بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

دینِ اسلام کے اساسی و آفاقی تصورات 

دینِ اسلام کے اساسی و آفاقی تصورات 


معاصر مغالطوں میں سے ایک بہت ہی بڑا مغالطہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کو چند رسوم کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ دینِ اسلام چند رسمی احکامات کا نام نہیں ، بلکہ دراصل یہ تو ایک نظامِ حیات ہے جو کہ انسانی زندگی کے سارے کے سارے گوشوں کا اِحاطہ کیے ہوئے ہے۔ 
دین کے ساتھ اس طرح کی نسبت کا فروغ بلا وجہ پیدا نہیں ہوا، بلکہ اس روش کے پس پردہ ایک سیاہ تاریخ ہے ،جسے ہم تحریکِ تنویر کے نام سے جانتے ہیں ،یہ تحریک اسی مقصد کے لیے قائم کی گئی کہ کس طرح دین کو مذہب تک محدود کر دیں،کس طرح اسے ایک وہم و خیال تصور کیا جاسکے،کس طرح خطۂ ارض پر الٰہی اختیارات کی بجائے انسانی اختیارات کا بول بالا کیا جاسکے، کس طرح وحی الٰہی سے چھٹکارا پایا جائے،کس طرح عقل انسانی کو ماخذ علم سمجھا جائے!۔ الغرض اس تحریک نے ہر وہ طریقہ اپنایا جس کے تحت بندوںکا رشتہ خدا سے کٹ کر رہ گیا اور ’’عبداللہ‘‘، ’’عبدالدرہم والدینار‘‘ بن گیا۔ 
مذکورہ تمام مقاصد کا حصول ہی اس تحریک کا منشور تھا،جس میں کامیابی کا نتیجہ آج ہمیں مذہب بیزار اور خدا بیزار انسانوں کی شکل میں دکھائی دیتا ہے، جن کے مطابق اس دنیا کا کوئی ایک معمولی مسئلہ بھی مذہب حل کرنے کے قابل نہیں ہے ، بلکہ ان کے مطابق ہم نے ایسے علوم تشکیل دیئے ہیں جو بغیر کسی آسمانی ہدایت کے ہماری ہر اُلجھن کو سلجھن میں بدل سکتے ہیں۔ ہاں! اگر کوئی شخص اپنے نجی معاملہ کی حد تک کوئی مذہبی معاملہ کرتا ہے تو ہم اُسے آزادیِ اظہارِ رائے کا حق دیتے ہوئے نظر انداز کردیتے ہیں، کیوں کہ در اصل ہمارے نزدیک مذہب فقط ایک ذاتی معاملہ ہے، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ 
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کے ذاتی معاملہ تک محدود ہونے کی صورت میں اس کی انسانی زندگی میں کس قدر اہمیت باقی رہ جاتی ہے ؟ کیا ایسے کسی شخص کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے عائلی مسائل کو اپنے مذہب کی روشنی میں حل کر سکے؟ یا یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ خود پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بدلہ اپنی مذہبی تشریحات کے مطابق لے لے؟ یا یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی مالی معاملات میں سود کی گردش سے دور رہ کر ملکی اداروں تک رسائی حاصل کر سکے؟
اگر نہیں تو کس بات کو نجی کہہ کر اہمیت دی جارہی ہے ؟کیا ایک ایسا نجی معاملہ قابل اعتناء رہ سکے گا جو اس کے بنیادی حقوق ہی چھین لے؟ آزادیِ اظہارِ رائے کانام تو لے لیا گیا، لیکن یہ آزادی فقط اس فلسفۂ حیات کے حامل لوگوں کے لیے ہے جو تحریکِ تنویرسے نکلنے والی شعاعوں کو عقیدہ کی طرح مان لیں اور جان لیں کہ جو کچھ بھی کرنا ہے، اپنی عقل و ہوس کی روشنی میں ہی کرنا ہے۔ یہ سب کیا دھرا دراصل انسان کوایسے ضابطۂ حیات کی طرف دعوت دیتا ہے جہاں انسان کا رشتہ خالق سے توڑ کر مخلوق سے جوڑا گیا ہے،جس میں خود غرضی اور خود سری کی حدوں کو پار کیا جاتا ہے،جس میں مدِّ نظر فقط مادّہ ہی رہتا ہے،جس میں روحانیت کو نفسیاتی مسئلہ اوروحیِ الٰہی کومرگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 
دینِ اسلام جو کہ در حقیقت آسمانی ہدایت اور خداوندِ عالی کے فرامین کا مجموعہ ہے،جسے ہم شریعت کا نام دیتے ہیں ، مذکورہ تمام اُمور کے بر عکس ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔اسلام کا مکمل ضابطۂ حیات ہونا کوئی جدید اصطلاح نہیں ہے ، (جیسا کہ آج کل بہت سوں کو یہ گمان ہو رہا ہے) نہ ہی یہ سب تحریکِ تنویر کی طرح ردِعمل کا سا معاملہ ہے، بلکہ یہ تو خالق کی بسائی ہوئی دنیا میں اسی کے احکامات کے مطابق زندگی کا گزارنا ہے اور یہ نظامِ حیات اتنا ہی قدیم ہے، جتنا کہ یہ عالم جن و انس۔ دراصل اسلام اپنے ماننے والوں سے بغیر کسی قطع و برید کے مکمل شمولیت کا تقاضا کرتا ہے ،اور یہ تقاضا کرنا اس امر کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کا کوئی بھی ایسا بامعنیٰ پہلو نہیں جس کے متعلق قرآن و حدیث میں اصولی طور پر اور فقہاء کی آراء میں جزوی طور پر اس کا ذکر نہیں کیا گیا ہو۔ اسی ضابطہ کو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں اس انداز سے بیان فرماتے ہیں:
’’ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَافَّۃً۔ ‘‘ (البقرۃ:۲۰۸) 
’’اے ایمان والو! دین میں مکمل طور پر داخل ہوجاؤ۔ ‘‘
آیتِ مبارکہ کے متعلق علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’یقول تعالی أٰمرًا عبادَہ المؤمنین بہ المصدِّقین برسولہٖ: أنْ یأخذوا بجمیع عُرَی الإسلام وشرائعہٖ، والعمل بجمیع أوامرہٖ، وترک جمیع زواجرہٖ ما استطاعوا من ذٰلک۔ ‘‘ (تفسیر ابن کثیر،البقرۃ:۲۰۸) 
’’اللہ پاک اپنے ان بندوں کو حکم کرتا ہے جو کہ اس کے اس کے رسول کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے تمام اُصول اور قوانین کو لیا کریں، اور اس کے تمام احکامات پر عمل کریں اور حتیٰ الامکان اسلام کے بتائے ہوئے تمام مناہی سے گریز کریں۔ ‘‘
اس آیتِ مبارکہ کے علاوہ یہ آیت بھی دین کی کاملیت اور قطعیت پر واضح دلیل ہے: 
’’الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا۔‘‘  (المائدہ:۳) 
’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل فرمادیااور تم پر اپنی نعمت پوری فرمادی اور تمہارے لیے دینِ اسلام پر راضی ہوا۔ ‘‘
دین کا یہی رخ سامنے رکھتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’ کذٰلک أتی اللّٰہ بشریعۃ ھي أکمل الشرائع متضمنۃ لمصالح یعجز عن مراعاۃ مثلھا البشر۔‘‘ (مقدمہ حجۃ اللہ البالغہ،ص:۳۲، قدیمی کتب خانہ) 
’’ٹھیک اسی طرح اللہ پاک کی جانب سے ایک ایسی شریعت عطا ہوئی جو کہ کامل ترین ہے اور ایسی مصلحتوں پر مشتمل ہے کہ جن کی رعایت کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ ‘‘
فقہ اسلام کی معروف کتاب ہدایہ کی ترتیبِ وضع پر ایک نظر کی جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ صاحبِ کتاب نے اپنی کتاب تین چوتھائی حصہ کو معاملات سے متعلق موضوعات کے لیے مختص فرمادیا ہے، یہ سعی اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ دینِ اسلام کی جامعیت کس قدر عمیق اور گہری ہے ، اسلام ایک دستورِ حیات کی حیثیت سے ہمارے لیے ایسی ترتیب پیش کرتا ہے، جن کی رعایت پیدائش سے لے کر موت تک کی زندگی کے احکامات کو سمجھنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ دین کی شعبہ جاتی تقسیم کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’اسلامی تعلیمات مضامین کے اعتبار سے پانچ حصوں میں منقسم ہیں: 
۱: …عقائد و تصدیقات، ۲:… اعمال و عبادات، ۳:… معاملات و سیاسیات ، ۴:…آداب و معاشرت، ۵:… سلوک و احسان۔ ‘‘(مقدمہ تعلیم الدین از تھانویؒ، دارالاشاعت) 
شریعتِ اسلامی کی پوری عمارت ایمانیات پر منحصر ہے۔ اور ایمانیات کی حیثیت اس ستون کی سی ہے، جس کے بغیر عمارت کی بناء تو دور اس کا تصور بھی محال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں داخل اور خارج ہونے کا معیار بھی ایمانیات ہی کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ ایمانیات کے اساسی شعبہ جات کو ’’حدیثِ جبرئیل ‘‘میں بڑی ہی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :
’’کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا الْإِیمَانُ؟ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکِتَابِہٖ وَلِقَائِہٖ وَرُسُلِہٖ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ۔ ‘‘
اسی باب کی دوسری حدیث میں ہے:
’’وَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ! أَخْبِرْنِيْ عَنْ الْإِسْلَامِ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتُقِیمَ الصَّلَاۃَ وَتُؤْتِيَ الزَّکَاۃَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیلًا۔ ‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان، بیان الایمان والاسلام والاحسان ) 
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں میں ظاہر ہوکر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! ایمان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر ایمان لے آئے اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اللہ سے ملاقات ہونے پر اور اس کے رسولوں پر اور اس بات پر ایمان لے آئے کہ (مرنے کے بعد) تمہیں دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔ اور فرمایا: اس شخص نے کہ (اے محمد!) مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تم اس کی استطاعت رکھتے ہو تو۔ ‘‘
حدیث مبارکہ میں ایمانیات کے ان شعبوں کا ذکر آگیا جو کہ اساسیاتِ ایمان ہیں:ایمان باللہ ، ایمان بالملائکہ،ایمان بالکتب، ایمان بالرسل، ایمان بالاٰخرۃ۔ 
ایمانیات کا اوّلین مقصد خالق سے اپنا ناطہ مضبوط کرنا ہے اور اس مضبوطی کا سب سے مؤثر ترین ذریعہ خالق کے آگے اپنی اَنا کا بت توڑ کر تسلیم جاں ہوجانا ہے، جس کو ہم عبادات کے نام سے جانتے ہیں، جو کہ در حقیقت ایمان کے اظہار کا حقیقی او ر بلا واسطہ ذریعہ ہے ،یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار مصروفیات کے ذکر کرنے کے باوجود جو کہ عبادتِ خداوندی ہی کا مظہر تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی حضوریِ رب کا بھی کہا گیا، اس بات کو سمجھانے کی خاطر کہ قربِ خداوندی کا وہ پہلو جس میں بندہ گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے رہتا ہے، ہر حال میں مستحضر رہنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ دنیا کی دوڑ دھوپ کی تھکاوٹ اور بوجھ شوقِ عبادت کی ہلکان و آسودگی میں تبدیل ہوجائے۔ مذکورہ حدیث میں عبادات کی اقسام کا ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز ،روزہ،زکوٰۃ اور حج شامل ہیں۔ 
اسی طرح اخلاقیات کا شعبہ دین کی حقیقی تربیت اور عام چال و چلن میں اس کی افادیت کے اظہار کا ذریعہ ہے ،جس میں اس قدر مختلف النوع آداب و احکام کا ذکر ہے کہ جس پر صفحات کے صفحات لکھے جاچکے ہیں ، یہاں تک کہ معلّمِ اخلاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد ہی مکارمِ اخلاق کی تکمیل بتلایا ہے:
’’إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ۔ ‘‘(الأحکام الشرعیۃ الکبری،جزء: ۳،ص:۳۰۸ ) 
’’بے شک مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے، تاکہ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کر سکوں۔ ‘‘
اخلاقِ حسنہ کو بہترین اشخاص کا وصف قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’إِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا۔‘‘ (صحیح مسلم،باب کثرۃ حیائہٖ صلی اللہ علیہ وسلم) 
’’بے شک تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق تم میں سب سے اچھے ہوں۔ ‘‘
قرآن و حدیث میں جن جن اخلاقی اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں: تقویٰ، عفّت، پاک دامنی، حیا، خوش مزاجی، شجاعت، عدل و انصاف، قناعت، استقامت، تواضع، انکساری، سخاوت، صبر و شکر، حلم و بردباری، علم،نرم خوئی، توکل، سچ، اخلاصِ نیت، توبہ،زہد و استغناء ، رضاء بر قضاء ، عشقِ الٰہی،عشقِ رسول، شوقِ شہادت، اکلِ حلال۔ 
ان کے بعد دین کا وہ شعبہ ہے جسے ہم معاشرت کے نام سے جانتے ہیں ،جس کا تانا بانا اپنے ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے ،اور ان سب کے حقوق کی کما حقہ ادائیگی ہی بہتر سے بہتر معاشرے کی تصویر بن سکتی ہے، مخلوقِ خدا کی معاشرتی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:
 ’’اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَی اللّٰہِ مَنْ أَحْسَنَ إِلٰی عِیَالِہٖ۔ ‘‘  (شعب الإیمان للبیہقی،جزء :۶،ص :۴۳) 
’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور ساری مخلوق میں سے اللہ کے ہاں بہترین شخص وہ ہے کہ جو اس کے کنبہ کے ساتھ حسنِ اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہو۔ ‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ پاک کے ہاںمطلوبہ اعمال میں سے اہم ترین عمل وہ ہے جو اس کے بندوں سے جڑا ہوا ہے، یعنی حقوق العباد جو کہ معاشرے کی حقیقی روح کے مانند ہیں ،اسی وجہ سے حقوق اللہ کی معافی بہ نسبت حقوق العباد کے آسان ہے، کیوں کہ حقوق العباد کا تعلق براہِ راست اللہ کے بندوں سے ہے، اسی عقدہ کو حل کرتے ہوئے فرمایا:
’’الرَّاحِمُوْنَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمٰنُ ارْحَمُوْا أَہْلَ الْأَرْضِ یَرْحَمُکُمْ مَنْ فِيْ السَّمَاء۔ ‘‘  (سنن ابی داؤد،کتاب الادب ، باب فی الرحمۃ) 
’’جو رحم کرنے والے ہوتے ہیں رحمن ان پر رحم فرماتا رہتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔ ‘‘
مذکورہ احادیث اس امر کی وضاحت کو کافی ہیں کہ معاشرتی عروج و زوال کا انحصار آپسی معاملات پر ہے۔ جس قدر آپس میں ان صفاتِ عالی کو عام کیا جائے گا، اسی قدر معاشرے کے حسن میں نکھار آتا جائے گا۔ ورنہ جتنا ان سے روگردانی کی جائے گی، اتنا ہی یہ پھول سکڑ سکڑ کر بے رنگ و بو ہوتا جائے گا۔ 
وہ اعلیٰ صفات کیا ہیں؟ ان میں سے چند کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے: صفائی ستھرائی، اہلِ محلہ کے حقوق، سواری کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک، زوجین کے حقوق، والدین کے حقوق، نکاح، مہر، طلاق، رضاعت، سترپوشی، سلام کا رواج، اکرامِ مسلم، صلہ رحمی، صلح کروانا، مدد کرنا، مریض کی عیادت، وغیرہ۔ 
ان اساسیات کے بعد معاملات کی حیثیت بھی دین میں ایسی ہی ہے جیسی کہ دیگر اعمال کی۔ آپس کے معاملات کو رسم و رواج اور اپنی اَناکی بھینٹ چڑھانے کے بجائے ان کو بھی آسمانی ہدایات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جن پر عمل پیرا ہونا اس پر فتن دور میں کہ جس میں دین کا تصورعمل نجی معاملات تک محدود ہو چکا ہے زیادہ ضروری ہے اور اشاعتِ دین کی ایک کارگر صورت ہے۔ کتبِ فقہ میں دین کے وہ احکامات جو کہ معاملات کے متعلق ہیں بڑی ہی کثرت اور عرق ریزی کے ساتھ جمع کیے گئے ہیں، جن پر سرسری نظر ڈالتے ہی یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ دین کے احکامات کس قدر گہرائی اور گیرائی لیے ہوئے ہیں۔ 
معاملات کا باب ان اُمور پر مشتمل ہے جن کا تعلق ہماری معاشی،قانونی،اور ذاتی زندگی سے ہے، معاملات کے احکامات اکثر و بیشتر عدمِ التفات کا شکار رہتے ہیں۔ ہم یہاں معاملات کے ان احکامات کو درج کرتے ہیں، جن سے بالواسطہ یا بلا واسطہ سابقہ رہتا ہے، جن میں: زراعت، اجارہ، عاریت، امانت، قرض، وراثت، وصیت، ہدیہ، ہبہ، تحفہ تحائف، رہن، شرکت، مضاربت، تجارت، وکالت، کفالت، صلح، حقِ شفعہ، مالِ وقف شامل ہیں۔ 
اسلامی ریاست ان تمام شعبہ جات کی بنیاد ہے جو کہ ذکر ہو چکے، اس اعتبار سے کہ یہ ان تمام پر انتظامی بالادستی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس قدر ریاست منتظم رہتی ہے، اسی قدر دیگر شعبہ جات متحرک رہتے ہیں، اور جیسے ہی ریاست مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے تو اس کے اثرات تمام کو مریض بنادیتے ہیں، جس کا نتیجہ موت یا زوال ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ 
فقہ اسلامی میں ریاستی احکامات کے مخاطب حکمران اور ریاستی ادارے ہوتے ہیں ۔ مقاصدِ شریعت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے اکثری احکامات ایسے ہیں جن کی تکمیل کے لیے ریاست کا ڈھانچہ انتہائی ضروری ہے ، اور ریاست کا نظم و ضبط ہی در اصل دین کے دیگر شعبہ جات کی ترویج و ترقی کا ذریعہ بنتا ہے اور ان کی حفاظت اور فعَّالیت کو ممکن اور مؤثر بنا دیتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی جامع اور ہمہ گیرصورت ہمیں سب سے پہلے ریاستِ مدینہ ہی کے قیام کے بعد نظر آتی ہے۔ ریاست کا مقصد بیان کرتے ہوئے اور اس کی اساسی درجہ بندی کرتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
’’الَّذِیْنَ إِنْ مَّکَّنَّاہُمْ فِيْ الْأَرْضِ أَقَامُوْا الصَّلَاۃَ وَ أٰتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُوْرِ۔ ‘‘ (الحج:۴۱) 
’’یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم اُنہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں، اور برائی سے روکیں،اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔ ‘‘
اسی طرح ریاستی اختیارات کے حقیقی مأخذاورمصدر کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’إنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلّٰہِ۔ ‘‘ (یوسف:۴۰) ۔۔۔۔ ’’حاکمیت اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔‘‘ ساتھ ساتھ ’’إِنِّيْ جَاعِلٌ فِيْ الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً۔‘‘ (البقرۃ:۳۰) ۔۔۔۔۔ ’’بے شک میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ کہ انسان تو درحقیقت خلیفہ اور جانشینی کا کردار ادا کرنے کے لیے آیا ہے اور اسی جانشینی کا حق اپنی مختلف النوع ذمہ داریوں کے مطابق احکامِ خداوندی کی بجا آوری کی صورت میں کرتا رہتا ہے ، ٹھیک یہی صورت ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعداس انداز سے ادا کرنی پڑتی ہے کہ: ’’ أَنْ أَقِیْمُوْا الدِّیْنَ۔‘‘ (الشوریٰ:۱۳) ۔۔۔۔’’کہ تم دین کو قائم کرو ‘‘کے تحت اللہ کی سرزمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنا پڑتا ہے۔ 
قرآن و حدیث اور فقہائے کرام کی تفصیلات سے اسلامی ریاست کے لیے جو جو شعبہ جات ناگزیر ہیں، وہ درج ذیل ہیں : جہاد، خارجہ امور، امن و امان، امورِ داخلہ ،پولیس، بیت المال، نظامِ قضاء ،عدالتیں ، اقامتِ حدود وتعزیرات، نظامِ زکوٰۃ،اقامتِ صلوٰۃ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، شورائی نظام، اطاعتِ امیر، وغیرہ وغیرہ۔ 
ان تمام کے متعلق مستقل احکامات اور تجاویز موجود ہیں،جن کا احاطہ یہاں طوالت کو لازم ہے، ان سب اعمال پر عمل کرنے کی حقیقی صورت اسلامی ریاست ہی کی صورت میں ممد و معاون ثابت ہوگی، ورنہ ریاست کے اسلامی نہ ہونے کی صورت میں مفید تو بہر حال رہے گی، لیکن خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکیں گے کہ جن سے مقاصدِ شریعت کا بالکلیہ حصول ممکن ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر کی اطاعت کو قرآن کریم میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک کے ساتھ ذکر فرمایا:
’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُولِیْ الْأَمْرِ مِنْکُمْ۔‘‘ (النساء :۵۹) 
’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحبِ اختیار ہوں ان کی بھی۔ ‘‘
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین