بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

رِبا الجاہلیہ ، رِبا الاسلام اور اسلامی بینکاری

رِبا الجاہلیہ ، رِبا الاسلام اور اسلامی بینکاری


’’محترم ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، معروف اسکالر اور صاحبِ قلم ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کی تحریرات اور آراء اہلِ علم کی نظر گزار ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی بعض آراء سے اہلِ علم کو کبھی اتفاق رہتا ہے اور کبھی اختلاف کا اظہار بھی پڑھنے اور سننے کو ملتا رہتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون ’’رِبا‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر صاحب موصوف نے جاہلیت اور اسلام کے دور میں رِبا کے تصور اور فی زمانہ اس پر مبنی نام نہاد اسلامی بینکاری کا واقعاتی تجزیہ پیش کیا ہے۔ یہ تحریر دو حصوں پر مشتمل تھی، دونوں کو ربط کے معمولی تصرف کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ ‘‘                                                                 (ادارہ بینات)

ایک صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایک مضمون لکھ کر ربا الجاہلیہ اور ربا الاسلام کا فرق واضح کروں، اپنی مصروفیات کی وجہ سے مطالبہ پورا کرنے میں دیر ہوتی رہی۔ آج دیکھا کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے درمیان ایک غلط فہمی پیدا کر رہے ہیں جس کی وجہ اس فرق کا واضح نہ ہونا ہے، لہٰذا شدید مشغولیت کے باوجود یہ مضمون قلمبند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، تاکہ اس سلسلہ میں کتابِ الٰہی اور سنتِ نبوی پر ظلم کا دروازہ بند ہوسکے۔

ربا الجاہلیہ

رِبا کا ترجمہ اردو میں ہے: ’’سود‘‘ ۔ ربا الجاہلیہ کا مطلب ہے: ’’وہ سود جسے زمانۂ جاہلیت میں بھی سود سمجھا جاتا رہا ہے، اور جس کی قباحت پر تمام مذاہب اور تہذیبیں متفق اللسان رہی ہیں، اور اسلام نے اس کی حرمت کو مؤکد کیا۔‘‘ یعنی ربا الجاہلیہ کا مطلب ہے: ’’قرض پر فائدہ لینا‘‘ اس ربا کا تعلق صرف قرض سے ہوتا ہے، ضرورت مند مجبوری میں قرض لیتے ہیں، انسانیت کا تقاضا ہے کہ انہیں قرض دے دیا جائے، اور ان کی مجبوری سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا جائے، ان کو قرض واپس کرنے کا موقع دیا جائے، اور جو رقم انہوں نے لی ہے، اس سے زیادہ ان پرلازم نہ کی جائے، اور اگر وہ وقت پر ادا نہ کرسکیں تو نرمی کی جائے، نہ ان سے کوئی فائدہ لیا جائے اور نہ تاخیر کرنے پر کوئی جرمانہ عائد کیا جائے۔
رِبا کے قبیح ہونے کے باوجود ہمیشہ انسانی معاشروں میں ربا کا چلن رہا ہے، جس طرح زنا کی قباحت کے باوجود زنا کی مختلف شکلیں ہمیشہ برتی گئی ہیں، واقعہ یہ ہے کہ سود کی برائی زنا سے بھی زیادہ ہے، جیسا کہ آگے آئے گا۔ سود غریبوں کا خون چوسنے کے ہم معنی ہے، یہودیوں کے یہاں سود کی حرمت مسلم ہے، لیکن انہوں نے حیلہ کرکے غیر یہودیوں سے سود لینے کو جائز کرلیا، اور یوں یہودی دنیا میں سب سے بڑی سود خوار قوم بن گئے۔ عربوں نے بھی دورِ جاہلیت میں سود کا کار وبار جاری رکھا اور یہ تاویل کی کہ جب ہم کوئی چیز بیچتے ہیں تو نفع لیتے ہیں، سود بھی خرید وفروخت کی طرح ہے، اس لیے یہ بھی درست ہے، قرآن کریم نے ان کی یہ دلیل نقل کی ہے: ’’قَالُوْا إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا‘‘ (سورۃ البقرۃ:۲۷۵) یعنی ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ سود خرید وفروخت کی طرح ہے۔‘‘
یہ عربوں کا محض دھوکہ تھا، سود قرض پر ہوتا ہے، اور قرض کو ہمیشہ بیع سے الگ سمجھا گیا ہے، قرآن کریم نے ان کی اس دلیل کو کالعدم قرار دیا، اور سخت لفظوں میں سود کو حرام کیا: ’’وَأَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا‘‘ (سورۃ البقرۃ:۲۷۵) بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر ربا سے باز نہیں آتے تو تمہارے خلاف اللہ اور اس کے پیغمبر کی جانب سے اعلانِ جنگ ہے: ’’فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ (سورۃ البقرۃ:۲۷۹)  
تمام صحابۂ کرامؓ، تابعین عظامؒ اور فقہائے امت نے سختی سے سود کی حرمت کو نافذ کیا، اور یہ طے شدہ اصول ہو گیا کہ قرض پر کسی قسم کا فائدہ لینا سود ہے: ’’کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَہُوَ رِبًا‘‘ بعض لوگوں نے اسے حدیث بھی قرار دیا ہے، مگر یہ ایک کمزور روایت ہے، البتہ بہت سی حدیثوں سے اس کی تائید ہوتی ہے، یعنی یہ اصول مضبوط دلیلوں پر قائم ہے، اُمتِ مسلمہ نے ہمیشہ اس پر شدت سے عمل کیا اور قرض کو ہر طرح کے فائدہ سے پاک رکھنے کا اہتمام کیا۔

ربا الاسلام

عربوں نے سود کو بیع جیسا قرار دیا، حالانکہ سود اور بیع میں بعد المشرقین ہے۔ سود کا تعلق قرض سے ہے، اور بیع دو چیزوں کے تبادلہ کا عمل ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سود کی حرمت کے متعلق بہت حساس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ معلوم تھا کہ گزشتہ قوموں نے کس طرح حیلہ کرکے سود کو دنیا میں پھیلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان تمام شکلوں کو سختی سے منع کیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سوچا کہ سود کو اختیار کرنے کے لیے بیع کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے، خاص طور سے جبکہ عربوں نے سود کو بیع کے مثل قرار دے دیا ہے، مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ مہاجن کسی مفلس سے یہ کہے کہ میں تمہیں دو سو گرام (آسانی کے لیے مثال میں اپنے زمانہ کا وزن استعمال کیا گیا ہے) تین سو گرام سونے کے عوض بیچتا ہوں، میرا سونا اعلیٰ درجہ کا ہے، اس لیے اس کی قیمت زیادہ ہے، تم بعد میں ادا کرنا، لیکن تمہیں تین سو گرام ادا کرنا ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ مفلس کے پاس سونا ہے نہیں، وہ اسے قبول کرلے گا، یعنی دونوں قرض کو قرض کہنے کے بجائے اسے بیع ظاہر کر سکتے ہیں، مہاجن فائدہ کی لالچ میں اور مفلس اپنی مجبوری میں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ خدشہ صحیح تھا کہ سود کے لیے بیع کا حیلہ اختیار کیا جا سکتا ہے، اس لیے آپ نے ان چیزوں کی بیع پر جن میں سود کا امکان زیادہ تھا، دو شرطیں لگادیں: ایک یہ کہ جب بھی سونا سونے کے بدلہ میں بیچا جائے، ایک ہاتھ سے دیا جائے اور دوسرے ہاتھ سے لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ دونوں کا وزن برابر ہو، ان دونوں شرطوں سے حیلہ کرنے والوں کے تمام حیلوں کا راستہ بند ہو گیا، کیونکہ مفلس کے پاس اگر اس وقت ادا کرنے کے لیے سونا ہوگا تو قرض کیوں لے گا؟ وہ تو آئندہ ادا کرنے کے وعدہ پر لے رہا تھا، آپ نے ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے ہاتھ سے لینے کی شرط لگاکر اُدھار بیع کو ربا کا حیلہ بنانے پر مکمل پابندی لگادی۔ دوسرے اعلیٰ اور ادنیٰ درجہ کا بہانہ ختم کرکے یہ ضروری قرار دیا کہ جتنا دیا جائے‘ اتنا ہی لیا جائے، ظاہر ہے کہ کوئی سود خوار ایسا نہیں کرے گا۔ اسی حرمت میں آپ نے سونے کی بیع کے ساتھ چاندی، کھجور، گیہوں، جو اور نمک کی بیع بھی شامل کردی۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی ہے۔ عام طور سے فقہاء نے ان چھ چیزوں پر دوسری چیزوں کا بھی قیاس کیا ہے، اس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ 
بیع کے نقطۂ نظر سے یہ بات کچھ عجیب سی ہے، کیونکہ اشیاء کی صفتِ جودت ورداءت سے قیمتوں پر اثر پڑتا ہے۔ عجوہ کھجور سو ریال کی ایک کلو ملتی ہے، تو بعض کھجوریں بیس ریال کلو مل جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی نہیں جو دونوں کو برابر بیچے۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ربا کا مکمل سدِ باب کرنے کے لیے ان چھ چیزوں کے باہمی تبادلہ کی دو شرطیں (یعنی ایک ہاتھ سے دینا اور دوسرے ہاتھ سے لینا، اور دینے اور لینے میں مساوات قائم رکھنا) بیان کیں، اسلام سے پہلے اس معاملہ کو ربا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے اسے ربا قرار دیا، اسی لیے اسے ربا الاسلام کہا جاتا ہے ۔ یہ ربا اسی وقت ہے جب سونے کو سونے کے بدلہ یا کھجور کو کھجور کے بدلہ بیچا جائے، لیکن اگر کھجور کو پیسے سے خریدا جائے تو اس میں ربا کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا، اور سود خوار لوگ اسے ربا کے حیلہ کے طور پر نہیں ا پنا سکتے، اسی لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: اچھی کھجور کو خراب کھجور سے نہ بدلو، بلکہ اپنی کھجور پیسے سے بیچ دو اور دوسرے کی کھجور پیسے سے خریدو۔ اس میں یہ ممکن ہے کہ جتنے میں اپنی ایک کلو کھجور بیچو اُتنے میں دوسرے کی دو کلو خرید لو، یہ ہدایت بالکل منطقی ہے، کیونکہ سود کا کار وبار کرنے والے کبھی یہ طریقہ اپنا ہی نہیں سکتے، چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ کسی صحابیؓ نے عرض کیا کہ وہ خیبر کی اچھی کھجوریں ایک صاع دے کر دو صاع یا تین صاع کھجوریں لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، بلکہ اپنی کھجوریں پیسے سے بیچو اور دوسری کھجوریں پیسے سے خریدو، یہ مشورہ بالکل صحیح ہے، اور ساری دنیا میں کار وبار اسی طرح ہوتا ہے، اس میں سود کا کوئی شائبہ نہیں اور نہ اسے سود کے حیلہ کے طور پر اپنایا جاسکتا ہے ۔

اسلامک بینکنگ ربا الجاہلیہ ہے

یہودیوں کی سود خوری نے جدید دور میں نیا رنگ دکھایا، اور بینک کے نام سے سودخوری کا ایک ادارہ قائم کیا گیا، ان کی چالاکی نے جلد ہی اس ادارہ کو پوری دنیا میں پھیلادیا، اور ہر جگہ بینک قائم ہوگئے، بینک کا بنیادی کام سود پر قرض دینے اور سود پر قرض لینے کا ہے۔ اس پورے کار وبار میں بینک جہاں سود کو معمول زندگی بنا رہے ہیں، وہیں مختلف قسم کے مظالم کو قانونی حیثیت دے رہے ہیں۔ ساری دنیا اس جرم میں شریک ہے۔ کچھ لوگوں نے اسلامک بینکنگ شروع کردی، حالانکہ یہ بات روزِ اول سے واضح تھی کہ بینک اسلامی ہو ہی نہیں سکتا۔ ان لوگوں نے بینک کے ساتھ اسلام کا سابقہ لگا کر اس کے جائز ہونے کا پروپیگنڈا کیا، اور یہ کاروبار دنیا میں ہر جگہ پھیلایا گیا، یہاں تک کہ مغربی سودی بینکوں نے بھی ایک کھڑکی اسلامی بینک کے نام سے کھولنا شروع کردی، کیونکہ اسلامی بینکنگ سود خوروں کے لیے زیادہ نفع بخش ثابت ہوئی، بالعموم اسلامی بینکوں میں فائدہ کی شرح عام سودی بینکوں کے مطابق ہوتی ہے، بلکہ کبھی کبھی زیادہ ہوتی ہے، یعنی اسلامی بینکوں سے قرض لینے پر سود عام بینکوں کے برابر یا زیادہ دینا پڑتا ہے۔ کسی غریب مسلمان کو عام بینکوں سے ایک لاکھ روپے کا قرض لینا ہو تو اسے ایک سال میں اگر سود کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے تو اسلامی بینکوں میں بھی اسے اتنا ہی یا اس سے زیادہ دینا ہوگا۔ دنیا میں کوئی اسلامی بینک ایسا نہیں ہے جہاں صرف قرض کی اصل رقم لوٹانی ہو اور اس کے ساتھ کوئی اضافی مبلغ نہ دینی ہو۔
کچھ لوگ اس موقع پر یہ کہتے ہیں کہ پیسے کی قیمت گھٹتی رہتی ہے، تو اگر اتنا ہی واپس کرنا ہو تو قرض دینے والے کا گھاٹا ہوگا، تیسرے ملکوں کی کرنسیوں میں یہ عام بات ہے، لیکن اس کا سدِ باب سود نہیں ہے (اس کا حل میں نے کسی اور جگہ بیان کیا ہے)، سود مہنگائی سے نہیں جڑا ہوتا ہے، بلکہ وہ قرض پر مزید فائدہ کا نام ہے۔ مہنگائی کا بہانہ کرنا صرف دجل وفریب ہے۔ آج معلوم ہوا کہ اسلامی بینک والوں نے سود کے حیلہ کے لیے خیبر والی حدیث استعمال کرنا شروع کردی ہے، حالانکہ خیبر والی حدیث میں کوئی حیلہ ہی نہیں، بلکہ اس میں آپ نے معمول کا کار وبار کرنے کی ہدایت کی ہے، اس طرح کے کاروبار پر نہ اسلام میں کوئی پابندی ہے اور نہ کسی اور تہذیب میں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی چیز کو اس کے مثل سے بیچنے کو منع کیا، کیونکہ اسے سود کا حیلہ بنایا جا سکتا ہے، تفصیل اوپر آچکی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں سود پر اتنی سخت وعید موجود ہونے کے باوجود سود کا نام بدل کر اسے جائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کا حیلہ یہودیوں نے سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کرنے کے لیے کیا تھا، جس پر قرآن نے ان پر سخت لعنت بھیجی۔ مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے کہ : ’’سود کے تہتر دروازے ہیں، سب سے معمولی دروازہ اپنی ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے۔‘‘ مسند احمد بن حنبل اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ  کا یہ ارشاد ہے: ’’دَعُوْا الرِّبَا وَالرِّیْبَۃَ‘‘، یعنی ’’ربا کو ترک کرو اور اس چیز کو بھی ترک کرو جس میں ربا کا شبہ ہو۔‘‘ حاصل یہ ہے کہ اسلامی بینک سود کو اسلامی بنانے کی گھناؤنی کوشش ہے، جس طرح زنا کو اسلامی نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح سود کبھی اسلامی نہیں ہو سکتا۔ جس طرح زنا کے لیے حیلہ کرنا ناجائز ہے اور حیلہ کے بعد بھی زنا‘ زنارہے گا، اسی طرح سود کے لیے بھی حیلہ کرنا نا جائز ہے، اور حیلہ کے بعد بھی سود‘ سود ہی رہے گا، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی سمجھ دے اور تمام محرمات سے ہمیں بچنے کی توفیق دے، آمین ۔

(ماقبل میں جو کچھ لکھا گیا ہے) اس پر مشہور عالم دین وداعی مولانا محیی الدین غازی صاحب مدظلہٗ نے یہ سوال کیا: یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی کہ اگر ایک مجلس میں تین کلو خراب کھجور دے کر ایک کلو اچھی کھجور لے لی جائے تو اس میں ربا یا شبہۂ ربا یا ذریعۂ ربا کی کون سی بات ہے؟
جواب: اس سے خوشی ہوتی ہے کہ ہر قسم کے زوال کے با وجود اسلام میں ابھی وہ اہلِ علم حضرات موجود ہیں جو اس دین کو کوئی چیستاں نہیں سمجھتے، اور نہ بے سمجھے بوجھے کسی کام کے کرنے کو دینداری تصور کرتے ہیں۔ یہی اس دین کا امتیاز ہے کہ اس کی ہر بات سمجھی اور سمجھائی جا سکتی ہے، اور جب تک وضاحت اطمینان بخش نہ ہو، اس کا ماننا کسی صاحبِ ایمان یا صاحبِ عقل پر لازم نہیں، بلکہ اس کے بر عکس اس وقت تک بحث وتحقیق جاری رکھنا ضروری ہے، جب تک صحیح جواب حاصل نہ ہو جائے۔

رِبا کیا ہے؟

ربا کا تعلق ’’باب البیع‘‘ سے نہیں، بلکہ ’’باب القرض‘‘ سے ہے۔ قرض دینا ایک فلاحی عمل ہے، جو انسانی معاشرہ میں شرافت کی علامت شمار ہوتا رہا ہے، یعنی ضرورت کے موقع پر کسی کو ادھار دینا، ادائیگی میں اس کی مجبوریوں کی رعایت کرنا، اور اس سے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ لینا، یہ باتیں قرض کے لوازم میں سے ہیں۔ خدا کے نزدیک اس طرح قرض دینے والوں کے لیے اجرِ عظیم ہے۔ اس کے برعکس قرض دے کر فائدہ لینا کمینہ پن ہے اور غریبوں کا خون چوسنا ہے۔ قرآن کریم میں اسے اللہ ورسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف اعلانِ جنگ سے تعبیر کیا گیا ہے، یہی وہ ربا ہے، جسے ربا الجاہلیہ کہا جاتا ہے۔ بینکوں کا سود بھی اسی میں داخل ہے۔

رِبا اور بیع کا فرق؟

کسی مال کی ملکیت کے منتقل ہونے کی بہت شکلیں ہیں، مثلاً صدقہ، ہبہ، قرض، وراثت اور وصیت وغیرہ، انہیں میں ایک شکل ہے بیع یعنی خرید وفروخت، اس میں دو افراد ایک دوسرے سے چیزوں کے تبادلہ کا کام کرتے ہیں، قدیم زمانہ میں اشیاء کا تبادلہ اشیاء سے عام تھا، بعد میں پیسے کو تبادلہ کا وسیلہ طے کردیا گیا، اور اس سے بڑی آسانی ہوگئی۔ بیع‘ نفع کے حصول کی غرض سے کی جاتی ہے۔ قرض‘ محض خیر خواہی ہے، اس میں فائدہ حرام ہوتا ہے۔ اور بیع‘ ایک کار وبار ہے، اور اس میں فائدہ مقصود ہوتا ہے۔ معاشرہ کے اندر جس طرح صدقہ، ہبہ وغیرہ کی ضرورت ہے، اسی طرح قرض اور بیع ضروری ہیں۔ ربا قرض پر فائدہ لینے کو کہتے ہیں، اور بیع تبادلہ پر فائدہ لینے کو کہتے ہیں، پہلا کمینگی ہے، اور دوسرا انسانی تہذیب اور معاشرتی ارتقا کا لازمہ، ان دونوں کے الگ الگ ہونے پر ہمیشہ انسانوں کا اتفاق رہا ہے۔

سود خواروں کا فریب

بعض سود خواروں نے اپنی کمینگی کو چھپانے کے لیے ربا اور بیع کو مماثل کرنے کی کوشش کی، اور یہ مغالطہ قائم کیا کہ جب ہم کوئی چیز بیچتے ہیں تو نفع لیتے ہیں، سود میں بھی نفع ہوتا ہے، اس لیے بیع ربا ہی کی طرح ہے، اگر بیع جائز ہے تو ربا بھی جائز ہے۔ قرآن کریم نے ان کی یہ دلیل نقل کی ہے: ’’قَالُوْا إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا‘‘ (سورۃ البقرۃ:۲۷۵)، یعنی ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ سود خرید وفروخت کی طرح ہے۔‘‘ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک مغالطہ ہے، کیونکہ ربا کا تعلق قرض سے ہے، اور قرض وبیع دو الگ الگ حقیقتیں ہیں۔

ربا الاسلام

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن کریم کا گہرائی سے مطالعہ فرماتے تھے۔ اس کتاب میں تدبر کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سب کا نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جتنی سنتیں ہیں وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قرآن ہی سے اخذ کی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ربا کی حرمت میں نازل ہونے والی آیتوں پر غور کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اندازہ ہوگیا کہ ربا کا معاملہ کتنا سنگین ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ربا کا ہر دروازہ ہر طرح بند کرنے کی کوشش کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ محسوس کیا کہ ربا کو جائز قرار دینے کے لیے ایک راستہ ہمیشہ اختیار کیا گیا ہے اور آئندہ بھی اختیار کیا جائے گا، اور وہ ہے ربا کی تمام شکلوں کو یا بعض شکلوں کو بیع قرار دے کر انہیں جواز فراہم کرنا۔ جو لوگ اسلامک فائینانس سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس میں بھی بیع ہی کے راستہ سے ربا کو حلال کرنے کی کوشش ہے۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ کی منشا کو سمجھتے ہوئے یہ بات واضح کردی کہ بیع سے کتنی ہی مماثلت پیدا کی جائے، تب بھی ربا ربا رہے گا، اور وہ حلال نہ ہوگا۔ البتہ اگر بیع کی کوئی شکل ربا کے مشابہ ہوگی تو اسے ضرور حرام کیا جائے گا، اسی لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان چھ چیزوں کا تذکرہ کیا جو ماقبل میں بیان کی جا چکی ہیں، اور اسی کو ربا الاسلام کہتے ہیں، ان چھ چیزوں کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ بالعموم انہیں چیزوں میں قرض کا رواج تھا، کچھ علماء نے ربا الاسلام کو ان چھ چیزوں کے ساتھ خاص رکھا ہے، اکثر فقہاء نے ان پر دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا ہے۔

رِبا الاسلام کیونکر ربا ہے؟

یہ بات اچھی طرح ذہن میں رہے کہ قرآن نے جس ربا کو حرام کیا ہے، اس کا تعلق قرض سے ہے۔ اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جس ربا کو حرام کیا ہے‘ اس کا تعلق بیع سے ہے۔ظاہر ہے کہ بیع میں کوئی ربا نہیں ہوتا، کیونکہ بیع کی بنیاد ہی فائدہ پر ہے۔ انسانی معاشروں میں تاریخ کے کسی دور میں بھی ربا کا تعلق ’’باب البیع‘‘ سے نہیں رہا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیع کی بعض شکلوں کو ربا قرار دیا؟ اس کی وجہ وہی ہے جس کی طرف پہلے اشارہ آچکا ہے، یعنی سود اس قدر گندی چیز ہے کہ اگر بیع کی کوئی شکل سود کے مشابہ ہوگئی تو وہ بھی سود کی طرح حرام ہوگی۔

بیع کی کوئی شکل ربا کے مشابہ کیوں ہو سکتی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ربا ہمیشہ قرض میں ہوتا ہے، اور قرض کا مطلب ہے کہ: آدمی جو جنس قرض پر دے، واپسی میں وہی جنس لے، یعنی اگر سونا، چاندی، یا کوئی اور پیسہ قرض میں دیا ہے تو واپسی میں وہی چیز دینی ہوگی۔ اگر کھجور لی ہے تو واپسی میں کھجور دینی ہوگی۔ ربا میں جنس کا تبادلہ جنس سے تفاضل کے ساتھ ہوتا ہے، اور ربا ہمیشہ نسیئۃ یعنی اُدھار ہوتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: جنس کی بیع جنس سے قرض کے مماثل ہے، لہٰذا متجانسین کی بیع میں تفاضل اور نسیئہ دونوں سود سے مماثلت کی وجہ سے حرام ہوں گے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمت افزائی کی کہ بیع یا تو پیسے کے ذریعہ ہو، اور اگر پیسہ نہ ہو تو ایک چیز کی بیع دوسری جنس سے ہو، یعنی ربا الاسلام خود ربا نہیں، بلکہ ربا سے مشابہ ہے۔ تشابہ کی وجہ سے اس دین میں بہت سی چیزیں ممنوع قرار دی گئی ہیں۔ کتنی چیزیں ہیں جو یہودیوں یا مستکبرین کی عادات سے مشابہ ہیں اور انہیں حرام کردیا گیا ہے۔ اسی طرح متجانسین کی بیع میں تفاضل ونسیئہ کو حرام کردیا گیا ہے، کیونکہ اس طرح کی بیع ربا سے مشابہ ہے۔مزید یہ کہ مندرجہ بالا بیع کی ممانعت میں ربا کی مشابہت کے علاوہ دوسری حکمتیں بھی ہیں، بلکہ بیع نسیئہ تو سود کے حیلہ کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے، جس کی تفصیل ماقبل میں آچکی ہے۔ تفاضل کی نہی میں ایک حکمت غریبوں کا استحصال ختم کرنا ہے، کیونکہ غریب اگر اچھی کھجور پیدا کریں تو مالدار مقدار بڑھاکر اپنی ردی کھجور انہیں دے سکتے ہیں۔ غریب کے نزدیک مقدار کی اہمیت ہوتی ہے، اس لیے وہ اچھی کھجور پیدا کرنے کے باوجود ہمیشہ ردی ہی کھائے گا۔ یہ حکمت میں نے اس لیے بیان کردی کہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ وغیرہ نے اس کا ذکر کیا ہے، ورنہ حرمت کی اصل وجہ ربا سے مشابہت ہے، اسی لیے اس قسم کی بیع کو بھی ربا کہا جاتا ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین