بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

دینِ اسلام کو ہدفِ تنقید بنانے کے  چند بنیادی اسباب وعلامات

دینِ اسلام کو ہدفِ تنقید بنانے کے 
چند بنیادی اسباب وعلامات

 

مادرِ علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں دورہ حدیث کے طلبہ کے لیے تعلیمی سال کے اختتام پر دورہ تدریبیہ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں مختلف علوم وفنون اور اہم موضوعات کے متعلق اساتذۂ کرام طلبہ کو اپنے علمی تجربات وفیوضات سے مستفید فرماتے ہیں۔ علم تجوید و قراء ت کا موضوع حضرت مولانا ڈاکٹر قاری محمد ضیاء الحق صاحب مدظلہم کے سپرد ہے۔ اس سال شعبان المعظم ۱۴۳۹ھ میں حضرت قاری صاحب مدظلہٗ نے اپنے درس کے آخری دن طلبہ کو قیمتی نصائح وہدایات ارشاد فرمائیں، چونکہ دین کے ایک طالب علم کو عملی زندگی میں مختلف مواقع پر دینِ اسلام سے متعلق نت نئے تجدد پسندوںسے واسطہ پڑتا ہے ، جن کا طریقۂ واردات مختلف روپ دھارے ہوئے ہوتا ہے ۔ ایک طالب علم کے لیے اس نام نہاد علمی حملہ کو فوری طور پر سمجھنا بسا اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ علماء کرام نے ہر دور میں ان فتنوں کی نشان دہی کی خدمت انجام دی ، اس سلسلے میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی کتاب ’’الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘ (جدید شبہات کے متعلق مفید تنبیہات) مشہور و معروف ہے ، چنانچہ قاری صاحب مدظلہٗ نے بھی طلبہ کی سہولت اور آسانی کے لیے اپنے وسیع مطالعہ ، تجربہ اور مشاہدہ کی روشنی میں تجددپسندوں کے چند وارداتی طریقے بھی فقط عنوان کے طور پر بیان فرمادئیے۔ اس تمہید کے ساتھ کہ زندگی میں کبھی کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو تو ان عنوانات کی روشنی میں دیکھ لینا۔ یہ عنوانات وضاحت اور تفصیل کے طالب تھے، ہر عنوان کی تفصیل میں مثالوں کے ساتھ بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔ سرِدست راقم الحروف نے ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ ان عنوانات کو قدرے شرح وتفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے، تاکہ سب کے لیے استفادہ آسان ہو۔
دینِ اسلام کے متعلق منفی اور تنقیدی ذہنیت کی درج ذیل بارہ علامات ہیں:

۱-علومِ قرآن وسنت سے ناواقفیت :

قرآن وسنت کو صحیح طور پر جاننے ، سمجھنے اور اس سے دین وشریعت کے مسائل استنباط کرنے کے لیے عربی زبان کے تقریباً اٹھارہ مختلف علوم میں مہارت اور دسترس حاصل کرنا ضروری ہے ،ان میں سے چند علوم یہ ہیں : علمِ اصولِ دین ،علمِ اسبابِ نزول ،علمِناسخ ومنسوخ ،علمِ قراء ت،علمِ حدیث ،علمِ اصولِ حدیث ،علمِ فقہ ،علمِ اصولِ فقہ ،علمِ بلاغت (معانی ،بیان،بدیع)، علمِ صرف ، علمِ نحو، علمِ لغت ، علمِ اشتقاق ،لیکن گمراہ عناصر ان تمام بنیادی اور اہم علوم سے ناواقف ہوتے ہیں، چند اردو کتابوں کے لقطات کو معلوماتِ عامہ کا ذخیرہ وافرہ سمجھ لینا اور قرآن وسنت کو تختۂ مشق بنانے کے لیے آمادۂ پیکار ہونا ضلالت کی کھلی مثال ہے۔ ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔

۲-قرآن کریم کی متواتر قراء ت کو فتنہ کہنا یا ان کا انکار کرنا: 

واضح رہے کہ تلاوت کی سہولت کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو متعددقراء توں میں نازل فرمایا، البتہ قراء توں کے اس اختلاف سے آیات کے مجموعی معنی میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ،لیکن تلاوت اور ادائیگی کے طریقوں میں فرق ہوجاتا ہے ، اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے تلاوت میں آسانی پیدا ہوگئی ،اورعملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت وصداقت اوراس کے بعینہ محفوظ رہنے پر اس اختلافِ قراء ت کا کوئی ادنیٰ اثر بھی مرتب نہیں ہوتا،لیکن بعض گمراہ عناصر ان متواتر قراء توں کا بھی انکار کرتے ہیں، جبکہ اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ قرآن کریم کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں، وہ سب صحیح ہیں اورقرآن کریم کی تلاوت ان میں سے ہر ایک کے مطابق کی جاسکتی ہے، لیکن گمراہ عناصر ان متواترقراء ات کو عجمی فتنہ کہہ کرانکار کردیتے ہیں۔

۳-سنت وحدیث :

سنت وحدیث میں غلط اور فاسد تاویلات کرکے ان کاانکارکرنا، یا سنت وحدیث کو عقل یا فطرت کے خلاف کہنا، یا سنت وحدیث کو تاریخ یا عرب سماج اور کلچر کے ساتھ خاص کرکے منکرینِ حدیث کو تقویت پہنچانا،یا احادیث کے مقابلے میں تاریخ کو زیادہ اہمیت وترجیح دینا، یا قرآن وسنت سے استدلال کرنے میں محض عربی ادب ولغت پر انحصار کرنا۔

۴-صحیح احادیث کا اپنی ذاتی رائے یا عقل کی وجہ سے انکار یا رد کرنا :

اسی ضمن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ضعیف اور موضوع حدیث کے درمیان فرق وامتیازنہ کرنا، یعنی ضعیف حدیث کو جھوٹی، من گھڑت اورموضوع روایت کا درجہ قرار دے دینا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’ضعیف‘‘ علمِ اصولِ حدیث کی ایک اصطلاح ہے ، اردو دان حضرات اسے لاغروکمزور پر قیاس کرکے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ’’ضعیف‘‘ سے مراد جھوٹی یا من گھڑت روایت ہے ،حالانکہ یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف اور فن اصولِ حدیث سے ناواقفیت کی بنا پرہے ،کیونکہ جمہور علماء ومحدثین کے نزدیک ضعیف حدیث مطلوبہ شرائط کے ساتھ قابلِ حجت ہے۔ متابع، مُضاعد، فروعِ دین یا فضائلِ اعمال میں محدثین کے ہاں قابلِ عمل ہے ، البتہ موضوع یعنی جھوٹی اور من گھڑت روایت کسی بھی حالت میں لائقِ عمل نہیں ہے، صحیح وضعیف کے اطلاق کرنے یا انکار کرنے میں اردو کے استعمال کا فرق ملحوظ رکھنا بھی بہت اہم ہے۔ اردو کے استعمال میں ہر اس بات کو جو اہل فہم وعقل کے نزدیک قابل اعتبار ہو ، کسی اعتراض کے بغیر صحیح کہہ دیا جاتا ہے ، خواہ محدثین کی اصطلاح کے مطابق کسی ہلکے سے ہلکے معیار پر بھی اس کو صحیح نہ کہا جاسکے ، اس کے مقابلہ میں صحیح نہ ہونے کا مطلب اردو میں یہ ہوتا ہے کہ وہ بات ناقابلِ اعتبار ہے ، لیکن محدثین کی اصطلاح میں صحت کے لیے خاص خاص شرائط ہیں ، اور پھراس کے اندر بھی مختلف مراتب ہیں ، اس کے بعد پھر حسن کادرجہ ہے اوراس کے بھی کئی مدارج ہیں، اس کے بعد پھر ضعیف کا درجہ ہے اور اس میں بھی مراتب کا یہی حال ہے ، جن میں سے ضعیف حدیث کبھی کبھی مقبول بھی شمار ہوجاتی ہے ، اس لحاظ سے محدثین کی اصطلاح کے مطابق کسی حدیث پر یہ حکم دیکھ کر کہ وہ صحیح نہیں ہے، اس کو مردود یا جھوٹا سمجھ لینایہ بالکل غلط ہوگا ۔ اس کے برخلاف اردو کے محاورہ میں اس کے صحیح نہ ہونے کا یہی مطلب سمجھا جائے گا کہ وہ ناقابل اعتبار ، مردود اور جھوٹی ہے۔ محدثین کی اصطلاحات سے ناواقف لوگوں کو ہمیشہ یہاں یہ مغالطہ لگ سکتا ہے کہ یہ روایات سب بے سروپا اور لغو ہیں ، بلکہ اسی مغالطہ میں بعض اچھے خاصے تعلیم یافتہ سمجھ دار لوگ بھی مبتلا ہوسکتے ہیں اور ان کو بھی اس نکتہ پر غفلت کا سامنا ہوسکتا ہے کہ محدث کے کسی حدیث کی صحت سے انکار کا مطلب وہ نہیں ہے جو اُردو محاورے میں کسی حدیث کی صحت کے انکار کا مطلب سمجھا جاتا ہے ۔
اصولِ حدیث میں اس کی بھی تصریح ہے کہ کسی حدیث پر کسی محدث کے ضعف کا حکم لگادینے سے اس حدیث کا مطلقاً ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات وہ حکم صرف اس اسناد کے لحاظ سے ہوتا ہے جو اس وقت اس محدث کے سامنے ہوتی ہے ، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ایک ہی حدیث کو ایک اسناد کے لحاظ سے ضعیف کہہ دیا جائے اور دوسری اسناد کے لحاظ سے وہ قوی ہو، یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے بعض حدیثوں پر ضعیف کا حکم لگایا ہے ، حالانکہ خارج میں وہ صحیح اسناد سے ثابت ہے ، یہاں ایک ناواقف شخص تو حیرت میں پڑجاتا ہے ، مگر صاحبِ فن سمجھ لیتا ہے کہ امام موصوفؒ کا یہ حکم صرف اس خاص اسناد پر ہے ۔

۵-اسلاف دشمنی :

یعنی صحابہ کرام ؓ ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اورمتقدمین علماء اور ان کے فہم اسلام سے نہ صرف یہ کہ بدگمانی پیداکرنا،بلکہ وقتاً فوقتاً ان عظیم ہستیوں پراشاروں اورکنایوں میں لعن طعن اور ملامت کرتے رہنا۔ اس طرزِ عمل میں پہلا قدم سلف صالحین سے بدگمانی اور اس کی انتہا سلف صالحین کے خلاف بدزبانی ہوتاہے۔ ان لوگوں کو اسلام کے ساتھ مخلص نہیں سمجھا جاتا اور اپنے موجودہ حالات وواقعات کا ذمہ داریا موردِ الزام ان بزرگ ہستیوں کو ٹھہرادیا جاتا ہے۔ یہ افسوس ناک رویہ درحقیقت اس حدیث کا مصداق ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قربِ قیامت کی علامتوں میں ارشاد فرمایا ہے: ’’ولعن آخر ہٰذہ الأمۃ أولہا۔‘‘ یعنی ’’اُمت کے بعد میں آنے والے لوگ گزشتہ لوگوں (اسلاف اور بزرگوں)پر لعن طعن کریں گے۔‘‘ ایک اورحدیث میں ایسے لوگوں کو ’’رویبضۃ‘‘ فرمایا گیا ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ ’’رویبضۃ ‘‘سے کیا مراد ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’وہ نااہل اور گھٹیا آدمی جو جمہور کے اہم معاملات میں رائے زنی کرے۔‘‘

۶-سلف صالحین کے بجائے اعداء اسلام اور مستشرقین کی ڈگر پر چلنا:

یعنی دین وشریعت کے ہرحکم کو تحقیق وریسرچ کے عنوان سے فقط اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر تولنا پرکھنا، یا اعتراض اور شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھنا، قرآن و سنت اورسیرت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی روح مجروح کرنا ، واضح صداقتوں کا انکار کرنا، غلط فہمیوں کو جگہ دینا، دین اسلام اور سیرت رسول کے بارے میں غلط تاثر پھیلانا، کسی بھی موضوع پر لکھنے سے قبل اس کے متعلق ازخود ایک موقف قائم کرکے پھر اس کے لیے کمزور سے کمزور روایات ڈھونڈنااور ان سے غلط استدلال اور معنی اخذ کرنا، دسیسہ کاری اور افتراء پردازی سے کام لینا، تحقیق اور یسرچ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف علمی نظریاتی پروپیگنڈہ کرنا۔ 

۷- شذوذ وتفرُّد:
 

دینِ اسلام یعنی قرآن وسنت کی تشریح وتعبیرمیں جمہورعلماء امت کے اجماع واتفاق کورد کرکے اس کے مقابلہ میں انفرادی ترجیحات اور تفردوشذوذ کو فکروعمل کی بنیاد بنانا، جبکہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ’’ علیکم بالجماعۃ ۔‘‘ یعنی ’’تم جماعت کو لازم پکڑو۔‘‘ اور ارشادِ نبوی ہے: ’’لا یجتمع أمتی علی الضلالۃ‘‘ یعنی ’’میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔‘‘ اسی طرح ایک حدیثِ نبوی میں ارشاد ہے :’’اتبعوا السوادَ الأعظمَ من شَذَّ شُذ فی النار‘‘ یعنی ’’بڑی اکثریت (اجتماعیت) کی پیروی کرو ، جس نے (تنہا) الگ راہ اختیار کی وہ جہنم میں جاگرا۔‘‘ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ گمراہی سے حفاظت اجتماعیت میں ہے۔

۸-حدوث و ابتداع :

جن اُمور کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو ، یعنی قرآن مجید اور سنت رسول میں اس کا ثبوت نہ ملے ، اورآنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں اس کا داعیہ اور سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولاً ثابت ہو ، نہ فعلاً ،نہ صراحۃً اور نہ اشارۃً، صحابہ کرام ؓ، تابعین ؒ اور تبع تابعین ؒ کے زمانہ میں بھی اس کا وجود نہ ہو ، اورنہ ہی اس کی نظیر ان تینوں زمانوں میںپائی جائے ،اور شریعت کے مآخذ (قرآن ، سنت ، اجماع، قیاس) سے بھی اس کا ثبوت نہ ملے اور اس کو دین کا کام سمجھ کر کیا جائے یا چھوڑا جائے ،خواہ اس کا موجد کوئی بھی کیوں نہ ہو، دوسرے الفاظ میں مقاصدِ شرعیہ کو بدل دینا، یعنی غیر مقصود کو مقصود بنالینا، یا مقصود کو غیر مقصود بنالینا، حدیث رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے : ’’من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔‘‘ یعنی ’’جس شخص نے ہمارے اس دین میں ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود (قابل رد) ہے۔‘‘ گویا کہ دین کے نام پر بے دینی گھڑ کے اُسے عام کرنا ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے، اس پر تنبیہ کی ضرورت ہے۔

۹- ’’میں صحیح باقی سب غلط‘‘:

سلف صالحین یعنی صحابہ کرام ؓ ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ اورمتقدمین جمہورعلماء کے فہم اسلام کویکسر غلط قرار دینا، گویا نزولِ اسلام اوراس کے بعد کے قریب ترین زمانے میں ان جیسے بلند پایہ لوگ دین کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکے ، اور ان کے مقابلہ میں اپنی خودساختہ غلط رائے اور ناقص فہم کو صحیح اوربرحق سمجھنا اور اُسے عین قرآن وحدیث باور کرانا،یعنی اپنی تحریفات ،ناقص آراء اور خواہش پرستی کو قرآن وحدیث کا نام دینا، اس طرح اُمت کی اجتماعیت میںافتراق وانتشار ، فرقہ واریت اور تفرقہ بازی پیدا کرنا۔ واضح رہے کہ دین میں بلا شبہ کتاب وسنت اصل ہیں ، اس کا کوئی منکر نہیں ، مگر اس کے باوجود ہم نہ صحابہ کرامؓ کو یکسر نظرانداز کرسکتے ہیں اور نہ تابعینؒ وتبع تابعینؒ کو ، اور نہ ائمہ دین، فقہاء اسلام اور محدثین کو۔ کتاب وسنت کا صحیح مفہوم معلوم کرنے کے لیے بہرحال ہمیں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔ صحابہ کرامؓ ،تابعینؒ ، ائمہ دین اور فقہاء اسلام یعنی امت کے جمہور نے دین کو جس طرح سمجھا ہے اور اس کے بارے میں جو ان کی رہنمائی ہے وہی اصل دین ہے۔ اس کے برعکس جو مفہوم ومعنی ہم اپنی ناقص رائے سے متعین کریں گے وہ دین نہیں کہلائے گا ، کیوں کہ جن واسطوں سے الفاظ ہم تک پہنچے ہیں اور ان کی حفاظت کا ہم اعتقاد رکھتے ہیں، ان الفاظ کے معانی کے لیے بھی ان واسطوں پر اعتماد ضروری ہے۔ اسلاف سے ہٹ کر اگر ہم نے اپنی اپنی عقل سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی تودین ایک تماشا بن جائے گا۔

۱۰-فتنہ پردازی:

اصولِ دین یااسلامی تحقیق کے اصول وضوابط کو جانے بغیر جدید تحقیق وریسرچ یا عصر حاضر کے تقاضوںکے نام پر وقتاً فوقتاً مختلف علمی ،نظریاتی اورفکری فتنے پھیلاتے رہنا، جس میں عملی نتیجہ اور حاصل‘ بحث برائے بحث کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو،موجودہ زمانہ میںالیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا اس کی واضح مثال ہیں، اس فتنہ پردازی میں سب سے آسان اور مشہور طریقہ یہ چل پڑا ہے کہ ’’خَالِفْ تُعرف‘‘ یعنی متفقہ اورمسلّمہ دینی معاملات یا اسلاف ومتقدمین کی مخالفت کرو اور مشہور ہوجاؤ۔

۱۱-حقائق کو مسخ کرنا:

محض عقلی، قیاسی اور اَٹکل پچو باتوں کی بنیاد پر حقائقِ واقعی کو مسخ کرکے اور بگاڑ کر پیش کرنا، اور غیر واقعی اُمور کو واقعی، اور واقعی اُمور کو غیر واقعی بنادینا، جس کے نتیجے میں دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ بناوٹ ، تصنُّع اورخودساختہ پن کو ترویج اورفروغ ملتا ہے۔اور ایسا عموماً دنیا کی محبت کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں:
’’جب دنیاکی محبت کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کے حصول کے لیے عام ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں، حلال ہوں یا حرام ہوں اور جب یہ حالت ترقی کرجاتی ہے تو پھر اس کے حصول کے لیے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی، بے حیائی، بے رحمی نا انصافی سب آجاتی ہیں اور رفتہ رفتہ طبیعت مسخ ہوجاتی ہے اور حقائق معکوس ہوجاتے ہیں، صحیح کو غلط سمجھنے لگتا ہے اور غلط کو صحیح، حق کو باطل اور باطل کو حق، حق تعالیٰ کا ارشاد صادق آجاتا ہے:’’فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْأَ بْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ۔‘‘ (الحج:۴۶) یعنی ’’سرکی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، دل کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔‘‘ اس لیے حدیث نبوی میں یہ ارشاد ہے کہ: ’’حب الدنیا رأس کل خطیئۃ۔‘‘ (مشکوۃ،کتاب الرقاق، الفصل الثالث، ص:۴۴۴،ط:قدیمی) یعنی ’’دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔‘‘            (بصائر وعبر، ج:۱، ص:۱۱۴، ط: مکتبہ بینات، کراچی)

۱۲-عجب ، خود پسندی ، تکبراور تَعلِّی کا اظہار :

یعنی اپنی خود ساختہ خیالی رائے کو حتمی اور قطعی انداز میں اس طرح بیان کرنا کہ گویا تمام دنیا میں حق اور سچ صرف اسی بات میں منحصر ہے جو میں نے سمجھا اور لکھا۔ اسی طرح اجماعِ امت کے مقابلہ میں اپنی باطل اور غلط رائے کو اونچا کرنا اور جمہور امت کی متفقہ بات کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا، کسی بھی اجماعی اور متفقہ مسئلہ کی تردید کرتے ہوئے یوں کہنا کہ شروع سے لے کر آج تک،یاقرآن وسنت کے تفصیلی مطالعہ کے بعد، یا متقدمین سے لے کر متاخرین تک کسی کو بھی مطالعہ کرلیں، کسی کے ہاں بھی یہ بات نہیں ملے گی ، گویا کہ چودہ سو سالوں میں جتنا بھی علمی وتحقیقی سرمایہ اُمت نے جمع کیا، وہ سب کا سب بیک جنبشِ قلم رد کردیتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ پوری امت کو ان فتنوں اور فتنہ پردازوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین