بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دہشت گردی اور عصبیت کی تازہ لہر!

دہشت گردی اور عصبیت کی تازہ لہر!

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

امریکہ، اسرائیل اور بھارت، یہ ایک تکون ہے، جس کا ایجنڈا صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات پھیلانا، مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنا اور اُن کو معاشی، معاشرتی اور تہذیبی طور پر نقصان پہنچانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اپنے حواریوں سمیت کئی ایک اسلامی ممالک کے مسلمانوں کو قتل کیا، بم برسائے اور افغانستان سے ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونے کے بعد اس شکست کا بدلہ پاکستان سے لینے کے لیے اس کے اردگرد شکنجہ کس رہا ہے۔ پاکستان کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لیے پہلے سی پیک منصوبہ کو اپنے حواریوں اور ایجنٹوں کے ذریعہ سبوتاژ کیا، پھر آئی ایم ایف کے ذریعہ پاکستانی اسٹیٹ بینک پر قبضہ کرلیا۔ 
ادھر اسرائیلی صدراسحاق ہرزوگ اپنی بیوی کے ہمراہ متحدہ عرب امارات جاتے ہوئے جب ان کا طیارہ سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزررہا تھا تو پائلٹ نے اعلان کیا کہ اب ہم سعودی عرب کی فضاؤں میں داخل ہوگئے ہیں، یہ ایک تاریخ رقم ہوگئی، یہ سن کر اسرائیلی صدر فرطِ مسرت سے کاک پٹ میں داخل ہوگیا اور پائلٹ اسے نقشے کے ساتھ نیچے سعودی زمین دکھلاتا ہے اور کہتا ہے کہ عن قریب اس (سعودیہ) کے دارالحکومت (ریاض) پر بھی ہمارا تسلط ہوجائے گا۔ ترک میڈیا کے مطابق طیارے میں گفتگو کی یہ ویڈیو اسرائیلی صدر کے دفتر نے جاری کی ہے۔ 
ان کا حواری اور لے پالک بھارت بھی کبھی اپنے ملک میں رہنے والی مسلمان خواتین کو بیچنے کے اعلانات کرتا ہے اور کبھی اسکولوں میں مسلمان بچوں کے نماز پڑھنے پر پابندی کے اعلانات کراتا ہے اور کہیں بچوں نے اسکول میں نماز پڑھ لی تو مودی سرکار کے پالتو غنڈے وہاں پہنچ کر نماز کی اجازت دینے والے ماسٹرز کو نوکری سے نکلوادیتے ہیں، ادھر برطانیہ کے بارہ میں بھی اخبارات میں رپورٹ چھپی ہے کہ برطانیہ میں سب سے زیادہ نفرت آمیز سلوک مسلمانوں سے روا رکھا جاتا ہے۔ 
بہرحال ’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ کے مصداق تمام کفار اس بات پر متحد ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف یلغار کی جائے، خصوصاً پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے یہ سب یک جاں ویک زباں ہوچکے ہیں، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ جنگ، دھماکے، انتشار اور خلفشار یہ کسی مسلمان ملک کی ضرورت نہیں، بلکہ ایک عرصہ سے اسلامی ممالک بیرونی طاقتوں اور ان کے آلۂ کاروں کی دہشت گردی کا مورد بنے ہوئے ہیں، خصوصاً نائن الیون کے بعد پاکستان کو بیرونی استعمار نے ہدف پر رکھا ہوا ہے کہ کسی طور پر پاکستان میں امن نہ آسکے، حالانکہ افغانستان پر مسلط کردہ جنگ میں پاکستان کے ستر ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کے نام پر بھینٹ چڑھائے گئے، لیکن بیرونی ایجنٹوں اور ان کے اشاروں پر ناچنے والوں کو ابھی تک سکون نہیں آیا۔ 
پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہوئے پہلے اسلام آباد میں دہشت گردی کی گئی، اس کے بعد لاہور میں بم دھماکا کیا گیا، جس میں تین افراد شہید اور کئی زخمی ہوگئے، اس کے بعد ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ میں دہشت گردوں کے حملہ میں فورسز کے ۱۰ جوان شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کیچ کے علاقہ میں ۲۵ اور ۲۶ جنوری کی درمیانی رات دہشت گردوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا، جس کے نتیجہ میں دس فوجیوں نے جامِ شہادت نوش کیا، فائرنگ کے تبادلہ میں ایک دہشت گرد مارا گیا اور کئی زخمی ہوئے، جب کہ کلئیرنس آپریشن کے دوران ۳؍ دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔ 
اسی طرح چمن کے علاقہ احمد ناکہ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے لیویز اہلکار شہید ہوگیا۔ لیویز حکام کے مطابق سپاہی محمد نعیم عشیزئی کالج روڈ پر ملحقہ صادق ادوزئی اسٹریٹ میں حاجی احمد ناکہ پر ڈیوٹی دے رہا تھا کہ اس دوران موٹرسائیکل سوار نامعلوم دہشت گردوں نے ناکے پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس سے وہ موقع پر شہید ہوگئے۔ 
اسی طرح پولیس ذرائع کے مطابق ساچان کرکٹ گراؤنڈ بلومند میں جمعرات کی شام پانچ بجے کرکٹ میچ چل رہا تھا کہ دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار افراد نے آکرٹیم کے کیپٹن آدم شاہ ولد مراد پر فائرنگ کردی، جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہوگیا۔ 
یہ تینوں دہشت گردی کے واقعات صرف ایک دن اور صرف ایک صوبہ بلوچستان کی زمین پر پیش آئے، جب کہ دوسرے دن ۲۹ جنوری ۲۰۲۲ء بروز ہفتہ ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں ۳؍ لیویز اہلکار اور امن فورس کا ایک رضا کار شہید ہوگئے، جبکہ ۹ ؍افراد زخمی ہوئے۔ سوئی کے علاقے موندرانی مٹ میں دہشت گردوں نے امن فورس کمانڈر کا سولر سسٹم تباہ کیا، لیویز جائزہ لینے پہنچی تو دھماکا ہوگیا، جس کے بعد بھگدڑ مچ گئی۔ فورسز نے موقع پر پہنچ کر لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا۔ اسی طرح اسی دن کوئٹہ میں ذاتی رنجش کی بناپر ۴؍ افراد کو قتل کیا گیا۔ 
ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا کہا جائے کہ ملک میں کوئی حکومت اور حفاظت پر مامور سیکورٹی ایجنسیاں موجود ہیں؟ یا یہ ملک لاقانونیت اور افراتفری کی آماج گاہ ہے کہ جس کا جو دل چاہے‘ وہ اس میں کرتا پھرے۔ ان اندوہناک اور غمناک حالات میں حکومت اور سیکورٹی پر مامور ایجنسیوں کو خوابِ غفلت سے باہر آنا چاہیے اور ملک میں عوام کی حفاظت اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا چاہیے۔ ہماری پاک افواج نے بہت قربانیوں کے بعد ملک میں امن وامان قائم کیا تھا، جس سے پاکستان کا امیج بیرونی دنیا میں بھی بہت اچھا قائم ہوا تھا اور اب پھر اس کو سیکورٹی رسک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، لہٰذا ملک دشمن چاہے وہ را کے ایجنٹ ہوں یا موساد کے یا پاکستان میں موجود ان کے ایجنٹ، ان کا قلع قمع اور بیخ کنی بہت ضروری ہے، نہیں تو وہ ایک بار پھر ہمیں ۹۰ کی دہائی میں پہنچادیں گے، ولا فعل اللہ ذٰلک۔
ان تمام واقعات اور عناصر کی سرگرمیوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ایسی پالیسی مرتب کرنی چاہیے کہ ان واقعات کی روک تھام اور دہشت گردی کی اس تازہ لہر کا ابتدا ہی سے قلع قمع کیاجاسکے۔ ہماری ایجنسیوں کو بھی بیدار مغزی کا ثبوت دینا چاہیے، اس لیے کہ بہترین انٹیلی جنس وہ ہوتی ہے جو خطرہ کو بروقت بھانپ لے اور خطرے کے امکانات پیدا ہوتے ہی خطرہ پیدا کرنے والوں کا سرکچل دے۔ اس دہشت گردی میں شہادت پانے والے فوجی جوانوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے، جنہوں نے ہمارے کل پر اپنا آج قربان کردیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے والدین اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین۔
ایک وقت تھا کہ صوبہ سندھ بشمول کراچی میں لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پر جھگڑے کرائے گئے، جس میں بہت سے افراد بلالحاظِ مرد و عورت اور بوڑھے جوان‘ ان جھگڑوں کی بھینٹ چڑھائے گئے، کاروبار تباہ کیے گئے، کئی تاجر حضرات نقل مکانی کرگئے، جس سے کراچی جیسے روشنیوں والے اور غریب پرور شہر کا امیج خراب اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا اور یہ سلسلہ کئی سال تک چلایا جاتا رہا۔ خدا خدا کرکے یہ آگ تھمی اور کراچی کے باسیوں نے سکھ کا سانس لیا۔ اب ایک بار پھر کراچی میں لسانیت اور تعصب کی بناپر سوشل بائیکاٹ کی دعوت دی جارہی ہے، جو کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں، لہٰذا ہم اس رویے اور سوچ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور تمام قومیتوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ بھی بھائی بھائی بن کر رہیں۔ اس تعصب اور لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کی نہ اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ملکی حالات اس کے متحمل ہیں۔ ایک طرف ہمارا دشمن ہمیں تاک تاک کر نشانہ بنارہا ہے اور دوسری طرف لسانیت اور عصبیت کو ہوا دی گئی اور بھڑکاوا دیا گیا تو خود سوچ لیں کہ ایسا کرنے والے کس کی معاونت، کس کے کام کو آسان اور کس کی خدمت کررہے ہیں۔ 
خدارا! ایسے متعصب اور بدبودار نعروں سے پرہیز کرتے ہوئے نوجوان نسل کو ایمان، اتحاد اور اپنے ملک سے محبت کو اُجاگر کرنے کے لیے کردار ادا کریں، تاکہ یہ نوجوان نسل صحیح معنوں میں ملک اور قوم کے معمار بن کر اُن کا نام روشن کرے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین