بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دلِ مردہ ’’دل‘‘ نہیں، اُسے زندہ کر دوبارہ

دلِ مردہ ’’دل‘‘ نہیں، اُسے زندہ کر دوبارہ


 اللہ رب العزت نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ،اس کو اشرف المخلوقات کا تمغہ دیا، انسان کی خلقت و بناوٹ میںاپنی قدرت کے انمول نظارے جلوہ گر کیے۔ یہ انسان دو چیزوں کا مرکب ہے : جسم اور روح۔ جسم اورروح کے درمیان بڑا گہرا رشتہ ہے ،دونوںساتھ رہیں تو زندگی، جدا ہوجائیں تو موت۔ ان دو عنصروںسے انسان کا تعارف ہے۔ دونوں کی نشوونما مختلف، دونوں کی غذا اور تروتازگی کی راہیں مختلف، دونوں کے سامانِ تسکین مختلف ہیں۔ جسم کا تعلق ظاہر سے ہے، روح کا باطن سے ہے۔ ایک ظاہر کی زندگی اور موت ہے، ایک باطن کی زندگی اور موت ہے۔ جس طرح دل کی تین رگیں مفلوج ہوجائیں تو ظاہر کی موت کا پتہ چلتا ہے، اسی طرح تین جگہوں پر اپنے دل (روح) کی کیفیت معلوم ہوتی ہے کہ آیا وہ زندہ ہے یا مردہ؟! اور یہی وہ روح ہے جس سے انسان کو خداشناسی حاصل ہوتی ہے، اسی سے انسان ‘ انسان بنتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے دریافت کیا گیا کہ دل اچھا ہے یا مردہ؟ کیسے معلوم کیا جائے؟ آپ ؓ نے فرمایا: وہ تین باتیں ہیں جن سے دل کی زندگی اور موت کا پتہ چلتا ہے، وہ تین باتیں یہ ہیں: 
’’اُطلب قلبک في ثلٰث مواطن: ۱:-عند سماع القرآن، ۲:-وفي مجلس الذکر، ۳:-وفي وقت الخلوۃ، فإن لم تجدہ في ھٰذہ المواطن ، فاعلم أنہ لا قلب لک، فاسئل اللّٰہ قلبًا آخر۔‘‘ 
’’تین جگہوں پر اپنے کی دل کی جانچ کرو : ۱:-قرآن مجید کی سماعت(سننے) کے وقت، ۲:- ذکر کی مجلس میں، ۳:-خلوت میں (یعنی خوفِ خدا کا احساس) ۔ (تمہارا دل ان جگہوں پر مطمئن ہے تو سمجھ لو کہ دل زندہ ہے) اور اگر ان جگہوں پر دل کو نہیں پاتے، (یعنی ان جگہوں پر دل نہیں لگتا) توجان لو کہ تمہارا دل ہے ہی نہیں، (یعنی مردہ ہوگیا ہے) لہٰذا اللہ سے دوسرے (یعنی زندہ دل) کا سوال کرو ۔ ‘‘
 

۱:- قرآن کی سماعت
 

سب سے پہلی چیز قرآن مجید کی سماعت ہے۔ قرآن مجید دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو آج بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے ، اور کیوں نہ ہو، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے:’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۔‘‘ (الحجر:۹) اس کی طرف منسوب ہر عمل باعثِ اجر وثواب ہے، اس کتاب کا پڑھنا، سننا، سمجھنا، غور وفکر کرنا، تعلیم وتعلم کرنا، جہاں اُخروی اعتبار سے فائدہ مند ہے، وہیں دنیوی لحاظ سے باعثِ خیر وبرکت اور سامانِ تسکینِ قلب ہے۔ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے، اس کتاب سے ہدایت اُسے ہی نصیب ہوتی ہے جو اس کا قدردان اور طالبِ ہُدیٰ ہو، جو اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوگا، اس کے لیے حجت بنے گا ، اوراگر کوئی اس سے روگردانی کرے، یعنی اس کی تعلیمات پر عمل آوری نہ کرے، اُن کے خلاف بروزِ قیامت گواہی دے گا۔ مولانا علی میاں ندوی ؒ فرماتے ہیں کہ: تین باتیں ایسی ہیں وہ اگر مسلمانوں میں بھی پائی جائیں تو کلام اللہ سے استفادہ ممکن نہیں، وہ تین باتیں یہ ہیں : ۱:-تکبر، ۲:-قرآن مجید میں بغیر علم کے مجادلہ کرنا، ۳:- انکارِ آخرت اور دنیا پرستی ۔(مطالعۂ قرآن کے اصول ومبادی)
جس کا دل قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور سننے میں لگتا ہو اور قرآن کریم کے وعدے، نصیحتیں اور وعیدات وزجر وتنبیہات اس پر اثر انداز ہوتی ہوں تو وہ جان لے کہ اس آدمی کا دل زندہ ہے، ور نہ اس کا دل مردہ ہے۔

۲:- ذکر کی مجلس
 

جس کا دل ذکر کی مجلس میں بیٹھنے پر آمادہ ہو تو جان لے کہ اس آدمی کا دل زندہ ہے، ور نہ وہ دل مردہ ہے۔ یاد رکھو! ایک حدیث میں ذکر کرنے والوں کو زندہ اور نہ کرنے والوں کو مردہ بتایا گیا ہے، یعنی ان کا دل ذکر نہ کرنے کی وجہ سے مردہ ہوگیا، ان کی روحانیت زندہ نہ رہی:
’’ عن أبي موسیٰ الأشعري ؓ قال: قال رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وسلم  : مثل الذي یذکر ربہٗ والذي لا یذکر مثل الحي والمیت۔‘‘                            ( بخاری ومسلم ، بحوالہ مشکوٰۃ) 
روح کی تازگی اور اس کی بقائے حیات کے لیے ذکر غذا کے مانند ہے، ورنہ ایسے قلب کا شمار مردوں میں ہوتا ہے ،قرآن مجید میں سکونِ قلب کا سامان ذکر کو بتایا گیا ہے: ’’أَلاَبِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔‘‘ (الرعد :۲۸) 
صاحبِ تفسیرِ مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: ’’ذکر سے مراد قرآن اور سکون سے مراد ایمان ہے۔‘‘ (تفسیر مظہری) کیونکہ ایمان دلوں کا ذریعۂ سکون اورنفاق دلوں کی بے چینی کا سبب ہے۔ اللہ کی یاد سے شیطانی وساوس دور ہوتے ہیںجو، انسان کے لیے پریشانی کا باعث ہیں ۔ ایک جگہ اللہ رب العزت نے ذکر کرنے والوں کو یہ خوشخبری دی ہے کہ جو مجھے یاد کرتا ہے اُسے میں یاد کرتا ہوں: ’’ فَاذْکُرُوْنِيْ أَذْکُرْکُمْ۔‘‘ (البقرۃ:۱۵۲)
بندہ اگر چاہے کہ اس کا تذکرہ اللہ کے یہاں ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اللہ کے احکاما ت کو بجا لائے کہ اس وقت میرا اللہ مجھ سے کیا چاہ رہا ہے۔ بزرگانِ دین نے اللہ کو یاد رکھنے کی آسان صورت یہ بتائی کہ آدمی جب سیڑھیوں یا کسی اور چیز پر چڑھے تو اللّٰہ أکبر ،نیچے اُترے تو سبحان اللّٰہ اور جب برابر چلے تو لاإلٰہ إلا اللّٰہ کہنے کا اہتمام کرے۔ 
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے:
’’ ہر آدمی کے دل میں دو کوٹھڑیاں ہیں: ایک میں فرشتہ اور دوسرے میں شیطان رہتاہے ، جب آدمی ذکر کرتا ہے تو شیطان ہٹ جاتا ہے ، اور اگر غافل ہوتو وساوس ڈالتا ہے۔‘‘ (بحوالہ تفسیر مظہری ) 

۳:-خلوت میں خدا کا خوف
 

تیسری علامت دل کے زندہ اور مردہ ہونے کی جو بیان کی گئی ہے ، وہ خلوت میں خدا کا خوف ہے۔ ایک طویل حدیث میں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ قیامت میں اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ، اس میں سے ایک وہ آدمی بھی ہے جو تنہائی میںاللہ کے خوف سے روتا ہو :
’’سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِيْ ظِلِّہٖ ، یَوْمَ لَاظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ ۔۔۔۔۔۔ وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ۔‘‘                                        ( صحیح البخاری ، رقم الحدیث:۶۶۰)
آدمی کا تقویٰ تنہائی میں معلوم ہوتا ہے ، جہاں اس کو کوئی نہ دیکھتا ہو اور نہ وہ کسی کو دیکھتا ہو، ایسی جگہ پراللہ سے ڈرے۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ’’اتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُمَا کُنْتَ۔‘‘ (سنن الترمذی، رقم الحدیث:۱۹۸۷) ۔۔۔۔۔۔’’تم جہاں کہیں بھی رہو اللہ سے ڈرو۔‘‘ جلوت میں ہو یا خلوت میں، عبادات ہوں یامعاملات ،غرض ہر موقع ومحل میں اللہ سے ڈرے، کہیں ہم سے اس کی خطا نہ ہوجائے اور وہ ہم سے ناراض ہوجائے ۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد باری ہے :
’’إِلَّا ھُوَ مَعَھُمْ أَیْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ یُنَبِّئُھُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘‘     (سورۃ المجادلہ:۷) 
’’تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے ، اور کل قیامت کو بتلائے گا تمہارے کیے اعمال کو ۔‘‘
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کے ارشادِ گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ: 
’’اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو پانچ قسم کے انعامات سے نوازے گا: 
۱:-پہلا انعام دنیا وآخرت کے مصائب ومشکلات سے نجات کا راستہ ہموار کرے گا۔ 
۲:-دوسرا انعام یہ ہے کہ اس کو روزی ایسی جگہ سے دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔ 
۳:-تیسرا نعام یہ ہے کہ اللہ اس کے کام کو آسان فرمائے گا۔ 
۴:-چوتھا انعام یہ ہے کہ اس کی سیئات کو مٹادے گا۔
۵:-پانچواں انعام یہ ہے کہ اس کے اَجر کوبڑھادے گا ۔‘‘  (سورۃ الطلاق) 
حقیقت یہ ہے کہ تنہائی کا گناہ آدمی کو خدا سے اس قدر دور کردیتا ہے جس قدر تنہائی کی نیکی قریب کردیتی ہے۔ اللہ کے یہاں ساری نوعِ انسانیت برابر ہے، کسی کی برتری اور کمتری نہیں ہے: ’’مَاخَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ إِلَّاکَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ‘‘ اگر کوئی اللہ کے یہاں اپنا مقام بنانا چاہے تو تقویٰ اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ۔‘‘ 

کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
وإذا خلوت بریبۃ في ظلمۃ

والنفس داعیۃ إلی الطغیان
فاستحي من نظر الإلٰہ وقل لھا

 إن الذي خلق الظلام یراني

’’جب تو کسی اندھیرے میں برائی کے لیے قدم اُٹھائے ، تیرے دل میں اس برائی کا داعیہ ہو تو اس وقت تواللہ کی نظر سے حیا کر اور نفس سے کہہ کہ جس نے اندھیرا پیدا کیا، وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین