بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دعوت وتبلیغ کانہج نبوی ا

دعوت وتبلیغ کانہج نبوی ا

آفاقی مذہب اسلام ایک عالمگیراورآفاقی مذہب ہے،یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کابواسطۂ خاتم النبیین سیدالمرسلین حضرت محمد ا مخلوق کے نام ایک ابدی صلاح وفلاح پرمشتمل پیغام و دعوت ہے۔اُمتِ مسلمہ اُس آخری نبی کی آخری امت ہے جواِس مبارک پیغام الٰہی کی حامل ہے۔ اس اِمت کایہ خاصہ ہے کہ وہ دنیامیںایک خاص اورمبارک پیغام ودعوت لے کرآئی ہے،لوگوںکواس کی طرف بلانااورتمام اطراف عالم میںاس کی دعوت کوپھیلانا یہ اُمت کے افراد کی زندگی کافریضہ ہے۔ اُمتِ محمدیہ کافریضہ اُمت محمدیہ (علی صاحبہا ا لف الف تحیۃ وسلام) کایہ مبارک فریضہ قرآن کریم اور احادیثِ صحیحہ کے نصوص اورنبی اکرم اکی سیرت مقدسہ سے بالکل واضح طورپرثابت ہے،چنانچہ قرآن کریم میںارشادباری تعالیٰ ہے: ’’کُنْتُمْ خَیْرَأمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘۔ (آل عمران:۱۱۰) ترجمہ:’’(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہوجولوگوں(کی نفع رسانی)کے لئے نکالی گئی،تم اچھے کاموںکاحکم کرتے ہواوربرے کاموںسے منع کرتے ہو‘‘۔ اس آیت کریمہ میںصاف اورکھلے لفظوںمیںیہ بتلایاگیاہے کہ مسلم امت کاوجودہی اس لئے ہواہے کہ وہ اُممِ عالم کی نفع رسانی کافریضہ سرانجام دے،خیرکی طرف بلائے،معروف کی ترویج کرے اورمنکرات سے روکے۔اس سے بڑھ کرایک دوسری آیت میںاللہ رب العزت نے اس کام کے لئے ایک مستقل جماعت کاہوناضروری قراردیا،قرآن مجیدمیںارشادِخداوندی ہے: ’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إلٰی الْخَیْرِیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِوَأُولٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔                           (آل عمران:۱۰۴) ترجمہ:’’اورچاہئے کہ تم میںایک جماعت ایسی ہوجولوگوںکونیکی کی طرف دعوت دیتی رہے اورامربالمعروف ونہی عن المنکرکرتی رہے اوریہی وہ لوگ ہیںجوفلاح پانے والے ہیں‘‘۔  فریضۂ دعوت میںنبی اکرم اکی نیابت اس سے مزیدایک قدم اورآگے بڑھ کرامت مسلمہ فریضۂ دعوت میںنبی اکرم ا کی جانشین اور نائب ہے،اللہ رب العزت نے قرآن مجیدمیںجہاںحضوراکرم ا کافریضۂ منصبی بیان فرمایا، وہاںیہ بھی ارشاد فرمایاکہ یہ کام حضوراقدس ا کاہے اورنبی اکرم اکوحکم دیاکہ وہ اپنی اُمت کویہ بتلادیںکہ یہ کام متبعین کابھی ہے،اللہ رب العزت کاارشادمبارک ہے: ’’قُلْ ہَـذِہٖ سَبِیْلِیْ أَدْعُوْ إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ‘‘۔ (یوسف:۱۰۸) ترجمہ:’’اے نبی !آپ فرمادیجئے، کہ یہ میراراستہ ہے میںلوگوںکواللہ کی طرف بلاتاہوںبصیرت کے ساتھ،یہ میرااورمیری اتباع کرنے والوںکابھی کام ہے‘‘۔  فرائضِ نبوت اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم اکو نبوت کے تین بڑے فرائض عطاکئے:۱…تلاوت آیات ۔ ۲…تزکیہ۔۳…تعلیمِ کتاب وحکمت۔اُمت مسلمہ اپنے نبی اکی جانشینی میںان تینوں کاموں میں شریک ہے،یہ تینوںفرائض اُمت مسلمہ پرفرض کفایہ ہیں۔حضوراکرم اکے مبارک دور اور خیر القرون میںحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعینؒ اوراس کے بعداسلافؒ نے ہر زمانے میںان اُمور کی انجام دہی کی بھرپورسعی فرمائی۔ خودحضوراکرم انے لوگوںکوکتاب اللہ کی آیات پڑھ کرسنائیں، اس کے احکام بیان کئے،ان کوکتاب وحکمت کی تعلیم دی اوراپنی مبارک صحبت اورپُرتاثیرتدبیرسے ان کے باطن ونفوس کاتزکیہ بھی فرمایا۔  تاریخ دعوت وعزیمت خیرالقرون سے دوری کے زمانہ میںرفتہ رفتہ ان فرائض نبوت کی ادائیگی میںکوتاہی شروع ہوئی ،ظاہری علوم اورتزکیۂ باطن دوالگ الگ راہیںقراردی گئیں،نتیجہ یہ نکلاکہ علم والے دنیا کے طالب ہوئے اورتصوف وتزکیہ کے مدعی علوم شریعت سے بے بہرہ ہوگئے۔ لیکن بمقتضائے سنت الٰہی ہرزمانے میںایسی شخصیات پیداہوتی رہیںجن میںنورنبوت کے تعلیم وتربیت والے رنگ نمایاںطورسے یکجاتھے۔ان جلیل القدراورعظیم المرتبت شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے،ان نفوس قدسیہ کے تذکرہ کے لئے سینکڑوں کیا ہزاروں دفتر ناکافی ہیں،قریب کے زمانہ میں مفکرِاسلام حضرت مولاناابوالحسن علی ندوی رحمۃاللہ علیہ ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘تحریر فرما کر اس سلسلۃ الذہب کی بعض کڑیوںکے روشن کردارکواُمت مسلمہ کے سامنے لائے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اُصولِ دعوت     حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے مبارک عمل ’’دعوت‘‘ کے چندبنیادی اصول یہ ہیں: پہلا اُصول تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت کابنیادی اُصول خلق خداپر شفقت اور خیرخواہی کاجذبہ ہے،بندگانِ خداکی تباہ شدہ حالت سے وہ غمگین اورمتفکرہو جاتے،ان کی خیرخواہی کے نتیجہ میںان کادل چاہتاتھاکہ کسی طرح ان کی امت سدھرجائے، راہ راست پر آجائے۔ قرآن مجیدنے اس کوکہیں’’أنَالَکُمْ نَاصِحٌ أمِین‘‘کہیں’’وَنَصَحْتُ لَکُمْ‘‘ اور کہیںپر’’وَأنْصَحُ لَکُمْ‘‘کہہ کربیان کیاہے۔ دوسرا اُصول تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت میںیہ بات مشترکہ طورسے پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے کام اوردعوت کے عمل پرکسی سے کوئی اجرت ومزدوری طلب نہیںکیاکرتے تھے،مخلوق سے دنیاوی اجر،تعریف ومحبتیں،وغیرہ تمام اغراض دنیوی سے مکمل استغناء برتتے تھے،جس کے نتیجہ میںان کی دعوت نہایت مؤثراورنتیجہ خیزہواکرتی تھی۔قرآن مجیدنے اس اُصول کوان کے الفاظ میںبیان کیاہے: ’’وَمَاأَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍإنْ أَجْرِیَ إلَّاعَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘۔     (الشعرائ:۱۰۹) ترجمہ:’’اور مانگتا نہیں میں تم سے اس پر کچھ بدلہ(حق)میرا بدلہ ہے اسی پروردگارِ عالم پر‘‘۔ تیسرا اُصول دعوت إلی الخیراورامربالمعروف ونہی عن المنکرکاایک بڑااوربنیادی اصول نرمی،نرم گوئی،حکمت وبصیرت اورایسے خلوص و محبت سے دوسرے کومخاطب کیاجائے کہ داعی کی بات مدعوکے نہ چاہتے ہوئے بھی اس اندازِتخاطب کی وجہ سے اُس کے دل کے نہاںخانوںمیںاترجائے۔دعوت کے اس زریںاصول کواللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں بیان فرمایاہے: ’’أدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ ‘‘۔                                                           (النحل: ۱۲۵) ترجمہ:’’ آپ اپنے پروردگارکی طرف لوگوںکودانش مندی اوراچھی نصیحت کے ذریعہ سے دعوت اوربحث ومباحثہ کریںتووہ بھی خوبی سے‘‘۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس نرمی وحکمت کایہ مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں عقائد و فرائض میں مداہنت سے کام لیاجائے،مداہنت فی الدین بتعلیم قرآن ممنوع ہے۔ چوتھا اصول دعوت دینے والے داعیان حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ دعوتِ خیرکے سلسلے میںسیرت نبوی ا سے رہنمائی حاصل کریں،اورنہجِ نبوت کے اتباع کی کوشش کریں۔ حضوراکرم ا نے اپنی دعوت کے آغازمیںسب سے پہلے سب سے زیادہ تاکیدتوحیدورسالت یعنی کلمہ’’ لاإلہ إلااللّٰہ‘‘کی فرمائی، جس کے دل ودماغ میںکلمۂ طیبہ کی حقیقت اترگئی، اس کے لئے احکامات پرعمل پیراہوناآسان ہوگیا۔ خود احادیث میںآتاہے کہ پہلے آیاتِ ترغیب نازل ہوئیں،پھرآیاتِ حلال وحرام نازل کی گئیں۔ پانچواں اصول تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی سیرت سے دعوت کاایک اصول یہ معلوم ہوتاہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام لوگوںکااپنے پاس آنے کاانتظارنہیںفرماتے تھے،بلکہ دعوت حق لے کر خود ان کے پاس چل کرجایاکرتے تھے،یہ وصف حضوراکرم اکی دعوت میںنمایاںطورسے پایاجاتاہے، آپ اکی سیرت مبارکہ اورآپ کے تبلیغی ودعوتی اسفاراس پر واضح اوربین دلیل ہیں۔ چھٹا اُصول داعی کے لئے دعوت إلی الخیرکے سلسلے میںایک اہم اصول اپنے کاموںکو ترک کرکے ہجرت، خروج ونفیرکواختیارکرنااورپاکیزہ وعلمی وعملی ماحول میںجانابھی ہے، جہاں سے مستفید ہوکر اپنی قوم و قبیلہ وعلاقہ میںآکراُن کوفیض یاب کرناہے۔ ساتواں اصول دعوت وتبلیغ کافریضہ سرانجام دینے والوںکی تعلیم وتربیت کازیادہ ترمدار صحبتِ اسلاف، باہمی تعلیم وتعلم پرہوناچاہئے۔ان کے دن دعوت إلی اللہ اوراموردین میں مصروف ومشغول ہوں اور راتیں تنہائی میںاپنے خالق ومالک کے ساتھ مناجات میںصرف ہوا کریں۔ دعوت الی الخیر کے یہ چند بنیادی اصول ہیں،پس دعوت وتبلیغ کی جوتحریک بھی مذکورہ اصولوں کے مطابق کام کرے گی تو ان کی محنت نہج نبوت اوراصلِ اول کے زیادہ سے زیادہ قریب تر ہوگی۔ دعوت و تبلیغ کے ان بنیادی اصولوںسے متعلق حضرت مولاناسیدسلیمان ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولاناابوالحسن علی ندوی رحمۃاللہ کی تصنیف’’مولانامحمدالیاس اوران کی دینی دعوت‘‘ کے مقدمہ میں تفصیل سے گفتگوفرمائی ہے۔   حضرت مولانامحمدالیاس کاندھلوی صاحب رحمۃاللہ علیہ کی تحریک دعوت وتبلیغ  قرآن وحدیث،نہج نبوت اورسیرت نبوی اسے ماخوذدعوت کے ان مذکورہ بالا اصولوں سے سب سے زیادہ میل کھانے والی تحریک اورمطابقت رکھنے والاعمل قریب کے زمانے میں مجدد دعوت و تبلیغ،مصلح کبیر،حضرت مولانامحمدالیاس کاندھلوی صاحب رحمۃاللہ علیہ کی دعوت وتبلیغ کی تحریک اور دعوت والی محنت ہے۔ابتداء میںحضرت مولاناالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ نے مکاتب دینیہ کے ذریعہ سے مسلمانوںکی اصلاح احوال کی فکرومحنت فرمائی،مگرماحول کی عمومی بے دینی، جہالت وظلمت کے اثر سے جب یہ مکاتب بھی محفوظ نہ دیکھے،اورعمومی طورسے مسلمانوںکی دینی ضرورتوںکی عدم تکمیل واضح طور سے سامنے آنے کے بعدآپ اس نتیجہ پرپہنچے کہ خواص وافرادکی اصلاح اوردینی ترقی مرض کاعلاج نہیں ،جب تک عام آدمیوںمیںدین نہ آئے،کچھ نہیںہوسکتا۔  تائیدغیبی چنانچہ جب آپ ۱۳۴۴ھ ۱۹۲۶م میںدوسرے حج کے لئے تشریف لے گئے،اس دوران مدینہ طیبہ میںبھی قیام رہا،وہاںپریہ پیغام ملاکہ آپ سے کام لیاجائے گا۔سفرحج سے واپسی کے بعدآپ نے تائیدغیبی سے عوام میںإحیاء دین کی غرض سے تبلیغی گشتوںکا آغاز فرمایا اور دوسروںکوبھی جماعتیں بناکر دوسرے علاقہ میںتبلیغ کے لئے بھیجا۔ یوںاس طرح باقاعدہ جماعتوں کا اللہ کی راہ میں بغرض دعوت نکلنا شروع ہوا، اور آج الحمدللہ! اکابرین دعوت وتبلیغ اور مخلص مسلمانوں کی محنت وکوشش اورآہِ سحرگاہی کے طفیل یہ مبارک عمل اطرافِ عالم کے چپہ چپہ میںنہ صرف پھیل چکاہے بلکہ شب وروزجاری وساری ہے۔  تبلیغی کام کانظام وترکیب تبلیغی کام کانظام کیاہوگا؟ترکیب کیاہوگی؟کسی چیزکی اورکتنی چیزوںکی دعوت دی جائے گی؟ اس کی تفصیل حضرت مولاناالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی: اصل تبلیغ دوامرکی ہے،باقی اس کی صورت گری اورتشکیل ہے ،ان دوچیزوںمیںایک مادی ہے اورایک روحانی: (۱)مادی سے مرادجوارح سے تعلق رکھنے والی،سووہ یہ ہے کہ حضور اکی لائی ہوئی باتوںکوپھیلانے کے لئے ملک بہ ملک اقلیم در اقلیم جماعتیںبناکرپھرنے کی سنت کوزندہ کرکے فروغ دینااورپائداری کرناہے۔   (۲)روحانی سے مرادجذبات کی تبلیغ یعنی حق تعالیٰ کے حکم پرجان دینے کارواج ڈالنا،جس کو اس آیت میںارشادفرمایا: ’’فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً‘‘۔                 (النسائ:۶۵) ترجمہ:’’قسم ہے آپ کے ربّ کی!یہ لوگ ایمان دارنہ ہوںگے،جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میںجھگڑاواقع ہواس میںیہ لوگ آپ سے تصفیہ کراویں ، پھر آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوںمیںتنگی نہ پاویںاورپوراپوراتسلیم کریں‘‘۔ ’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ‘‘۔                                (الذاریات:۵۶) ترجمہ:’’اورمیںنے جن وانس کواسی واسطے پیداکیاکہ میری عبادت کریں‘‘۔ یعنی اللہ کی باتوںاوراوامرخداوندی میںجان کابے قیمت اورنفس کاذلیل ہونا۔  مولانا الیاس صاحبـؒ کے بیان فرمودہ چھ نمبر ۱-نکلنے کے وقت حضور اکی لائی ہوئی چیزوںمیںجوچیزجتنی زیادہ اہم ہے اس میںاسی حیثیت سے کوشش کرنا،اس وقت بدقسمتی سے ہم کلمہ تک سے ناآشناہورہے ہیں،اس لئے سب سے پہلے کلمہ طیبہ کی تبلیغ ہے جوکہ خداکی خدائی کااقرارنامہ ہے،یعنی اللہ کے حکم پرجان دینے کے علاوہ درحقیقت ہماراکوئی بھی مشغلہ نہیںہوگا۔ ۲-کلمہ کے لفظوںکی تصحیح کرنے کے بعدنمازکے اندرکی چیزوںکی تصحیح کرنے اور نمازوںکو حضور اکی نمازجیسی بنانے کی کوشش میںلگے رہنا۔  ۳-تین وقتوںکو(صبح وشام اورکچھ حصہ شب کا)اپنی حیثیت کے مناسب تحصیل علم و ذکر میں مشغول رکھنا۔ ۴-ان چیزوںکوپھیلانے کے لئے اصل فریضہ محمدی سمجھ کرنکلنایعنی ملک بہ ملک رواج دینا۔  ۵-اس پھرنے میںاخلاق کی مشق کرنے کی نیت رکھنا،اپنے فرائض کی ادائیگی کی سرگرمی، کیوں کہ ہرشخص سے اپنے متعلق ہی سوال ہوگا۔ ۶-تصحیح نیت یعنی ہرعمل کے بارے میںاللہ نے جوودعدے اوروعیدفرمائے ہیں، ان کے موافق اس امرکی تعمیل کے ذریعہ اللہ کی رضااورموت کے بعدوالی زندگی کی درستی کی کوشش کرنا۔  حضرت مولاناالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ کا فرمان اپنے کام کوایک موقعہ پرحضرت مولاناالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ نے ان الفاظ میںبیان فرمایا: ’’میںنے یہ طے کیاہے کہ اللہ نے ظاہروباطن کی جوقوتیںبخشیںہیں،اُن کاصحیح مصرف یہ ہے کہ تن کو اسی کام میںلگایاجائے جس میںحضور انے اپنی قوتیںصرف فرمائیں،اوروہ کام ہے اللہ کے بندوںکواورخاص طورسے غافلوں،بے طلبوںکواللہ کی طرف لانا،اوراللہ کی طرف بلانااوراللہ کی باتوں کو فروغ دینے کے لئے جان کوبے قیمت کرنے کارواج دینا۔بس ہماری تحریک یہی ہے، اور یہی ہم سب سے کہتے ہیں،یہ کام اگرہونے لگے تواب سے ہزاروںگنے زیادہ مدرسے اور ہزاروں گنے ہی زیادہ خانقاہیںقائم ہوجائیں،بلکہ مسلمان مجسم مدرسہ اورخانقاہ ہوجائے،اورحضور  اکی لائی ہوئی نعمت اس عمومی اندازسے پھیلنے لگے جواس کی شان شایان ہے۔‘‘ حضرت مولاناالیاس رحمۃاللہ علیہ کی نہج دعوت پر اعتراضات کی حیثیت حضرت مولاناالیاس رحمۃاللہ علیہ کاشروع کردہ دعوت وتبلیغ کایہ عمل اوراس کا نہج اگرچہ میرے جیسے بہت سے کوتاہ بینوںکے لئے اجنبی،نیااورقابل اعتراض ہو سکتا ہے، حالانکہ اس کے کسی بھی عمل پرکوئی اعتراض شرعاًکیاہی نہیںجاسکتاہے۔تاہم بعض کم فہم،نادان اوراہل بدعت نے اس مبارک عمل پرطرح طرح کے اعتراضات کی بھرمارکردی،جبکہ کچھ لوگ چارماہ،چالیس دن،تین دن،گشت، شبِ جمعہ کاہفتہ واری اجتماع اورسالانہ اجتماعات وغیرہ پراعتراض کرتے ہیںکہ ان ایام کی تعیین غیر ثابت شدہ ہے،اوربعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ لوگ دین کے تمام احکام کی دعوت کو اپنا مقصد نہیں بناتے،بلکہ صرف چندمسائل واحکام تک محدودرہتے ہیں،اوروقت کے سیاسی مسائل سے اغماض بھی کرتے ہیں،بعض اہل علم حضرات کی طرف سے مستورات کی جماعتوںکے بارے میںشبہات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔ فقیہ الأمت حضرت مولانامفتی محمودحسن گنگوہی نوراللہ مرقدہ کے فتاویٰ الحمد للہ ! اکابر دیوبند نے اس طرح کے تمام بے بنیاد اعتراضات کی حیثیت و حقیقت اپنے فتاویٰ جات میں واضح کردی ہے ، ان اکابر میں ایک شخصیت فقیہ الأمت حضرت مولانامفتی محمودحسن گنگوہی نوراللہ مرقدہ بھی ہیں۔آپ نے عملی طورسے دعوت وتبلیغ کے متعلق اتنے فتاوی تحریرفرمائے کہ برصغیر کی تاریخ میںکسی مفتی نے اتنے نہیںلکھے، آپ کویہ اعزاز بھی حاصل تھاکہ آپ بیک وقت برصغیرکی دو عظیم دینی درسگاہوںمیںصدارتِ افتاء کی گراںقدر خدمات انجام دینے پرمامورتھے،اورشیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندھلوی رحمۃاللہ علیہ کے فیض یافتہ،صحبت یافتہ اورخلعت خلافت سے سرفراز یافتہ بھی تھے،آپ کے دعوت وتبلیغ اور اس کے اکابرین حضرت مولانامحمدالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ اور حضرت مولانامحمدیوسف صاحب رحمۃاللہ علیہ سے نہایت ہی گہرے اورقلبی روابط ومراسم تھے۔کچھ حضرات نے حضرت مفتی صاحب رحمۃاللہ علیہ کی دعوت وتبلیغ سے گہری وابستگی پرتعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ تبلیغ والوںنے دارالعلوم دیوبندکے مفتی اعظم کواپنا ہم نوا بنالیا،تواس پرفرمایا: ’’واقعہ یہ نہیں،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میںتبلیغی پہلے ہوں،مفتی بعدمیں، اور دارالعلوم کو مفتی کی ضرورت تھی توتبلیغ والوںسے مفتی مانگا،انہوںنے یہ ضرورت پوری فرمائی۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سے اپنے پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور تاقیامت مقبول دین کی خدمت لے لے اور اُسی نہج اور اصولوں کو اپنانے کی توفیق دے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکمِ خداوندی اپنی دعوت میں اختیار فرمائے تھے، تاکہ ہماری دعوت عنداللہ مقبول اور عند الناس مفید ہو۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین