بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دین ووطن کی خیرخواہی کا تقاضا!

دین ووطن کی خیرخواہی کا تقاضا!


الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی


بانیانِ پاکستان نے یہ ملک اور یہ خطہ کلمہ طیبہ اور اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا، ان کا ارادہ تھا کہ ایک ایسا ملک ہو، جس میں ہم مکمل اسلامی تعلیمات اور تمام اسلامی احکام پر عمل کرکے پوری دنیا کے سامنے اُسے اسلامی رول ماڈل کے طور پر پیش کرسکیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں بھی لکھا گیا کہ مملکت کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا، ملک میں کوئی قانون بھی خلافِ اسلام نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو بھی قرآن وسنت کے قالَب میں ڈھالا جائے گا، اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کی گئی، دستور کے پالیسی اُصولوں میں بھی یہ نکتہ شامل ہے کہ حکومت قرآن مجید اور اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دینے کی کوشش کرے گی۔ لیکن ’’بساآرزو کہ خاک شدہ‘‘ ہر آنے والے نے ہمیشہ دینِ اسلام کے نفاذ میں نہ صرف یہ کہ پہلو تہی کی، بلکہ دینِ اسلام کے بارہ میں آئین میں درج دفعات کو بھی آئین سے نکالنے اور اُنہیں غیر مؤثر کرنے میں کوئی کسر اور کمی نہیں چھوڑی ۔
لگتا یوں ہے کہ ہر حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے استعمار سے یہ وعدہ کرکے آتی ہے کہ آئین میںموجود اسلامی شقیں خصوصاً ناموسِ رسالت کے تحفظ کے قانون کو تبدیل کرے گی، اگر تبدیل نہ ہوا تو اس کو غیرمؤثر تو ضرور کرے گی، یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت اس قانون کو چھیڑنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن جب عوامی ردِ عمل سامنے آتا ہے تو پھر ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے! اگر کوئی مجرم جرم کرتا ہے تو ہر آدمی کو یہ اختیار ہے کہ وہ جائے اور تھانے میں اس کے خلاف ایف.آئی. آر کٹوادے، لیکن اگر کوئی موہن حضور اکرم a یا کسی نبی یا قرآن کریم کی توہین کرتا ہے تو قانون بنایا گیا ہے کہ الزام لگانے والا پہلے ڈپٹی کمشنر یا کسی اور مجاز افسر کو درخواست دے، اگر متعلقہ افسر اس کی تصدیق کرے کہ واقعی اس جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے تو پھر الزام لگانے والا ایف.آئی. آر کٹواسکتا ہے اور اس کی کارروائی آگے چل سکتی ہے، ورنہ نہیں۔
پاکستان میں کون سا ایسا جرم ہے کہ جس کی رپورٹ کے لیے ڈپٹی کمشنر یا کسی اور کی پیشگی منظوری کو شرط قرار دیا گیا ہو؟ قانونِ توہینِ رسالت کے جرم کو اس شرط کے ساتھ مشروط کرنا جہاں اس قانون کو غیرمؤثر کرنے کی غیرمرئی کوشش ہے، وہاں حضور a کے ساتھ صریح غداری کے بھی مترادف ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ملک میں صدر، وزیراعظم یا کسی بڑے عہدے دار کی توہین دست اندازیِ پولیس کے دائرے میں آتی ہے، لیکن آنحضرت a کی توہین کو دست اندازیِ پولیس کے دائرے سے نکال دیا گیا ہے اور اس پر عشقِ رسول a کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔
توہینِ رسالت قانون کے ساتھ اس امتیازی سلوک کے باوجود امن پسند پاکستانی شہریوں نے ہمیشہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا، اور توہینِ رسالت کے مرتکبین کو قانون کے حوالہ کیا، لیکن اس قانون پسندی کا جواب حکومتی حلقوں سے بارہا یہ ملتا رہا کہ عدالتوں میں ان ملزمان پر توہینِ رسالت کا جرم ثابت ہونے کے باوجود حیلے بہانوں سے انہیں رہا کیا جاتا رہا، جس سے مجرموں کو اور زیادہ شہہ ملی اور ملک کے مختلف حصوں میں توہینِ رسالت کے واقعات پیش آنا شروع ہوگئے۔ 
پاکستان میں انٹرنیٹ کی سروس آنے کے بعد کچھ بدبختوں نے سوشل میڈیا میں بھی اپنے مختلف بلاگز اور پیجز بناکر اس پر اسلام، قرآن، پیغمبرِ اسلام اور شعائر اللہ کی توہین وتنقیص کو اپنا معمول بنالیا، اس لیے اگست ۲۰۱۲ء میں حکومت نے پالیسی ہدایت نامہ جاری کیا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ سے توہین آمیز اور فحش مواد بلاک کیا جائے اور کہا گیا کہ ملک میں انٹرنیٹ پر کھلے عام توہین آمیز اور فحش مواد کی موجودگی‘ اسلام کی بنیادی تعلیمات، قراردادِ مقاصد اور آئین کے آرٹیکل ۱۹ اور ۳۱ کی خلاف ورزی ہے۔ پارلیمنٹ نے سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے قانون بنایا کہ پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی اور اس کے تحت تین ماہ سے ۱۴ سال تک قید اور پچاس ہزار روپے سے لے کر پانچ کروڑ روپے تک جرمانے کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔
اس قانون کے باوجود کچھ لوگوں نے پھر بھی توہین آمیز مواد پر مشتمل پیجز بنائے، جو ۲۰۱۴ء سے چل رہے تھے، جس میں اللہ تعالیٰ حضور اکرم a، امہات المؤمنینؓ، اہلِ بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور قرآن کریم کی شان میں گستاخیاں کی گئیں، ان دنوں پانچ بلاگرز لاپتہ ہوئے، سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہوا اور یہ کہا گیا کہ اس طرح اُن کا لاپتہ ہونا اظہارِ آزادی کے منافی ہے۔ ملحدین اور موم بتی مافیا نے کافی شور وغوغا کیا، اسی اثناء میں جب ان کے پیجز کو کھولاگیا تو وہ گستاخیوں اور توہین آمیز مواد سے لبریز تھے، اسی بناپر محترم جناب حافظ احتشام صاحب نے ۳۱ دسمبر ۲۰۱۷ء کو ڈائریکٹر سائبر کرام کو درخواست دی، جس میں یہ استدعا کی گئی کہ سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مہم کے خلاف فوری مقدمہ درج کرکے اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔
اس سلسلے میں مقدمہ نمبر 07/2017  اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ۱۹ مارچ ۲۰۱۷ء کو حافظ احتشام احمد صاحب کی مدعیت میں ایف.آئی.اے سائبر کرائم سرکل اسلام آباد میں درج کیا گیا۔
یہ مقدمہ تقریباً چار سال جاری رہا، درمیان میں وزارتِ داخلہ نے مداخلت بھی کی اور ایف.آئی.اے کو اس مقدمہ میں تیزی نہ دکھانے کا کہا گیا، جب یہ تمام رپورٹس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو سلمان شاہد ایڈوکیٹ صاحب نے معروف قانون دان جناب طارق اسد ایڈوکیٹ صاحب کے ذریعہ ایک رٹ پٹیشن نمبر 739/2017 دائر کی، جس میں استدعا کی گئی کہ سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی شان میں جاری گستاخانہ مہم میں ملوث افراد کے خلاف ایف.آئی.اے سائبر کرائم سرکل اسلام آباد کی جانب سے شروع کی گئی تحقیقات پر وفاقی وزارتِ داخلہ کو اثر انداز نہ ہونے اور ایف. آئی. اے کو گستاخانہ مہم میں ملوث افراد کا فوری طور پر سراغ لگاکر اُنہیں قانون کی گرفت میں لانے کا حکم دیا جائے، اس رٹ پٹیشن کی سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے کی تھی اوراس پر چشم کشا ریمارکس بھی دیئے تھے، (جس کی تفصیل ماہ نامہ بینات، شمارہ نمبر: ۷، رجب المرجب ۱۴۳۸ھ مطابق مئی ۲۰۱۷ء کے بصائر وعبر میں آچکی ہے)۔
عدالت کے حکم پر پہلے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا، بعد میں اعلیٰ افسران، انٹیلی جنس ایجنسیز پر مشتمل جی. آئی. ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں آٹھ ملزمان مذکورہ مقدمے میں نامزد کیے گئے۔ چار ملزمان ناصر احمد سلطانی، عبدالوحید المعروف ایاز نظامی، رانا نعمان رفاقت اور پروفیسر انوار احمد گرفتار ہوگئے، جبکہ طیب سردار، راؤ قیصر شہزاد، فراز پرویز اور پرویز اقبال پاکستان سے فرار ہوگئے۔
ناصراحمد سلطانی بنیادی طور پر قادیانی ہے، ۲۰۱۲ء تک قادیانی جماعت کا مربی رہا، پھر اس نے مجدد ، اس کے بعد مسیح موعود اور آخر میں نبوت کا دعویٰ کیا، فیس بک پر اس نے ایک آئی ڈی بنارکھی تھی، جس میں نبوت کے دعویٰ کے علاوہ باقاعدہ اپنا کلمہ بنایا ہوا تھا، لیپ ٹاپ کے سامنے کھڑے ہوکر جمعہ کے خطبات پڑھتا تھا اور اپنی بیٹی کا رتبہ نعوذ باللہ! حضور اکرم a کی لختِ جگر خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا  کے برابر بتاتا تھا، یہ تمام ثبوت ایف.آئی.اے کو فراہم کیے گئے، جس کی بناپر اس کو موت کی سزا سنائی گئی۔
اخبارات کے مطابق دوسرا مجرم عبدالوحید عرف ایاز نظامی کراچی کا رہائشی، جس نے دین اور دنیا دونوں تعلیم حاصل کی ہوئی ہیں، کراچی میں ملحدین ومرتدین کا صدر اور مسلمان نوجوانوں کو ملحد ومرتد بنانے پر مامور تھا، اس ملعون نے قرآن پاک کے مقابلہ میں کچھ ناپاک کلام بناکر پڑھنے کی جسارت کی اور راجپال ملعون کی گستاخانہ کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا تھا، اس کے علاوہ اور کئی گستاخیاں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی تھیں۔ اس کو بھی اس جرم کے ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی گئی۔
تیسرا مجرم نعمان عرف رفاقت ہے، یہ ایاز نظامی کا معاون تھا، اس کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔
چوتھا مجرم پروفیسر انوار ہے جو گورمنٹ اسلام آباد کالج میلوڈی کا پروفیسر تھا، وہ اپنی کلاس میں بلاناغہ توہین آمیز کلمات کہتا تھا، وہ دورانِ لیکچر اسلام، اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم کی شان میں گستاخیاں کرتا تھا، جس کے ثبوت بھی ایف.آئی.اے کو فراہم کردیئے گئے تھے۔ اس ملعون کو عدالت نے دس برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ 
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے مقدمے کے مدعی حافظ احتشام احمد صاحب کی جانب سے مقدمے کے متعلق تحریری دلائل ، زیر حراست ملزمان کے بیانات کے متعلق جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن کراچی کے فتاویٰ اور مقدمے کے حق میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے بھی بطور نظیرحافظ ملک مظہر جاوید ایڈوکیٹ نے انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد میں جمع کروائے۔ اس کے علاوہ ملزمان کی جانب سے سوشل میڈیا پر کی گئی گستاخیوں کے چند سکرین شاٹس بھی بطور ثبوت منسلک کیے گئے۔ اس مقدمہ میں مجرمان کے خلاف صرف گواہوں پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ مجرموں کے خلاف دستاویزی ثبوت اور شواہد پیش کیے گئے، مجرمان سے برآمد ہونے والے الیکٹرونک ڈیوائسز کے فارنسک ٹیسٹ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مذکورہ مجرمان توہینِ رسالت کے مرتکب ہوئے۔ یہ مقدمہ اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ یہ ایف.آئی.اے سائبر کرائم سرکل میں درج ہونے والا پہلا توہینِ رسالت کا مقدمہ ہے، جس میں جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی گئی۔ واضح رہے کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد کے فاضل جج راجہ جواد عباس حسن نے مذکورہ مقدمے کا فیصلہ ۱۵ دسمبر کو محفوظ کیا تھا۔چارسال مسلسل سماعتوں کے بعد ۸ جنوری ۲۰۲۱ء کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک کے معزز جج جناب جواد حسن صاحب نے فیصلہ سنایا، اس موقع پر عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت اسلام آباد نے درج ذیل خبر اخبارات کو جاری کی:
’’عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت اسلام آباد کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالوحید قاسمی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں گزشتہ روز انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد کی جانب سے توہینِ رسالت کے مرتکب تین مجرمان کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:’’انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد کی جانب سے توہینِ رسالت کے مرتکب تین مجرمان ناصر احمد،عبدالوحید اور رانا نعمان رفاقت کو سزائے موت دینے کا فیصلہ قابلِ تحسین اور اُمتِ مسلمہ کی کامیابی ہے۔ ہم مدعیِ مقدمہ حافظ احتشام احمد اور ان کے وکیل حافظ ملک مظہر جاوید ایڈووکیٹ کو توہینِ رسالت کے مذکورہ مقدمے کی بھرپور پیروی کرنے پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ بالخصوص اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی، جن کے تاریخی فیصلے کے نتیجے میں مذکورہ مقدمہ درج ہوا تھا اور انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد کے فاضل جج راجہ جواد عباس حسن، جنہوں نے مذکورہ مقدمے کا میرٹ پر تاریخی فیصلہ سنایا، بھی خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ثابت ہو گیا ہے کہ مذکورہ تینوں افراد توہینِ رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں، لہٰذا ہم اربابِ اقتدار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد کی جانب سے جن تین مجرمان کو توہینِ رسالت کے جرم کے ارتکاب پر سزائے موت سنائی گئی ہے، اُنہیں تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے فی الفور پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے۔‘‘

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین