بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

دینی امور میں اختلاف ۔۔۔۔ آسان دستور العمل

 

دینی امور میں اختلاف…آسان دستور العمل

    انسان کی عقل محدود ہے، حقیقت تک رسائی میں اس سے علمی وعملی غلطیوں کا صدور بھی ممکن ہے، جس کی بنا پر وہ حق یعنی صراط مستقیم سے دور ہوسکتا ہے۔ اسی طرح دینی امور میں شک یا اختلاف کی وجہ سے وہ اعتدال کی راہ سے ہٹ سکتا ہے۔ آج دین سے دوری اور علماء حق سے اعراض کی وجہ سے بہت سے بندگانِ خدادین کی حقیقی تشریح وتعبیر سے محروم ہیں۔ ہر جماعت اور فرقہ خود کو اہل حق سمجھتا ہے۔ زیر نظر دستور العمل میں ایسی ہدایات درج ہیں جن پر اہتمام سے عمل کیا جائے تو راہِ ہدایت سے بھٹکا ہوا انسان صراط مستقیم اور دینی امور میں اختلاف میں مبتلا راہِ اعتدال کی منزل تک بآسانی پہنچ سکتا ہے۔ ۱:…غوروفکر     راہِ حق اور طلب ِہدایت کی تلاش میں سب سے پہلے غوروفکر کا اہتمام ضروری ہے۔ جتنی کوشش آپ حکیم، ڈاکٹر اور وکلاء کے انتخاب اور علاج معالجہ ومقدمہ کی پیروی میں کرتے ہیں، اتنی کیا اس سے آدھی تہائی بھی اگر طلب ِدین میں کریںگے تو آپ کو حق کا راستہ ضرور مل جائے گا۔ دیکھو مسئلہ یہ ہے کہ اگر جنگل میں چار آدمی ہوں اور نماز کا وقت آجائے اور قبلہ نہ معلوم ہو سکے تو ایسی حالت میں شرعاً جہتِ تحرّی قبلہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خوب سوچ لینا چاہیے، جس طرف قبلہ ہونے کا ظن غالب ہو اسی طرف نماز پڑھ لینی چاہیے۔ اب (اگر چاروں میں سے ہر ایک نے الگ الگ سمت کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی تو )یہ بات صریحاً ظاہر ہے کہ سمت صحیح کی طرف چاروں میں سے صرف ایک ہی کی نماز ہوئی ہوگی، لیکن عند اللہ سب ماجور ہیں اور قیامت میں کسی سے یہ سوال نہ ہوگا کہ تم نے نماز غیر قبلہ کی طرف کیوں پڑھی تھی؟ وجہ یہ ہے کہ سب نے قصداً اتباع قبلہ ہی کا کیا ہے۔ اس نظیر سے ثابت ہوگیا کہ اختلاف کی حالت میں جس کا بھی اتباع کیا جائے گا حق تعالیٰ کے نزدیک وہ مقبول ہے۔     آسان طریقہ ترجیح کا یہ ہے کہ دونوں فتویٰ دینے والوں کو دیکھے اور دونوں کے حالات پر غور کرے، اس کے نزدیک جو متقی اور پرہیزگار ثابت ہو، اس کے فتویٰ کو ترجیح دے اور اسی پر عمل کرے۔ غور وخوض کے بعد ضرور تم پر حق واضح ہوجائے گا۔ طالب صادق کی تائید حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور اگر بالفرض تلاش سے بھی فیصلہ نہ ہو اور کسی فریق کی ترجیح سمجھ میں نہ آئے اور تمہارے نزدیک دونوں علم وتقویٰ میں برابر ثابت ہوں تو اس صورت میں جس طرف دل گواہی دے اس طرف جاؤ۔ (مواعظ اشرفیہ،ج:۲۶، ص:۱۴۲،۱۴۳) ۲:…اہتمام دعا     دستور العمل کا دوسرا نمبر دعاؤں کا اہتمام کرنا ہے، دراصل انسان کی ساری کاوش اور کوشش اس وقت رنگ لاسکتی ہے جب خالق کل ا س میں اثر ڈالیں۔ انسان ہدایت کی تلاش میں ہو یا حق راستہ معلوم کرنا چاہتا ہو، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوب التجاء وزاری، تضرع وعاجزی سے رونی صورت بناکر بھکاری بن کرہاتھ پھیلا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ یا اللہ! حق وباطل اور ان اختلافی امور میں توہی مجھے سیدھا راستہ دکھانے والا ہے، تو ہی مجھے راہ دکھا، تو ہی مجھے صراط مستقیم کی دولت سے مالا مال فرما، تیرے چاہے بغیر اورتیری رہنمائی کے بغیر میں افراط وتفریط میں پڑ کر گمراہیوں کے گڑھوںمیں گرجاؤں گا، تو مجھے صحیح راستہ دکھلا، دل سے ذیل کی دعاؤں کے ساتھ معمول بھی ہو:     ۱:۔۔۔۔’’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔‘‘     ۲:۔۔۔۔’’اِہْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ۔‘‘     ۳:۔۔۔۔’’أَللّٰہُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ۔‘‘     ایک نو مسلم کا بیان ہے کہ جب میں نے مذہب حق کو تلاش کرنا شروع کیا تو مجھے ہر مذہب میں حق کی جھلک نظر آتی تھی، جس سے میں پریشان ہوگیا، آخر میں نے یوں دعا کی کہ اگر آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا کوئی ہے تو میں اس سے دعا کرتا ہوں کہ مجھ پر حق واضح ہوجائے۔ بس یہ دعا کرتے ہی دو چار دن نہ گزرے تھے کہ اسلام کا حق ہونا مجھ پر واضح ہوگیا ۔ صاحبو! دعا بڑی چیز ہے۔ افسوس ! ہم لوگوں نے اس کو آج کل چھوڑدیا۔ دعا میں ایک نفع اور بھی ہے کہ یہ شخص حق تعالیٰ کے یہاں معذور سمجھا جائے گا، کیونکہ جب اس سے سوال ہوگا کہ تم نے حق کا اتباع کیوں نہیں کیا؟ تو یہ کہہ دے گا کہ میں نے طلب حق کے لیے بہت سعی کی اور اللہ تعالیٰ تو ایک ہی تھے، میں نے اس سے بھی عرض کردیا تھا کہ مجھ پر حق واضح کردیا جائے، اب میں دوسرا ہادی کہاں سے لاتا؟ یہ بات میں نے علی سبیل التنزیل کہی ہے، ورنہ عادۃاللہ یہی ہے کہ جو شخص دل سے دعا کرتا ہے وضوحِ حق اس پر ہو ہی جاتا ہے، اس کے خلاف ہوتا ہی نہیں، پس دعا کو ہر گز ترک نہ کیا جائے۔     ضمیر وقلب کی سلامتی ہو تو سچی بات یہی ہے ۔ ہم نے صراط مستقیم اور راہ حق کو پانے کے لیے کبھی خدائے پاک سے نہ تو گڑگڑا کر دعا کی ہے اور نہ ہی التجاء کی ہے، بلکہ جو جس نظریے اور خیال کا حامل ہے، بس وہ سمجھتا ہے کہ یہی حق ہے، خدا کی طرف رجوع کو نہ وہ ضروری سمجھتا ہے اور نہ ہی ا س کی کوشش کرتا ہے،حالانکہ خود اہل حق بھی باوجود حق پر ہونے کے ’’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کی دعا مانگنے کے محتاج ہیں۔ ان شاء اللہ! جو بھی خلوصِ دل سے ایک مدت تک غوروفکر کے بعد خدا تعالیٰ سے دعاؤں کا اہتمام کرے گا، وہ ضرور کامیاب ہوگا، ورنہ قیامت کے دن عذر تو کرسکے گا کہ یا اللہ! میں نے تو تلاش حق کے لیے اپنی سی کوشش کی تھی۔ ۳:…تقویٰ     دستور العمل کا تیسرا نمبر تقویٰ ہے، عام فہم معنی اس کے گناہوں سے بچنے کے ہیں، گناہوں سے بچنے کا ایک انعام یہ بھی ہے کہ ایسے شخص کو حق وباطل کی تمیز نصیب کی جاتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:     ’’إِنْ تَتَّقُوْا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا۔‘‘     علم حقیقی اللہ کا نور ہے، یہ خدا کے نافرمان کو عطا نہیں کیا جاتا۔ دوسرے جو شخص کبیرہ وصغیرہ اور ظاہری وباطنی گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتا ہے، ا س کی منجانب اللہ رہنمائی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا کا فرماں بردار ہو او رگم کردہ راہوں میں بھٹک رہا ہو، بلکہ اللہ پاک اپنے فضل وانعام سے اُسے سیدھی راہ پر خود ہی کھینچ لاتے ہیں۔ اگر آپ حقیقی معنوں میں حق کے طالب ہیں تو پھر تمام گناہوں سے بچنے کا اہتمام کریں، دیکھیں چند یوم میں تمام تاریکیاں مٹتی نظر آئیں گی، ظلمتیں بھاگتی نظر آئیںگی، حق روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا۔ ہم خدا کی نافرمانی بھی نہ چھوڑیں، اپنے خالق مالک سے راہِ حق کی دعا بھی نہ کریں، غوروفکر کی زحمت بھی گوارانہ کریں، ایسوں کو کیاطالب حق کہا جاسکتا ہے ؟!     گناہوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ گناہوں سے روکنے کی بھی فکر اور کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ نہی عن المنکر چھوڑنے سے حدیث شریف میں ’’وحی کی برکات‘‘ سے محرومی کی خبر دی گئی ہے، تو جو آدمی وحی کی برکات سے محروم ہے وہ قرآن وحدیث کے صحیح مطالب کیسے سمجھ سکتا ہے؟ گناہوں کو دیکھ کر خاموش رہنے والا اس دولت سے محروم رہتا ہے، لہٰذا گناہوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو گناہوں سے منع کرنا بھی ضروری ہے، حدیث شریف میں صاف آتا ہے: ’’وإذا ترکت الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر حرمت برکۃ الوحی‘‘۔ ’’ یعنی جب امت امر بالمعروف ونہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی‘‘۔                                                   (فضائل تبلیغ، ص: ۱۸) ۴:…بے ادبی سے پرہیز     صحابہ کرام sوتابعین wکی آراء کا اختلاف ہر اہل علم کو معلوم ہے کہ ان میں سے کوئی جماعت کسی صحابیؓ کی رائے کو اختیار کرلیتی تھی اور کوئی ان کے بالمقابل دوسری جماعت دوسرے صحابہؓ کی رائے پر عمل کرتی تھی۔ لیکن صحابہؓ وتابعینؒ کے تو پورے خیر القرون میں، اس کے بعد ائمہ مجتہدین اور ان کے پیرؤوں میں کہیں ایک واقعہ بھی اس کا سننے میں نہیں آیا کہ ایک دوسرے کو گمراہ یا فاسق کہتے ہوں۔ ان اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف جنگ وجدل یا سب وشتم، توہین، استہزا اور فقرہ بازی کا تو ان مقدس زمانوں میں کوئی تصور ہی نہ تھا۔                                           (وحدت امت)     پھر اہل علم کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرنا کتنی سخت محرومی کی بات ہے، حالانکہ اتباع کا منصب یہ تھا کہ علمائے حق میں سے جس سے عقیدت ہو اور اس کا عالم باعمل ہونا محقق ہوجائے اس کے ارشادات پر عمل ہو۔ ہماری ساری محبت کا خلاصہ یہ ہوتاہے کہ اپنے بڑے کی حمایت میں دوسروں کے بڑوں کو گالیاں دیں۔ یہ کتنا بڑا جرم ہے؟! نبی کریم a کا ارشاد ہے:’’ جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے، میری طرف سے اس کو اعلان جنگ ہے۔‘‘ تو خوب سمجھ لو کہ اللہ جل شانہ سے لڑائی کرکے دنیا میں کون شخص فلاح پاسکتا ہے؟ اور آخرت کا پوچھنا ہی کیا ہے۔     نئی تعلیم نے آزادیِ رائے کا خوبصورت عنوان دے کر ہماری جس متاع گرانمایہ پر پہلی ضرب لگائی وہ اسلاف کی عظمت ہے اور ان پر اعتماد کھوکر ہم شکوک واوہام کی راہوں پر بھٹکنے لگے، جن مسائل میں اسلافِ امت کا خود اختلاف ہے ان میں آپ جس کو علم وتقویٰ کی رو سے زیادہ افضل سمجھیں اس کے قول وعمل کو اختیار کرسکتے ہیں۔ مگر پھر بھی اس سے مختلف رائے رکھنے والے بزرگوں کی شان میں ادنیٰ بے ادبی بھی بدبختی کی علامت ہے۔     صاحب مظاہر حق نے لکھا ہے کہ اللہ سے بندہ کی لڑائی دلالت کرتی ہے خاتمۂ بدہونے پر۔ ایک مسلمان کے لیے خاتمہ بالخیر ہونا انتہائی مرغوب اور لازوال نعمت ہے اور جس چیز سے خاتمہ خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو تم ہی سوچو کہ کتنی خطرناک چیز ہے۔     حقیقت یہ ہے کہ لوگ کام نہ کرنے کے لیے اس لچر اور پوچ عذر کو حیلہ بناتے ہیں، ورنہ ہمیشہ اطباء میں اختلاف ہوتا ہے، وکلاء کی رائے میں اختلاف ہوتا ہے، مگر کوئی شخص علاج کروانا نہیں چھوڑتا ، مقدمہ لڑنے سے نہیں رکتا ، پھر کیا مصیبت ہے کہ دینی امور میں اختلافِ علماء کو حیلہ بنایا جاتا ہے۔ یقینا سچے عمل کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ جس عالم کو وہ اچھا سمجھتا ہے اس کے قول پر عمل کرے اور دوسروں پر لغو حملوں اور طعن وتشنیع سے بازر ہے۔ حاصل تحریر     انسان کے ذمہ سعی اور کوشش ہے، یہ نمبرات حصول ہدایت اور حق کے پانے میں سعی وکوشش کی ذیل سے ہیں۔ جس طرح مادی مقاصد کے حصول کے لیے سعی وکوشش، دوڑ دھوپ اور فکر واہتمام کیا جاتا ہے، اسی طرح امورِ آخرت میں بھی ایسی ہی لگن سے کام کیاگیا تو کچھ بعید نہیں کہ وہ ہدایت اور راہ حق پاجائیں۔منزل تک پہنچنے کا علم تو اللہ کو ہوتا ہے، لیکن منزل تک پہنچنے کے ذرائع بس، ویگن، کوچ، ٹرین وغیرہ جیسے اسباب تو اختیار کیے جاتے ہیں، پھر معاملہ خدا کے سپرد کر دیاجاتا ہے۔ ناکامی کی صورت میں صحیح اسباب اختیار کرنے والوں کو کوئی بھی ملامت کا نشانہ نہیں بنایا کرتا۔ بالکل اسی طرح ان ہدایات پر عمل کرنے والا بھی اگر راہِ حق نہ پاسکا، تو ان شاء اللہ! خدا کی رحمت سے امید یہی ہے کہ اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔     معاملہ آخرت کا ہے، اگر صحیح عقیدے اور صحیح نظریات کے ساتھ خدا سے ملنے کی خواہش اور تڑپ ہے اور آپ یہ صدقِ دل سے چاہتے ہیں کہ میں خدا کے سامنے سرخرو ہوکے ملوں، مجھے اپنے پالنے والے کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے، تو آج سے ہی اس دستور العمل پر بسم اللہ پڑھ کر عمل شروع کردیا جائے، ان ہدایات پر عمل اس بات کا ثبوت ہوگا کہ آپ واقعی حق کے متلاشی ہیں، مرنے سے پہلے اللہ سے معاملہ درست کرلینا چاہتے ہیں ۔ اور اگر اس تحریر کو پڑھ کر رکھ دیتے ہیں، عمل کے لیے آمادگی نہیں ہوتی اور ان ہدایات پر عمل کی اتنی تکلیف برداشت کرنا گوارا نہیں کرتے تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ آپ تلاشِ حق کے لیے فکرمند اور مخلص نہیں۔     مقام حیرت ہے کہ بعض واقعی مخلصین احباب کو تلاشِ حق میں متردد اور پریشان دیکھا ہے، وہ عمر کا بیشتر حصہ حیرانی وپریشانی میں گزاردیتے ہیں، لیکن اس دستور العمل کو اپنانے کی کوشش نہیں کرتے، ہدایت تو اللہ کے قبضہ میں ہے، لیکن تلاشِ حق کے لیے یہ متذکرہ بالا ہدایات جو اکابر کی کتب سے چھان بین کر جمع کی ہیں، اگر ان ہدایات پر صحیح عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ! تلاشِ حق میں سرگرداں دوستوں کو پوری یکسوئی اور دلجمعی نصیب ہوجائے گی۔اتنا ذہن نشین رہے کہ مذکورہ دستور العمل کی جب چاروں ہدایات پر عمل کریںگے تو صحیح اور پورا فائدہ ہوگا، ورنہ نسخہ کے تمام اجزا پر عمل نہ کرنے کی صورت میں کامل صحت اور پوری شفاء کی ضمانت نہیں ہواکرتی، لہٰذا مذکورہ دستور العمل کے سب اجزا کا اہتمام ضروری ہے۔     سطور بالا میں بیان کیاگیا دستور العمل سب کے لیے یکساں مفید ہے، یعنی جو کسی کجی وزیغ میں مبتلا ہوگا، یاراہِ اعتدال سے ہٹا ہوا ہوگا، وہ اس دستو رالعمل کی برکت سے صراط مستقیم کی طرف لوٹ آئے گا۔ اگر وہ خدا کے فضل وکرم سے صراط مستقیم پر پہلے ہی سے گامزن ہے تو اُسے مزید ثبات اور ثابت قدمی نصیب ہوگی۔ لہٰذا یہ نسخہ کسی خاص گروہ، جماعت یا فرقے کے لیے نہیں، بلکہ یہ سب کے لیے قابل استعمال ہے اور سب کے لیے یکساں مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس دستور العمل پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین