بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’دینیات‘‘ علم الکلام کا ایک نہایت ضروری باب

’’دینیات‘‘
علم الکلام کا ایک نہایت ضروری باب


دینی علوم وفنون میں ایک اہم اور بنیادی علم ’’علم الکلام‘‘ہے، جس کو ’’علم التوحید‘‘، ’’علم الأسماء والصفات‘‘، ’’علم أصول الدین‘‘، اور ’’علم العقائد‘‘ وغیرہ ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، دیگرتمام اہم علوم وفنون کی طرح اس علم کی بھی ایک ارتقائی تاریخ ہے، جو علمِ کلام کی مفصل کتابوں میں اور علمِ کلام کے ساتھ شغف رکھنے والے حضرات اہلِ علم کی تحریرات وتالیفات میں تفصیل کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ اس علم کا بنیادی مقصود یہ تھا کہ قرآن وسنت میں جن عقائد کا ذکر کیاگیا ہے، ان کی حقانیت پر پوری طرح ایمان لایاجائے، معاصرانہ اسلوب کے مطابق اس کو درجۂ تحقیق وثبوت تک پہنچایاجائے اور ان اعتقادی نصوص پر وارد ہونے والے اشکالات وشبہات کاتسلی بخش جواب دے کر عام مسلمانوں کے دین وایمان کی اچھی طرح حفاظت کی جائے۔ امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  سوال و جواب کے انداز میں اس علم کی اہمیت اوراس کی اساس وبنیاد سمجھاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’فإن قلت: فلم صار من فروض الکفایات وقد ذکرت أن أکثر الفرق یضرہم ذٰلک ولا ینفعہم؟ فاعلم أنہ قد سبق أن إزالۃ الشکوک في أصول العقائد واجبۃ، واعتوار الشک غیر مستحیل وإن کان لا یقع إلا في الأقل، ثم الدعوۃ إلی الحق بالبرہان مہمۃ فی الدین، ثم لا یبعد أن یثور مبتدع ویتصدی لإغواء أہل الحق بإفاضۃ الشبہۃ فیہم، فلا بد ممن یقاوم شبہتہٗ بالکشف ویعارض إغواء ہ بالتقبیح، ولا یمکن ذٰلک إلا بہٰذا العلم۔ ولا تنفک البلاد عن أمثال ہٰذہ الوقائع، فوجب أن یکون في کل قطر من الأقطار وصقع من الأصقاع قائم بالحق مشتغل بہٰذا العلم یقاوم دعاۃ المبتدعۃ ویستمیل المائلین عن الحق ویصفي قلوب أہل السنۃ عن عوارض الشبہۃ، فلو خلا عنہ القطر خرج بہٖ أہل القطر کافۃ، کما لو خلا عن الطبیب والفقیہ۔ ‘‘ (۱)
ترجمہ:’’علم کلام کاسیکھناکیوں فرض کفایہ ہے؟ حالانکہ اکثرلوگوں کواس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ؟ واضح رہے کہ پہلے گزرچکا کہ عقائد میں شبہات سے بچناضروری ہے اورشک - اگرچہ بہت کم ہی کیوں نہ ہو - پیش آناناممکن نہیں، اسی طرح دلیل کی بنیاد پرحق کی طرف دعوت دینا بھی ایک اہم دینی ذمہ داری ہے اورممکن ہے کہ کوئی بدعتی اُٹھ کھڑاہوکراہلِ حق کے دلوں میں شبہات ڈالے اورانہیں گمراہ کرنے کی ٹھان لے، لہٰذا ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے جو اس کاشبہ دورکرکے دلائل کے ساتھ اس کی گمراہی واضح کریں اوریہ علم کلام کے بغیر ممکن نہیں۔ اکثرشہروں میں اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں، لہٰذاہرجگہ ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے، جو حق پر قائم رہ کراس علم کوسیکھیں اورحق سے اعراض کرنے والے اوراہلِ بدعت کامقابلہ کرکے اُنہیں حق کی طرف راغب کریں، اہلِ سنت کے دلوں کو شبہات سے محفوظ رکھ سکیں، ورنہ اگرکوئی جگہ اس قسم کے لوگوں سے خالی ہوجائے تواہلِ باطل کاوہاں غلبہ ہوگا، جیساکہ کوئی علاقہ فقیہ اورڈاکٹرسے خالی ہوجائے ۔‘‘
شیخ عبد للطیف خربوتی  رحمۃ اللہ علیہ  علمِ کلام کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہي الترقي من حضیض التقلید إلی ذروۃ الیقین وإرشاد المسترشدین وإلزام المعاندین وحفظ عقائد المسلمین عن شبہ المبطلین۔ ‘‘ (۲)
ترجمہ:’’علمِ کلام کامقصد تقلید کی پستیوں سے یقین کی بلندیوں کی طرف بڑھنا، حق طلب کرنے والوں کی رہنمائی کرنا،مخالفین کولاجواب کرنااورمسلمانوں کے عقائد کو گمراہ لوگوں کے شبہات سے بچاناہے ۔‘‘
علامہ مرعشی مرحوم علم کلام کاتعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وأما علم الکلام: ویسمی أیضا علم أصول الدین، فہو علم یقتدر بہ علی إثبات العقائد الدینیۃ بإیراد الحجج علیہا ورفع الشبہ عنہا۔ ‘‘ (۳)
ترجمہ: ’’علم کلام جسے علم اصول الدین بھی کہاجاتاہے، ایسا علم ہے جس کے ذریعے دینی عقائد کو دلائل سے ثابت کرنے اورعقائد سے متعلق شبہات کوزائل کرنے کاملکہ پیدا ہوتا ہے ۔‘‘
سلف ِصالحین کے ابتدائی دور میں نقل ہی کا رواج تھا تو حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ اس وقت عقائد ِاسلامیہ کو قرآن وسنت کی نصوص کے ذریعہ ہی ثابت کرنے پر قناعت فرماتے رہے۔ مثال کے طور پر جب عقیدۂ’’تقدیر‘‘کے متعلق بعض لوگوں نے اسلامی عقیدے کے خلاف موقف اپناکر اس کی تبلیغ شروع کی اوراس کی اطلاع صحابی جلیل حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  کو پہنچی تو انہوں نے انکار کرنے والے سے براء ت وناراضگی کااظہار فرمایا اور پھر احادیثِ مبارکہ سے استدلال کرکے اس اعتقاد کی حقانیت وضرورت کو ثابت فرمایا۔ اسی طرح حضرت جابرؓ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے بھی مختلف اعتقادی مسائل میں یہی طرز اپنایا۔
 اس کے کچھ عرصہ بعد یونانی فلسفہ کی آمد اور عجمی دماغ لوگوں کے بکثرت مسلمان ہونے کی وجہ سے عقلیات کادور دورہ شروع ہوا اوردینی عقائد کو عقل کے ناتمام ترازو سے تولاجانے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک یلغار سی شروع ہوئی اور کسی بھی خیال واعتقاد کی صداقت وحقانیت کا یہی معیار ٹھہرا تو اس وقت کے علماء راسخین نے اسی پہلو سے عقائدِ اسلامیہ کے دفاع کی کوشش فرمائی، جن میں وہ بڑی حد تک کامیاب وکامران ثابت ہوئے ۔تاریخ کے اوراق میں انہی حضرات کو متکلمین کے نام وخطاب سے جانا جاتا ہے۔ اس گلستانِ حکمت ودانائی میں امام غزالی، امام صابونی، امام رازی، علامہ آمدی، علامہ نسفی، علامہ عضد الدین ایجی، تفتازانی، علامہ میرسید شریف جرجانی، علامہ سبکی، اور علامہ سنوسی ولَقانی وغیرہ  رحمۃ اللہ علیہم  روشن قندیلیں ہیں، جن کی خوشبوؤں سے ہمیشہ عالمِ اسلام کوترووتازگی نصیب ہوتی رہی۔
ان حضرات کا غایت مقصود یہ تھا کہ قرآن وسنت کی نصوص میں جن اعتقادات کا ذکر کیاگیا ہے، ان کی حقانیت وصداقت ثابت کی جائے اور معاصرانہ مزاج کے اشکالات وشبہات سے اس کا کماحقہٗ دفاع کیا جائے، اس مقصود کی تکمیل کے لیے اس زمانہ کے رسم وطبیعت کے مطابق عقلیات میں مہارت بھی ضروری تھی اور افہام وتفہیم، بحث ومکالمہ میں اس عقلی طرزِ استدلال کا بروئے کار لانا بھی لازم تھا، ان دونوں باتوں کے بغیر کسی بات کی طرف اعتماد کی آنکھیں نہیں اُٹھتی تھیں، اس لیے ان حضرات نے اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے عقلیات میں بھی مہارت پیدا کرنے کی پوری کوشش فرمائی اور ساتھ اپنی تصنیفات وتالیفات کو بھی اسی قالب میں ڈھالا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مساعی حصنِ حصین(مضبوط قلعہ) ثابت ہوئیں اور اعتقادی میدان میں ہونے والے تمام حملوں سے عقائدِ اسلامیہ کی عمارت پوری طرح محفوظ وسالم رہی۔ اسباب کی دنیامیں ان حضرات کے خلوصِ دل، کمالِ عقل اور سرتوڑ محنت وکوشش ہی کا نتیجہ تھا کہ عقلیات کی اس طوفانی یورش میں بھی عقائد ِاسلامیہ پر کوئی حرف نہیں آیا، بعد میں صدیوں تک یلغار کی یہی صورت جاری رہی اور انہی حضرات متکلمین کی محنتیں سدّسکندری بن کر مانع رہیں۔
اس کے صدیوں بعد ماضی قریب میں ’’اِلحاد‘‘ و’’تجدد پسندی‘‘کاسیلاب پھوٹنا شروع ہوا اور علم، سائنس، تجربہ وطبیعت کے عنوان سے ایک بار پھر عقائدِ اسلامیہ پر ہر طرف سے تابڑتھوڑ حملے شروع ہوئے، پہلے کی بنسبت ان حملوں میں واقعیت تو بہت کم تھی، لیکن رنگ وروغن بہت تھا، جس کی وجہ سے یہ فتنہ خوب منقش ومزین ہوکر افرادِ امت کے سامنے نمودار ہوا اور نمودار بھی ایسی حالت میں ہوا جبکہ افراد ِامت کے دل ودماغ میں اپنے اسلاف کی طرح دین وایمان کے چراغ برقرار نہ رہے تھے، نہ ہی دین وایمان کی وہ فضائیں باقی رہی تھیں جن کی روشنی میں بے بصیرت وبے طلب لوگ بھی راہِ راست کوتھام کر اس پر جم جاتے تھے۔ ایک طرف شکاری کی مہارت ہو اور دوسری طرف ہرن کا لنگڑاپن! نتیجہ یہی ہوا کہ کچھ ہی عرصہ میں سینکڑوں ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں آدمیوں کے پاؤں ڈگمگا کر اس سیلِ رواں میں بہہ کر بھٹکنا شروع ہوئے اور تاہنوز اس کا سلسلہ پوری شدت وحِدّت سے جاری ہے ۔
اس حالیہ فتنے اور قدیم دور کے فتنوں میں ایک بڑا مابہ الفرق یہ بھی ہے کہ قدیم فتنے کا اشکال صرف اعتقادیات کے بعض مسائل پر ہوتا تھا اور اس کے پس پشت بھی کچھ نہ کچھ دین داری، دیانت داری کا جذبہ موجزن ہوتا تھا، چنانچہ بہت مرتبہ معترض اگر اعتراض کرتابھی تھا، تو حاصلِ اعتراض یہی ہوتا تھا کہ فلاں مسئلہ کی تعبیر وتشریح بدل دی جائے یا کسی تاویل کا راستہ اپنایاجائے، جبکہ موجودہ دور کے فتنوں میں یہ دونوں باتیں عنقاء ہیں، چنانچہ اس حالیہ فتنے کے اشکالات وشبہات صرف کسی خاص مسئلے یا چند ابواب تک محدود نہیں ہیں، بلکہ دینِ حق کے کلی نظام پر اُس کی زَد پڑتی ہے اور عموماً ان اشکالات کی بنیاد کوئی دینی جذبہ یا اسلامی خیرخواہی نہیں ہوتی، بلکہ اکثر مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ بے دینی اور بے راہ روی ہی اس کا باعث بن جاتا ہے اور یہی اس کی بقاء واستمرار کا سبب ہے، چنانچہ اب کے اشکال کرنے والے کا مطالبہ تعبیر وتشریح کی تبدیلی کانہیں ہے، بلکہ دین کی حیثیت تبدیل کرنا مقصود ہوتا ہے۔
یلغار کے اس تغیُّر اور دشمن کے پینترا بدلنے کی وجہ سے علمِ کلام کے وسیع اوررنگا رنگ میدان میں ایک نئے باب کے اضافے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے، جو پہلے متکلمین کے کچھ نہ کچھ پیشِ نظر ضرور تھا، لیکن اُن کے زمانے میں اس باب کی کوئی خاص ایسی ضرورت نہیں تھی، جیسی آج کل ہے، جبکہ ضرورت ہی ایجاد والتفات کی ماں او راس کا باعث قرار پاتی ہے، اس لیے علمِ کلام کی قدیم کتابوں میں مستقل باب وعنوان کی حیثیت سے اس کو رواج نہیں ملا، وہ باب ہے ’’دین اور اس سے متعلق عصری اشکالات واعتراضات‘‘ کا، جن کو ہم مختصراً’’دینیات ‘‘ کانام دے سکتے ہیں، جس کے مثلاً یہ مضامین اور عنوانات ہوسکتے ہیں:

۱:- دین کا مفہوم ومصداق کیا ہے ؟

۲:- اس کی حیثیت ونوعیت کیا ہے ؟ کیا ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضرور کسی دین کو گلے لگائے یا یہ ایک اختیاری معاملہ ہے ؟ اگر ضروری ہے تو کسی خاص دین کو سوفیصد اختیار کرنا لازم ہے یا کسی بھی دینِ سماوی کو اپنانا نجات کے لیے کافی ہے ؟خاص دینِ اسلام کو اختیار کرنے کی کیاوجہ ہے ؟
۳:- مقصودیتِ دین کہ دین خود مقصود ہے یا کسی دوسری چیز کا ذریعہ؟ دنیوی ترقی اور قیامِ امن وامان مقصود ہے یا دینی احکام کی تابعداری؟
۴:- جامعیت وکاملیتِ دین : دین‘ انسان اور اس کے خالق کے درمیان خاص تعلق وربط کا نام ہے یا انسانوں کے باہمی معاملات میں بھی دین کا کوئی لازمی پہلو ہوسکتا ہے؟ اسی طرح حکومت وسیاست کے مجال میں بھی اس کا کوئی عمل دخل ہوسکتا ہے یا وہاں تک دین ومذہب کی رسائی نہیں ہوسکتی؟
۵:- ابدیتِ دین: دین کی تابعداری کب تک ضروری ہے ؟ جولوگ دینی نصوص واحکام کے اصل مخاطب ہوں، وہی اس دین کو اپنانے کے پابند ہیں یا قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لیے یہ حکم ہے؟ صدیوں پہلے کے عرف ومعاشرے میں جو دین نازل ہوا تھا، آج کے دور میں وہ دین قابلِ نفاذ اور قابلِ عمل بھی ہے یانہیں؟
۶:- دین کامقام ومرتبہ، وغیرہ۔
علمِ کلام کے مقاصد واغراض کو اگر ایک نظر پھر تازہ کرلیاجائے تو واضح ہوجائے گا کہ ان جیسے مباحث کو حل کرنا اور ان کے متعلق عصری شبہات کو تسلی بخش طریقے سے دفع کرکے مسلمانوں کے متاعِ دین وایمان کو ان کی گمراہیوں سے بچائے رکھناعصری ’’ علمِ کلام‘‘کااہم اور ضروری حصہ ہے، جو معاصر متکلمین حضرات کی بھاری ذمہ داری ہے ۔
قدیم علمِ کلام میں مقاصد کی حیثیت سے عموماً تین ہی مباحث سے زیادہ بحث ہوتی ہے: ۱:-الٰہیات، ۲:- نبوات، ۳:-سمعیات۔ علم کلام کی مفصل کتابوں میں بھی ’’دینیات‘‘کاکوئی مستقل باب نہیں ملتا۔ وجہ ظاہر ہے کہ ان حضرات کے زمانوں میں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی، دینیات سے متعلق جو کچھ نکات ابھی درج کیے گئے اور جن سے متعلق آج ایک جہاں گمراہی اور بے راہ روی کی دلدل میں پھنس رہا ہے، متکلمین کے زمانے میں فریقین (موافق ومخالف) کے ہاں مسلم اور بدیہی کی حیثیت رکھتے تھے، اس لیے خواہ مخواہ ان باتوں کی طرف تعرُّض کرنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور اسی بنیادپر علم کلام کی کتابوں میں ان مباحث کو کوئی مستقل جگہ نہیں مل سکی۔
لیکن اب جبکہ علم کلام کے تینوں ابواب (الٰہیات، نبوات، سمعیات) کی بنسبت اسی باب (دینیات) میں زیادہ تر گمراہیاں جنم لیتی ہیں اور دین کا جوتصور قرآن وسنت کی پاکیزہ نصوص سے نکھر کرسامنے آتا ہے، اس مفہوم کو تسلیم کرنے سے انکاروانحراف کیاجاتا ہے اور اسی سے متعلق طرح طرح کے شبہات پیدا کیے جاتے ہیں توکوئی وجہ نہیں ہے کہ سابقہ متکلمین حضرات کی محنت وطریقہ کار سے روشنی لیتے ہوئے اوران کی اتباع کرتے ہوئے ان عصری فتنوں سے دینِ اسلام کی حفاظت کی جائے اور اس باب میں اپنی ممکنہ طاقت وصلاحیت صرف کی جائے ۔
عقلِ انسانی کے بالغ ہوجانے کے بعدشاید کسی دور میں اس شدت وتسلسل کے ساتھ دین کی حقیقت ومفہوم، حیثیت ونوعیت، ضرورت واہمیت اوراس کے مقام ومرتبہ کو ڈھاکر ختم کرنے اور ملیامیٹ کرنے کی اتنی اوراس قسم کی جان گداز کوششیں کی گئی ہوں جو ترقی وٹیکنالوجی کے اس دور میں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔بلاشبہ ہردور میں دینِ حق کے ہزاروں منکر وحاسد گزرے ہیں، لیکن مطلق دین کی وقعت وحیثیت کے خلاف جتنی شورش آج مشرق ومغرب میں ہورہی ہے، وہ کسی دور میں نہ ہوئی، اس لیے آج کے علمِ کلام اور اس فن میں مہارت رکھنے والے گراں قدر متکلمین حضرات کا فریضہ صرف یہی نہیں ہے کہ قدیم علمِ کلام کی کتابوں میں درج شدہ تین مباحث میں مہارت پیدا کرنے پر اکتفاء کریں اور اسی کے دفاع کرنے پر قناعت فرمائیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بلکہ شاید اس سے کچھ زیادہ اہم فرضِ منصبی یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ’’دینیات ‘‘سے متعلق اس معاصر فتنے کا مقابلہ فرمائیں اور اس کی تند وتیز موجوں سے دینِ حق کے در ودیوار محفوظ رکھنے میں اپنا زورِ بازو اور ہمت صرف فرمائیں۔ اگرکوئی خوش نصیب یہ بھاری ذمہ داری پوری طرح نبھانے کے لیے میدان میں آجائے اور خلوصِ دل اور سلامتِ فکر کے ساتھ اس موضوع پر معاصر دنیا کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرے تو علمِ کلام کے میدان میں یہ اس کی بہت بڑی خدمت متصور ہوگی ۔

حوالہ جات

۱:-الاقتصاد فی الاعتقاد،ص:۱۶
۲:-تنقیح الکلام فی عقائد اہل الاسلام،المقدمۃ، البحث الاول، ص:۱۱
۳:-ترتیب العلوم للمرعشی،ص:۱۴۳

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین