بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دینی واصلاحی جلسے۔۔۔۔۔ چند قابل ِتوجہ پہلو

دینی واصلاحی جلسے۔۔۔۔۔ چند قابل ِتوجہ پہلو

علمائے کرام انبیاء o کے وارث ہیں اور نبی اکرم a کے اقوال کی روشنی میں انہیں پوری امت پر وہ فضیلت و برتری حاصل ہے، جوامت کے دوسرے افراد و طبقات کو حاصل نہیں۔ اللہ کے نبی a نے اپنی امت کے عابدوں پر عالموں کو فضیلت دی ہے۔(سنن ترمذی،حدیث:۲۶۸۷) آپ a نے ایک حدیث میں یہ ارشاد فرمایا کہ:’’ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔‘‘ (المقاصدالحسنہ، حدیث:۶۷۰) قرآن کریم میںیہ فرمایاگیاہے کہ: ’’علم والے اور بے علم لوگ برابر نہیں ہوسکتے۔‘‘ (الزمر:۹) اس سے بھی مراد وہی اہلِ علم ہیں، جو دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے، خدائے تعالیٰ کی تخلیقات میں غور و تدبر کرنے والے اور کائنات کے ذرات میں مخفی فطرت کے اشاروںکو سمجھنے والے ہیں۔ پھر علماء کو یہ مقام و مرتبہ یوں ہی نہیں مل گیا ہے، بلکہ اس کے بے شمار تقاضے بھی ہیں اور اَنیک ذمے داریاں بھی کہ: جن کے رتبے ہیں سوا اُن کو سوا مشکل ہے نبی اکرم a کے اس دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد اس دینِ متین کے تحفظ و بقا اور اس کی ترویج و اشاعت کی ساری ذمے داری علمائے امت کے کندھوں پر ہے، یہ ان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ دین کے علوم کو حاصل کرکے اگلی نسل تک پہنچائیں اور امت کی عملی، فکری و عقائدی خامیوں کو دور کرنے کے جتن کریں، ان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو نبوی صفات و خصوصیات سے آراستہ کریں اور امت کے سامنے ایک بہترین عملی نمونہ بنیں، ان کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ موجودہ ناگفتہ بہ دور میں دینِ اسلام کی عصری معنویت اوراس کی دائمی آفاقیت وعالمگیریت سے لوگوں کو آشنا کروائیں اور جو لوگ اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے سے اِنکاری ہیں یا جو مانتے ہیں، مگران کی عملی دنیا گمرہی و کج روی کی دلد ل میں پھنسی ہوئی ہے،اُنہیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ بحمداللہ! ایسے علماء ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں اور آج کے تشویش ناک ماحول میں بھی ایسی خدامست ہستیاںروئے زمین کے ہر خطے میں پائی جاتی ہیں،جن کی نظروں سے دلوں کی دنیا بدلتی، جن کی باتوں سے پژمردگیِ قلب و روح ختم ہوتی اورجنہیںدیکھنے سے خدا یاد آجاتا ہے، ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں، جو اپنی مسحور کن اور اثر و تاثیر میں ڈوبی ہوئی باتوں کے ذریعے حق کے کٹرسے کٹردشمن کواسلام کا ہمنوا بنالینے کی غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں اور ان ہی لوگوں کی بدولت آج اسلام دنیا میں سب سے زیادہ قبول کیے جانے والے مذاہب میں اول نمبر پر ہے، اگرچہ ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ،جواپنے دل،قلب اور روح میں برپاہونے والی ہلچل سے عاجز آکر سکون کی تلاش میں اسلام کی بنیادی تعلیمات،قرآنِ مقدس اور احادیثِ مبارکہ کوپڑھتے اور ان کی غیر معمولی جاذبیت انہیں دامنِ اسلام کی جانب کھینچ لے آتی ہے،مگراس کے باوجود شخصیتوں کی تاثیر سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے کتابوں کے ساتھ نبیوں اور رسولوں کو بھی مبعوث فرمایا تھا۔ یہ علماء تبلیغِ اسلام اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ہر دور میں الگ الگ طریقے اختیار کرتے رہے ہیں، ان ہی میں سے کچھ طریقے وہ ہیں جو آج کل بہت رائج ہیں،مثلاً:تبلیغی تحریک کی شکل میں، اس طرح کہ کچھ لوگوں کی ایک جماعت دنیا بھر کے مختلف ملکوں، شہروں، دیہاتوں کی مسجدوںمیں جاکر قیام کرتی اور وہاں گردوپیش میں رہنے والے اُن مسلمانوں کودین کے مبادیات سے واقف کراتی اور انہیں مسجدکی طرف لاتی ہے، جو باوجود مدعیِ اسلام ہونے کے دین کے بنیادی ارکان کی ادائیگی سے غافل ہوتے اور انہیں بنیادی تعلیمات کی بھی خبر نہیں ہوتی، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جو اپنے علم و مطالعہ اور حیثیت و طاقت کے مطابق غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور ان کی کوششیں بھی بار آور ہوتی ہیں اور ایک طریقہ ہے جلسوں کا کہ کسی متعین شہر یا گاؤں میں، کسی متعین تاریخ میں ’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ یا ’’سیرتِ نبوی(l)‘‘یا اسی قسم کے کسی عنوان کے تحت کسی دینی ادارے میں یا گاؤںکی کسی کھلی جگہ میں ایک پروگرام منعقدکیا جائے اور اس میں عام لوگوں کو دین کی باتیں بتلائی جائیں اور انہیں اسلام کی موٹی موٹی اور بنیادی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے، بلاشبہ یہ طریقہ بھی اسلام کے تعارف کی توسیع اور اس کی اشاعت اور ناخواندہ و عام مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنے کے حوالے سے اہم ہے اور اس کے فوائد بھی حاصل ہوتے رہے ہیں، کم ازکم ہندوستان میں تو اس قسم کے اجتماعی پروگرام یا جلسوں کی روایت صدیوں پرانی ہے، خود ہمارے نبی a بھی صحابہ کرامs کواکٹھاکرکے انہیں دین کے مسائل اور اخلاق کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ جلسے میںفی زمانہ متعددخرابیاں درآئی ہیں، جوسنجیدہ قسم کے لوگ ایسے جلسوں میںبحیثیت سامع شریک ہوتے ہیں یا اُنہیں بطور مہمان مدعو کیا جاتا ہے، اُنہیں اندازہ ہوگاکہ فی الوقت ایسے بہت سے جلسوںسے اصلاح کا مقصد تو کم حاصل ہورہا ہے ، البتہ اس کے مقابلے میں فساد و بگاڑ کے نت نئے دروازے کھلتے جارہے ہیں، آپ تحقیق کریں، تو بہت سے ایسے ’’مولوی نما‘‘ جاہل ملیںگے، جو ان جلسوں میں ایک خاص فنکارانہ رنگ و آہنگ میںبے سر پیر کی باتیں کرکے، من گھڑت لطائف و ظرائف سناکر عوام کو ذہنی تفریح مہیا کراتے اور اپنی جیبیں بھرتے ہیں، رات میں دو دو، تین تین، چارچار گھنٹے ان کی لچھے دار تقریر ہوگی اور صبح پوپھٹنے سے پہلے ہی یہ لوگ اپنا ’’نذرانہ‘‘ ہتھیا کر چلتے بنتے ہیں، بہت سے لوگ ان کی حقیقت سے واقف بھی ہوتے ہیں، مگرچوںکہ اب دین کے نام پر تفریح بھی لوگوں کا مزاج بنتا جارہا ہے، سو وہ بھیڑجمع کرنے کے لیے ایسے ہی لوگوں کو بلا تے ہیں، حالاں کہ ہندوستان بھر میں قابل، ذی علم و ذی ہوش علماء کرام کی کمی نہیں، جو صحیح معنوںمیں ملت کا درد رکھتے ہیں اوروہ اس کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں اور کرنا بھی چاہتے ہیں، مگر چوںکہ عام طورپر وہ چرب زبان نہیں ہوتے،اس لیے: پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں! ایک اوربہت بُری لت‘ مسلمانوں کو لگتی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ دینی واصلاحی جلسوںمیں ایسے ادنیٰ درجے کے شاعروں کو بھی دھڑلّے سے بلایا جاتا ہے، جو فی الحقیقت گویّے ہوتے ہیں اور جن کی شاعری توعام طور پر دینِ اسلام اور اس کی تعلیمات کی فضیلتوں پر مشتمل ہوتی ہے، مگر ان کا سراپا اور طرزِعمل خود اُن کی چغلی کھارہا ہوتا ہے، نتیجتاًان کے اشعار سامعین کے کانوں کی عیاشی فراہم کرنے کے علاوہ کسی اور فائدے کا سبب نہیں بنتے، مزید یہ کہ ایک اصلاحی جلسہ اچھے خاصے مشاعرے میں بدل کر رہ جاتا ہے، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب جلسہ ایک رات کا ہے، کل وقت زیادہ سے چھ گھنٹے کا ہے، مقرروںکی تعداد کم ازکم چار پانچ تو ہوتی ہی ہے، اوپر سے شعراء بھی تین چار سے کم نہیں ہوتے، تو اس جلسے میں کیا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ عموماً یہ جلسے‘جلسے تو کم مگر مشاعرے زیادہ ہوتے ہیں اور ان کا نتیجہ سوائے ’’آمدند، نشستند، خوردند ورفتند ‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتا، بلکہ بسااوقات ان اجتماعی موقعوں پر ایسے ایسے حادثات بھی رونما ہوجاتے ہیں، جنہیںقلم وزبان پر لایا بھی نہیں جاسکتا۔ ان جلسوںکی ایک بڑی خامی، جو حالیہ چار پانچ سالوں میں متعارف ہوکر سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ مشاعروںکے طرز پر ان میں باقاعدہ ’’اناؤنسر‘‘ بھی بلائے جاتے ہیں، جن کی طولانی تمہیدات میں ہی پورے پروگرام کا کم و بیش ایک تہائی حصہ تو ضائع ہوجاتا ہے، عام طور سے یہ اناؤنسر حضرات زبان و بیان کے پیچ و خم سے نابلد ہونے کے ساتھ الفاظ و القاب کی لطافت و نازکی اور ان کے محلِ استعمال سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، بہت سے جلسوں میںیہ دیکھنے میں آیاکہ ایک واقعی قابل، عالم، فاضل اور باکمال مقرر کو سیدھے سادے الفاظ میں دعوت دے دی گئی، جبکہ ایک ’’پینترے باز‘‘ مقرر کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملادیے گئے۔ بے جاالقاب کا استعمال تو ہمارے مذہب میں یوںبھی ممنوع ہے، ہمارے نبیa نے جتنے بڑے بڑے شاہانِ عصر کو اپنے مکتوبات روانہ فرمائے تھے، ان کے سرناموں میں صرف ’’محمد بن عبداللہ‘‘ لکھوایا اور اندر صرف ’’رسول اللہ‘‘، آپ a نے ایک بارصحابہ کرامs کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ:’’تم لوگ میری تعریف میں اس طرح مبالغہ آرائیاں مت کیا کرو، جیساکہ نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم m کے ساتھ کیا، میں تو محض اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، لہٰذا تم مجھے عبداللہ اور رسول اللہ ہی کہا کرو‘‘۔ (صحیح بخاری،ح:۳۲۱۳) تو کیا ضرورت ہے کہ ہم کسی کی وقتی خوش نودی حاصل کرنے اورواہ واہی بٹورنے کے لیے خواہ مخواہ لفظوں کا پُرشور دریا بہائیں۔ یہ ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے، علماء کرام کو اس طرف توجہ دینی چاہیے، یہ بہت اچھی اورقابلِ قدربات ہے کہ ہم معاشرے کی اصلاح کی مہم  چلا رہے ہیں، مگر ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس کے پردے میں نادانستہ طور پر ایسے اقدامات تونہیں کر رہے، جو معاشرے کے مزید بگاڑ اور فساد کا سبب بن رہے ہیں؟ ایسے پیشہ ور خطبائ،واعظین اورشعراء کی ایک پوری کھیپ میدان میں اُتری ہوئی ہے، جو قول و عمل کے تضاد، فکری سطحیت، علمی اِفلاس، ذہنی پسماندگی وپس گردی، اخلاقی زوال، نظر اور نظریے کی بے سمتی کی شکار ہے اور نتیجتاً اِن اصلاحی جلسوں سے ملت کو فائدے کی بجائے نقصان ہی اُٹھانا پڑرہا ہے۔ اگر عام مسلمان اپنی محنت اور خون پسینے سے کمائے ہوئے روپے پیسے دین اور اصلاح کے نام پر اکٹھا کرکے کوئی جلسہ منعقد کرتے اور اس میں شریک ہونے والے علماء ومقررین اور مہمانوں کو منہ مانگی رقمیں دیتے ہیں، تو یہ اُن کا حق ہے کہ ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، اُنہیں دین کی صحیح باتیں بتائی جائیں، اُنہیں ملک کے موجودہ تشویش ناک حالات سے باخبر کر کے اُنہیں سلام کی صحیح نمایندگی کی تلقین کی جائے، نہ یہ کہ اُنہیں محض چند تفریحی باتیں سناکر ٹرخا دیا جائے اور مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ دین اور اصلاح کے نام پر کیے جانے والے پروگرام کو تفریحِ طبع کا رنگ نہ دیں، پہلے اپنے علاقے کے کسی قابل و مخلص عالمِ دین یا خطیب سے مشورہ کریں اوران کے مشورے کی روشنی میں ہی پروگرام کا خاکہ بنائیں، تاکہ ان کی مادی و معنوی کوششیں بار آور ہوں اوراُنہیں دین و دنیا کے تعلق سے مفید معلومات حاصل ہوسکیں۔ ابھی چوں کہ جلسوں کا موسم ہے اور مارچ سے لے کر جون تک یوپی اور بہار کے گاؤں دیہاتوں میں دینی جلسے تواتر کے ساتھ کیے جاتے ہیں، اس لیے یہ زمینی حقائق سپردِ قلم کردیے گئے ہیں، تاکہ کسی منفی نظریہ کا مظہر گرداننے کی بجائے حالات کا سنجیدگی ودیانت داری کے ساتھ جائزہ لینے اورمعاملے کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔                                                   (بشکریہ ماہنامہ دارالعلوم ، دیوبند)

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین