بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دورِ جاہلیت کا تسلسل اور مشرکین مکہ کی میراث ڈی این اے ٹیسٹ اور ثبوتِ نسب

دورِ جاہلیت کا تسلسل اور مشرکین مکہ کی میراث ڈی این اے ٹیسٹ اور ثبوتِ نسب


مغرب میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کے نتیجہ میں آئے دن نت نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ چنانچہ مغربی ممالک میں پیدا ہونے والے بچوں کے نسب کی شناخت بھی ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکی ہے۔ چند ماہ قبل ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعہ سلسلہ نسب کی تحقیق کے بارہ میں ایک سوال نامہ ایک قاری نے ارسال کیا۔ سوال کی اہمیت اور دور حاضر میں اس حوالہ سے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سوال اور اس کے جواب کو قارئین کی دلچسپی کے لئے شائع کیا جائے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ دور جدید کے بڑھتے ہوئے مسائل کا اسلام کیا حل پیش کرتا ہے۔… (ادارہ)
سوال:… گزشتہ دنوں اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایک امریکی خاتون کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی۔ ولادت کے چند دنوں بعد ماں کا انتقال ہوگیا۔ ماں کی زندگی ہی میں تین افراد نے اس بچی کے باپ ہونے کا دعویٰ کردیا‘ جن میں سے ایک صاحب کے نام کو بچی کی ماں نے اپنی بیٹی کے نام کا حصہ بھی بنادیا۔ بعدازاں بات ڈی این اے ٹیسٹ تک جاپہنچی کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعہ فیصلہ کیا جائے گا کہ بچی کا اصل باپ کون ہے؟ اور اس طرح ٹیسٹ کے بعد تینوں دعویداروں میں سے ایک کے حق میں فیصلہ دیدیا گیا کہ وہ اس بچی کا باپ ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
۱:… کیا والد کی شناخت کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کا طریقہ اسلامی قانون کی رو سے درست ہے؟
۲:… اگر خدانخواستہ ایسا کوئی معاملہ کسی ترقی پسند مسلم ملک میں پیش آجاتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ کا قانون اس معاملہ میں کیا فیصلہ کرتا ہے؟ اور کس شخص کو اس بچی کا باپ قرار دیتے ہوئے اس کی پرورش کا حق دیتا ہے؟ سائل: یوسف سیّد‘ (یو۔ اے۔ ای)
جواب:… کسی بچے یا بچی کے باپ کی تعیین کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کرانا اور اس کے ذریعہ اس کا تعین کرنا کہ اس کا باپ فلاں شخص ہے‘ نہایت گھناؤنا اور غلیظ انداز ہے۔ بلاشبہ یہ انداز کسی مہذب معاشرے سے میل نہیں کھاتا‘ اگر دیکھا جائے تو یہ طریقہ کار آج سے چودہ سو سال قدیم اور مادر پدر آزاد جاہلی معاشرہ کی یادگار ہے‘ دورِ حاضر کے جدت پسند اور ترقی کے دعویدار لاکھ ترقی کے دعوے کریں‘ مگر سچ یہ ہے کہ وہ آج بھی زمانہ جاہلیت کی غلاظت کی دلدل میں غرق ہیں‘ اور وہ آج بھی گندگی اور غلاظت کے کیڑے کی طرح غلاظت کے ڈھیر میں سرگرداں ہیں‘ جس طرح مشرکین مکہ اس میں غرق تھے ‘ بایں ہمہ دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے ترقی کرلی ہے‘ ہم ترقی یافتہ ہیں اور مسلمان غیر مہذب اور غیر ترقی یافتہ ہیں۔ قبل از اسلام‘ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی ایسے بے باپ کے بچوں کی نسبت معلوم کرنے کے لئے ٹھیک اسی طرح کا انداز اپناتے تھے جس طرح آج کے یہ نام نہاد مہذب اپنا رہے ہیں‘ اس لئے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ امریکا میں رائج یہ طریقہ کار دورِ جاہلیت کا تسلسل اور مشرکین مکہ کی میراث ہے‘ گویا دنیائے عیسائیت و یہودیت اور معاندین اسلام نے ترقی معکوس کی ہے۔ چنانچہ پورے چودہ سو سال کا سفر کرکے بھی آج وہ پھر اسی جگہ واپس آگئے ہیں‘ جہاں ان کے آباؤ اجداد زنا کی اولاد کے نسب کی تعیین میں کھڑے تھے‘ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زمانہ جاہلیت کے بے حیائی پر مشتمل اس طریقہ کار کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
”یجتمع الناس الکثیر فیدخلون علی المرأة لا تمتنع ممن جاء ہا وھنَّ البغایا‘ کنَّ ینصبن علی ابوابہن رایات تکون عَلَماً فمن ارادہنَّ دخل علیہن‘ فاذا حملت احداہن ووضعت حملہا جمعوا لہا ودعوا لہم القافة ثم الحقوا ولدھا بالذی یرون فالتاط بہ ودعی ابنہ لایمتنع من ذلک‘ فلما بعث محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالحق ہدم نکاح الجاہلیة کلہ الا نکاح الناس الیوم۔‘(صحیح بخاری ج:۲‘ ص:۷۶۹ تا ۶۷۰)
ترجمہ:۔ ”بہت سارے لوگ جمع ہوکر کسی خاتون سے بدکاری کرتے‘ وہ خاتون اپنے پاس آنے والے کسی مرد کو اس لئے نہ روکتی کہ وہ کسبی اور زنا کار ہوتی‘ ایسی خواتین کے دروازے پر علامت کے طور پر جھنڈے لگے ہوتے تھے‘ جو آدمی زناکاری اور بدکاری کرنا چاہتا‘ اس کے پاس چلا جاتا‘ پس ان میں سے کوئی خاتون ان زانیوں میں سے کسی سے حاملہ ہوجاتی اور بچہ جنتی‘ تو اس سے زناکاری کرنے والے سب لوگوں کو جمع کیا جاتا اور قیافہ شناسوں کو بلایا جاتا… کہ اس کا تعین کریں کہ یہ بچہ ان میں سے کس کا ہے؟… پس قیافہ شناس جس کے بارہ میں فیصلہ کرتے‘ وہ بچہ اسی کا کہلاتا اور وہ شخص اس بچے کی نسب کا انکار نہ کرسکتا تھا… جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق دے کر مبعوث فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاحوں …کاموں… سے منع فرمایا اور صرف اس نکاح کو باقی رکھا جو آج… مسلمانوں میں… رائج ہے۔“
اس تفصیل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دورِ حاضر کا ترقی یافتہ طریقہ کار زمانہ جاہلیت کے طریق اور انداز سے ذرہ بھر مختلف نہیں‘ بلکہ اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو مشرکین مکہ اور قبل از اسلام جاہلیت کے علمبردار‘ دورِ حاضر کے ترقی کے دعویداروں سے ایک قدم آگے تھے‘ کیونکہ وہ ایسے بچے کا باپ معلوم کرنے کے لئے کسی مشینی ٹیسٹ کے محتاج نہیں تھے ‘بلکہ وہ محض قیافہ کی مدد سے یہ کام سر انجام دے لیتے تھے‘ جبکہ ان کے جانشین اور ترقی کے دعویداروں کو ایسی حرامی اولادوں کے باپ کے تعین کے لئے ایک نہیں‘ دسیوں ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ الغرض یہ طریقہ کار مشرکین مکہ کی غلیظ سوسائٹی اور متعفن و بدبودار معاشرہ کی میراث ہے‘ اسلام بلکہ کوئی باحیا اور باغیرت انسانی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا ‘ گویا اس طریقہ کار سے زنا اور اولاد زنا کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے‘ جبکہ اسلام نے ایسی تمام بے حیائی اور بے شرمی کی صورتوں کی شدت سے نفی کی ہے اور زنا جیسی بدکاری کی حوصلہ افزائی کے بجائے اس پر سخت سزاؤں کا نفاذ و اجرأ کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اگر ایسا کوئی مجرم پایا جائے اور اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اس پر سخت سے سخت سزا دی جائے‘ چنانچہ اگر ایسے جرم کا مرتکب شادی شدہ ہو تو اسے پتھر مار مار کر مار دیا جائے اور اگر وہ غیر شادی شدہ ہے تو اسے سو کوڑے لگائے جائیں اور یہ سب کچھ علی رؤس الاشہاد ہو‘ تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت ہو اور معاشرہ سے اس بے حیائی و بے شرمی کی جڑ اور بنیاد ہی ختم ہوجائے‘ نہ یہ کہ اس کو اچھالا جائے اور بدکار و زنا کاروں کو باپ کا مقام دے کر ایک معصوم پر ولد الزنا ہونے کی تہمت دھری جائے۔ تاہم اگر ایسی کوئی صورت ہو کہ کوئی بدکردار کسی خاتون پر یہ الزام لگائے کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے اور یہ بچہ میرا ہے‘ یا کوئی خاتون فریاد کرے کہ مجھ پر زیادتی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں یہ حمل ٹھہرگیا ہے‘ تو اس صورت میں بچہ تو اس کا ہوگا‘ جس کے نکاح میں وہ عورت ہے‘ البتہ زانی کو سنگسار کیا جائے گا‘ اس لئے حکم دیا گیا کہ:
”الولد للفراش وللعاہر الحجر“… (ترمذی‘ ج:۲‘ ص:۱۳۸)
… بچہ اس کا ہے‘ جس کا نکاح ہے اور زناکار کے لئے صرف پتھر ہی ہیں… جیسا کہ اسی طرح کا ایک واقعہ صحیح بخاری شریف میں بھی ہے:
”… ان عائشة قالت کان عتبة بن ابی وقاص عہد الی اخیہ سعد ان یقبض ابن ولیدة زمعة‘ فاقبل بہ الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ واقبل معہ عبد بن زمعة‘ قال سعد بن ابی وقاص ہذا ابن اخی‘ عہد الیَّ انہ ابنہ‘ قال عبد بن زمعة یا رسول اللّٰہ! ہذا اخی‘ ہذا ابن زمعة وُلد علی فراشہ‘ فنظر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی ابن ولیدة زمعة فاذا اشبہ الناس بعتبة ابن ابی وقاص‘ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہولک‘ ہوا خوک یا عبد بن زمعة من اجل انہ ولد علی فراشہ‘ وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: احتجبی منہ یا سودة! لما رایٰ من شبہ عتبة بن ابی وقاص‘ قال ابن شہاب: قالت: عائشہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الولد للفراش وللعاہر الحجر۔“ (بخاری ج:۲‘ ص:۶۱۶)
ترجمہ:۔ ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی… سے میں نے زنا کیا تھا‘ اس… کا بچہ لے لینا‘ فتح مکہ کے دن …حضرت سعد رضی اللہ عنہ زمعہ کی لونڈی کے بچے کو لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ تو آپ کے ساتھ عبد بن زمعہ بھی حاضر ہوگئے‘ حضرت سعد بن ابی وقاص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا بھتیجا ہے‘ کیونکہ میرے بھائی نے مرتے وقت کہا تھا کہ یہ میرا بیٹا ہے… دوسری جانب… عبد بن زمعہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا بھائی ہے‘ یہ زمعہ کا بیٹا ہے‘ یہ اس کے فراش پر پیدا ہوا تھا‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا تو واقعی وہ بچہ عتبہ بن ابی وقاص سے زیادہ مشابہ تھا‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ تیرا ہے اور یہ تیرا بھائی ہے‘ اس لئے کہ یہ عتبہ کے فراش پر یعنی نکاح میں پیدا ہوا ہے‘ بایں ہمہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو زمعہ کا بیٹا قرار دیا تھا… مگر چونکہ اس کی شکل و شباہت عتبہ بن ابی وقاص سے ملتی تھی‘ اس لئے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ بنت زمعہ سے فرمایا: سودہ! اس سے پردہ کیا کر! ابن شباب زہری فرماتے تھے کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ اس کا ہے‘ جس کا نکاح ہے اور زانی کے لئے بس پتھر ہی پتھر ہیں۔“
ان تفصیلات سے واضح ہوا ہوگا کہ یہ طریقہ کار نہایت غلط‘ بھونڈا‘ بے حیائی‘ بے شرمی اور زنا کاری و بدکاری کے فروغ پر مشتمل ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین