بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ذرائع ابلاغ کا کردار اور اس کی حدود!

 

ذرائع ابلاغ کا کردار اور اس کی حدود!

 

الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

آج کا مسلمان ‘ انجام سے بے نیاز، طلب ِمجہول اور ہوسِ زر، زن، زمین میں اس قدر منہمک اور فریفتہ ہوگیا ہے کہ خیر وشر، اچھائی وبرائی، صحیح وغلط اور جائز وناجائز کی تمام حدود وقیود اس کے لیے بے معنی اور بے مقصد ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس برق رفتاری اور خدا فراموش زندگی گزارنے میں وہ اپنی دانست میں ترقی کی منازل طے کرتا ہوا معراجِ دنیا پر اپنے آپ کو تصور اور باور کررہا ہے، حالانکہ اس سے وہ اپنی اصلیت اور اپنے فرائض کو فراموش کرچکا ہے۔ اپنے خالق ومالک اور اپنے رب کی ہدایات اور سید المرسلین خاتم النبیین a کے اسوۂ حسنہ کو ترک کرکے اُنہیں طاقِ نسیان کے حوالے کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں وہ دنیا وآخرت کے مفاد کو سوچے سمجھے بغیر ہر نئی صدا اور آواز پر لبیک کہتا چلا جارہا ہے، چاہے وہ جدید صدا اور آواز دنیا میں اس کے لیے ذلت وبربادی اور آخرت میں لعنت وہلاکت کا موجب وسبب ہی کیوں نہ ہو۔ یوں لگتا ہے شاید انہیں اپنا مخلوق ہونا تسلیم ہی نہیں، اس لیے کہ اگر انہیں اپنا بندہ اور مخلوق ہونا تسلیم ہوتا تو کم از کم غیروں کی صدا پر لبیک کہہ کر اپنے خالق کے احکام سے اس طرح بے اعتنائی اور اعراض نہ برتتے۔ دین ِاسلام، پیغمبر ِاسلام a، اسلامی تعلیمات، صحابہ کرامs، اہل بیت عظامs، اسلامی اقدار وروایات کی اس قدر اور اس طرح بے توقیری نہ کرتے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں چھپے اسلام دشمن عناصر نے مسلمانوں کو مغرب پرستی کی خوش نما بھٹی میں جھونک دیا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرہ نہ صرف یہ کہ اسلامیات سے عاری اور دور ہوتا جارہا ہے، بلکہ دین ِاسلام کے حقائق اور عقائد کو بھی مغرب کی عینک سے دیکھتے ہوئے‘ اسبابِ تنزل کو باعث ِکامیابی اور معائب کو محاسن سمجھا جانے لگا ہے۔ انہیں ذرائع ابلاغ ہی کی کارستانی ہے کہ عورت جو کل تک گھر کی زینت اور حیا وشرم کا مجسمہ تھی، آج وہی گھر کو خیر باد کہہ کر دفاتر وبازار سے گزر کر ٹی وی اسکرین کی زینت اور اشتہارات کا محل اور مورد بن چکی ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ وہ بچی جو کل تک مشرقیت کی برکت سے مارے شرم وحیا کے اپنے باپ کے سامنے بے محابا آنے سے گریزاں تھی، افسوس کہ آج وہی بچی نہ صرف بے باک ہے، بلکہ چادر وچاردیواری کو پھلانگ کر مذہبی بندھنوں سے آزاد، اپنے آپ کو مغرب کی تہذیب میں رنگ کر نہ صرف مطمئن بلکہ اس بے حیائی و ہواباختگی پر نازاں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسائل، جرائد، ڈائجسٹ، ناول، اخبارات، اشتہارات، سائن بورڈز، ریڈیو، ٹی وی، کیبل نیٹ ورک، انٹرنیٹ، ٹیلیفون، موبائل فون، وغیرہ، یہ وہ ذرائع اور آلات ہیں جنہیں پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے نام سے جانا اور موسوم کیا جاتا ہے۔ آج کا دور میڈیا کا دور ہے اور میڈیا کو کسی ملک ، سلطنت اور حکومت کا اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ حکومتوں کے بننے اور بگڑنے میں میڈیا کا اہم رول اور بڑا کردار تصور کیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ میڈیا جس کو چاہے بامِ عروج تک پہنچادے اور جسے چاہے بیچ چوراہے ذلیل اور رسوا کردے۔ بین الاقوامی طور پر اس وقت پورے میڈیا پر مغرب کا تسلط اور اس کے کارندوں کا قبضہ ہے۔ یہ لوگ میڈیا کے ذریعہ وہی پروگرام نشر کرتے ہیں جو حیا سوز، تہذیب وتمدن کو پامال اور بے ایمانی اور بے راہ روی کو فروغ دینے اور پروان چڑھانے والے ہوں، اس کے ساتھ ساتھ انسانیت کو ذہنی غلامی، ڈر، خوف ، بزدلی، بے ہمتی، بے غیرتی، بے شرمی، جھوٹ، فریب، لوٹ کھسوٹ، چوری، ڈکیتی، ماردھاڑ کے نت نئے طریقے اور راستے میڈیا کے ذریعہ بتائے اور یہ زہریلے انجکشن اُنہیں اِسی کے ذریعہ لگائے جاتے ہیں۔ یہ میڈیا کی اس محنت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر انسان مرد ہو یا زن، جوان ہو یا بوڑھا، چھوٹا ہو یا بڑا، سب ہی کسی نہ کسی اعتبار سے میڈیا سے متأثر اور مرعوب نظر آتے ہیں، اس کی ہر خبر کو ’’سچا‘‘ اور اس کے ہر پروگرام کو ’’اچھا‘‘ سمجھ کر ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیتے ہیں۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ آئے روز میڈیا میں اسلام کے خلاف کسی نہ کسی پیرائے میں طعنہ زنی کی جاتی ہے، اسلامی اقدار کی تضحیک کی جاتی ہے، اسلامی اقدار وروایات کو پامال کیا جاتا ہے، اسلام پر عمل کرنے والوں پر اشاروں اور کنایوں میں پھبتیاں کسی جاتی ہیں، لیکن مجال ہے کہ اربابِ اقتدار واختیار کے ذمہ داران افراد اور خفیہ ادارے ان پر کوئی قدغن لگائیں یا ان سے کوئی باز پرس کریں۔ یہی میڈیا تھا جو اپنے آقاؤں اور حکومتی اہل کاروں سے مراعات اور بڑے بڑے اشتہارات وصول کرکے حدود آرڈی نینس کی دھجیاں بکھیررہا تھا۔ ’’ذرا سوچئے‘‘ کے عنوان پر اربوں روپے کے اشتہارات لے کر ان کی مہم کو گھر گھر پہنچارہا تھا اور سیدھے سادے مسلمانوں کے دل ودماغ کو حدود آرڈی نینس کے خلاف آمادۂ بغاوت کیا اور اس وقت ۷؍ مئی ۲۰۰۶ء کواشتہار میں لکھا کہ:’’ذرا سوچئے! کیونکہ سوچنا گناہ نہیں‘‘۔پھر ۸؍ مئی ۲۰۰۶ء کو لکھا:’’کیونکہ سوچ ہی انسان کو آدمی بناتی ہے‘‘۔پھر ۱۴؍ مئی کی اشاعت میں یہ لکھا کہ:’’ذرا سوچئے! جیو کی ایسی کاوش ہے جو ہمیں ان مسائل پر سوچنے کی جرأت دیتی ہے‘‘۔پھر ۲۵؍ مئی ۲۰۰۶ء کے ادارتی نوٹ میں لکھا کہ: ’’ذرا سوچئے‘‘ کی تحریک ایسے معاشرہ میں عقل واستدلال کا غلبہ قائم کرنے کا مثبت اقدام ہے، جہاں عقائد کے حوالے سے بھی سوچنے پر غیر اعلانیہ پابندی ہو۔‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی، ۲۵؍ مئی ۲۰۰۶ئ) گویا یہ اعلان تھا کہ حدود آرڈی نینس میں ترمیم وتبدیلی کے بعد اگلا ہدف یا اگلا قدم عقائد کی تبدیلی پر سوچنے کا ہوگا۔ یہ تمام باتیں ماہنامہ بینات صفر المظفر ۱۴۳۲ھ مطابق فروری ۲۰۱۱ء کے شمارہ میں ’’وفاقی شرعی عدالت کا مستحسن اقدام ‘‘ کے تحت لکھی گئی تھیں۔ کیا کوئی مسلم دانشور اور باشعور شخص یہ بات سوچ سکتا ہے کہ مال وزر کی چمک دمک میڈیا کے ذمہ داران اور مالکان کو اتنا اندھا بناسکتی ہے کہ وہ باہوش وحواس عقائد کی تبدیلی کی راہ ہموار کریں اور مسلمانوں کو محض عقل کے بل بوتے پر عیسائیت، قادیانیت یا ہندومت کا عقیدہ اور نظریہ قبول کرنے کی سعی اور راہ دکھائیں، نعوذ باللّٰہ من ذلک۔ یہی میڈیا تھا جس کی محنت اور کوشش سے رسوائے زمانہ فلم ’’خدا کے لیے‘‘پاکستان میں چلائی گئی، اس کے علاوہ اسی میڈیا کی کاوشوں سے یہودی نظریات کی ترجمان اور توہین انبیاء ؑ پر مشتمل فلم ’’دی میسج‘‘ پاکستانیوں کو دکھائی گئی اور اس سے میڈیا کی اتنی جرأت بڑھ گئی کہ صحافتی قوانین اورصحافتی ضابطۂ اخلاق بالائے طاق رکھ کر ملکی آئین وملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں پر ہاتھ صاف ہونے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم، سنت نبویہ l، صحابہ کرامs اور اہل بیت عظام s کی شان میں گستاخی کا ارتکاب بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر ہوگیا۔ اس پر اگرچہ توبہ اور معافی مانگی گئی ہے، لیکن اگر اس سے قبل میڈیا ملکی سلامتی کے اداروں کی کردار کشی کی بنا پر زیر عتاب نہ ہوتا تو اس گستاخی کو بھی پہلے کی طرح بڑے آرام اور پرسکون خاموشی سے ہضم اور برداشت کرلیا جاتا، لیکن اس بار ایسا نہ ہوسکا۔ ٹھیک ہے کہ میڈیا کو آزاد ہونا چاہیے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنی تہذیب، اپنا کلچر، اپنے دین اور قرآن وسنت کی جو حدود ہیں، ان کی پرواہ نہ کی جائے، کیونکہ کوئی بھی ادارہ یا نظام خواہ نجی ہو یا سرکاری‘ حدود وقیود کی رعایت اور اصول وضوابط کی پابندی کیے بغیر ہرگز نہیں چل سکتا۔ آج حالت یہ ہے کہ کم فہمی اور دینی تعلیمات سے ناآشنائی کی بنا پر ٹی وی اینکر سطحی موضوعات کو لیتا ہے۔ کج بحثی، ذاتی دل چسپی اور پسند وناپسند کی بنا پربہت ساری دینی حدود کی پامالی کا سبب اور ذریعہ بن بیٹھتا ہے۔ اس لیے میڈیا میں ہر صحافی، اینکر اور میزبان کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم انسانی اخلاقیات سے متصف ہو، اس کے اندر قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ مضبوط ہو، عزم وحوصلہ ، صبروثبات اور استقلال ہو، تحمل وبرداشت ہو، ہمت اور شجاعت ہو، مستعدی اور جفاکشی ہو، اپنے مقصد ِاسلام کا عشق اور اس کے لیے ہر لالچ، ہر دباؤ، ہر ترغیب کو پائے حقارت سے جھٹلانے والا ہو۔اسلامی اقدار کے معاملہ میں حزم واحتیاط کا خوگر اور معاملہ فہمی وتدبر سے آشنا ہو، حالات کو سمجھنے اور اسلام کے مطابق ان کو ڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی اس میں قابلیت ہو، اپنے جذبات وخواہشات اور ہیجانات پر قابوپانے والا ہو۔ اس لیے کہ خودداری، راست بازی، دینی حمیت، اسلامی غیرت، امانت، اعتدال، شائستگی، طہارت ونظافت ، قلب ونظر کی پاکیزگی اور ذہن ونفس کا انضباط، وہ انسانی خصائل اور فضائل ہیں جن پر ایک اسلامی معاشرہ کی اساس قائم ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تمام محنتوں ، کوششوں، کاوشوں اور دوڑ دھوپ کا مقصد وحید اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوش نودی کا حصول ہو، خواہ اس میں کتنے ہی خطرات، نقصانات اور مشکلات کیوں نہ حائل ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام انسان کو خود غرضی، نفسانیت، ظلم، بے حیائی، بے راہ روی سے روکتاہے۔ اسلام انسان کو خدا ترسی، تقویٰ وپرہیزگاری اور حق پرستی کا درس دیتا ہے، اُسے تمام مخلوقات کے لیے رحیم، کریم، فیاض، ہمدرد، امین، بے غرض، خیرخواہ، بے لوث، منصف اور صادق وراست باز بناتا ہے۔ حضور اکرم a کی تعلیم ہے کہ انسان کو بھلائی کا دروازہ کھولنے والا اور برائی کا دروازہ بندکرنے والا ہونا چاہیے۔ اخبارات، ٹی وی اور میڈیا کیا کچھ کررہے ہیں یا ان میں بگاڑ کس طرح درآیا؟ اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے روزنامہ جنگ کراچی کے صحافی جناب شاہین صہبائی صاحب کے کالم ’’یہ اجتماعی خودکشی کب تک‘‘ کے زیرعنوان کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں: ’’جب سے پاکستان میں درجنوں کے حساب سے چینل آئے ہیں، آزادی بہت بڑھ گئی ہے، مگر ذمہ داری کا فقدان ہے۔ کچھ چینل (میں کسی کا نام نہیں لوں گا، پڑھنے والے خود اندازہ لگالیں) صحافتی بیک گراؤنڈ سے آئے اور کچھ دیکھا دیکھی پیسے کے زور پر ۔ کچھ کاروباری لوگوں کو محسوس ہوا کہ ان کا کاروبار ترقی کرے گا یا ان کی چوری کو کوئی پکڑنے کی ہمت نہیں کرے گا، اگر وہ بھی میڈیا کے مالک بن گئے۔ کچھ پیسے والے لوگ جب میڈیا سے پریشان ہونا شروع ہوئے تو بدلے لینے خود میدان میں کود پڑے۔ یعنی پاکستان میں سوائے دوچار گروپس کے باقی سب لوگ چمک دمک اور بڑھتی ہوئی میڈیا کی طاقت دیکھ کر مالک، اخبار نویس اور میڈیا اینکرز بن بیٹھے۔ کچھ نے خوب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، جہاں سے پلاٹ، زمین، نوکری اور کوئی فائدہ مل سکا ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگائی۔ کچھ فوجیوں کی آمریت میں وزیر اور مشیر بنے، کوئی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر شامل باجاہوگیا، کوئی سفیر بن گیا اور کوئی امیر۔ غرض میڈیا کے راستے جس کی جتنی بن پڑی اس کو بے دریغ استعمال کیا۔ کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں کہ کچھ دن کے لیے صحافت کی سیڑھی استعمال کرکے لوگ مزے اُڑاتے رہے اور جب وہ دن بیت گئے تو واپس صحافت میں آکر سب کی ماں بہن شروع کردی یا پھر سیڑھی کے نیچے سے یہ اوپر جانے کی کوشش۔ اس بھاگ دوڑ میں جائز اور ناجائز مال کماناایک اہم ترین عنصر رہا۔ اخبار اور TV کے مالکان جائز آمدنی کے ساتھ ساتھ خاص مراعات بھی لیتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواتین کی بھرمار اور پھر شادی بیاہ کی رسومات دن رات کا خیال کیے بغیر ایسے نشر ہونے لگیں جیسے یہی ہمارا دینی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ مزید آگے چلئے تو جرم کی داستانیں عام ہونا شروع ہوئیں اور کچھ چینل پولیس اور دوسرے اداروں کے فرائض انجام دینے لگے۔ یہ سارے شتر بے مہار ہوتے گئے اور کسی نے نہ روکا، روکنے والے یا تو بکے ہوئے تھے یا دبے ہوئے ضرورت مند، سیاسی یا مالی طور پر۔ پھر اس لڑائی میں وہ مقام آگیا کہ ہم ایک دوسرے پر پل پڑے اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ پورا میڈیا اجتماعی خود کشی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ ‘‘       (روزنامہ جنگ، کراچی، بروز پیر، ۱۹؍ مئی ۲۰۱۴ئ) اب جبکہ میڈیا سے ہر ایک طبقہ، ہر حکومت اور ہر ادارہ کو زخم لگ چکے ہیں، بلکہ خود میڈیا بھی حکومتوں کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کو کئی ایک بار جھیل چکا ہے تو ان سب کو سوچنا چاہیے اور اپنا قبلہ اور سمت درست کرلینی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کہلائی جانے والی چیزیں اکثر وبیشتر بہت سارے گناہوں کا مجموعہ ہیں،حکومت کو چاہیے کہ ان کی روک تھام کرے، لیکن اگر وہ اپنے آپ کو اتنا مجبور پاتی ہے تو اُسے چاہیے کہ کم از کم ایسے پروگراموں اور فلموں پر پابندی لگائے جو اسلام، قرآن، انبیاء کرام o، صحابہ کرامs ، اہل بیت عظامs، اسلامی تعلیمات، اسلامی اقدار اور ملکی سلامتی اور نظریۂ پاکستان کے خلاف ہوں اور اگر کوئی اس کا مرتکب ہو تو سخت سے سخت قوانین بناکر ان کو آئینی شکنجہ میں کس دیا جائے۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ بھی بیدار رہیں، دین کے خلاف لکھنے، بولنے اور عوام الناس کو ورغلانے والوں کو انہیں کے انداز میں جواب دیں، فتنہ پروروں کے فتنوں کو سمجھیں اور ان کے ازالہ اور حل کے لیے ہر ممکن تدابیر اختیار کریں اور عوام الناس کو باور کرائیں کہ یہ فتنوں کا دور ہے، ہر فتنہ پرور اور اس کے فتنہ سے ہوشیار رہیں اور ایسے لوگوں کی بروقت علمائے کرام کو اطلاع دیں۔ ایک امام مسجد اور خطیب جہاں مسجد کا امام اور خطیب ہوتا ہے، وہاں اس علاقے میں وہ مسلمانوں کے دین وایمان کا محافظ بھی ہوتا ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ منبر ومحراب سے مغالطہ آمیز اور غلط نظریات کے ابطال کی طرف مسلمانوں کی راہنمائی کرے۔  اسی طرح عوام کو چاہیے کہ ان دجالی آلات سے نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو بچائیں،بلکہ اپنی اولاد اور نئی نسل کو ان کے خطرناک نتائج سے باخبر رکھیں اور حتی الامکان ان سے دور رہنے کی کوشش اور تلقین کریں۔ اس لیے کہ گھروں میں چین وسکون اور امن و اطمینان انہیں کی وجہ سے غارت ہوگیا ہے۔ بچیوں کے معاشقے، ان کے گھروں سے فرار کے واقعات، اور گھر والوں سے چھپ کر پسند کی شادیوں کی کثرت، عریانی، فحاشی اور بے پردگی کو عروج ان ملعون پروگراموں اور آلات کی بدولت ملا ہے۔ ہماری ہمدردانہ گزارش ہے کہ میڈیا اپنی پرانی روش بدلے اور اسلام سے بغاوت وعداوت کا معاندانہ رویہ ترک کرکے اسلامی تعلیمات کو اجاگر کرے۔ عریانی، فحاشی، بے دینی اور بے حیائی پر مبنی پروگرام، حیا سوز فلمیں اور ایمان کش مکالمے خصوصاً ملحدین، منکرین ِقرآن وسنت اور جدیدیت زدہ لوگوں کو میڈیا سے دور کریں اور ان کے پروگرامات اور ٹاک شوز پر مکمل پابندی لگائیں، جیسا کہ قرآن کریم کو کلام الٰہی ماننے سے انکار پر ایک ملحدہ کو مصری خاتون اینکر نے اپنے پروگرام سے اٹھادیا اور اُسے مزید کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر اپنے اسٹوڈیو سے نکل جانے کا حکم دے دیا، اس کی تفصیل ملاحظہ ہو: ’’معروف مصری خاتون ٹی وی اینکر ریہام سعید نے ملحدانہ نظریات کی حامل خاتون اسکالرکو قرآن کریم کی توہین کرنے پر پروگرام کے دوران اسٹوڈیو سے نکال باہر کیا۔ القدس العربی کے مطابق نام نہاد مذہبی اسکالر ڈاکٹر نہی محمود نے ’’نہار‘‘ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے دوران بعض قرآنی احکامات کو غیر اہم ثابت کرنے پر زور دیتے ہوئے قرآن کریم کو کلام باری تعالیٰ ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ (نعوذ باللہ) قرآن کریم حضرت محمد a کی ذاتی تصنیف ہے، جس پر پروگرام کی میزبانی کرنے والی خاتون اینکر ریہام سعید نے نام نہاد اسکالر خاتون کو مزید کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر فوراً پروگرام سے اُٹھ جانے کا حکم دے دیا۔ ریہام سعید نے ملعونہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم جھوٹ ، فریب اور جاہلانہ خیالات کے ذریعہ اسلامی معاشرے کو غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہو، لہٰذا پاگل پن کا مظاہرہ چھوڑ کر اسٹوڈیو سے نکل جاؤ۔ میزبان کے اس غیر متوقع رد عمل پر ملعونہ ڈاکٹر نہی محمود کے اوسان خطا ہوگئے اور میزبان سے اپنا ادب ملحوظ رکھنے کا کہتی رہی، تاہم ریہام سعید نے اس کی ایک نہ سنی اور اسے اسٹوڈیو سے نکال دیا ‘‘۔(روزنامہ اسلام، کراچی ،بروز ہفتہ ،۱۷؍ مئی ۲۰۱۴ئ) اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ہدایت کاملہ عطا فرمائے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلٰی آلہ وصحبہ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین