بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ذکر اللہ کی اہمیت!

ذکر اللہ کی اہمیت!


اللہ رب العزت ساری کائنات کاخالق اور مالک ہے۔ دن رات اللہ پاک نے بنائے، یہ کائنات اللہ پاک نے بنائی ہے، اللہ پاک کے حکم سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے۔ اور اللہ رب العزت جب چاہیں گے یہ کائنات فناہو جائے گی، اللہ رب العزت کے سوا کوئی بھی نہیں رہے گا۔ اس دن اللہ پاک اپنی قدرت کا، اپنی شان کا اظہار کریں گے اور فرمائیں گے: ’’لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ‘‘ آج کس کی حکومت ہے؟ کوئی جواب دینے والا نہیں ہو گا۔ اللہ رب العزت پھر خود ہی جواب دیں گے کہ: ’’لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ‘‘ آج وہ واحد جو وحدہٗ لاشریک ہے، جس کی صفات میں کوئی شریک نہیں ہے، اس کی حکومت ہے۔

اللہ تعالیٰ کا نام کائنات کی روح ہے 

اللہ کے نام کی بڑی عظمت ہے۔ جب تک ایک اللہ کا بندہ بھی ایسا رہے گا جو صرف اللہ کا نام لے گا، اللہ پاک اپنے نام کی برکت سے اس دنیا کے نظام کو چلائے گا، اور جب وہ ’’اللہ، اللہ‘‘ کہنے والا واحد بندہ بھی دنیا سے رخصت ہو جائے گا تو پھر اللہ پاک اس دنیا کے نظام کو لپیٹ لیں گے کہ اب میرا نام لینے والا کوئی نہیں رہا، اب یہ دنیا بے مقصد ہو چکی ہے، بے فائدہ ہو چکی ہے۔ سو اللہ کے نام کی بڑی قیمت ہے، بڑا وزن ہے، اس لیے کہ اللہ بڑے ہیں، اللہ کا نام بھی بڑا ہے، تو اللہ کا نام عظمت سے لینا چاہیے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں: ’’اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَائِـيْ‘‘ عظمت، کبریائی اللہ کی چادر، اللہ کا تہبند ہے۔ کبریائی اللہ کے ساتھ خوبصورت لگتی ہے، یہ اللہ کا وصف ہے، اللہ کی صفت ہے ۔

مسلمان کے لیے سب سے قیمتی چیز برکت ہے

ہمارے اکابرین نے ذکر کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ہمارے حضرتؒ فرمایا کرتے تھے کہ: امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہٗ ہمارے روحانی دادا چوبیس گھنٹے میں اور معمولات کے علاوہ ساڑھے دس لاکھ اذکار کرتے تھے۔ یہ کیسے ہو جاتا تھا؟ ہمارے دین میں برکت ہے، کفار کی ڈکشنری میں برکت کا نام نہیں ہے، یہ مسلمان کی ڈکشنری میں ہے، دنیا داروں کے کاموں میں چوں کہ برکت نہیں ہوتی، اس لیے وہ ہائے ہائے کرتے رہتے ہیں، ان کے دن اور رات ایسے گزرتے ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں چلتا ۔
جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو حلیمہ سعدیہؓ لے گئیں اور آپ بکریاں چرانے کے لیے جاتے تھے، بکریاں جب واپس آتی تھیں تو خوب سیر ہوتی تھیں اور ان کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہوتے تھے، جبکہ دیگر لوگوں کی جو بکریاں ہوتی تھیں ان کا دودھ نہیں ہوتا تھا، تو وہ کہتے تھے کہ بھائی! حلیمہ سعدیہؓ کی بکریوں کے تھن دودھ سے لبریز اور بھرے ہوتے ہیں، اور ہماری بکریوں کے تھنوں میں دودھ نہیں ہوتا، ہم بھی اسی جگہ چراتے ہیں جہاں پر وہ چراتے ہیں، لیکن سمجھ نہیں آتا۔ یہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کی برکات ہیں۔

کلمہ کی فضیلت

یہ کلمہ’ ’لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ اتنا قیمتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں جل رہا ہوگا اور جہنم کی تہہ میں ہوگا اور جل کر کوئلہ بن چکا ہوگا۔ اللہ رب العزت اس کلمے کی برکت سے اس کو جہنم کی تہہ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا، ایک نہر میں اس کو غسل دیا جائے گا جس کو آبِ حیات کہتے ہیں، وہ بالکل پاک و صاف ہوکر نورانی بن جائے گا اور نکھر جائے گا، اس کے بعد اس کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

کلمہ کا تقاضا

اللہ پاک نے کلمہ کی بڑی نعمت ہم سب کو عطا کی ہے، اللہ پاک اس نعمت کی قدردانی کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، کیوں کہ جس نعمت کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے: ’’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ‘‘ تو اللہ پاک اس نعمت کو بڑھاتے ہیں، اس میں بڑھوتری کرتے ہیں، اس میں اضافہ کرتے ہیں، اور جب کفرانِ نعمت کی جاتی ہے تو اللہ پاک اس نعمت کو چھین لیتے ہیں، ناراض بھی ہوتے ہیں اور سزا بھی دیتے ہیں: ’’وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘ تو کلمہ کی نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ ہمیں کلمہ کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے کہ کلمہ ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟ کلمہ کا تقاضا کیا ہے؟ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں، جس کا مفہوم یہ ہے کہ: ’’میں نے مؤمنین کے اوپر احسان کیا کہ ان میں ایک ایسے رسول کو مبعوث کیا جو اُن کے اوپر قرآن پاک کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔‘‘ علماء کرام نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ: ’’یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ‘‘ سے مراد تبلیغ و دعوت کی محنت ہے۔ نبی  علیہ السلام  کی بعثت کا پہلا مقصد تبلیغ و دعوت ہے، نبی  علیہ السلام  کی بعثت کا دوسرا مقصد تزکیہ ہے، یعنی قلوب کی صفائی جس کو علمائے حق تزکیہ بھی کہتے ہیں، تصوف بھی کہتے ہیں، سلوک بھی کہتے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا، اللہ اللہ کرنا اور کرانا یہ تزکیہ ہے۔ نبی  علیہ السلام  کی بعثت کا تیسرا مقصد ’’وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ کتاب و حکمت کی تعلیم ہے۔ نبی  علیہ السلام  نے اپنی زندگی میں دو مدرسے قائم کیے، پہلا مدرسہ مکہ مکرمہ دارِارقم میں، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرلی تو وہا ں پہ آپ نے صفہ کا مدرسہ بنایا، تو نبی  علیہ السلام  کی بعثت کا تیسرا مقصد تعلیم و تعلم ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ذکر کائنات میں سب سے اہم چیز ہے

ساری کائنات اللہ کا ذکر کرتی ہے، پہاڑ اللہ کا ذکر کرتے ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کا ذکر کرتا ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ رب العزت کی موجودگی کی، اللہ کی صفات کی اور اللہ پاک کی قدرتوں کا مظہر ہے، چلتا پانی اللہ کا ذکر کرتا ہے، پرندے ہوا میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں، زمین کے اندر جو مخلوق رہتی ہے وہ اللہ کا ذکر کرتی ہے، تو انسان جس کے اوپر اللہ پاک نے اتنی نعمتوں کی بارش کی ہے اتنی نعمتیں کہ اگر گننے لگیں تو ان نعمتوں کا شمار نہیں کرسکتے، اس رب کو یاد کرنا چاہیے، اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ رب العزت کا ذکر اپنا مقصد سمجھ کر کرتے رہیں۔

دنیا میں ہر عمل اور قول کو اعمال نامہ میں لکھ دیا جاتا ہے

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ کرم ہے، احسان ہے کہ اللہ رب العزت نے ہم سب کو بہت بڑی عظیم نعمت’’ کلمہ‘‘ کی نعمت سے نوازا ہے، اس نعمت کی قدردانی کا علم اس وقت ہوگا جب ظاہر کی آنکھ بند ہوگی اور ہمارا آخر ت کاسفر شروع ہوگا۔ نبی  علیہ السلام  نے جنت کی زیارت کی اور جنت کی جو قبلے کی طرف والی دیوار تھی، اس پر چند سطور لکھی ہوئی تھیں: ’’ما قدمنا وجدنا و ما أکلنا لدینا وما خلفنا خسرنا‘‘ ۔۔۔۔ ’’ما قدمنا وجدنا‘‘ جو چیز ہم نے آگے بھیجی، وہ ہمارے کام آئی۔ اللہ رب العزت نے جتنی زندگی ہمیں دی ہے اس دنیا میں گزارنے کے لیے، اس ساٹھ سالہ زندگی میں اعمال کرنا، ان کی باقاعدہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے، اللہ پاک نے دائیں طرف نیکی والا فرشتہ بٹھایا ہوا ہے، اور بائیں طرف جو برے کام ہم سے سر زد ہوتے ہیں وہ برے کام ریکارڈ کرتا ہے، ایک دفعہ ایک اللہ والے نے اشارے سے اپنے کسی جانور کو بلایا، جیسے جانور کو بلاتے ہیں، اشارہ کرتے ہیں، ہاتھ میں کچھ رکھتے ہیں کہ کچھ جانور کو دینا ہے، کھلانا ہے، انہوں نے اشارے سے جانور کو بلایا تو اللہ پاک بعض اوقات غیب کی باتیں اللہ والوں پر منکشف کر دیتے ہیں، تو جب انہوں نے اشارے سے جانور کو بلایا تو اللہ پاک نے ان پر وہ منظر منکشف کردیا کہ فرشتے نے وہ اشارہ بھی لکھ لیا، تو بزرگ پریشان ہوئے کہ یہ بھی لکھا جاتا ہے؟ 
ہر آن ہر گھڑی ہمارے جسم سے جو اعمال نکلتے ہیں ان کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے، آج سائنس کا دور ہے، ہماری شریعت میں وہ باتیں جن کے بارے میں کسی زمانے میں کمزوری دکھائی جاتی تھی، سائنس نے بھی ثابت کر دیا، وہ باتیں درست اور سچ ہیں، کمپیوٹر کا دور ہے، ہر چیز کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے، اسی طرح ہمارے اعمال بھی ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ ’’ما قدمنا وجدنا‘‘ جو عمل ہم اس دنیا میں کرتے ہیں وہ ریکارڈ ہوتا ہے اور ہمارے اعمال نامے میں لکھا جا رہا ہے، اور یہ اعمال ہم آگے بھیج رہے ہیں، آخرت کی طرف اکاؤنٹ میں جمع ہو رہے ہیں۔ 

دن رات ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں کوشاں رہنا چاہیے

یہ سب کچھ جو اردگرد ہے ان شاء اللہ! کل گواہی دے گا۔ بیت اللہ بھی گواہی دے گا، ان شاء اللہ۔ اللہ کے گھر کی دیواریں بھی گواہی دیں گی کہ اِن اللہ تعالیٰ کے بندوں نے میرے قرب میں بیٹھ کر ذکر کا حلقہ لگایا تھا، اور حلقے میں تجھے یاد کیا تھا، حلقے میں تیری وحدانیت بیان کی تھی، نفی اثبات کا ذکر کیا تھا، اسم ذات کا ذکر کیا تھا، تیری صفات کا ذکر کیا تھا اور ذکرِ قلبی بھی کیا تھا اور ذکرِ لسانی بھی کیا تھا، کیوں کہ اللہ رب العز ت تو سمیع بھی ہے اور بصیر بھی ہے، دیکھتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، تو ہماری یہ گواہی پیش ہوگی ان شاء اللہ! کراچی میں جو ہم نے سمندر کی سطح کے اوپر اللہ کا ذکر کیا تھا، وہ پانی اس کا ایک ایک ذرہ بھی گواہیاں دے گا کہ انہوں نے اے رب العزت! یہاں بھی ذکر کیا تھا، اللہ پاک قبول کرنے والے ہیں، وہ بڑے کریم ہیں۔

ذکر کا مقصد

ذکر کا مقصد قرآن کریم کی طرف لے جانا ہے، ذکر میں خشوع آگیا تو ان شاء اللہ! جب قرآن کریم کی تلاوت کریں گے تو پھر قرآن کی تلاوت میں خشوع ہوگا، پھر اللہ کی شان یاد آتی ہے۔ عکرمہؓ جو ابوجہل کے بیٹے تھے، لیکن صحابیِ رسول تھے، جب قرآن کی تلاوت کرتے تھے، قرآن پہ گر جاتے تھے، آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہو جاتی تھیں اور فرماتے تھے: ’’ہٰذَا کَلَامُ رَبِّيْ ہٰذَا کَلَامُ رَبِّيْ‘‘ ۔۔۔۔ ’’یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔‘‘ قرآن کی ایسی تلاو ت کریں، کوشش کریں علماء کرام سے رابطہ رکھیں، جو پڑھے لکھے ہیں ترجمہ کے ساتھ پڑھیں، اللہ پاک نے قرآن پاک کو ذکر سے یاد کیا ہے: ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ ہم نے ذکر کو اُتارا تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہم جو اسباق پڑھتے ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کے ذکر کی طرف منتقل ہوجائیں، یہ قرآن کریم کا حق ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ روزانہ تین پاؤ قرآن پاک کی تلاوت یہ قرآن پاک کا ہمارے اوپر حق ہے، بہتر ہے کم از کم روزانہ ایک سپارہ پڑھیں، مہینے میں قرآن پاک ختم، ادھر سے چاند نمودار ہوا، آپ کا قرآن کریم شروع ہوا، ادھر چاند غروب ہوا، آپ کا قرآن کریم مکمل ہوا، اللہ پاک عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
میں اپنے تعلق والوں سے کہتا رہتا ہوں کہ یہ جو ہم ذکر کراتے ہیں، تصوف میں اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کی تلاوت پہ آجائیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ کہ ہم نے ذکر کو اتارا۔ اللہ پاک نے قرآن کریم کو ’’ذکر‘‘ فرمایا ہے تو اصل ذکر قرآن کریم کی تلاوت ہے۔ ٹھیک ہے کہ ذکر سے دل کی صفائی ہوتی ہے، ہمارے روحانی دادا امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہٗ (اللہ پاک ان کی قبر کو نور سے بھر دے) وہ تو تھے ہی ایسے کہ ان کی قبر سے آج بھی خوشبو آتی ہے۔ اہلِ دل، دل والے لوگ، علماء کرام آج بھی جب چلے جاتے ہیں، ان کی قبر پر بیٹھتے ہیں، مراقبہ کرتے ہیں تو وہ خوشبو اُن کو محسوس ہوتی ہے، وہ روزانہ چوبیس گھنٹے میں ساڑھے دس لاکھ اذکار کرتے تھے۔ میرے شیخ مولانا خلیفہ غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ  (جنہوں نے امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہٗ کے گھر کا چار مہینے تک کھانا کھایا تھا) وہ فرمایا کرتے تھے: حضرت لاہوریؒ کی کوئی باقاعدہ خانقاہ نہیں تھی، سالکین آتے تھے اور ٹھہرتے نہیں تھے، حضرتؒ فرماتے تھے کہ بازار سے کھانے کی چیز خرید کر لاؤ، لیکن مجھے دکھاؤ، جب میں کہہ دوں تو پھر وہ نوش کیا کریں، کھایا کریں، اللہ پاک نے کثرتِ ذکر کی وجہ سے حضرت کا دل اتنا منور کیا تھا کہ حضرت ببانگِ دہل علی الاعلان فرمایا کرتے تھے کہ: ’’چاول کا دا نہ میری ہتھیلی پر رکھ دیں، بتادوں گا کہ حرام کا ہے یا حلال کا ہے۔‘‘

ذکر کی برکات

اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ’’فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْ لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ‘‘ ۔۔۔ ’’پس تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا، تم میرا شکر ادا کرو اور کفرانِ نعمت نہ کرو۔‘‘ اللہ رب العزت کتنے کریم ہیں کہ فرماتے ہیں کہ: میرا ذکر کریں، میں بھی آپ کا ذکر کروں گا، حالا نکہ وہ تو رب ہے، صمد ہے، بے نیا ز ہے، وہ وراء الوراء ہے، بادشاہ ہے اور پھر حدیثِ قدسی کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ: جس حالت میں تم میرا ذکر کرو گے، جس انداز میں، جس ماحول میں، اسی ماحول میں‘ میں آپ کا ذکر کروں گا۔ اگر تم اپنے دل میں یعنی ذکرِ قلبی کروگے اور مجھے اپنے دل میں یاد کرو گے تو میں بھی اسی ترتیب سے آپ کو یاد کروں گا، اور اگر تم مجمع میں میرا ذکر کرو گے، انسانوں میں، میرے بندوں میں، تو میں بھی مجمع میں آپ کا ذکر کروں گا اور وہ مجمع نورانی مخلوق کا مجمع ہے، فرشتوں کا مجمع ہے، جو اللہ پاک کا ہر حکم ہر آن ہر گھڑی پورا کرتے ہیں اور نورانی مخلوق ہے، کھاتے پیتے بھی نہیں ہیں، تو اللہ رب العزت اتنے کریم ہیں کہ وہ بھی ہمارا ذکر کرتے ہیں۔
حضرت خواجہ عثمان دامانیؒ کا قول ہے، فرماتے ہیں کہ: جو سالک روزانہ بارہ ہزار مرتبہ اللہ کو یاد کرتاہے، اللہ کے نام کا ذکر کرتا ہے، اللہ اللہ کہتا ہے، وہ صاحبِ کلام بن جاتا ہے، صاحب اللفظ بن جاتا ہے، سیف قاطع بن جاتا ہے، یعنی وہ جو بات کہتا ہے‘ وہ تلوار کی طرح کاٹنے والی بن جاتی ہے، جو کلام وہ اپنی زبان سے نکالتا ہے‘ خیر کی بات کہتا ہے۔ اللہ رب العزت اس کی لاج رکھتے ہیں، اس کی بات تلوار کی طرح کاٹتی ہے، اللہ پاک اس کی بات کو پورا کرتے ہیں۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین