بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

رئیس المحدثین کی رحلت!

 

رئیس المحدثین کی رحلت!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

دارالعلوم دیوبند کے فاضل، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ کے تلمیذ رشید، حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب کے تربیت یافتہ وقابل فخر شاگرد، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے مؤسس، رئیس و شیخ الحدیث، وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے قائد وصدر، اتحاد ویکجہتی کی علامت، مردم شناس ومردم ساز، علامہ ومحدث، فقیہ ومفکر، داعی اسلام، استاذ العلمائ، رئیس المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ ۱۵ ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ مطابق ۱۴ جنوری ۲۰۱۷ء بروزہفتہ بعد نمازِ عشاء ۹۶ سال کی عمر میں اس دنیائے فانی کو چھوڑکر عالم عقبیٰ کی طرف روانہ ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہٗ کی شخصیت عالم اسلام کے علمی، ادبی، فکری اور نظریاتی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ کی پوری زندگی تعلیم وتعلم، اتباعِ سنت اور شرک وبدعات کی تردید سے عبارت تھی۔ آپ کا مسلکی تصلب اور محبتِ دینی اپنوں اور بیگانوں میں مسلم تھی۔ آپ کو پورے ملک کے دینی حلقوں میں بڑا وقیع ورفیع مقام حاصل تھا۔ حلقۂ دیوبند کی تمام دینی وسیاسی جماعتوں کے سربراہان آپ کو اپنی اپنی جماعتوں کا سرپرست ومقتدا مانتے تھے۔ آپ کی صرف تدریس کا زمانہ ستر سالوں سے زائد پر محیط ہے۔ آپ ملمع سازی، تصنع، تکلف، تشدد، تجدد، شذوذ اور تفرد سے کوسوں دور تھے۔ عزم وحوصلہ کے پہاڑ، افکار ونظریات میں غلو وانتہاپسندی سے مجتنب، میانہ روی اور اعتدال کے قائل تھے۔ تصلب فی الدین اور امت مسلمہ کے سوادِ اعظم کو ساتھ لے کر چلنے میں خیروبرکت سمجھتے تھے۔ عقائدومسائل میں قرآن وسنت پر استقامت کا عملی نمونہ تھے۔ بدعقیدگی، بدعات ، خرافات و واہیات کا تعاقب وبیخ کنی آپ کی فطرت کا حصہ بن چکی تھی۔ دلیل سے بات کرتے تھے اور دلیل ہی کی بات سنتے تھے۔  آپؒ کی پیدائش ۲۵ دسمبر ۱۹۲۶ء میں ہوئی، آپ کی ولادت کے موقع پر آپ کے ناناجان مولانا عنایت اللہ خان صاحب جو جید عالم، طبیب اور شاعر تھے، آپ کی والدہ ماجدہ کو مبارک بادی کا خط دیتے ہوئے یہ شعر لکھا: رہیں زندہ سلیم الدین چشتی حسین و نازنیں صورت بہشتی آپ اپنے تعلیمی، تدریسی اور حالاتِ زندگی کو مختصرلفظوں میںایک خط میں یوں لکھتے ہیں: ’’احقر کی پیدائش قصبہ حسن پور لوہاری میں ہوئی جو تھانہ بھون اور جلال آباد کے قریب ہے۔ اردو، فارسی کی تعلیم لوہاری میں ہوئی۔ رابعہ تک شرح وقایہ، شرح جامی وغیرہ ڈھائی سال میں مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں استاد محترم مولانا مسیح اللہ خانؒ سے پڑھی۔ ۵ سال دیوبند میں گزارے اور شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمدمدنی قدس سرہٗ سے سنن ترمذی جلداول اور صحیح بخاری مکمل پڑھی۔اس کے بعد ۸ سال مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں مدرس اور ناظم تعلیمات کی حیثیت سے گزارے۔ اسی مدرسہ میں مولوی جمشید علیؒ نے دو سال احقر کے پاس تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد احقر مولوی جمشید علیؒ کو لے کر پاکستان میں ٹنڈوالہ یار میں مولانا احتشام الحق مرحوم کے قائم کردہ دارالعلوم آگیا، ۳ سال اس دارالعلوم میں گزارے۔ اس میں احقر کو وہاںکی آب وہوا ناموافق ہوئی، مزید وہاں کا نظم بھی قابل رشک نہ تھا، یہاں احقر ابوداؤد، ہدایہ اخیرین، جلالین وغیرہ پڑھاتا رہا، اس کے بعد احقر دارالعلوم کراچی منتقل ہوگیا۔ مولانا جمشید علی مرحوم ٹنڈوالہ یار ہی میں رہے، پھر کسی وقت وہ رائے ونڈ چلے گئے۔دارالعلوم کراچی میں احقر نے ۱۰ سال ترمذی شریف ، ۶ سال بخاری شریف کا درس دیا۔ دارالعلوم ہی کے زمانہ میں ایک سال تک بعد نمازِظہر تا عصر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں ترمذی جلد ثانی، شمائل ترمذی اور بیضاوی شریف کا درس دیا۔ دارالعلوم میں فنون کے اسباق بھی احقر نے پڑھائے، پھر حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ سے اجازت لے کر جامعہ فاروقیہ کراچی قائم کیا۔ اجازت بڑی مشکل سے ملی تھی، تاحال جامعہ فاروقیہ میں ہوں، پہلے تو بخاری، ترمذی، مشکوٰۃ کے دوسرے اسباق بھی احقر سے متعلق ہوتے تھے، اب جب معذوری کی حالت ہے تو فقط بخاری اول پڑھاتا ہوں۔ ‘‘ آپ کے ویسے تو بہت سارے اساتذہ تھے، لیکن آپ کو سب سے زیادہ تعلق اور محبت چار اساتذہ سے تھی، جن کے نام یہ ہیں : ۱:… شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، ۲:… شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علیؒ، ۳:… شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، اور ۴:… حضرت مولانا عبدالخالق ملتانیw۔  آپ سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان میں سے مشہور ومعروف چند حضرات یہ ہیں:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم ثانی حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ، مہتمم ثالث حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزی شہیدؒ، مولانا عنایت اللہ شہیدؒ، مولانا سید حمید الرحمن شہیدؒ، تبلیغی جماعت کے بزرگ حضرت مولانا جمشید علی خان رحمہم اللہ تعالیٰ ، دارالعلوم کراچی کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، نائب صدر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان اور حضرت مولانا عبید اللہ خالد ،حضرت مولانا منظور احمد مینگل ، حضرت مولانا ولی خان المظفر، حضرت مولانا ابن الحسن عباسی دامت برکاتہم نمایاں شخصیات ہیں۔ آپ کی تصانیف میں کشف الباری شرح صحیح بخاری (۲۲جلدیں) نفحات التنقیح شرح مشکاۃ المصابیح (۳جلدیں) ، آپ کے اداریوں، خطبات اور مواعظ پر مشتمل ’’صدائے حق‘‘ منصہ شہود پر آچکی ہیں، اس کے علاوہ جامع ترمذی کی شرح (۱۰ جلدیں) ، قرآن کریم کی تفسیر (۱۰ جلدیں) طباعت کے مرحلہ میں ہیں۔  حضرت شیخ  ؒلکھتے ہیں کہ:ہماری تعلیم کے زمانہ میں ’’میزان‘‘، ’’’منشعب‘‘، ’’نحومیر‘‘ اور ’’پنج گنج‘‘ کا امتحان مولانا اسعداللہ صاحب نے لیا۔ پوری جماعت میں سے صرف میرے اور میرے ایک ساتھی مولوی رفیق احمد صاحب کی رپورٹ میں لکھا : ’’سَیَکُوْنُ لَہُمَا شَأْنٌ‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ان دونوں کی مستقبل میں ایک شان ہوگی۔‘‘ یہ آپ کے ناناجان کی دعا تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو ۹۶سال کی طویل عمر عطا فرمائی تھی اور اس مرد قلندر اور درویش صفت عالم کی پیش گوئی کی تعبیر تھی کہ آپ نے جتنا اکیلے دینی کام کیا، کئی ادارے اور انجمنیں مل کر بھی اتنا کام نہیں کرسکتی تھیں۔  آپ کی سرگزشت میں لکھا ہے کہ: دارالعلوم دیوبند سے فاتحہ فراغ پڑھنے کے بعد آپؒ نے اپنے استاذ حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ کے حکم پر اپنی مادر علمی مدرسہ مفتاح العلوم میں بلامعاوضہ پڑھانا شروع کردیا۔ چونکہ گھر کے حالات اچھے تھے، والد صاحب ماہر طبیب تھے، والدہ گھر میں تجارت کرتی تھیں، مدرسہ سے تنخواہ لینا میں نے مناسب نہیں سمجھا۔ والد صاحب کی چاہت تھی کہ درسِ نظامی سے فراغت کے بعد طب کی تعلیم حاصل کروں، والدہ کی چاہت تھی کہ انگریزی پڑھوں، اور دونوں کہتے تھے کہ مدرسہ میں رہ کر کہاں سے کھاؤگے؟ تمہاری شادی نہیں ہوگی، تم زندگی کیسے گزاروگے؟ میں جواب دیتا کہ :’’شادی بھی ہوجائے گی، میں مدرسہ کی تدریس چھوڑکر طب اور انگریزی نہیں پڑھوں گا۔‘‘ میرا یہ جواب سن کر دونوں نے کہا: ٹھیک ہے، آپ کی جو مرضی ہو کریں، ہمارا جتنا سامان آپ کے پاس ہے وہ واپس کردیں، چنانچہ بستر اور کچھ دوسری چیزیں جو میرے پاس تھیں، وہ میں نے واپس کردیں۔ اسی اثناء میں میرے ہم سبق مولانا فضل ہادی پشاوری بنارس شیخ الحدیث بن کر گئے تھے، ان کا پتا میرے پاس موجود تھا اور ان سے بے تکلفی اور دوستی تھی۔ میں نے ان کو خط لکھا کہ آپ تیس روپے بھیج دیں۔ مجھے تشویش یہ تھی کہ منی آرڈر آئے گا اور وہ پہلے مولانا کے پاس جائے گا تو مولانا مجھ سے پوچھیں گے کہ یہ پیسے کیسے ہیں؟ میرا اور گھر والوں کا قضیہ اس تنگی کا سبب بنا تھا، وہ میں نے مولانا کو نہیں بتایا تھا۔ مولانا فضل ہادی کو اللہ جزائے خیر عطا فرمائے، انہوں نے منی آرڈر کی رسید پر یہ لکھا کہ: ’’آپ کے تیس روپے بھیج رہا ہوں، وصول فرماکر شکریہ کا موقع دیں‘‘ اس رسید کو پڑھ کر میری تشویش دور ہوئی۔ بہرحال میں تدریس کرتا رہا، کچھ عرصہ کے بعد میں نے والدین سے کہا کہ میرے لیے ایک رشتہ آیا ہے، انہوں نے کہا: کہاں سے آیا ہے؟ میں نے بتایا کہ دیوبند میں خالو کے ہاں سے( میری خالہ فوت ہوگئی تھیں، خالو نے دوسری شادی کی تھی، اور وہ میری رفیقۂ حیات ان کی دوسری گھر والی سے تھی) والدین نے کہا: ہم نے رشتہ دیکھا نہیں، اور ہم وہ کیسے قبول کرلیں؟ ہم نے تو کہیں اور ایک دو رشتے دیکھے ہیں۔ میں نے کہا: آپ لوگ دیکھ لیں، اگر رشتہ پسند آجائے تو ترجیح ان کو ہونی چاہیے۔ والدین نے میرا رشتہ دیکھا اور ان کو پسند آگیا، یوں میری شادی ہوگئی۔ مدرسہ کے مہتمم صاحب نے میری تنخواہ ایک سو روپے مقرر کردی، جب کہ ان کی تنخواہ چالیس روپے تھی۔ اب شادی بھی ہوگئی، والدین بھی راضی ہوگئے۔ میں اپنی تنخواہ میں سے نوے روپے والدہ کو دیتا تھا، جس سے والدہ خوش ہوکر مجھے بہت دعاؤں سے نوازتی تھیں، اور دس روپے اہلیہ کو دیتا تھا، چونکہ حالات اچھے ہوگئے تھے، ہمیں اپنے پاس کچھ رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہٗ کا وفاق سے پرانا تعلق قائم ہے۔ آپ کی تعلیمی خدمات کے پیش نظر ۱۹۸۰ء میں آپ کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا اور ۱۹۸۹ء سے تادم آخر آپ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر چلے آرہے تھے۔ آپ نے وفاق المدارس کی افادیت اور مدارسِ عربیہ کی تنظیم وترقی اور معیارِ تعلیم کو بلند کرنے کے لیے جو خدمات سرانجام دیں، وہ وفاق کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ موقع ومحل کے مناسب ہدایات وراہنمائی کا فریضہ ادا کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً عوام وخواص کو نصائح فرماتے تھے۔ ایک دفعہ علمائے کرام اور درسِ نظامی سے فراغت پانے والوں کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا: حضرت عبداللہ بن عباس r کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی آدمی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ قرب خاص (خصوصی تعلق اور نسبت) پید اکرنا چاہتا ہے تو اسے قرآن کی خدمت کو اپنا مشغلہ بنانا چاہیے۔ اور جو آدمی رسول اللہ a کے ساتھ خصوصی قرب پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو حدیث کے ساتھ اشتغال اختیار کرنا چاہیے۔ لہٰذا آپ بھی قرآن پاک اور حدیث پاک کو اپنا مشغلہ بنائیں اور آپ لوگ قرآن مجید اور حدیث کا درس دیا کریں۔ قرآن وحدیث کا جو لب لباب اور خلاصہ ہے ’’فقہ‘‘ اس کی بھی ایک مجلس رکھا کریں، جس میں لوگوں کے دینی مسائل وسوالات کے جواب دیا کریں اور اگر کوئی مسئلہ محتاجِ تحقیق ہو تو کوئی تکلف اور شرم کی بات نہیں، آپ سائلین سے کہہ دیں کہ میں اسے معلوم کرکے ان شاء اللہ! پھر بتاؤں گا۔  آپؒ نے ایک اور موقع پر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’قرآن مجید میں علماء کی تعریف اور مذمت دونوں بیان ہوئی ہیں،جہاں یہ ارشاد ہے: ’’إِنَّمَا یَخْشٰی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ‘‘ وہاں یہ بھی ارشاد ہے: ’’یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا إِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَیَأْکُلُوْنَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔‘‘ اسی طرح حدیث میں جہاں یہ آیا ہے کہ :’’فضل العالم علی العابد کفضلی علی أدناکم‘‘ وہاںیہ بھی تو ارشاد نبوی موجود ہے کہ ’’شرار الخلق شرار العلمائ‘‘ (مشکوٰۃ) علامہ سیوطیv نے جامع صغیر میں ایک روایت نقل کی ہے، آپ a نے فرمایا: ’’أخوف ماأخاف علٰی أمتی کل منافق منطق اللسان‘‘ کہ ’’اپنی امت کے لیے جس قدر خطرہ اور اندیشہ مجھے ان منافقوں سے ہے ’’جو منطق اللسان ہوتے ہیں‘‘ اتنا کسی اور سے نہیں ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی لوگ ہوتے ہیں جو الفاظ کی اداکاری میں بڑے ماہر ہوتے ہیں، بڑے ہی حسین پیرائے اور عمدہ اسلوب میں اپنی بات کرتے ہیں کہ دوسرے آدمی کے دل کو موہ لیتے ہیں، یہ لوگ ’’منطق اللسان ‘‘ہیں۔ لیکن ان سے مراد منافقین ہیں، اس لیے کہ یہ علم اس کی زبان پر تو ہے ، لیکن اس کے دل تک یہ علم نہیں پہنچا اور اس کے علم نے دل پر اثر نہیں کیا، حالانکہ تعریف تو اسی علم کی ہے جو دل پر اثر انداز ہو۔ ہمارے علم کا اثر اگر ہمارے دل تک نہیں پہنچا اور دل نے اس علم کا اثر قبول نہیں کیا تو اگرچہ عقیدہ صحیح ہو، مگر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپس میں اتحاد نہیں ہوتا، نہ امانت کا خیال رہتا ہے، نہ دیانت کی فکر ہوتی ہے، نہ شرافت باقی رہتی ہے اور نہ اپنے بزرگوں کی روایات کا احترام، بلکہ سب سے بڑی بات یہ کہ رسول اللہ a کی وراثت کا بھی کوئی پاس اور لحاظ نہیں ہوتا ہے۔ بس ایسا آدمی نفاق ہی نفاق اور قدم قدم پر رہزنی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ پھر فرمایا: علماء حقانی بننے کے لیے صرف عقیدہ کا درست ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ نفسانیت سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے، اپنے اعمال کی اصلاح بھی کرنی چاہیے اور یہ ہمارا علم صرف ’’رسم‘‘ تک نہ رہ جائے، بلکہ اس کا اثر دل پر واقع ہونا چاہیے، تب بات بنے گی۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے ملک کی حالتِ زار اور سیاست دانوں کے سیاہ کرتوتوں پر کڑھتے ہوئے ارشاد فرماتے تھے کہ:یہ ملک پاکستان ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام واحسان ہے۔ آپ کے مشاہدے میں یہ آرہا ہے کہ اس ملک کو ختم کرنے کے لیے بے شمار طاقتیں سرگرم عمل ہیں، اس کو اقتصادی اور معاشی طور پر بالکل آخری حد تک پہنچانے کے لیے جو کوششیں ہوتی رہی ہیں اور آج ہورہی ہیں، آپ مجھ سے زیادہ واقف ہیں۔ اب ہندوستان کے ساتھ روابط بڑھائے جارہے ہیں، یہاں دانستہ طور پر سیکولر نظام لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انڈیا، کشمیر کے معاملہ پر قدم قدم پر انہیں لاتیں ماررہا ہے اور یہ اس کی خوشامد کیے جارہے ہیں۔  آپؒ فرماتے تھے کہ: انہی دینی مدارس، دینی مراکز اور علمائے کرام کی دعوت وتبلیغ کا اثر تھا کہ انگریز کی ترغیب وتحریص اور ظلم وستم کی ہرکارروائی جو اسلام کو برصغیر سے مٹانے کے لیے کی گئی تھی‘ ناکام ہوئی اور مسلمانوں میں قرآن وسنت اور شعائر اسلام کی محبت اور قومی تشخص کااحساس نہ صرف یہ کہ فنا نہیں ہوا بلکہ اس نے شدت اختیار کرلی اور پھر وہ مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کے مطالبے کا سبب بنی، ورنہ انگریزی دور کی دوسری درسگاہوں سے معاشی خوشحالی کے سوا کوئی دوسرا فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکا، بلکہ ان سے نفع کی بجائے نقصان بہت ہوا۔ انگریزی تہذیب وثقافت ، ملحدانہ خیالات ونظریات اپنے ماضی سے کٹ کر یہود ونصاریٰ اور بے دین کافروں کی روش پر چلنے اور قوم کو چلانے کا خبط، غیروں اور اسلام کے دشمنوں سے ذلت ناک مرعوبیت، یہ سب وبال انگریزی درسگاہوں ہی کا ثمر نامسعود ہے، جس کا مزا اہلیانِ پاکستان اب تک چکھ رہے ہیں اور مملکت اسلامیہ میں آج بھی یہی عمل پہلے کی نسبت سے ہزاروں گنا زیادہ کروڑوں اور اربوں روپے کے بجٹ سے جاری وساری ہے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپؒ فرماتے تھے کہ:تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ برصغیر میں دینی علوم کی اشاعت وخدمت خواہ قرآن کریم کی حفاظت، تعلیم وتدریس اور تفسیر کی صورت میں ہو یا حدیث رسول اللہ (a) کی اشاعت‘ تعلیم وتدریس یا شرح وحاشیہ کے انداز میں یا فتویٰ وفقہ کے اعتبار سے ہو یا باطل تحریکوں کی تردید وابطال کے لحاظ سے ہو، دیوبند کا ان میں کوئی مقابل نہیں۔ رجالِ دین کی حیثیت سے ہو یا سیرت وصورت اور اعمال وکردار کے اعتبار سے ، شریعت کے داعی اور دین کے حامل اگر سو فیصد آپ کہیں دیکھنا چاہیں تو وہ دارالعلوم دیوبند کے زیراثر علماء ہوں گے۔  مدارس کی افادیت، ان کی اہمیت اور ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے فرماتے تھے کہ: اگر کوئی اسلام اور پاکستان کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہا ہے تو وہ یہی آپ کے دینی مدارس ہیں۔ دشمن نے یہ سمجھ لیا ہے کہ پاکستان کے استحکام کو اگر نقصان پہنچایا جاسکتا ہے تو (اچھی طرح سن لو!) علماء دیوبند کو نقصان پہنچاکر ہی پہنچایا جاسکتا ہے۔ دشمن کی تدبیر کوئی معمولی نہیں ہوتی۔ اگر پاکستان کی حفاظت چاہتے ہو تو علماء دیوبند اور ان کے مدارس کی حفاظت کی جائے، تبھی تو دشمن نے انہی علماء دیوبند اور ان کے دینی مدارس کو ’’ہدف‘‘ بنایا ہے۔ آپؒ فرماتے تھے کہ :ان مدارس میں ہمارے پیش نظر رجالِ دین تیار کرنا ہے، جو قرآن وسنت کی اشاعت وتعلیم کا فریضہ انجام دے سکیں اور اسلام کی تبلیغ ودعوت کی مہم سرکرسکیں۔ ہماری تعلیم کا مقصد آج بھی روزی کمانا نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ روزی کمانا جائز نہیں۔ وہ بھی ایک ضرورت ہے، لیکن یہ اس تعلیم کا مقصد نہیںہے۔  اس لیے برادرانِ اسلام! اللہ نے ایک بہت بڑی دولت ’’پاکستان‘‘ کی شکل میں آپ کو عنایت کی ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت کے لیے جس جس دینی شعبے میں آپ خدمت انجام دے سکتے ہیں ، وہ خدمت آپ ضرور انجام دیں۔ آپ حضرات ان مدارس کے ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون فرمائیں اور ان کی خدمت کریں، کیونکہ یہ ایک اتنا بڑا کام کررہے ہیں کہ ۵۰(اب۷۰ ) سالوں میں کوئی حکومت ان کی گرد کو نہ پہنچ سکی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تبلیغی جماعت سے اپنا تعلق اور ان کی اس چلت پھرت اور عوام الناس میں دعوت وتبلیغ کی کتنا ضرورت ہے، اس کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ: مولوی ارشاد احمد صاحب کے ساتھ کبھی کبھی عصر کے بعد تبلیغی جماعت کے گشت میں جانا ہوا تو گشت کے دوران بعض ایسے افراد بھی ملے جن کو کلمہ یاد نہیں تھا، یا پھر وہ کلمے کا صحیح تلفظ نہیں کرسکتے تھے، اس کا مجھ پر بہت اثر ہوا، اور تبلیغ کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوئی، چنانچہ جلال آباد میں ہم نے تبلیغی کام شروع کیا، قصبے میں اور قرب وجوار کے دیہات میں جماعت لے کر جاتے تھے، اس کے اثرات اچھے ظاہر ہوئے۔ حضرتؒ نے فرمایا: حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویv جو مولانا الیاس صاحبv کے بعد تبلیغی جماعت کے امیر تھے، انہوں نے دارالعلوم کراچی میں ایک مرتبہ طلبہ اور علماء کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’ایسی تبلیغ جس میں اسباق کا ناغہ ہو، یا مطالعے اور تکرار میں حرج واقع ہو، حرام ہے، حرام ہے، تین مرتبہ فرمایا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر لوگ جذبات میں بہہ جاتے ہیں اور بزرگوں کی اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس میں بڑے بڑے حضرات بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ تبلیغ کا نفع ناقابل انکار ہے اور اس کی وجہ سے بے شمار انسان جن کا رشتہ اسلامی تعلیمات سے بالکل منقطع تھا، یا پھر وہ اسلامی تعلیمات کے برعکس فسق وفجور میں بدمست تھے، تبلیغ کے ذریعہ ان کو ہدایت ملی اور وہ راہِ راست پر آگئے، اس لیے غلو سے بچتے ہوئے یہ کام کرنا چاہیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہٗ کی جب طبیعت ناساز ہوئی تو اُنہیں ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے آپ کا چیک اپ کیا، علاج معالجہ شروع ہوا، تو آخری دو دن آپ کی طبیعت میں کافی افاقہ ہوگیا، جس رات آپ کا وصال ہوا، راقم الحروف بھی ٹبہ ہسپتال کراچی میں آپ کی عیادت کے لیے حاضر ہوا، آپ کے صاحبزادہ حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئی، کافی دیر بیٹھا رہا، آپ کی طبیعت کے بارہ میں باتیں ہوتی رہیں، آپ نے بتایا کہ ابھی حضرت نے عشاء کی نماز تیمم کرکے ادا فرمائی ہے۔ مولانا نے مزید بتایا کہ:حضرت نے نماز ادا کرنے کے بعد مجھے فرمایا: میرے رومال کو سر سے تھوڑا پیشانی سے نیچے کردیں، تاکہ میں آرام کرلوں۔ حضرت مولانا عبیداللہ خالد صاحب بھی آپ کی صحت یابی سے کافی مطمئن تھے، راقم الحروف آپ سے اجازت لے کر گھر کی طرف روانہ ہوا تو حضرت مولانا صاحبزادہ خلیل احمد سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ والوں کا فون آیا کہ اطلاع آئی ہے کہ حضرت شیخ صاحب کا وصال ہوگیا ہے، میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں ابھی ہسپتال سے ہوکر آرہا ہوں، حضرت تو صحیح تھے، آرام فرمارہے تھے، آپؒ نے فرمایا کہ: تحقیق کرو اور مجھے بھی اطلاع دو۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ حضرت تو اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آپؒ کی نمازِ جنازہ میں اکابر علماء کرام کے علاوہ ، طلبہ، عوام اور عام شہریوں کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔  جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، ناظم تعلیمات حضرت مولانا امداد اللہ صاحب اور دیگر اساتذہ وطلبہ بھی آپ کی نمازِ جنازہ میںشریک ہوئے۔ حضرت شیخ صاحبؒ نے اپنے پسماندگان میں ہزاروں طلبہ، مریدین اور معتقدین کے علاوہ ایک بیوہ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔  اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، قبر میں کروٹ کروٹ راحت وسکون نصیب فرماتے ہوئے آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے۔ أَللّٰہُمَّ لاتحرمنا أجرہٗ ولاتفتنَّا بعدہٗ ۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین