بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

رئیسِ جامعہ کی طلبہ کوچند نصائح!

 

رئیسِ جامعہ کی طلبہ کوچند نصائح!

 

 

۱۸؍ شوال المکرم۱۴۳۸ھ مطابق ۱۳؍ جولائی ۲۰۱۷ء بروز جمعرات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں نئے تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی، جس میں جامعہ کے کبار اساتذہ کرام سمیت  رئیس جامعہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہٗ نے اپنے بیان میں طلبہ کرام کو گرانقدر نصائح فرمائیں۔ افادیتِ عامہ کے پیش نظر حضرت رئیس جامعہ کا بیان شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔   (ادارہ)

 

الحمد للّٰہ رب العلمین، والصلوۃ والسلام علٰی سید الأنبیاء والمرسلین، وعلی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین ۔ أمابعد! 

’’قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من یرد اللّٰہ بہٖ خیرا یفقہہ فی الدین۔‘‘ 

                                                                          (صحیح بخاری،کتاب العلم،ص:۱۶،ط؛قدیمی)

میرے بھائیو، دوستو اور عزیز طلبہ ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

سب سے پہلے میں اُن طلبہ کرام کو جو اس سال نئے داخل ہوئے ہیں اور پرانے طلبہ بھی جوسالانہ چھٹیاں گزار کرواپس آئے ہیں، سب کو اپنی جانب سے، اساتذۂ کرام اور جامعہ کی انتظامیہ کی جانب سے خوش آمدیدکہتاہوں۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ جس مقصد کے لیے آپ حضرات آئے ہیں، اس مقصد میں آپ کوکامیاب کرے اور ہراس کام سے آپ کی حفاظت فرمائے‘ جس سے آپ کے علم کا نقصان ہو۔

اخلاصِ نیت

سب سے پہلی چیز جو طالب علم کے لیے لازم ہے‘ وہ اخلاص نیت ہے۔ ہر طالب علم یہ نیت کرے کہ میں یہ دین‘ اللہ کے لیے اور دین کا خادم بننے کے لیے پڑھ رہاہوں۔ اگر نیت درست ہوگی تواللہ تعالیٰ علم میں بھی برکت دیں گے۔

حضرت علامہ سیدمحمدیوسف بنوری v کی نصیحت

ہمارے شیخ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ کے زمانہ میں بھی یہ افتتاحی اجتماع ہوتا تھا، وہ فرمایاکرتے تھے کہ: یہ اجتماع اخلاص نیت، تجدید نیت اور صفائی نیت کے لیے ہے کہ ہم نے یہ دین اور علم‘ اللہ تعالیٰ کے لیے پڑھناہے نہ کہ دنیاکے لیے۔ حضرت بنوری v فرماتے تھے کہ: یہ اخلاصِ نیت کااجتماع ہے، اپنی نیتیں درست کرلو۔ اور اگر دنیاکے لیے پڑھناہے توکسی اور ادارے میں چلے جاؤ، باہر بہت سارے ادارے کھلے ہیں، یہاں وہ آئے جسے اللہ کے لیے پڑھنا ہو۔

بغداد کے ایک مدرسے کا واقعہ

بغداد میں - جب وہ دین کا مرکز تھا- وقت کے بادشاہ نظام الملک طوسی نے ایک بڑا مدرسہ قائم کیا اور ایک دن اس نے سوچا کہ مدرسہ ہم نے قائم کرلیاہے، اب یہ بھی دیکھیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے؟ اسی ارادے سے بادشاہ رات کو لباس بدل کرکے مدرسہ میں آئے،وہاں پہنچ کردیکھا کہ طلبہ مطالعہ کررہے ہیں۔ ایک طالب علم کو سلام کیااوراس سے معلوم کیا کہ: تم کیاپڑھ رہے ہو؟ ہرایک طالب علم نے اس سوال کا الگ الگ جواب دیا۔ کوئی قاضی بننے کاکہہ رہاتھا،کوئی فقیہ بننے کا کہہ رہا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب مناصب بھی دین ہی کے تھے، لیکن اس کے باوجود بادشاہ یہ جوابات سن کرسخت مایوس ہوا، اور کہا کہ: جب سب کی نیت یہ ہے تواس مدرسہ کو ختم ہوناچاہیے۔

بادشاہ واپسی کے ارادے سے اس ادارہ سے نکلنے لگا، دیکھا کہ راستے میں ایک طالب علم کتاب پڑھ رہا ہے۔ بادشاہ نے سوچاکہ اس سے بھی پوچھ لوں، چنانچہ اس سے سوال کیا کہ کیاپڑھ رہے ہو؟ طالب علم نے کتاب کا نام بتلا یا، کہا: کیوں پڑھ رہے ہو؟ طالب علم نے کہا:کیونکہ اللہ نے مجھے مکلف بنایا ہے(اور آپ حضرات جانتے ہیں کہ عاقل بالغ آدمی مکلف ہوتاہے، شریعت کے احکام اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں) میں اس لیے پڑھ رہا ہوں، تاکہ مجھے پڑھنے کے بعدمعلوم ہوکہ جن چیزوں کا اللہ نے حکم دیاہے، میں انہیں بجالاؤں اور جن چیزوں سے منع کیاہے‘ میں ان سے رک جاؤں۔اس طالب علم کایہ جواب سننے کے بعد بادشاہ کا نظریہ بدل گیا، کہاکہ: جس ادارہ میں ایک طالب علم بھی ایساہو تو وہ مدرسہ یا ادارہ بند نہیں ہوناچاہیے۔اور یہ طالب علم امام غزالی v تھے جو اس وقت مدرسہ نظامیہ بغداد میں علم حاصل کررہے تھے۔ (دعوات عبدیت،حکیم الامت v، ج:۱،ص؛۲۱۹، ط:مکتبہ تھانوی)

طالب علم کی فضیلت

لہٰذا دین پڑھنے والااپنی نیت کو خالص کرے۔ دین کی سمجھ بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا شکر‘یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس کی خدمت کے لیے وقف کردے۔حدیث میں رسول اللہ a کا ارشاد ہے: ’’من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔‘‘ نبوت توختم ہوگئی ہے، لہٰذا وسائل کے درجہ میں جس کو اللہ نے توفیق دی اورمدرسہ میں پہنچادیا، سمجھو کہ! اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ خیر اور بھلائی کااارادہ فرمایاہے۔لہٰذا اپنی قدرکرو، اپنے مقام کو سمجھواور پہچانو۔چنانچہ حدیث میں ہے: طلب علم میں نکلنے والاشخص ایساہے جیسااللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلنے والا،(سنن الترمذی،باب فضل طلب العلم،۵؍۲۹،ط:داراحیاء التراث العربی)اور علم کے حصول کی راہ میں اگر طالب علم کوموت آئے تو وہ شہید کہلائے گا۔اتنااونچا رتبہ ہے۔ اورطالب علمی کے زمانے میں طالب علم کاہر عمل ثواب شمار ہوگا، اگر وہ آرام کرتاہے تویہ آرام بھی عبادت میں شامل ہے، تاکہ بیدارہوکر اچھے طریقے سے پڑھ سکے،لہٰذا دین کے تقاضوں کوپورا کریں، وقت کی پابندی کریں۔آپ کے سامنے آپ کی پڑھائی کے اوقات متعین ہیں،مقررہ وقت سے پہلے آپ تیار رہیں۔ کلاس میں استاذ سے پہلے پہنچیں یہ نہ ہو کہ استاذ بیٹھے ہوں اور طالب علم بعد میں آرہے ہوں۔ وقت پردرسگاہ میں حاضر ہونایہ ہر طالب علم کافرض ہے۔ہم دورۂ حدیث میں تھے،ہمارے زمانے میں اگرچہ حاضری نہیں ہوتی تھی، لیکن الحمدللہ! ہم اتنی پابندی اور اہتمام کرتے تھے کہ استاذ سے پہلے کلاس میں موجودہوتے تھے اور کوئی طالب علم غیرحاضر نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذاوقت کی پابندی کے ساتھ استاذ کا سبق غور سے سنیں اور رات کو صبح کے سبق کا مطالعہ کرکے آئیں۔

حکیم الامتv کی طلبہ کوتین کاموں کی نصیحت

ہمارے بزرگوں نے اپنے معمولات ذکر کیے ہیں،اور بزرگوں کے ملفوظات میں بڑی اچھی اچھی باتیں موجودہیں، ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی v نے لکھا کہ: طالب علم اگر رات کو اپنا اگلا سبق دیکھ لے اور صبح درسگاہ میں استاذ سے سبق غور سے سنے اور دوبارہ تکرارکرلے یااس سبق کو دیکھ لے تووہ کبھی نہیں بھولے گا۔ لہٰذا ان تینوں باتوں کی پابندی کریں۔ان شاء اللہ! آپ کو اسباق یاد ہوں گے۔

اپنے آپ کو وقف کردیں

بس علم کے حصول کواپنا مقصد بنالو، اپنے آپ کو علم کے لیے وقف کردو۔ ابھی آپ نے اساتذہ کرام سے امام ابویوسف v کا ایک مشہورجملہ سنا ہے:’’العلم لایعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک‘‘ جب تک آپ اپنے آپ کو مکمل طورپر علم کے سپرد نہیں کریں گے اس وقت تک علم میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔علم یہ چاہتاہے کہ آپ اپنے آپ کو مکمل طورپر اس کے حاصل کرنے میں کھپادیںاور تمام فضولیات سے مکمل طورپر پرہیز کریں۔مجھے یاد ہے کہ ہماری جامعہ کے طلبہ میں ایک طالب علم تھے- جوآج الحمدللہ! بڑے عالم ہیں اور دین کا بڑا کام کرہے ہیں- وہ کہنے لگے: جامعہ میں میرے داخلے کے باجود چارماہ تک مجھے جناح صاحب کے مزار کاعلم نہیں تھا، گویاوہ کئی مہینوں تک جامعہ کی چاردیواری سے باہر گئے ہی نہیں۔ لہٰذا طلبہ اپناسارا وقت علم میں لگائیں۔

بازاروں میں جانے سے پرہیز کریں

 البتہ بوقت ضرورت کسی چیز کی ضرورت ہو توباہر جائیں اورضرورت پوری کرکے فوراً واپس آجائیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے بیت الخلاء میں فقط ضرورت کے تحت گئے اور واپس آگئے۔ آج کل کے بازار فتنے کی جگہ ہیں،حدیث شریف میں ہے:’’خیر البقاع المساجد وشرہا الأسواق‘‘(صحیح ابن حبان،ذکر البیان بأن خیر البقاع فی الدنیا المساجد،۴؍۶۷۴۔ط:موسسۃ الرسالۃ) لہٰذا بازاروں میں جاکر وہاں وقت صرف نہ کریں۔اگر مجبوری کی وجہ سے جاناپڑے توبھی نگاہ کو نیچی رکھیں،قرآن کریم میں اہل ایمان کو حکم دیاگیاہے:’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ  ذٰلِکَ أَزْکٰی لَہُمْ  إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ‘‘ (النور:۳۰)

محض تفریح کے لیے بازار جاناعلم کے لیے زہر ہے۔اگر چلنا پھرناہے توعصرکے بعد جائیں، میدان تک جائیں، واپس آئیں اوراس میں بھی غض بصر ضروری ہے۔ باہرکاماحول انتہائی غلیظ ہے، آپ اگر اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں گے تو دوسروں پر اس عمل کے ان شاء اللہ! اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

لندن میں پیش آنے والے دوواقعات

اخبارات میں لندن میں پیش آنے والاایک واقعہ لکھا تھا کہ: وہاں ایک عیسائی صحافی عورت ایک مسلم نوجوان سے انٹرویولے رہی ہے، وہ شخص عالم نہیں بلکہ تبلیغی ہے، الحمدللہ! تبلیغ کی برکت سے نوجوانوں کو دین کی اچھی معلومات ہوتی ہیں، توا س غیرمسلمہ عورت نے اس مسلمان دیندارشخص سے دوگھنٹے انٹرویولیا، انٹرویوسے فارغ ہوکرآخرمیں اس عورت نے اس مرد سے کہاکہ: مجھے کلمہ پڑھاؤ، جب اس عورت سے اس کی وجہ پوچھی؟ تووہ کہنے لگی کہ: میں دو گھنٹوں سے اس مرد کاانٹرویو لے رہی ہوں، مگر ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس نے نظر اٹھاکر میری طرف نہیں دیکھا۔تو اس عمل کا یہ اثر ہواکہ وہ غیرمسلمہ عورت مسلمان ہوگئی۔اس سے اندازہ لگائیں کہ انگریزوں کاملک ہے، مگر ایک مسلمان اپنے دین اور پاکدامنی پر قائم ہے، حالانکہ وہاں کے معاشرے کے بگاڑ کا سب کو علم ہے۔

اسی طرح ایک مسلمان فیملی وہاں ایئر پورٹ پر اتری، وہاں کسی رشتہ دارسے ملنے گئے ہوں گے(ایک مسلمان کو ہر جگہ دین کی فکر ہونی چاہیے) اس فیملی نے دیکھاکہ نماز کا وقت ہوگیاہے،نماز کی فکر تھی، ان کے پاس گائیڈبک بھی تھی اور قبلہ نما بھی تھا۔ انہوں نے دیکھاکہ اس طرف قبلہ ہے، دونوں باوضو تھے،نمازی تھے اور سفرمیں باوضو رہناچاہیے، تاکہ ہروقت نماز کے لیے مسلمان تیاررہے۔لہٰذا انہوں نے راستہ چھوڑ کر ایک دیوار کے پیچھے مصلی بچھایااور نماز شروع کردی۔ وہاں سے ایک نوجوان غیرمسلمہ عورت گزررہی تھی، اس نے ان کی نماز کی کیفیت اورہیئت دیکھی،توان کے پاس پہنچ گئی، جب انہوں نے سلام پھیراتواس عورت نے آکر پوچھا: آپ لوگ کیاکررہے ہیں؟اس فیملی نے جواب دیا کہ: یہ ہمارے مذہب کی بنیادی عبادت ہے،نماز ہے جو اللہ کے لیے پڑھ رہے ہیں۔پھر اس نوجوان عورت نے اسلام کے بارے میں پوچھا توانہوں نے اسلام کے بارے میں بتلایا۔جب وہ عورت جانے لگی تو اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس مرد کو یہ حکمت سکھائی،اس مسلمان شخص نے یہ نہیں کہا کہ اسلام میں یہ منع ہے، بلکہ حکمت سے جواب دیاکہ میراہاتھ اس (اپنی بیوی کی جانب اشارہ کرکے)کا ہوگیاہے، اب میں کسی اورغیر عورت کو ہاتھ نہیں لگاسکتا۔وہ عورت حیران ہوئی اور رونے لگی،سبحان اللہ! دین اسلام میں ایسی پاکدامنی ہے۔تواس عمل کی وجہ سے وہ عورت مسلمان ہو گئی۔ہمارا عمل درست ہوجائے تو یہ خود اسلام کے پھیلاؤ کاذریعہ ہوگا،ان شاء اللہ!

دوسروں کے ساتھ اچھابرتاؤ کریں

دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤکیاکریں، تاکہ یہ پتہ چلے کہ مسلمان اور اسلام کی تعلیمات یہ ہیں۔میں لندن میں تھا،وہاں ایک مسجد میں بیان میں ‘ میں نے یہ نصیحت کی کہ: یہاں آپ لوگوں کے پڑوس میں غیر مسلم آباد ہیں، لہٰذاآپ لوگ ان کے ساتھ اچھاسلوک کیاکریں، تاکہ آپ کے اچھے سلوک کاان پر اثر ہو اور آپ کاطرزعمل اسلام کی ترجمانی کرے۔کچھ عرصہ بعدوہاں کے ایک حاجی صاحب ملے، اس نے کہا کہ ہم نے آپ کی اس نصیحت پر عمل کیا،اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہے اورہمارے پڑوسی مسلمان ہوگئے، اب وہ میرے ساتھ نماز کے لیے مسجدآتے ہیں۔آ پ آئے روز پڑھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اچھے اعمال سے دوسرے لوگ متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے، لہٰذا ہمارے اعمال کی جوکوتاہیاں ہم میں موجود ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں دور کردیں۔

ہمیشہ باوضو رہیں اور نمازوں کا اہتمام کریں

اپنے آپ کو ہمیشہ باوضو رکھیں،ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی پاکیاں شریعت میں مقصود ہیں۔آپ حیران ہوں گے! میں نے ایک دفعہ دیکھاکہ ابھی مسجد میں اذان نہیں ہوئی اور ایک بزرگ مسجد کی طرف چلے آرہے ہیں، میں نے ان سے کہاکہ: حضرت!ابھی اذان نہیں ہوئی ہے، انہوں نے بڑااچھاجواب دیا، کہاکہ اذان عوام کے لیے ہوتی ہے، خواص کو وقت سے پہلے مسجد میں آناچاہیے۔

 مکہ مکرمہ میں ایک بزر گ تھے، انہوں نے امام کے دائیں طرف نماز پڑھی،اسی دوران انہیں ان کے ایک عزیزدوست مل گئے تووہ بزرگ کہنے لگے: سناتھاکہ امام کے دائیں طرف اجرزیادہ ملتاہے، آج علم ہواکہ امام کے دائیں طرف دوست بھی ملتے ہیں۔اس لیے بروقت نماز کے لیے تیاررہیں اور اذان ہوتے ہی مسجد پہنچیں، کوشش کریں کہ امام کے دائیں جانب نماز اداہو۔جوآدمی نمازکے انتظار میں بیٹھارہتاہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسے لوگوں کے لیے فرشتے مقررہوتے ہیں جوان کے لیے دعاکرتے رہتے ہیں:’’اللّٰہم اغفرلہ اللّٰھم ارحمہ۔‘‘(کنزالعمال،انتظارالصلوۃ، ۸؍۲۵۹، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

حفاظ کونصیحت

میں حفاظ سے کہاکرتاہوں کہ نما زکے انتظارکے ان اوقات سے فائدہ اٹھائیں ۔عصر اورعشاء میں بڑاوقت ہوتاہے، آپ اذان کے ساتھ مسجد میں آئیں اورسنتوں اورنوافل میں قرآن کریم پڑھیں، آپ کویوں قرآن بھی یاد ہوجائے گا۔اگر آپ اپنے علم میں برکت چاہتے ہیں تو نمازوں کا اہتمام کریں۔ایک قاری صاحب کاگھر مسجد سے ایک میل کے فاصلہ پر تھا، وہ گھر سے جب نکلتے توتعوذ تسمیہ پڑھ کر پارہ شروع کردیتے،مسجد پہنچتے تو ایک پارہ ہوجاتا، اور جب واپس آرہے ہوتے، پھرتعوذ تسمیہ پڑھ کر پارہ شروع کرتے توواپس آنے کے ساتھ دوسرا پارہ بھی مکمل ہوجاتاتھا۔دیکھیں کس طرح اپنے اوقات کوقیمتی بنادیا،لہٰذا حفاظ کرام ا س سے فائدہ اٹھائیں۔

ادب بنیاد ہے

اور یادرکھیں!ادب بنیادی شرط ہے، استاذ کابھی ادب کریں،کتاب کا بھی ادب کریں،تپائی اور درس گاہ کا بھی ادب ملحوظ رکھیں۔اس کے ساتھ ساتھ بڑوں کابھی ادب ہواور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں، قرآن کریم میں صحابہ کرامؓ کے بارے میں ارشاد ہے:’’رحماء بینھم ‘‘بس اس ’’رحماء بینھم‘‘کامنظر آپ بھی پیش کریں، ان شاء اللہ! علم نافع حاصل ہوگا اورعلم میں برکت بھی ہوگی ۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہم سب کوصحیح معنوں میں طالب علم بننے اور آداب بجالانے کی توفیق عنایت فرمائے۔

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین