بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے

دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے


موجودہ گھڑیاں اہل ایمان کے لیے پُر آشوب ہیں۔ ملک و ملت جس نازک دوراہے سے گزر رہے ہیں، اس میں بظاہر تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ظلمت ایسی کہ ہر نفس بے چین و پریشان ہے۔ گھروں میں،بازاروں میں، سڑکوں پر غرض جہاں آپ چلے جائیں ہیجانی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہرکوئی بے سکون و مضطرب نظر آرہا ہے، زبانوں پر ایک ہی سوال ’’آئندہ کیا ہوگا؟‘‘ دلوں میں ایک ہی تمنا و آرزو کہ کسی طرح آفات و آلام کا یہ پہاڑ سر سے ٹل جائے۔ جس کسی کا ذہن اور تجربہ جہاں تک کام کرتا ہے،وہ اس کے مطابق رائے پیش کردیتا ہے۔ کوئی کہتا ہے ہمارے مسائل کا حل منصفانہ انتخابات میںپوشیدہ ہے۔ کوئی کرپشن زدہ حکمرانوں کو دشنام دیتا ہے۔ کوئی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں اور افسر شاہی کا شاکی دکھائی دیتا ہے۔ کوئی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے جمہوریت جمہوریت کا نعرہ لگاتا سنائی دیتا ہے۔ ذرائع ابلاغ رات دن اپنے تجزیوں، تبصروں میں ملکی مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں۔ مگر حل کیا ہے؟ ایسا حل جو حقیقی، نتیجہ خیز اور کارگر ہو، الجھی ہوئی ڈور کا ایسا سرا جس کو پکڑنے سے ساری گتھیاں خود بخود سلجھتی جائیں، معاشرہ بحرانوں کے بھنور سے نکل آئے، قلوب کو سکون اور اذہان کو تراوٹ نصیب ہوسکے۔
قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ انسانی قلب کا سکون و آرام اللہ کی یاد میں ہے، پروردگار عالم کے ذکر سے اضطرار کو قرار ملتا ہے،بے سکونی کا احساس ختم ہوتا ہے، ظلمتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم بیماریوں کا ذکر تو کرتے ہیں، مگر اس کے علاج کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ہم لفظی اور زبانی کلامی باتوں پر تو یقین رکھتے ہیں، مگر قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے کتراتے ہیں۔ اللہ رب کریم ارشاد فرماتے ہیں: 
’’بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بے قرار اُسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور تکلیف دور کردیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ نہیں! بلکہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔‘‘  (النمل:۶۲)
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کی بھی عجیب حالت ہے، چاہتے یہ ہیںکہ کرنا تو کچھ پڑے نہیں اور کام سب ہوجائیں۔ بعض شب و روز اس انتظار میں رہتے ہیں کہ فلاں کام سے فارغ ہوجائیں، فلاں مقدمے سے نمٹ لیں، فلاں کی شادی سے فارغ ہوجائیں، تب خدا کی یاد میں لگیں۔ چوں کہ ایسی فراغت میسر نہیں ہوتی، اس لیے ایسا شخص کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، محروم ہی رہتا ہے اور ایک دن موت آکر کام تمام کردیتی ہے۔ یاس اور حسرت کی حالت میں خسران کی گٹھڑی سر پر رکھے ہوئے اس عالم سے رخصت ہوجاتا ہے۔ کام کرنے کی صورت تو یہی ہے کہ اس آلودگی کی حالت میں خدا کی طرف متوجہ ہوجائو، اس کی برکت سے فراغ بھی میسر ہوجائے گا۔اور دنیا میں رہتے ہوئے کہاں فراغ؟ یہ نفس و شیطان کا ایک بڑا زبردست کید (دھوکا)ہے۔ لوگ (حق تعالیٰ تک) رسائی کی تمنا تو کرتے ہیں، مگر معلوم بھی ہے کہ رسائی کے لیے کچھ شرائط بھی ہیں، جن میں پہلی شرط یہ ہے کہ تم برے ہو یا بھلے، اس کی طرف متوجہ ہوجائو، پھر رحمت حق تم کو از خود جذب کرے گی۔ ذرا کام میں تو لگ کر دیکھو، (حق تعالیٰ) تمہاری اس ٹوٹی پھوٹی ہوئی متاع کو کیسے قبول فرماتے ہیں۔      (ملفوظات حکیم الامت: ۲؍۱۰۲)
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒنے اذکار و دعوات کو دس قسموں میں تقسیم کیا ہے:
’’۱:… تسبیح۔ ۲:… تحمید۔ ۳:… تہلیل۔ ۴:… تکبیر۔ ۵:… فوائد طلبی اور پناہ خواہی۔ ۶:… اظہار فروتنی و نیاز مندی۔ ۷:… توکل۔ ۸:… استغفار۔ ۹:… اسمائے الٰہی سے برکت حاصل کرنا۔ ۱۰:… درود شریف۔‘‘
محدث دارالعلوم دیو بند حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم ذکر کردہ تقسیم کی تشریح یوں فرماتے ہیں:
’’پہلا اور دوسرا ذکر تسبیح و تحمید ہیں۔ تسبیح کے معنی ہیں تمام عیوب و نقائص سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا۔ تحمید کے معنی ہیں تعریف کرنا، یعنی تمام خوبیوں اور کمالات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو متصف کرنا۔ جب کسی جملہ میں تسبیح و تحمید دونوں جمع ہوجائیں تو وہ معرفت ربانی کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے، جیسے: ’’سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور خوبیوں کے ساتھ متصف ہیں ’’سبحان اللّٰہ العظیم‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور عظیم المرتبت ہیں۔ بڑے مرتبے والا وہی ہوتا ہے جو خوبیوں کے ساتھ متصف ہو، اسی وجہ سے حدیث میں ان دونوں جملوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دونوں جملے زبان پر ادائیگی میں ہلکے اور ترازو یعنی ثواب میں بھاری اور رحمن (مہربان ہستی) کو بہت پیارے ہیں ۔
تیسرا ذکر تہلیل ہے۔ ’’لاإلہ إلا اللّٰہ‘‘میں توحید اور شانِ یکتائی کا بیان ہے۔ یہ جملہ شرک جلی و خفی کو دفع کرتا ہے اورجملہ حجابات کو رفع کرتا ہے۔ حدیث میں ہے’’ لاإلہ إلا اللّٰہ‘‘ کے لیے اللہ تعالیٰ سے وَرے کوئی حجاب نہیں، یہاں تک کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔
چوتھا ذکر تکبیر ہے۔ ’’أللّٰہ أکبر‘‘کے ذریعے اللہ کی عظمت و قدرت اور سطوت و شوکت کو پیش نظر لایا جاتا ہے اور یہ جملہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی طرف مشیر ہے۔ حدیث میں اس کی یہ فضیلت آئی ہے کہ اللہ اکبر آسمان و زمین کو بھردیتا ہے۔
پانچواں ذکر فوائد طلبی اور پناہ خواہی ہے، یعنی ایسی دعائیں جن میں ایسی مفید چیزیں طلب کی جائیں جو جسم یا روح کے لیے مفید ہوں، خواہ نفع خلقت کے اعتبار سے ہو یا دل کے سکون کے اعتبار سے، جیسے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور طلب کرنا اور خواہ ان فوائد کا تعلق اہل و عیال سے ہو یا جاہ و مال سے، اسی طرح مضر چیزوں سے پناہ چاہنا بھی اس زمرہ میں آتا ہے۔
چھٹا ذکر اظہار فروتنی و نیاز مندی ہے۔ یہ عبدیت (بندگی) انسان کا امتیازی وصف اور بڑا کمال ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں انتہائی تذلل و بندگی، عاجزی و سرافگندگی اور محتاجی و مسکینی کا اظہار کرنا ہی بندگی ہے۔ بندگی انسان کا مقصد تخلیق ہے، اسی مقصد کی تحصیل کے لیے نماز مقرر کی گئی ہے۔ نماز میں اور نماز سے باہر اذکار اور بہت سی دعائیں مشروع کی گئی ہیں۔
ساتواں ذکر توکل ہے۔ توکل کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا۔ اور توکل کی روح ہے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ تام، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ سب کچھ کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، بندہ بذات خود کچھ نہیں کرسکتا۔ انسان کے تمام معاملات پر مکمل غلبہ انہی کو حاصل ہے، انہی کی تدبیر کارگر ہے،باقی تمام تدابیر مقہور و مغلوب ہیں۔ مگر توکل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ظاہری اسباب اختیار نہ کرے۔ صحیح توکل یہ ہے کہ اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر اعتماد کرے، کام کا انجام ان پر چھوڑ دے اور جو کچھ غیب سے ظاہر ہو اس پر مطمئن رہے۔
آٹھواں ذکر استغفار ہے۔ استغفار کے معنی ہیں تو بہ کرنا، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنا اور رحمت الٰہی کا جویاں ہونا۔ استغفار کی روح یہ ہے کہ آدمی اپنے ان گناہوں کو سوچے جنہوں نے اس کے نفس کو میلا اور گندہ کردیا ہے اور اسباب مغفرت اختیار کرکے نفس کو ان گناہوں سے پاک کرے۔ اسباب مغفرت نیک اعمال، اپنے احوال کو ملائکہ کے مشابہ کرنا اور ندامت کے آنسو بہانا ہیں۔
نواں ذکر اللہ کے ناموں سے برکت حاصل کرنا ہے۔ اللہ کے ناموںکی برکت ہی سے مخلوقات منور ہوتی ہیں، پس جو بندہ ان ناموں کی طرف متوجہ ہوگا، وہ اللہ کی رحمت کو خود سے قریب پائے گا۔
دسواں ذکر درود شریف ہے۔ نبی کریم ا کے احسانات امت پر بے حساب ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ مومنین آپ ا کا ذکر خیر کریں اور ہر وقت یاد رکھیں، اسی لیے درود مشروع کیا گیا۔‘‘ (تحفۃ الالمعی: ۸؍۴۲ )
اس وقت جب کہ پورا ملک افراتفری کا منظر پیش کررہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ انفرادی و اجتماعی توبہ کی جائے، ذکر الٰہی کو اپنا شیوہ بنایا جائے،احادیث مبارکہ میں جوجو موقع محل کی دعائیں امت کو بتلائی گئی ہیں، ان کے سیکھنے سکھانے کا بھر پور اہتمام کیا جائے، بزرگوں سے تعلق استوار کیا جائے، ان کی مجالس کو غنیمت سمجھا جائے، ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا جائے، دل کی دنیا آباد کی جائے، روحانیت و ایمانیت کی شمع فروزاں کی جائے۔ جو اس حقیقت کو پالے گا ، اُسے ایمان کی حلاوت و مٹھاس نصیب ہوگی اور نا امیدی و مایوسی کا طوفان خس و خاشاک دکھائی دے گا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین