بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

بینات

 
 

دینی احکام واصطلاحات میں تحریف کا فتنہ

دینی احکام واصطلاحات میں تحریف کا فتنہ


قرآن کریم کے الفاظ ومعانی کو اپنی مسلمہ شکل سے پھیردینے کو ’’تحریف‘‘ کہا جاتا ہے، یوں ہی احادیثِ مبارکہ اور شرعی ودینی اصطلاحات کے اپنے مسلمہ مفاہیم ومعانی میں ہیر پھیر بھی تحریف ہی کی ایک شاخ ہے۔ الفاظ کی تحریف تو واضح ہے کہ ایک لفظ یا جملہ کی بجائے دوسرا لفظ وجملہ رکھا جائے یا مختلف مقامات سے کچھ کچھ عبارات لےکر ایک نئی ترکیب بنائی جائے، تحریف کی اس قسم کی حرمت وممانعت پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے اور کوئی مسلمان اس کی جسارت نہیں کرسکتا، کوئی بہت ہی بدنصیب ہو اور وہ ایسی جرأت کرے تو بھی چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنےکلام کی حفاظت کا وعدہ خود فرمایا ہے، اس لیے اس اقدام کی وجہ سے کلامِ الٰہی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوسکتا، پھر تلفظ وادائیگی میں تو ایسی تحریف حرام ہی ہے، اس سے بڑھ کر خود رسم الخط میں بھی مصحفِ عثمانی کی اتباع لازم ہے، اگر کہیں کسی قوم ومعاشرہ میں رسم الخط تبدیل بھی ہوجائے توبھی کم از کم قرآن کریم کو اسی رسم الخط میں برقرار رکھنا ضروری ہے۔ 
دوسری قسم تحریفِ معنوی ہےکہ الفاظ کو اپنی اصلی جگہ پر برقرار رکھا جائے، لیکن ان کے معانی ومفاہیم میں قطع وبرید کی جائے اور اپنی چاہت کے مطابق معانی کاجامہ پہنایا جائے، مثلاً کوئی کہےکہ زکاۃ بالکل برحق اور فریضۂ خداوندی ہے، مگر اس کا جومفہوم مسلمانوں نے لے رکھا ہے وہ غلط ہے، یہ تو مسلمانوں کے نظامِ مملکت چلانےکے لیے افرادِ خانہ پر ٹیکس کا سا نظام ہے۔ حج بھی برحق ہے، مگر اس کا اصل مقصود مسلمانوں کی سیاسی واجتماعی قوت کا مظاہرہ ہے۔ سود کے حرام ہونے سے کوئی انکار نہیں ہے، مگر اس سے غریب لوگوں کے استحصال کو ختم کرنا مقصود ہے ، بینک وتجارتی قرضوں پر پرافٹ کا لین دین اس کے خلاف نہیں۔ یہ اور اس قسم کی تحریفات وتاویلات کی نہ ختم ہونےوالی ایک طویل اور صبر آزما داستان ہے جس کو سننے اور پڑھنے کے لیے کلیجہ چاہیے۔ 
اسی تحریفِ معنوی کی ایک قابلِ افسوس اور مذموم شکل مختلف دینی شعبوں کی اصطلاحات میں تحریف ہے، کسی عمل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا وآخرت میں کیا کچھ وعدے ہیں؟ مختلف قسم کی نیکیوں پر کیا کچھ اجر وثواب اور درجات وفضائل مرتب ہیں؟ کس گناہ کے کرنے پر آخرت میں کیا کچھ سزائیں دی جائیں گی؟ یہ سب ’’امورِ توقیفیہ‘‘ ہیں جو قرآن وسنت کے سرچشمۂ حیات سے ہی معلوم ہوسکتے ہیں اور بس، یہاں عقل وقیاس کی دخل اندازی کی ضرورت ہے نہ گنجائش، قرآن وسنت میں اس کے متعلق جتنی بات اور جس حد تک بیان ہوئی ہے اس پر اسی درجہ میں ایمان ویقین رکھا جائے اور اسی حد بندی پر رہا جائے، اپنی قیاس آرائیوں کے ذریعے ان حدود کو پار کرنا غلو و اِفراط بھی ہے اور تحریفِ معنوی کا مظاہرہ بھی، مثلاً قرآن وسنت میں ’’ذکر‘‘ کی فضیلت اور اس کی ترغیب اورحکم وارد ہے، اس کا حقیقی مفہوم تسبیح ، تہلیل وتکبیر وغیرہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہے، اس کے عموم میں اللہ تعالیٰ کی ہر اطاعت بھی داخل ہے۔ دین کے اصول وضوابط کے مطابق دنیا داری بھی در حقیقت دینداری اور ذکر وعبادت میں شامل ہے، لیکن نصوص میں ’’ذکر‘‘ اور اس کے ثابت شدہ فضائل واحکام کا اولین اور بالذات مصداق یہی حقیقی مفہوم ہے، دیگر امور کہیں کہیں تبعاً اور ضمناً داخل ہوتے ہیں ، اب ہر جگہ ان ضمنی اُمور کو مقصود ٹھہرانا اور ذکر کے حقیقی مفہوم کی اہمیت ختم کرنا بالکل غلط اور ایک گونہ تحریف ہے۔ اگر ہر جگہ ذکر کا یہی عمومی معنی میں استعمال ہوتا تو اس کے بعد نماز وزکاۃ وغیرہ اعمال واشغال ذکرکرنے کی کوئی حاجت نہیں تھی، جبکہ کئی نصوص میں ایسا وارد ہے۔ 
’’عبادت‘‘ کا ذکر قرآن وسنت میں کثرت سے موجود ہے، اس کا حقیقی مفہوم نماز روزہ وغیرہ وہ عبادات ہیں جو شریعت نے مقرر کررکھے ہیں، البتہ اس کے عموم میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہرحکم بجالانا بھی داخل ہے جو پوری انسانی اجتماعی وانفرادی زندگی کو شامل ہے، لیکن عبادات کے فضائل وترغیبات کا اصل مورِد یہی اصطلاحی عبادات ہی ہیں، دیگر ضمنی اُمور کو مقصودِ اصلی ٹھہراکر ان مقاصد کی طرف التفات نہ کرنا یا خود ان مقاصد کو ذرائع وتوابع گرداننا بالکل غلط اور بے راہ روی ہے۔ 
یہی حال لفظ ’’جہاد‘‘ کابھی ہے، نصوص میں بکثرت اس کاذکر ہے، بہت سی جگہوں میں سیاق وسباق اور موقع ومحل کے لحاظ سے اس کا عام لغوی معنی بھی مراد ہے، یعنی دین کی خاطر کی جانے والی کوشش، لیکن بایں ہمہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک شرعی اصطلاح ہے جو ایک خاص مفہوم یعنی اعلاء کلمۃ اللہ اور غلبۂ دین کی خاطر دشمنانِ اسلام سے لڑنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اب نصوص میں جہاں جہاں اس کا حکم دیا گیا یا اس پر اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا، وہاں اس سے زبانی دعوت وتبلیغ یا سیاسی وجمہوری جد وجہد کے ذریعے نفاذِ اسلام مراد لینا ، یا ان ضمنی امور کو غیر معمولی اہمیت دے کر لفظ کے اصل حقیقی اصطلاحی مفہوم سے مکمل صرف ِ نظر کرلینا کھلی غلطی اور غیردانشمندانہ اِقدام ہے۔ ’’علم‘‘ اور ’’علماء‘‘ کا لفظ بھی اس کھینچ وتان سے نہ بچ سکا، لغوی معنی کے لحاظ سے تو اس میں بہت کچھ وسعت ہے، کسی بھی چیز کی جان وپہچان کو علم اور جاننے والے کوعالم کہہ سکتے ہیں، لیکن نصوص میں جہاں علم کی اجر و فضیلت کا ذکر ہے، وہاں اس سے شریعتِ اسلامیہ کا علم مراد ہے، یہی وہ علم ہے جس کا بقدرِ ضرورت حصہ فرض قرار دیا گیا اور اس پر اَن گنت فضائل وثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے، دنیوی علوم وفنون کا جاننا مطلقاً کوئی ناجائز یا معیوب نہیں ہے، اس کی اہمیت وافادیت بلکہ ایک حد تک اس کی ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے، مگر بایں ہمہ وہ ان نصوص کا مصداق نہیں ہیں، لہٰذا ’’طلب العلم فریضۃ‘‘ اور ’’ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ‘‘ جیسی نصوص کو ان دنیوی فنون پر منطبق کرنا بالکل غلط اور مذموم ہے۔ اسی کا تماشہ ہمارے ہاں خاندانی منصوبہ بندی والےبھی کررہے ہیں کہ ’’کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ‘‘ جیسی نصوص کو اپنے خود ساختہ نظریہ ومقصود کے لیے جگہ جگہ لکھتے ہیں ، حالانکہ آیت کے مفہوم ومصداق سے قطع نظر کرکے خود خاندانی منصوبہ کا یہ نظریہ ہی شریعتِ اسلام کی مجموعی تعلیمات سے متصادم ہے، کتنی جسارت اور جرأت کا مقام ہے کہ خلاف ِ اسلام نظریہ کی نشر واشاعت کے لیے قرآنی آیات کے پیوند لگاکر بے موقع استعمال کیا جاتا ہے۔
میوزک وموسیقی کے آلات ومحفلوں کے لیے ’’روّحوا القلوب ساعۃ‘‘ جیسی عبارتیں پیش کرنا بھی ایسا ہی غلط اور ناجائز حرکت ہے، اگر اس کو حدیث یا کوئی مسلَّم شرعی ضابطہ کے طور پر تسلیم بھی کیا جائے تو راحت سے صرف وہی راستہ مراد ہوسکتا ہے جوخود دینِ اسلام میں مرخَّص (جائز) ہو، ناجائز وسائل کی رخصت یا افادیت پر استدلال کرنا تحریف ہے۔ ان جیسی دانستہ یا نادانستہ طور پر تحریفات کرنے والوں میں سے بعض تو وہ لوگ ہیں جن کے جذبات واہداف ہی شاید یہی التباس واختلاط کی فضا پیدا کرنا ہیں، ان کے ساتھ بات کرنا تو ضیاعِ وقت ہی ہے، لیکن بہت سے بلکہ شاید غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اخلاص ودیانت کے باوجود کم فہمی یا بد فہمی کی وجہ سے ان جیسی غلطیوں کے شکار ہوجاتے ہیں، ان کی خدمت میں یہی گزارش ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن وسنت کی نصوص میں ہر ہر لفظ اپنے لغوی معنی پر محمول نہیں، بلکہ بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں کہ شریعت نے اس کے لیے ایک الگ مفہوم مقرر فرمایا ہے، اب نصوص میں اس کے کچھ فضائل وفوائد ذکر ہوئے ہیں، وہ اسی معین کردہ مفہوم کے پیش نظر بیان ہوئے ہیں، نہ کہ محض لغوی معنی پر۔ لہٰذا اگر نص میں کسی چیز کا حکم یا اس کی ترغیب دی جاتی ہے تو اولاً یہ تحقیق کرلینی چاہیے کہ لغوی معنیٰ مراد ہے یا مصطلح مفہوم؟ پھر اسی کے مطابق عمل درآمد کرلینا چاہیے، کیونکہ کوئی چیز شرعاً لازم ہے یا نہیں؟ اس پر ثواب وعقاب مرتب ہوگا یا نہیں؟ یہ ساری باتیں نص ہی سے معلوم کی جاسکتی ہیں، یہاں عقل وقیاس کے پہیّے جام ہوجاتے ہیں، جذبات و خواہشات اور طبیعت و مزاج کی نکیل نصوص کے ہاتھ ہی میں دے دینی چاہیے، ورنہ تو یہی بے راہ روی سابقہ ادیان و مذاہب کے اضمحلال اور ان کے کھوکھلے پن کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے، اس لیے لفظی تحریف کی طرح معنوی اور اصطلاحی تحریف سے بچنا بھی دین کی حفاظت کا اہم تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ فہمِ سلیم عطا فرمائے، آمین۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین