساس کیاہے؟ کیا رائے کی عمارت ایسےامور پر استوار ہے جن کو شرعی دلیل کا درجہ حاصل ہے؟ یا ان کے علاوہ ظن وتخمین اور اتباعِ ہویٰ وغیرہ ایسےامور پر رائے کی بنیاد کھڑی ہے جن کو شرعی دلیل کا مرتبہ حاصل نہیں ہے؟
ب: ’’رائے‘‘ کا مقصود وغرض کیا ہے؟ کیا اس کی بنیاد پر کسی غیر منصوص در پیش مسئلہ کا شرعی حکم دریافت کرنا منظور ہے؟ یا کسی منصوص حکم میں تغیر وتبدیلی کرنی مطلوب ہے ؟
اب اگر کوئی رائے ایسی ہو جو درج بالا دو شقوں میں سے پہلی پہلی شق کی حامل ہو تو وہ رائے درست ہے، ورنہ تو درست نہیں ہے، لہٰذا اس کے مطابق اگر کوئی رائے ایسی ہو جس میں درج بالا دونوں شرطیں پائی جائیں، یعنی ایک تو اس کی بنیاد کسی ایسی چیز پر ہو جس کو شرعی نقطۂ نظر سے دلیل کا درجہ حاصل ہو اور ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے کسی منصوص حکم کو نہ چھوڑا جائےتو ان دو شرائط کے ہوتے ہوئے جو’’رائے‘‘ ہوگی، وہ قابلِ قدر اور درست ہوگی اور اگر دونوں میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو وہ رائے ممنوع ومذموم ہے۔

’’اہلِ رائے‘‘ کی اصطلاح کےمختلف استعمالات

اہلِ علم کی کتابوں میں جہاں’’اہلِ رائے‘‘ کا لفظ استعمال ہوتاہے، وہاں اس کے سیاق وسباق اور اس کے متقابل ومتضاد پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور ان باتوں کو دیکھ کر ہی اصل مقصود تک رسائی ممکن ہے، چنانچہ :
1- بعض اوقات تو یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتاہے جو محض اپنے گمان وتخمین سے شرعی احکام ثابت کرنے کی جسارت کرتے ہیں، قرآن وحدیث کی طرف مراجعت کرنے اور وہاں پیش آمدہ مسئلہ کاحکم معلوم کرنے کی زحمت ہی نہیں اُٹھاتے۔
2-بسا اوقات یہ اصطلاح ان بے نصیب قسم کےلوگوں کےلیے استعمال کی جاتی ہے جو قرآن وحدیث کے منصوص مسائل کو بھی اپنی عقلِ نا تواں کی کسوٹی پر پرکھ کر جانچتے ہیں اور اس پیمانےپر پورا اُترنے کے بعد ہی اس کو تسلیم کرنے کی زحمت کرتےہیں۔
3-بعض جگہ یہ عنوان ’’اہلِ حدیث‘‘ کے متقابل کے طور پر ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتاہے جن کو اللہ تعالیٰ نے صرف حدیث کے الفاظ یاد کرنے ہی کی مہارت نہ دی ہو، بلکہ ساتھ تفقُّہ کی عظیم دولت سے بھی نوازا ہو۔
4-بعض مقامات پر اس کا اطلاق فقہائے کرام کے طبقے میں سے بھی سب پر نہیں ہوتا، بلکہ ان میں سے خاص انہی حضرات پر ہوتا ہے جن کو علمی سطح پر خاص طور پر یہ ذوق نصیب ہوا ہے اور عملی سطح پر وہ اس کےساتھ زیادہ اعتنا رکھتےہوں۔

اہلِ رائے کا مصداق

اب پہلے دو معانی کےلحاظ سے یہ عنوان مذمت کا ہے اور جو لوگ اس معنی میں اہلِ رائے کہلاتےہیں، وہ گمراہی کے شکار ہیں۔ تیسرے مفہوم کےلحاظ سے یہ اصطلاح چاروں ائمہ مجتہدین کےلیے استعمال ہوتی ہے، البتہ امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  کےہاں چونکہ عام طور پر حدیث کے ظاہر پر عمل ہوتاتھا، اس لیے اُن کو اس سے مستثنیٰ کیا جاسکتاہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ امام ابن عبد البرّ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فقہائے مجتہدین متبوعین کے حالات پر جو کتاب لکھی، اس میں آپؒ کا تذکر ہ نہیں فرمایا، بلکہ اس کانام ہی یہ رکھا: ’’الانتقاء في فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقہاء‘‘۔ چوتھے استعمال کے لحاظ سے یہ لفظ عام طور پر حضرات فقہائےاحناف کےلیے استعمال ہوتا ہے، جبکہ بعض اوقات ان کے ساتھ موالک اور بسا اوقات شوافع کو بھی ملایاجاتاہے۔
 بہر حال آخری دونوں مفہوموں کےلحاظ سے اہلِ رائے کا لفظ لائقِ تعریف اور قابلِ مدح ہے، یہ کسی مذمت یا ممانعت کا باعث نہیں ہے۔خلافتِ عثمانیہ کے نائب شیخ الاسلام علامہ محمد زاہد کوثری  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی ایک مفید تحریر’’فقہ أہل العراق‘‘ میں تحریر فرماتےہیں:
’’فالرأي بہٰذا المعنی وصفٌ مادحٌ يوصف بہٖ کل فقيہ، ينبئ عن دقۃ الفہم، وکمال الغوص. ولذٰلک تجد ابن قتيبۃ يذکر في ’’کتاب المعارف‘‘ الفقہاء بعنوان أصحاب الرأي، ويَعدُّ فيہم الأوزاعي، وسفيان الثوري، ومالک بن أنس رضي اللہ عنہم. وکذٰلک تجد الحافظ محمد بن الحارث الخشني يذکر أصحاب مالک في ’’قضاۃ قرطبۃ‘‘ باسم أصحاب الرأي. وہٰکذا يفعل أيضاً الحافظ أبو الوليد بن الفرضي في ’’تاريخ علماء الأندلس۔‘‘
ترجمہ:’’اس معنی کے لحاظ سے’’ رائے‘‘ ایک اچھی صفت ہے جس سے ہر فقیہ متصف ہوتا ہے، جو اچھی فہم اور کمالِ تجربہ کی دلیل ہے، چنانچہ ابن قتیبہ  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی ’’کتاب المعارف‘‘ میں فقہاء کرام کو اصحابِ رائے کے عنوان سے ذکرکرتے ہیں، جن میں امام اوزاعی، سفیان ثوری، امام مالک بن انس رحمہم اللہ کوبھی گردانتے ہیں۔ نیز امام حافظ محمد بن حارث خشنی  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب ’’قضاۃُ قرطبۃ‘‘ میں امام مالکؒ کے اصحاب کوبھی ’’اہلِ رائے‘‘ کے نام سے ذکر کرتے ہیں، نیز حافظ ابوالولیدؒ    کاطرزِ عمل بھی اپنی کتاب تاریخ علماء اندلس میں یہی ہے۔‘‘
اس کے کچھ سطر بعد فرماتےہیں:
’’وأما تخصيص الحنفيۃ بہٰذا الاسم، فلا يصح إلا بمعنی البراعۃ البالغۃ في الاستنباط، فالفقہ حيثما کان يصحبہ الرأي، سواء کان في المدينۃ أو في العراق۔‘‘(۲)
ترجمہ:’’فقہاء حنفیہ کوخصوصی طورپر اہلِ رائے میں سے شمارکرنابھی کمالِ استخراج واستنباط کی بنیاد پر ہے۔ فقہی مسائل کے ساتھ لگاؤ جن کا بھی ہوگا مدینہ میں ہو یا عراق میں، وہاں رائے اوراجتہاد کا تذکرہ ہوگا۔‘‘
 لیکن علمی دیانت اور اصولی مہارت کے قحط یا فقدان کا کرشمہ ہے کہ ان جیسی اصطلاحات میں خلط ملط سے کام لےکر قابلِ تعریف پہلو لائقِ مذمت اور باعثِ مذلت گردانا جاتا ہے اور بعض اوقات اس قدر زور وقوت کےساتھ یہ اشکال اُٹھایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مخاطب حق پر ہونے کے باوجود بھی اس سے شعوری یا غیر شعوری طور پر براءت کرنے پر ایک گونا مجبور ہوتاہے۔اس جہاں کی نیرنگی کا کیا کہئے کہ بسااوقات کوئی کارِ خیر اور عنوانِ فضل و کمال بھی باعثِ ننگ وعار بن جاتاہے! حنفیہ کو اہلِ رائے کیوں کہا جاتاہے؟ اس حوالہ سے علامہ عبد العزیز بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  امام بزدوی  رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:
’’وہم أصحاب الحديث والمعاني، أما المعاني فقد سلم لہم العلماء أي سلموہا لہم إجمالًا وتفصيلًا أما إجمالًا؛ فلأنہم سموہم أصحاب الرأي تعبيرًا لہم بذٰلک، وإنما سموہم بذٰلک لإتقان معرفتہم بالحلال والحرام واستخراجہم المعاني من النصوص لبناء الأحکام ودقۃ نظرہم فيہا وکثرۃ تفريعہم عليہا وقد عجز عن ذٰلک عامۃ أہل زمانہم فنسبوا أنفسہم إلی الحديث وأبا حنيفۃ وأصحابَہٗ إلی الرأي۔‘‘(۳)
ترجمہ: ’’اور وہ اصحابِ حدیث ومعانی ہیں اور علماء نے ان معانی کو اجمالاً اور تفصیلاً ان کے سپرد کیا ہے، اسی وجہ سے ان کو اصحابِ رائے کہا گیا ہے اور یہ لوگ اچھی طرح حلال اور حرام کو جانتا ہے اور احکام کی بنا کے لیے نصوص سے معانی نکال کر اس میں دقیق نظر کرکے اس پر تفریعات کرتے ہیں، اور جب اس سے عام اہلِ عصر عاجز ہوئے تو اپنی نسبت حدیث کی طرف کی اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  اور ان کے اصحاب کی نسبت رائے کی طرف کی اور ان کو اصحابِ رائے کہا۔‘‘

کیا قیاس رائے ہے؟

فقہائے کرام کو عموماً اور حضرات حنفیہ کو خاص طور پر جو اہلِ رائے کہاجاتاہے، وہ قیاس کے استعمال کرنے اور اس کے ذریعے شرعی احکام کے استنباط واستخراج کرنے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے اور اصولی کتابوں میں بار بار اس کی تصریح بھی کی جاتی ہے کہ قیاس محض ’’مُظہرِحکم‘‘ ہوتا ہے ’’مُثبِتِ حکم‘‘ نہیں ہوتا، یعنی قیاس کے ذریعے نئے سرے سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا، بلکہ مقیس میں پہلے سے جو حکم موجود ہوتا ہے، قیاس کے ذریعے اسی کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ جب قیاس کی یہ حیثیت تسلیم ہے تو اس کے بعد قیاس کرنےکی وجہ سے اہلِ رائے کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی ہے۔

کیا فقہائے احناف اہلِ رائے ہیں؟
 

ایک عرصہ ہوا کہ بعض طبقات کی جانب سے فقہائےاحناف کے متعلق دیگر مجتہدین کرام کی بنسبت زیادہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور اہلِ رائے کہہ کہہ کر ان کی مذمت کی جاتی ہے، حالانکہ درج بالا سطور سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ خود اہلِ رائے ہونا کوئی مذمت کا متقاضی نہیں ہے، لیکن اس کےباوجود حقیقتِ حال یہ ہے کہ جس طرح مجتہدین احناف کے ہاں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ان کو خصوصی طور پر اہلِ رائے قرار دیا جاتا ہے، یوں ہی دیگر مجتہدین کرام کے ہاں بھی متعدد ایسی چیزیں موجود ہیں۔ فقہائے احناف کے بالمقابل عام طور پر شوافع کا ذکر آتا ہے اور ان کو حنفیہ کی بنسبت زیادہ عامل بالحدیث گردانا جاتا ہے، جبکہ ان کےہاں بھی متعدد ایسے ضوابط موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ حنفیہ کی بنسبت زیادہ اہلِ رائے قرار دیے جاسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ شوافع کو اہلِ رائے قرار دینے کا مقصد ان کی مذمت کرنا نہیں ہے، بلکہ سیدنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ہو یا دیگر مجتہدین کرام، جن کے علم واجتہاد کو اُمت نے قبول کیا ہے، وہ سب ہمارے سروں کے تاج، اُمت کا سرمایہ اور بڑی قابلِ قدر ہستیاں ہیں، ہم ان کی گستاخی، مذمت اور بے ادبی سے ہزار ہزار بار اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ یہاں تو صرف اصولی جائز ہ لینا مقصود ہے کہ شوافع کی بنسبت حنفیہ کو اہلِ رائے کہنا اور ان کی طرف حدیث سے دور ہونے یا حدیث دشمنی کرنے کی نسبت کرنا بالکل درست نہیں ہے۔

قاضی محب اللہ بہاریؒ کی مفید تحقیق

علماءِ ہند میں سے حضرت علامہ قاضی محب اللہ بہاری  رحمۃ اللہ علیہ  کا اس موضوع پر ایک رسالہ ہے جو تلاش کے باوجود مطبوع یا مخطوط کسی شکل میں تو دستیاب نہیں ہوسکا، تاہم علامہ عبد الحئی حسنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں موصوف کے حالات کے ضمن میں اس کا خلاصہ نقل فرمایا ہے۔ اس میں موصوف ؒ نے سات ایسے ضوابط اور وجوہات ذکر فرمائے ہیں جن کی بنیاد پر احناف کا شوافع کی بنسبت زیادہ عامل بالحدیث ہونا اور شوافع کا اہلِ رائے ہونا واضح ہوتاہے، وہ سات ضوابط اور وجوہات درج ذیل ہیں:
پہلی وجہ: حنفیہ کے نزدیک عام قطعی ہوتا ہے، چاہے اس کا تعلق قرآن کریم کےساتھ ہو یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ، لہٰذا قیاس ورائے کے ذریعہ اس کی تخصیص درست نہیں ہے، جبکہ شوافع کے نزدیک وہ ظنی ہوتا ہے اور قیاس کے ذریعے بھی اس میں تخصیص کی جاسکتی ہے۔
دوسری وجہ: حنفیہ کے نزدیک نصِ مطلق کو اپنے اطلاق پر برقرار رکھنا ضروری ہے اور قیاس کے ذریعہ اس کو مقید کرنا جائز نہیں ہے، جبکہ شوافع کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے۔
تیسری وجہ: حنفیہ کے نزدیک مرسل احادیث معتبر ہیں اور قیاس ورائے کی بنسبت وہی مقدم ہیں، جبکہ شوافع کے نزدیک عام حالات میں مرسل روایات کا اعتبار نہیں ہے اور قیاس ورائے کا درجہ اس سے مقدم ہے۔
چوتھی وجہ:صحابیؓ کی کوئی بات اگر ایسی ہو جو مدرک بالرأی نہ ہو تو حنفیہ کے نزدیک وہ سنت کے ساتھ ملحق ہے اور رائے وقیاس پر بہر حال اس کو مقدم رکھاجائےگا، جبکہ شوافع کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔
پانچویں وجہ: کسی عبادت میں جزء یا شرط کا اضافہ کرنا شوافع کے نزدیک تخصیص وتقیید ہے، لہٰذا قیاس ورائے کی بنیاد پر بھی ایسا کرنا درست ہے، جبکہ حنفیہ کے نزدیک ایسا کرنا اس کی حیثیت نسخ کی ہے، لہٰذا قیاس کا یہاں اعتبار نہیں ہے۔
چھٹی وجہ: حنفیہ کے نزدیک علت کے معتبر ہونےکےلیے ضروری ہے کہ کسی نص یااجماع سے اس کا مؤثر ہونا ثابت ہو، جبکہ شوافع کے نزدیک تاثیر کا ثابت ہونا ضروری نہیں ہے۔
ساتویں وجہ:حنفیہ حدود اور کفارات کے باب میں رائے وقیاس کے قائل نہیں ہیں، جبکہ شوافع کے نزدیک ایسا کرنا درست ہے۔ (۴)
آٹھویں وجہ: امام فخر الاسلام بزدوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے’’اصول بزدوی‘‘ کے مقدمہ میں اس بات کی تفصیل ذکر فرمائی ہے کہ فقہائے حنفیہ اہلِ رائے ہونے اور اس میں سبقت کا مقام حاصل کرنےکےساتھ ساتھ حدیث وسنت پر عمل کرنےمیں بھی دیگر مجتہدین کی بنسبت زیادہ فائق ہیں، اس ضمن میں ایک وجہ یہ بھی ذکر فرمائی ہے کہ ان کے ہاں مجہول راوی کی روایت قیاس ورائے پر مقدم ہے، جبکہ دیگر مجتہدین کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’وأصحابنا ہم السابقون في ہٰذا الباب ولہم الرتبۃ العليا والدرجۃ القصوی في علم الشريعۃ .۔. وہم أولٰی بالحديث أيضًا ألا تری أنہم جوزوا نسخ الکتاب بالسنۃ ۔.. وقدموا روايۃ المجہول علی القياس ۔‘‘  (۵)
ترجمہ: ’’اور ہمارے اصحاب اس باب میں آگے ہیں اور ان کو علمِ شریعت میں اونچی درجہ اور رتبہ حاصل ہے، اور ان کو حدیث میں بھی مہارت حاصل ہے، جیسا کہ انہوں نے کتاب اللہ کو سنت کے ذریعے منسوخ ہونے کو جائز قرار دیا ہے اور مجہول روایت کو قیاس پر مقدم کیا ہے۔‘‘

خلاصہ

ان وجوہات سےمعلوم ہوا کہ رائے یا اہلِ رائے کا لفظ مطلقاً مذمت کے لیے استعمال نہیں ہوتا اور جن اسباب وضوابط کی بنیاد پر کسی جماعت کو اہلِ رائے قرار دیا جاتا ہے، وہ صرف فقہائے حنفیہ ہی کےہاں نہیں ہیں، بلکہ دیگر فقہائے مجتہدین کے ہاں بھی ایسے مختلف ضوابط پائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ فقہائے شافعیہ کے ہاں حنفیہ کی بنسبت ایسی وجوہات کچھ زیادہ موجود ہیں جن کی بنا پر کسی جماعت کو اہلِ رائے میں سے گردانا جاتا ہے، اگر چہ اس سے فقہائے شافعیہ کی تنقیص، مذمت یا عیب جوئی مقصود نہیں ہے، بلکہ ان کے فقہی ذوق کو اُجاگر کرنا مطلوب ہے، کیونکہ رائے کے بغیر حدیث کے ظاہر ہی کو ہر جگہ مراد لینا کافی نہیں ہوتا۔ امام بزدوی  رحمۃ اللہ علیہ  تحریر فرماتے ہیں:
’’وقال محمد - رحمہ اللہ تعالیٰ - في کتاب أدب القاضي: لا يستقيم الحديث إلا بالرأي ولا يستقيم الرأي إلا بالحديث حتی أن من لا يحسن الحديث أو علم الحديث ولا يحسن الرأي، فلا يصلح للقضاء والفتوی وقد ملأ کتبہٗ من الحديث، ومن استراح بظاہر الحديث عن بحث المعاني ونکل عن ترتيب الفروع علی الأصول انتسب إلٰی ظاہر الحديث۔‘‘  (۶)
ترجمہ: ’’امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب ’’أدب القاضي‘‘ میں لکھا ہے کہ حدیث رائے کے بغیر صحیح نہیں ہوئی اور رائے حدیث کے بغیر صحیح نہیں ہوتی، یہاں تک کہ اگر کوئی حدیث یا علمِ حدیث اور رائے کو نہیں جانتا ہو اور اس کے کتب خانے حدیث سے بھرے ہوں، پھر بھی وہ قضاء اور فتوے کا اہل نہیں ہے، اور اگر کوئی معانی کی بحث میں ظاہرِ حدیث سے استدلال کریں اور اصول پر تفریعات کرنے سے انکار کریں تو ان کی نسبت ظاہرِ حدیث کی طرف ہوگی۔‘‘

حواشی و حوالہ جات

۱- إعلام الموقعين عن رب العالمين، فصل تأويل ما روي عن الصحابۃؓ من الأخذ بالرأي، الرأي علی ثلاثۃ أنواع، ج:۱، ص: ۵۳
۲- فقہ أہل العراق وحديثہم، ص:۳۲
۳- کشف الأسرار شرح أصول البزدوي، العلم نوعان، النوع الثاني علم الفروع وہو الفقہ، ج:۱، ص:۱۶
۴- نزہۃ الخواطر وبہجۃ المسامع والنواظر، ج:۶، ص:۷۹۳
۵- کشف الأسرار شرح أصول البزدوي، العلم نوعان، النوع الثاني علم الفروع وہو الفقہ، ج:۱، ص:۱۵
۶- کشف الأسرار شرح أصول البزدوي، العلم نوعان، النوع الثاني علم الفروع وہو الفقہ، ج:۱، ص:۱۵

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین