بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دو سالہ دراساتِ دینیہ کورس .... فوائد، تجربات اور چند گزارشات

دو سالہ دراساتِ دینیہ کورس

 

فوائد، تجربات اور چند گزارشات


اللہ تعالیٰ نے اخیر زمانے کی انسانیت کی دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعہ اپنے احکام و شریعت اُتاری۔ ان احکام میں سے سب پر عمل‘ ہر کسی کے لیے ہر وقت ضروری نہیں، بلکہ بعض احکام تو سب کے لیے ضروری ہیں، جن کو دین کی اصطلاح میں فرض و واجب سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بعض اس سے کم درجے کے احکام ہیں، پھر بعض کی بجا آوری کے لیے کچھ شرائط وتفصیل ہے۔ قرآن و حدیث کے بیان کردہ احکام کی اس درجہ بندی اور تفصیل کو ’’علمِ شریعت‘‘ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے پوری اُمت اس تفصیلی ’’علمِ شریعت‘‘ کو حاصل کرے، یہ فطرت کے خلاف تھا، جیسے قرآن کریم میں جہاد کے بارے میں اسی طرح کی بات ارشاد فرمائی :
’’ اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ سو ایسا کیوں نہ کیا جاوے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے چھوٹی جماعت جایا کرے، تاکہ باقی ماندہ لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آویں ڈراویں، تاکہ وہ احتیاط رکھیں۔‘‘                                 ( التوبۃ:۱۲۲) 
چنانچہ بر صغیر میں علماء کرام نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے معیاری دینی مدارس قائم کیے، جن میں دینی علوم اس تفصیل سے پڑھائے جاتے ہیں کہ ان سے پڑھ کر نکلنے والا دیگر لوگوں کے لیے راہبر و راہنما بن سکتا ہے۔ مسلمان بچوں کی بنیادی اسلامی تعلیم کے لیے مکاتب کا سلسلہ قائم کیا گیا، جس میں بچوں اور بچیوں کو کلمہ، نماز، دعا اور قرآن کریم پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔ 
اس کے علاوہ دعوت و تبلیغ کی محنت، درسِ قرآن، اصلاحی بیانات کے ذریعہ عوام میں دینی شعور اُجاگر کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ 
پھر عام مسلمانوں کو البتہ ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘ فرما کر پابند کیا گیا کہ ہر مسلمان کے ذمے کم از کم اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے جس میں وہ فی الحال مشغول ہے، مثلاً: مسلمان نماز پڑھے گا تو اس کو نماز کے مسائل کا جاننا ضروری ہے۔ رمضان آئے گا تو روزے سے متعلق پتہ ہونا چاہیے۔ مالدار زکاۃ نکالے تو اس کی مقدار و مصرف کی آگاہی ہونی چاہیے۔ نیز جب یہ شادی کرے گا تو بیوی کے حقوق کا پتہ ہونا چاہیے۔ پھر اپنی معاش کے لیے وہ جس پیشے سے بھی تعلق رکھے گا، اس سے متعلق دین کی تعلیمات کا پتہ ہونا چاہیے۔ ( ماخوذ از مظاہرِ حق) 
سیرتِ صحابہؓ کے مطالعہ سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ عام صحابہؓ کے طلبِ علم کی شکل بالعموم یہی ہوا کرتی تھی۔ بلاشبہ ان میں تفصیلی علم حاصل کرنے والے حضرات بھی تھے، جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  اور اصحابِ صفہؓ اور جیسے مثلاً حضرت معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں یہ فرمانِ رسالت کہ ’’أعلمہم بالحلال والحرام ‘‘ ۔
مگر عمومی صورت وہاں یہی تھی کہ جو جس عمر میں مشرف بہ اسلام ہوا، اس کو یا تو دربارِ نبوت سے اس کی طرف متوجہ کیا گیا یا اس نے خود اپنی تشنگی ظاہر کی۔ 
طلبِ علم کے جو فضائل ہم عموماً سنتے بلکہ بیان کرتے ہیں، وہ بھی بسا اوقات انہی نو مسلم/ عمر رسیدہ حضرات کے حاضر ہونے پر بیان کیے گئے، اسی لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح بخاری کے ’’کتاب العلم‘‘ میں ’’باب العلم قبل القول و العمل‘‘ کے ذیل میں یہ تعلیق لگائی :’’ ویقال الرباني الذي يربي الناس بصغار العلم قبل كبارہ۔‘‘ ۔ ’’صغار العلم‘‘ سے مبادیات اور ’’کبار العلم‘‘ سے تفصیلی جزئیات مراد ہیں۔ (فتح الباری) گویا عالمِ ربانی کا ایک کام یہ بھی ہے کہ عوام کو دین کی ضروریات ومبادیات سکھائے۔
نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  ہی نے ایک باب قائم کیا:’’ باب التناوب في العلم‘‘ کہ کیسے صحابہؓ اپنے مشاغل کے ساتھ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس میں باری باری استفادے کے لیے جایا کرتے تھے۔ اسی کے ذیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  اور ایک انصاری صحابیؓ کی جوڑی کا ذکر ہے کہ ایک دن حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس میں آتے اور وہ انصاری صحابیؓ اپنے کھیت و باغ کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے باغ کی دیکھ بھال کرلیتے اور دوسرے روز اُن انصاری صحابیؓ کی باری مسجدِ نبوی حاضر ہونے کی ہوتی تو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  اس انصاری صحابیؓ کے اُمور کو دیکھ لیا کرتے۔ وہ جو مشہور فضیلت بیان کی جاتی ہے کہ طالب علم کے لیے فرشتے پر بچھاتے ہیں اور ان کا تانتا آسمان تک بندھ جاتا ہے، یہ خوشخبری بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت صفوان بن عسّال مرادی  رضی اللہ عنہ  سے ارشاد فرمائی، جب انہوں نے عرض کیا کہ: ’’میں آپ سے علم حاصل کرنے آیا ہوں۔‘‘ ( دیکھیے: الترغیب والترہیب، کتاب العلم، بحوالہ مسند احمد، طبرانی و ابن حبان، وغیرہ) 
اس سے واضح قصہ، حضرت قبیصہ بن مُخارق رضی اللہ عنہ  کا ہے، جو حیاۃ الصحابہؓ میں مسند احمد کے حوالے سے ذکر ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت قبیصہؓ فرماتے ہیں کہ: میں حاضرِ خدمت ہوا، مجھ سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا: میری عمر زیادہ ہوگئی ہے اور ہڈیاں جواب دے گئی ہیں، (مگر) میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات تعلیم دے دیں جو مجھے فائدہ پہنچائے۔ اس پر اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نصیحت تو فرمائی ہی، مگر اس سے پہلے فرمایا:’’ اس نیت کے ساتھ آنے کی وجہ سے تم جس درخت، پتھر یا ڈھیلے کے پاس سے گزرے، اس نے تمہارے لیے استغفار کیا۔‘‘ یہ حضرت قبیصہ رضی اللہ عنہ  کوئی دین کا تفصیلی علم حاصل کرنے نہیں آئے تھے، جیسے کہ پوری روایت سے معلوم ہوتا ہے، مگر طلبِ علم کی فضیلت کا مستحق اُن کو بھی قرار دے کر حوصلہ افزائی فرمائی۔ (دیکھیے: حیاۃ الصحابۃؓ، الباب الثالث عشر، رغبۃ الصحابۃؓ في العلم و ترغیبہم بہ ) 
الغرض تمام صحابہ  رضی اللہ عنہم  اپنی ضرورت کا بنیادی علم تو لازمی حاصل کرتے تھے، اس لیے ہمارے مدارس کے اکابر کی چاہت رہی کہ درسِ نظامی کے ساتھ عام مسلمانانِ مملکت کے لیے بھی کوئی نصاب تجویز کیا جائے، تاکہ ہر مسلمان اپنے حصے کا علم حاصل کرکے اس پر عمل کرنے والا بنے، چنانچہ محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  ایک مضمون میں لکھتے ہیں : 
’’اس ضمن میں میری ایک خواہش یہ ہے کہ ہمارے مرکزی مدارس میں جہاں علمی نصاب وعلمی تحقیقات کے لیے کوشش ہو، اس کے ساتھ ایک ایسا مختصر نصاب ان حضرات کے لیے مقرر کیا جائے جو انگریزی تعلیم سے بقدرِ ضرورت فراغت پا چکے ہیں، وہ مدرس عالم بننا نہیں چاہتے، بلکہ صرف اپنی دینی ضرورت کے پیشِ نظر قرآن و حدیث و اسلامی علوم سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک سہ سالہ نصاب مقرر کیا جائے، جس میں بقدرِ ضرورت صرف ونحو، قرآن وحدیث ، فقہ وعقائد اور ادب و تاریخ تک علوم شامل ہوں، ان کو پڑھ کر عربی زبان میں بولنے اور لکھنے کی قدرت کے ساتھ اپنی ضرورت کو پورا کرسکیں، اور جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے وقت کے اہم تقاضوں میںسے ایک تقاضا یہ بھی ہے اور بہت سے قلوب میں یہ تڑپ موجود ہے۔ جہاں اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ ایک انگریزی گریجویٹ عالم دین بن سکے، اس کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہوگا کہ دینی ودنیوی تعلیم میں جو خلیج حائل ہے اور فریقین ایک دوسرے سے مسلک وخیال میں دو نقطوں پر الگ الگ ہیں، ان میں اجتماع کی خوشگوار صورت پیدا ہوگی اور ایک دوسرے سے قریب تر ہوجائیں گے اور خیالی ووہمی بدگمانیوں میں جو ہر فریق مبتلا ہے، یہ اختلاف بھی ختم ہوجائے گا۔‘‘ (دینی مدارس کی ضرورت وجدید تقاضوں کے مطابق نصاب ونظامِ تعلیم، جمع وترتیب: مولانا محمد انور بدخشانی)
 اس کے لیے ویسے تو تعلیمِ بالغان اور ان جیسے دیگر عنوانات سے مختلف مساجد میں کم مدتی کورس چل رہے تھے، تاہم چند سالوں سے ملک کے مدارسِ دینیہ کے سب سے بڑے بورڈ، وفاق المدارس العربیہ نے دراساتِ دینیہ کے نام سے، ابتدا میں تین سالہ پھر اس کو مختصر کرکے دو سالہ کر دیا ۔ 

دراساتِ دینیہ کا نصاب

اس کا نصاب حسبِ ذیل ہے:

دراساتِ دینیہ سالِ اول

نمبر شمار

مضامین

کتب

1ترجمہ وتفسیر

ترجمہ قرآن کریم مع مختصر تفسیر (سورۂ یونس تا عنکبوت)

2حدیث

معارف الحدیث (ج:۲-۳-۴)

3فقہ

تعلیم الاسلام (مکمل)، بہشتی زیور (ج:۲-۳-۴)

4صرف ونحو

علم الصرف(ج:۱-۲)، علم النحو

5لغہ عربیہ

طریقہ عصریہ (ج:۱)، قصص النبیینؐ(ج:۱-۲)

6سیرت، حدر

سیرتِ خاتم الانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم  (مفتی محمد شفیع  ؒ) حدر آخری پارہ عم مع حفظ 

 

دراساتِ دینیہ سالِ دوم

نمبر شمار

مضامین

کتب

1ترجمہ وتفسیر

سورۂ بقرہ تا سورۂ یونس وسورۂ عنکبوت تا ختم قرآن

2حدیث

معارف الحدیث (ج:۱-۵-۶-۷)

3فقہ

بہشتی زیور (ج:۵-۶-۷)

4لغہ عربیہ

طریقہ عصریہ (ج:۲)، قصص النبیینؐ(ج:۳-۴)

5 صرف ونحو

علم الصرف (ج:۳-۴)، عوامل النحو

6عقائد

حیات المسلمین (اردو)

کتب برائے مطالعہ دراسات سالِ اول: اسوۂ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  اور نمازِ مدلل
کتب برائے مطالعہ دراسات سالِ دوم: سیر الصحابیاتؓ اور اسلام کیا ہے؟

.......................................

راقم کا اس نصاب و شعبہ سے چند سالہ تعلق کے نتیجے میں خیال ہے کہ اس نصاب کے تین بنیادی فائدے ہیں :
ایک تو یہ کہ علماء و عوام میں خلیج کو قُربت سے بدلنا، ورنہ ایک دوسرے سے دوری کی وجہ سے بعض مرتبہ بظاہر دین دار حضرات کو بھی علماء اور مدارس کے بارے میں بدگمانیاں اور غلط فہمیوں میں مبتلا پایا گیا، جس کا ذکر حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کے مضمون میں بھی گزرا۔ اس طرح کے کورس سے عوام کے سامنے اپنے علماء کی خدمات آتی ہیں۔ 
دوسرا اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایمان و نظریات کے لحاظ سے یہ مسلمان پختہ ہو جاتا ہے، ورنہ فتنوں اور دین میں شک پیدا کرنے کے اس ماحول میں اچھے خاصے مسلمان کے نظریات بھی ڈگمگا جاتے ہیں۔ ( عمل کا فائدہ بھی بلا شبہ ہوتا ہے اور ان کی زندگی بھی بدلنے لگتی ہے، مگر اس کا ذکر اس لیے نمایاں نہیں کیا کہ یہ فائدہ تو بفضلہ تعالیٰ دعوت و تبلیغ کی محنت سے بھی پیدا ہورہا ہے )۔
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ طبقہ، تجارت و ملازمت یا اپنی معاشی مصروفیت کی وجہ سے براہِ راست عملی زندگی و دنیا سے وابستہ ہے۔ ایسے احباب کے دین و علمِ دین کی طرف آنے سے اُمید ہے کہ مختصر عرصے میں دین کے آثارِ طیبہ ان کے متعلقہ شعبوں میں نظر آنے لگیں گے۔ واضح بات ہے ہماری ساری دینی محنتوں کا آخری ہدف تو احیاء دین ہی ہے اور اس کے احیاء کی صورت اسی وقت ممکن ہوگی جب تمام شعبوں سے وابستہ مسلمان دھیرے دھیرے دین و علم دین کے طرف متوجہ ہوں، ورنہ خود ہمارے لیے بھی پورے دین پر چلنا مشکل ہے۔
اس وقت دو باتوں کی ضرورت معلوم ہو رہی ہے: 

۱:-پہلی بات

تمام مرکزی مدارس اپنے یہاں اس شعبہ کو قائم کریں اور اس پر پوری توجہ کے ساتھ کام کیا جائے۔ 
توجہ سے کام کرنے کی مرادیہ ہے کہ:
الف:.... ان کے اسباق اپنے ادارے کے جیّد اساتذہ اور عوام کی نفسیات سمجھنے والے علماء کے حوالے کیے جائیں۔ اس کی آسان صورت ان اساتذہ کا چناؤ ہے جو کسی محلے کی مسجد میں امام بھی ہوں، گویا مبتدی مدرس کے بجائے تجربہ کار اساتذہ اس شعبہ میں غالب ہوں۔
ب:.... اصلاحی بیانات و تربیت کی ضرورت تو درسِ نظامی کے طلبہ کو بھی ہے، مگر ان کی طویل اور کل وقتی مجالست کا قدرے فائدہ بالآخر ہو ہی جاتا ہے، جبکہ دراساتِ دینیہ کورس ہے بھی دو سالہ اور وقت بھی بہت محدود ہے، اس لیے اپنے مدرسہ کے بزرگ اساتذہ سے ماہ وار ایک بیان کرا لیا جائے تو یہ طبقہ اس کا اثر بہت جلدی لیتا ہے۔ 
ج:.... تالیفِ قلب و دل جوئی کے لیے ان کے لیے گاہے گاہے (حسبِ حیثیت و ماحول) اکرام کی ترتیب بنائی جائے، کیوںکہ درسِ نظامی کے طلبہ بھی اولیٰ/ ثانیہ کے سالوں میں شیطان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں، یہ طبقہ تو بطور خاص، مثلاًصرف و نحو کو مشکل سمجھ کر ابتدائی مہینوں میں ہی حوصلہ ہار جاتا ہے اور ذہن یہ ہوتا ہے کہ کورس تو اچھا ہے، مگر میرے بس کا نہیں۔ ایسے میں ان کو سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھا یہ گیا کہ اس طبقہ کے لوگ اگر ایک سہ ماہی مدرسہ کے شفقت و دلجوئی کے ماحول میں گزار لیں تو وہ چل پڑتے ہیں۔ 

۲:-دوسری بات

ہر مسجد کا امام اور قرب و جوار کے نوجوان اور جدید فضلاء مشن بنا کر اپنے اہلِ محلہ کو تیار کرکے اپنے یہاں اس کورس کی شروعات کریں۔ یہ محلے والوں کا ہم پر حق بھی ہے اور اس کورس سے ہمارے نوجوان فضلاء کو ایک علمی و تدریسی مشغولیت بھی مل جائے گی، ورنہ بہت سے فضلاء تدریس کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ 

تنبیہ : 

نوجوان فضلاء درسِ نظامی کے سبق کے لیے تو کوشاں نظر آتے ہیں، مگر دراسات کا سبق اگر کہیں مل بھی رہا ہوتا ہے تو اس کو اپنے لیے مفید نہیں سمجھتے۔ واضح رہے کہ موازنہ تو نہیں ہے، مگر دراسات کے نصاب میں ہی سبق مل جائے تو اس کی نا قدری نہیں کرنی چاہیے۔ صرف و نحو کا مضمون تو بہر صورت استعداد بڑھانے میں کارآمد ہوتا ہی ہے، | اس کے علاوہ فقہ میں بہشتی زیور کی اہمیت تو کسی ماہر مفتی سے معلوم کر سکتے ہیں ۔ ترجمۂ قرآن کا سبق‘ اسی انداز سے تقریباً پڑھایا جاتاہے جیسے انہوں نے وفاق المدارس کے تحت تین سال میں پڑھا۔ معارف الحدیث کا سبق مل جائے تو کیا کہنے! اس کتاب میں حدیث کی صحاح کتب سے بہترین ذخیرہ ہر باب سے منتخب شدہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ دراسات کا سبق اگر کسی نئے فاضل کو ملے تو اتنی ہی محنت سے اور اپنے اساتذہ کی رہنمائی سے پڑھائے جیسے کسی درسِ نظامی کا سبق ملنے پر ہماری فکر مندی نظر آتی ہے ۔ 

کچھ نصاب سے متعلق

بعض احباب وفاق کے مقررہ نصاب پر کچھ تحفظات رکھتے ہیں، اس لیے وہ اپنا نصاب وضع کرکے تعلیمِ بالغان یا دیگر عنوان سے کام کر رہے ہیں۔ ویسے تو عام مسلمانوں پر محنت مقصود ہے، خواہ کسی بھی عنوان سے ہو، مگر اس سلسلہ میں اپنے اکابر سے جو سوچ ملی وہ تو یہی کہ اجتماعی دھارے میں چلتے رہو، البتہ بہتری کے لیے دعا بھی جاری رہے اور کوشش بھی۔
 اس لیے ہماری رائے میں تو وفاق کی چھتری تلے رہنے میں عوام کے آگے بھرم رہتا ہے اور ہمارے لیے بھی حفاظت ہے ، ورنہ کونسا نصاب ایسا ہوگا کہ اس میں قیل و قال کی گنجائش نہ ہو۔
 اس کا یہ مطلب نہیں کہ راقم کی رائے میں وفاق کا مقررہ نصاب برائے دراسات سو فیصد ناقابلِ ترمیم یا بہترین ہے، نہیں! اس میں کئی لحاظ سے اصلاح کی گنجائش ہے، بلکہ خود وفاق نے اس میں کئی طرح بہتری لانے کی کوشش کی ہے، مثلاً بنیادی بات یہی کہ ابتداء ًیہ تین سالہ تھا، پھر غالباً دو سال بعد ہی ایک سال کم کر دیا گیا، نیز اللہ کے فضل سے ڈیڑھ سال قبل وفاق کو ایک تفصیلی مکتوب دراسات کے نصاب ہی سے متعلق راقم الحروف نے ارسال کیا تھا، جس پر غور بھی شروع ہو چکا تھا، مگر گزشتہ چودہ ماہ کے معروضی / وبائی حالات میں اس پر پیش رفت کی خبر نہیں آئی۔ غرض یہ کہ جڑے رہ کر نظام ونصاب میں بہتری کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

اختتامی بات

راقم کا یہ مضمون شوال میں پڑھا جارہا ہوگا، مگر اُس وقت بھی اللہ کے فضل سے رمضان المبارک کے اثرات ختم نہیں ہوئے ہوں گے۔ خطباء و ائمہ مساجد اپنے جمعہ کے بیان کو اس کا موضوع بنائیں اور انفرادی طور پر نمازیوں کو اس کی طرف راغب کریں، محلے میں مناسب جگہوں پر پینا فلیکس کے اشتہار آویزاں کیے جائیں۔
 غرض مشن بنا کر اس پر توجہ کی جائے گی تو ایک مناسب جماعت اس کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔ بڑی تعداد کے جمع ہونے کی نہ فکر کی جائے اور نہ انتظار، بلکہ شاید عام مساجد کے لیے تھوڑی تعداد ہی کو قابو کرنا آسان ہو، اس لیے ہمت فرمائیں، آگے بڑھیں، ایک مرتبہ یہ سلسلہ چل پڑا تو اس طبقہ کو آپ حقیقی اور سچا ’’طالب ‘‘پائیں گے اور پھر یہ طبقہ خود آپ کو چلائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اُمت کے ہر طبقہ پر محنت کا جذبہ وفکر عطا فرمائے۔ 

وصلی اللہ وسلم علٰی سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین